(رابی وحید)
ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں وہاں عورت ذات ایک مخلوقِ خدا سے زیادہ ایک ’’شے‘‘ کے درجے پہ فائز ہے۔ عورت کو پیدائش کے بعد ہی فوراً یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تم ایسی مخلوق ہو جو انسان ہوتے ہوئے بھی دوسروں انسانوں سے مختلف ہے۔اور یہ دوسرا انسان ‘‘مرد ‘‘ ہے۔ عورت شعور کے شروع دنوں سے ہی مرد کے ساتھ اپنی ذات کا مقابلہ شروع کر دیتی ہے۔ یہ مقابلہ مخالف جنس کو جیتنے کا نہیں بلکہ اُس کی حدود سے دور جانے اور اپنی اوقات کو پہچاننے کا ہے۔
خوف خوف خوف، یہ ایسا لفظ ہے جو ہر عورت کے ذہن میں راسخ کر دیا جاتا ہے۔ عورت کا یہ سارا خوف فطرت سے نہیں بلکہ مرد سے عدم تحفظ کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔
سب کو یاد ہوگا جب سعودی عرب میں ایک خاتون نے کار چلائی تو سعودی پولیس نے عورت کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔ یہ تو ایک کار کا واقعہ تھا جو اب پاکستان
جیسے ملکوں میں عورت کے لیے اتنا ’’غیر شرعی‘‘ نہیں رہ گیا۔اب توعورتوں نے بائیک
چلانے کا اہتما کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔پچھلے کچھ ماہ پہلے لاہور میں عورتوں کی بائیک ریلی بھی منعقد ہوئی تھی جس میں آسٹریا کی سفیرBrigitta Balaha اور ہیومن رائٹس کمیشن کی عاصمہ جہانگیر نے شرکت کی۔ یہ ریلی عورتوں کے بائیک چلانے کی حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کی گئی۔
میں کچھ دنوں سے مختلف اخبارات میں عورتوں کے موٹر سائیکل چلانے کو ’’خبر‘‘ کا درجہ پاتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ میں حیران ہو جاتی ہوں کہ اس میں ’’خبر‘‘ والی کیا بات ہے؟ اور پھر یہ سوچ کے اور حیران ہو جاتی ہوں کہ عورت کو اس سواری سے اتنا دور کیوں رکھا گیا؟
پہلی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورت چوں کہ بائیک پہ بیٹھی جسمانی طور پر’’ نمایاں‘‘ ہوتی ہے اس لیے اُسے غیرت کے تقاضے کے پیشِ نظر بائیک چلانے سے پورے سماج نے منع کر رکھا تھا۔
دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورت بائیک چلانے کے لیے بائیک کی دونوں اطراف ٹانگیں پھیلانے پر مجبور ہے اس لیے ایک معیوب فعل‘‘ کے طور پر اسے عورتوں کے لیے ’’حرام‘‘ رکھا گیا ہے۔ اسی لیے جب عورت بائیک پر کسی مرد کے ساتھ بیٹھتی ہے تو ٹانگوں کو ایک ہی سمت رکھتی ہے۔
تیسری وجہ بھی سنیے کہ عورت اپنی سواری رکھنے اور اُسے آزدانہ سڑکوں پہ چلانے کا لائسنس ملنے کی وجہ سے مرد کی ’’دسترس‘‘ یا محتاجی سے نکل بھی سکتی ہے، اس لیے اُسے بائیک چلانے سے ایک حد تک دور ہی رکھا گیا۔آپ نے کار کی اجازت ملنے والی کثیر تعداد کو نہیں دیکھا؟ وہ جس ’’شرعی حفاظت‘‘ میں کار چلارہی ہوتی ہیں اس کا اندازہ اُن کی ڈرائیونگ سے بھی لگایاجا سکتا ہے۔
یہ سب تحفظات اور حیا و شرم کے تقاضے مرد نے بنائے تھے عورت کو جس طرح تعلیم سے دور رکھا گیا تھا اور جونہی عورت کو تعلیم کی اجازت ملی تو عورت نے ثابت کر دیا کہ یہ پابندی مرد کی طرف سے تھی فطرت کی طرف سے نہیں۔ کچھ اسی قسم کی پابندی بائیک کے حوالے سے بھی لاگو رہی، مگر اب اکّا دکّا عورتیں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب عورت کے لیے بائیک بھی اسی طرح ’’جائز‘‘ ہو جائے گی جس طرح آج کل گاڑی ہو گئی ہے۔
اب آتے ہیں اس نکتے کی طرف کہ عورت بائیک کیوں چلائے؟
کیا آپ نے عورتوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں ذلیل ہوتے نہیں دیکھا؟ جس طرح جنسی ہراساں کیا جاتا ہے کیا وہ سب کی نظروں سے اوجھل ہے؟ مگر وہ سب معاشرے کو جائزہے کیوں کہ اُس میں عورت ذات کو اتھارٹی میسر نہیں وہ مرد کے مقابل آنے کی کوشش نہیں کرتی۔ذلیل ہوتی ہے تو ہوتی رہے کیوں کہ غیرت کہ بھی وہی تقاضے مرد کو اچھے لگتے ہیں جو معاشرے نے متعین کر دیے ہیں۔پھر دوسری اہم بات عورت آج کے سماج میں پوری طرح شرکت کی خواہاں ہے (گو یہ رویہ صرف شہروں اور وہ بھی چند مخصوص شعبوں میں پیدا ہُوا ہے) ۔ مذل کلاس خواتین کے لیے سواری ایک عذاب سے کم نہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عورت کو جس توہین آمیز طریقے سے بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا پڑتا ہے اس کے لیے یہ ضروری امر ہو گیا ہے کہ وہ اپنی سواری استعمال کرے تاکہپبلک ٹرانسپورٹ کے ’’غلیظ‘‘ رویوں سے نجات حاصل کر سکے۔اس حوالے سے بائیک بہت کم خرچ اور تقریباً ہر مڈل کلاس کی دسترس میں آجانیو الی سواری ہے۔
اس امر کی طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ خودمختار اور فعال عورت ہی ایک اچھے معاشرے کے خواب کی تعبیر ہو سکتی ہے۔ عورت اور مرد کو خانوں میں بانٹنے کی بجائے دونوں کو ایک انسان سمجھا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔