(ذوالفقار علی)
میں نے بہت سے لوگوں کو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مختلف طریقے سے باتیں کرتے سُنا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف الفکر احباب کو جانتا بھی ہوں جو اپنے اپنے طریقے سے عورتوں کے حقوق پر آواز اُٹھا کر اپنے آپ کو معتبر اور مہذب انسان سمجھتے ہیں۔ یہاں تک تو بات قابل برداشت ہے مگر یہاں سے آگے جو ہوتا ہے وہ اس دھندے کا پول کھول دیتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ حقوق کو سماجی رشتوں اور ثقافتی میلانات سے الگ کر کے عمومی تناظر میں تولا اور جانچا جاتا ہے جو بہت ہی سطحی قسم کی سوچ اور بھونڈے پن کی علامت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر افراد، ادارے اور حکومتیں حقوق کے لالی پاپ کو اپنے احساس تفاخر کے طور پرمارکیٹ کرتے ہیں۔ اس مارکیٹنگ کیلئے مختلف فورمز کا سہارا لے کر عورت پر رحم کھا کر اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ آئیے آج آپ کو ایسے لوگوں سے متعارف کرواوں۔
1۔ حقوق کے ٹھیکیدار
بڑے دھوم دھام سے عورتوں کے حقوق کا عالمی دن مناتے ہیں۔ اس کاروبار میں سماجی ادارے، حکومتیں اور عالمی حقوق کے پیامبر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اپنے مصنوعی جذبات کو عورتوں کے حقوق سے جوڑ کر دُکھی نظر آنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے حقوق کے نام پر سرمایہ یا فنڈنگ بٹورتے ہیں پھر اُس فنڈنگ کو عورتوں کی مظلومیت کی کہانیاں اکٹھی کرنے اور اُن کو سُنانے پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کو یہ سب کچھ کر کے ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنا اہم فرض نبھا دیا ہو باقی عورت کے حق میں کچھ بدلے نہ بدلے یہ انکا درد سر نہیں ہے۔
2۔ فیمینسٹ
یہ طبقہ بھی کمال کا ہے۔ جو صنفی بنیادوں پر انسانوں کے حقوق کو متعین کرنے پر بضد ہے۔ اس طبقے کے نزدیک ہر قسم کی عورت بس عورت ہی ہے۔ وہ سماجی اکائی نہیں بلکہ صنفی اکائی ہے جس کو سماج کے مردوں نے کسی سازش کے تحت دبا رکھا ہے۔ یہ شدت جذبات سے اکثر اُکھڑے اُکھڑے رہتے ہیں اور ایسی سُناتے ہیں کہ جان بخشی کرانی مُشکل ہو جاتی ہے۔ ان کی سُنیں تو ایسے لگتا ہے جیسے تمام مرد یکسو ہو کر عورتوں کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور فطری حقوق دبا کے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ مرد اور عورت کے تعلقات کو متوازن انداز سے پنپنے دینے کی بجائے مختلف سمتوں میں بٹنے پر اپنی توانائیاں سرف کرتے ہیں۔ جسکا نقصان بالاخر سماجی اکائی کو ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں سہنا پڑتا ہے۔
3۔معاشی رشتوں پر یقین رکھنے والے
یہ طبقہ کہتا ہے کہ تمام رشتے معاشی ہوتے ہیں اور وہ اس نظرئیے سے عورت کے حقوق کی تشریح کرتے رہتے ہیں۔ ان کی نگاہیں پیداواری عمل سے جُڑے ذرائع کے استعمال پر گڑی ہوتی ہیں اور اسی تناظر میں وہ سرمائے کی جدلیات کا فلسفہ بیان کر کے عورت کے استحصال کی منطق سمجھاتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک اگر عورت کو ذرائع پیداوار کے عمل میں برابری کی بُنیاد پر کردار نبھانے دیا جائے تو عورت کے حقوق اُس کی مُٹھی میں ہونگے۔ یہ لوگ شکل سے بہت مہذب اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر ان کی نجی محفلوں میں بیٹھنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ جو کہتے ہیں وہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور جو عملی طور پر کرتے ہیں وہ ذرا سا ہوتا ہے۔
4۔ مذہبی لوگ
یہ لوگ قرون وسطی کی مثالوں سے پہلے پہل عورتوں کی حالت زار کا نقشہ کھنچتے ہیں جس میں عام طور پر بچیوں کو زندہ درگور کر دینے کے واقعات کی بھر مار ہوتی ہے۔ ان واقعات کا رونا رو کر یہ فورا اپنے مذہب کے اندر متعین کیے گئے عورتوں کے حقوق کا پرچار کرنے لگ جاتے ہیں جو عموما چند جذباتی قسم کے واقعات کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک عورتوں کو زندہ درگور ہونے سے بچانے سے ہی تمام معاملات حل ہوگئے اور ان کے مذہب کا یہ احسان عورتوں پر تا قیامت کافی ہے۔
5۔قبائلی نفسیات کے حامل لوگ
یہ لوگ حقوق کی درآمد شدہ اقسام سے اجتناب برتتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں عورت ان کی ذاتی قسم کی چیز ہے جس میں باہر کی مداخلت انہیں گوارہ نہیں ہے۔ اس نفسیات کے حامل لوگ دوسرے سماج کی اخلاقیات اور اقدار کو کسی قیمت پر اپنانا نہیں چاہتے جس کی وجہ سے ان کے اندر خوف اور نفرت کے رجحانات بڑھ رہے ہیں جس کا اثر عورتوں پر مزید سختیوں اور پابندیوں کی صورت میں بڑھ رہا ہے۔ حالیہ واقعات اس سوچ کے غماض ہیں جس میں قبائلی سماج میں عورتوں کو قتل کر دینے کے کی روایت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
6۔جاگیر دار لوگ
یہ لوگ عورتوں کو ملکیتی جاگیر کے طور پر دیکھتے ہیں۔اس لئے وہ اپنی عورتوں پر قابض رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی قبضہ گیریت کی یہ نفسیات ان کو اندر سے بہت کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی بے بسی کا گراف بہت اونچی سطح پر چلا جاتا ہے کیونکہ ان مردوں کی عزت عورت کے افعال و اطوار سے جُڑی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک عورت کو قابو میں رکھنا عزت کا معیار ہے جبکہ عورت اپنی مرضی سے کچھ کر دے تو ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ یہاں پر بھی عورت کے سر پر بھاری ذمہ داری ڈال کر اُسے ایک محدود سرکل میں رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ بھی کہیں نہ کہیں کسی فورم پر عورتوں کے حقوق پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔
7۔ سازش گُزیدہ قسم کے لوگ
یہ وہ حضرات ہیں جو عورتوں کی آزادی اور حقوق کو یہودیوں اور انگریزوں کی سازش سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس قسم کی باتیں دراصل معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کیلئے کی جاتی ہیں۔ یہ لوگ ہمارے مُلک میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو اپنی عورتوں سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا نہ ہی انہیں اُن کے حقوق سے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں کثیر الجہتی صنفی مسائل میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو اس حقوق کی زیادہ سمجھ بھی نہیں آتی۔
8۔سرمایہ دار قسم کے لوگ
یہ عورتوں کے حقوق کو سرمایہ بڑھانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی اپنی پراڈکٹ کو بیچنے کیلئے عورتوں کا خوب استعمال کرتے ہیں اور پھر اسی سرمائے سے مختلف اداروں کو فنڈ کر کے عورتوں کے حقوق کی تحریکوں کو اُبھارتے ہیں۔ اس کام کیلئے یہ عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان کی پیاسی نظریں بڑی بے تابی سے کام کی عورتوں کو ڈھونڈ کر نکال لیتی ہے اور پھر انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ سرمایہ آتا رہے۔ یہی لوگ حقوق کے کھیل سے سب سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔
9۔ ثقافتی لوگ
یہ لوگ عورت کے حقوق کو اپنی اپنی ثقافت کے رنگوں سے ڈھالتے ہیں اور رشتوں کو فطری مظاہر اور تاریخی حقائق پر جانچتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں مرد اور عورت کا تعلق مصنوعی نہیں ہوتا بلکہ جذباتی قسم کا ہوتا ہے۔ جس کا اظہار ان کے لوک گیتوں اور لوک کہانیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں تعلقات میں مضبوطی اور گہرائی بھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ حقوق کے معاملے میں کافی لچکدار اور سمجھدار ہوتے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں عورت کے حقوق کو ثقافتی رنگوں اور فطری جُڑتوں سے الگ کرکے دیکھنے سے انسانی رشتوں میں خواہ مخواہ کی کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ عورت کو بطور عورت دیکھنے سے بہتر ہے اُسے بطور انسان کے دیکھا جائے تاکہ انسانیت جو کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کو پنپنے کا بہتر موقع دیا جائے۔ ورنہ حقوق کی موجودہ جنگ میں انسانیت خسارے میں رہے گی اور اس کا منفی اثر عورت پر ہی پڑے گا۔