عورتوں کا عالمی دن: ایک انوکھا مقدمہ
از، منزہ احتشام گوندل
مقدمہ عدالت میں پیش تھا۔ منصف کے چہرے پہ ذاتی اہمیت کی سنجیدگی اور عہدے کی متانت تھی۔دونوں طرف کے کٹہروں میں دو لوگ کھڑے تھے۔ ایک کٹہرے میں ایک مرد جبکہ اس کے مقابل دوسرے کٹہرے میں عورت کھڑی تھی۔ وہ دونوں بھی خاموش تھے۔ کیونکہ ان کی جگہ ان کے وکیلوں کو بولنا تھا۔ یہ جرم کافی عجیب نوعیت کا تھا اور اس کا اندراج بھی مرد نے کروایا تھا۔ مرد نے اپنی درخواست میں یہ استدعا کی تھی کہ وہ مظلوم ہے اور اس عورت کا ستا یا ہوا ہے۔ عدالت کے استفسار پہ کہ عورت کیسے اُسے ستاتی ہے؟ مرد نے وضاحت کی کہ وہ اُسے تڑپا کے گھنٹوں کے لیے خاموش ہو جاتی ہے۔ وہ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے۔ مگر وہ کسی بات کا جواب نہیں دیتی، حتٰی کہ مرد کا پارہ چڑھنے لگتا ہے اور وہ مار پیٹ پہ اُتر آتا ہے۔ وہ مار بھی اِسی خاموشی سے کھا لیتی ہے اور چپ رہتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی مرد کے غصے کا اِنخلا نہیں ہو پاتا اور اُس کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہونے لگتے ہیں۔ منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے، اعضا جواب دے جاتے ہیں اور وہ گرنے لگتا ہے۔ اِس پہ طُرہ یہ کہ پھر وہی عورت آتی ہے اور اُسے سہارتی ہے۔ تو وہ ایک عجیب احساسِ کمتری اور احساسِ شکستہ سے دوچار ہو جاتا ہے۔ لہذا عورت کو اِس کے جرم کی سزا دی جائے اور معزز عدالت اُسے حکم دے کہ وہ اپنے خاموشی اور برداشت کے کمینے ہتھکنڈے سے باز آئے، اور گھٹیا اور بازاری پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرد کی اوچھی حرکتوں کا جواب اوچھے پن سے دیا کرے، تاکہ مرد کا احساسِ کمتری کم ہو اور وہ ہائپر ٹینشن سے باہر نکل سکے۔
میں جو کہ اِس انوکھے مقدمے کی سماعت کے دوران وہاں بیٹھی ہوں اس پہلی شنوائی کے بعد اب جب کہ عورت کی باری آنے والی ہے بڑی غیر جانبداری سے یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ پروپیگنڈا جو ازل سے کیا جارہا ہے کہ عورت میں برداشت کم ہوتی ہے۔ صبر کا مادہ نہیں ہوتا،وہ راز نہیں رکھ سکتی، وہ غصے اور پیٹ کی ہلکی ہوتی ہے، تو اِن سب کے پیچھے یہ نفسیاتی وجوہات ہیں۔ یعنی وہ بچپن سے یہ باتیں سنتی سنتی اِن خصوصیات کو اپنی فطرت سمجھنے لگتی ہے۔ وہ چیز جو اُس کے فطری انسانی قالب میں نہ تھی اُس کو وہ اپنے وجدان میں بٹھا لیتی ہے۔ اور واقعی ایسی بن جاتی ہے،کم حوصلہ،بد زبان،بے صبری اور ناقص العقل۔۔۔تاکہ اس کے بالمقابل مرد کا کردار بلند ہو سکے۔
وہ اُس کی دو باتیں سن کے چپ رہے اور اپنی عظمت کی دھاک بٹھائے رکھے۔ کہ دیکھو میں کتنا بلند،ارفع اور اعلی ہوں اے عورت! کہ میں تیرے سارے بار اٹھاتا ہوں، تجھے رزق دیتا ہوں، تجھے چھت اور لباس دیتا ہوں، تجھے نطفہ دیتا ہوں، میں تیرا خدا ہوں، مگر اب ایک عورت نے اس پروپیگنڈے کے الٹ اپنی فطری چال چلی ہے تو مرد ہائپر ٹینشن کا مریض ہو کے اسے عدالت میں کھینچ لایا ہے۔ کارروائی ابھی تک رکی ہوئی ہے۔ میں عورت کے چہرے پہ نگاہ ڈالتی ہوں تو مجھے ہنسی آجاتی ہے۔ اُس کے چہرے پہ بے تحاشا سکون اور وقار ہے جیسے وہ کبھی بھی اپنے اِس جرم سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ کارروائی دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ اب عورت کے وکیلِ صفائی کی باری ہے۔ منصف نے عورت کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنی صفائی میں اپنی زبانی کچھ کہے، مگر عورت صاف انکار کردیتی ہے۔ اُسے اپنی صفائی میں بولنا پسند نہیں، اِس سے اُس کا وقار مجروع ہوتا ہے۔ اپنی شخصیت ہلکی لگنے لگتی ہے۔
اُس کے چہرے کی متانت اِس بات کا اعلان ہے کہ وہ اِن چھوٹی چھوٹی باتوں سے کتنی بلند ہے۔عورت کا وکیلِ صفائی اپنا گلا کھنگار کے صاف کرتا ہے اور بولنا شروع کرتا ہی ہے کہ عورت اُسے روک دیتی ہے۔اور معزز منصف سے خود بولنے کی اجازت مانگتی ہے۔منصف نے اثبات میں سر ہلا کے اجازت دے دی ہے۔وہ بولنے لگتی ہے اور مجھے ایسے لگ رہا ہے ۔اس نے یہ سارے خیال میرے دماغ سے چرائے ہیں۔ چورنی کہیں کی،اب میں اِسے عدالت میں گھسیٹوں گی۔وہ کہہ رہی ہے۔
منصفِ اعظم! عورت کو بچپن سے لے کر شادی تک شرم و حیا کے پاٹھ بھی اِس لیے پڑھائے جاتے ہیں کہ مرد کو نفسیاتی برتری دی جا سکے شادی کے وقت جب سہیلیاں اور دوسری عورتیں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ
منتاں کرے………..نا مانیو
پیاں پڑے……..نا مانیو
لمبا گھونگھٹ،شرم و حیا کی لالی،لرزہ خیز داستانیں،خونی وارداتیں،پہلے سے ہی سنا کے اُسے باقاعدہ خوف زدہ کیا جاتا ہے۔اور یہ سب عورت کے مقابل کو نفسیاتی برتری دینے کے حیلے ہیں۔ذرا سوچیے تو سہی اگر یہ سب نہ ہو تو مرد تو عورت کے سامنے آتے ہی ٹُند نہ ہو جائے اور جب وہ ایک ڈری سہمی بلکہ ڈرائی سہمائی گئی لڑکی کے اوپر سارے تجربے کر کے کایاں ہو جاتا ہے تو اُسے بے باک عورت اچھی لگنے لگتی ہے۔کیونکہ تب تک سارے جھاکے جو کھُل چکے ہوتے ہیں۔منصفِ اعظم ! میں نے اس کے احساسِ کمتری کو گھٹانے کے لیے ہر حیلہ کیا،کیونکہ مجھے اِس معاشرے میں وقار کے ساتھ جینا تھا،مگر ہر جتن اکارت گیا۔اِس کی ایک کمزوری کا تدارک ہو اتو دوسری کھُل گئی۔ میں نے پستی اختیار کی،چار چوٹ کی مار کھائی ،مگر اس کا احساسِ کمتری کم نہ ہوسکا۔اس کی یہ خواہش کہ اس کی دی ہوئی چھت،لباس اور خوراک پہ اس کی احسان مند رہوں،میں نے یہ بھی کیا،حالانکہ وہ گھر میرا بھی اُتنا ہی ہے۔
اِس نے تو دیواریں تعمیر کروا کے مجھے دی تھیں ان دیواروں کے اندر گھر میں نے بسایا،بچے جو اس کا مجھ پہ احسان ہیں،میں نے پیدا کیے ہیں،ان کا بوجھ میں نے اٹھایا ہے،ان کو شیر میں نے پِلایا ہے۔کیا میرا اِس پہ کوئی احسان نہیں؟میں تو عورت ہوں ،میرے پاس رحم ہے،میں کہیں سے منجمد نطفہ خرید کے بھی بچہ پیدا کرسکتی ہوں،اُسے اپنی چھاتی سے دودھ پِلا کے پال پوس سکتی ہوں،مجھے تو فطرت نے یہ برتری دی ہے۔مگر یہ کیا کرے گا؟اس کے پاس نطفہ ہے تو کیا کسی عورت کی کوکھ کے بغیر پیدا کرسکتا ہے؟ فرض کیا کرائے کی کوئی کوکھ لے بھی لے تو کیا اُسے شیر پِلا سکتا ہے؟
اِس کے پاس ہے کیا؟ جس پہ اسے اتنا مان ہے؟یہی کہ ازل سے پروپیگنڈے میں آئی ہوئی عورت کو مار پیٹ لیا؟ اُس کی زبان کاٹ لی اور اپنی برتری ثابت کرلی۔
منصفِ اعظم ! اب یہ حالت ہے کہ مجھے اس پہ ترس آتا ہے۔میں ایک بات کرتی ہوں یہ جواب میں پوری کتاب پڑھتا ہے،گالیوں اور مغلظات کے دفتر کھول دیتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو یہ میرے اور اس کے موبائل سے ہماری کل کی لڑائی کی گفتگو پڑھ لیجئے۔میری طرف سے ایک میسج گیا تھا۔اس کے مجھے اٹھائیس میسج آئے۔وہ بھی کئی کئی صفحات کے۔میں نے خاموشی اختیار کیے رکھی،بالکل چپ رہی،میں اس توقع پہ چپ رہی کہ شاید وہ موازنہ کرے،کہ میری طرف سے کتنا گیا؟ اور اُس نے کتنا بھیجا؟اور ممکن ہے وہ اپنی زیادتی پہ شرمندہ ہو۔مگر وہ تو الٹا نشر ہوا اور معاملہ عدالت کے بیچ لے آیا۔میں ہمیشہ اس توقع پہ چپ رہی کہ کبھی تو یہ حساب کرے گاکہ میں نے اِس سے کتنی محبت کی،اور اِس نے مجھے کتنی لوٹائی،مگر اس نے کبھی اس بات کا احساس بھی نہ کیا؟کیا وہ زندگی جس میں دو انسانوں کی شراکت ہوتی ہے اتنی ناانصافی کی حامل ہونی چاہیئے کہ صرف ایک فریق محبت کرے،وہی قربانیاں دے،وہی خودکو بذل کرے اور کبھی اس سب کا حساب بھی نہ مانگے اور اس کے باوجود اس کی عظمت کا اعتراف بھی نہ ہو۔
معزز عدالت سے میری صرف یہ استدعا ہے۔ کہ میں نے اپنے باطنی حسن اور فطری بالیدگی سے اپنے جو جوہر حاصل کیے ہیں ،ان سے مجھے دستبردار ہونے کو نہ کہا جائے،محض اس لیے کہ ایک مرد کی نفسیاتی راحت ہو سکے۔میرا وقار اور میرے کردار کی بلندی اگر اسے کھٹکتی ہے تو اسے کہیئے کہ یہ مجھ سے الگ ہو جائے۔اور اپنی وہ زندگی جیے جس پہ اسے فتح حاصل ہو۔مرد کو اگر شادی کے ادارے ،بیوی کے کردار اور چاردیواری کے تقدس کی تربیت نہیں ملی تو اسے شادی کرنی ہی نہیں چاہیئے۔اسے بستر میں شادی کے پہلے سالوں میں ڈری سہمی بکری اور پچھلے سالوں میں جنگلی بلی کی خواہش ہوتی ہے تو اسے چاہیئے کہ جنگل کا رُخ کرے۔کہ انسانی آبادیاں تو انسانوں کے دم سے آباد ہیں۔
منصف اعظم! جو مرضی سزا دیجئے۔ مگر اتنا ضرور کہوں گی۔ عورت بندوق،کلاشنکوف،ڈائنامائٹ،گرنیڈ،اور ایٹم بم میں سے کسی کی موجد بھی نہیں۔وہ تو ان ہتھیاروں کی وجہ سے مرنے والوں کی موجد ہے۔پھر بھی آپ یہ کہیں کہ اس کائنات میں شر کی وجہ عورت ہے تو میری اب تک کی ساری تقریر کی تائید ہو جائے گی۔کہ عظیم کون ہے؟
وہ جس کے پا س عظمت ہے؟
یا وہ جسے عظمت کے اعتراف کا بھی یارا نہیں؟
مقدمے کا فیصلہ قارئین پہ چھوڑتے ہیں