(رابی وحید)
ذہنی تشدد:یہ بہت عام ساتجربہ ہے جو ہمارے سماج کی ہر خاتون کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ یہ تجربہ اُس کا مقدر بھی کہلایا جا سکتاہے یعنی عورت ذات میں موجود مردانہ خوف جسے ذہنی، جنسی اور جسمانی تشدد بھی کہا جا سکتا ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں عورت کا وجود مرد وں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اورمردوں کی ضرورت کے علاوہ کسی حد تک غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کو بطور ذات مرد کی طرف سے سب سے زیادہ جنسی اور پھر ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جنسی اور جسمانی تشدد کی داستانیں تو عام ہیں مگر ذہنی تشدد کی طرف دھیان بہت کم جاتا ہے۔ ذہنی تشدد کا مطلب ہے عورت کا اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرنا۔ عورت اپنے ماحول میں بہت سی جگہوں پر غیر محفوظ ہوتی ہے۔ اُسے سب سے زیادہ خطرہ انھی مردوں سے ہوتا ہے جو اُس کے رکھوالے ہوتے ہیں یعنی اُس کے بھائی یا اُس کا باپ۔پھر اُس کا خاوند اور مرد استاد یا اُس کے طالب علم ساتھی۔گھر والے اُسے غیرت کے نام پر کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ہمارے جیسے معاشروں میں عورت ایک غیر محفوظ زندگی کے زیرِ سایہ پروان چڑھتی ہے۔ اُسے قدم قدم پر احساس ہوتا ہے جیسے وہ خطرات میں گھری ہوئی ایک ایسی مخلوق ہے جسے بلاخر ایک دن قابو میں آ ہی جانا ہے۔ جنسی تشدد تو ایک کھلا عمل ہے جسے معاشرے میں وہ لوگ بھی قابلِ مذمت سمجھتے ہیں جو عورت کے ساتھ ذہنی تشدد میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
ذہنی تشدد کی ایک مثال گھر میں ایک عورت کا اپنے دیوروں اور جیٹھوں کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔ دیور یا جیٹھ اگر شادی شدہ بھی ہو تو وہ عورت کو اپنی منکوحہ تصور کر رہے ہوتے ہیں۔ میری بہت سی پرانی سہیلیاں جو اس چکّی میں پِس رہی ہیں مجھے اپنے تجربات سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔مجھے اُن کی حالتِ زار کی خبریں ایسی ملتی ہیں جیسے کسی دشمن کے علاقے کی خبریں ہوں۔
ذہنی تشدد صرف جنسی طور پر ہراساں کرنے سے ہی جنم نہیں لیتا بلکہ ہر وہ خوف جس سے عورت خود کو عدم تحفظ کا شکار پائے اُس پرذہنی تشدد کے برابرہے جیسے اُسے عورت پن کا احساس دیے رکھنا۔اُسے کمزور ثابت کرتے رہنا۔اُسے طلاق یا علیحدگی کا ڈر دیے رکھنا۔بلوغت میںآنے کے ساتھ اُس کی نسوانیت کے طعنے مارتے رہنا۔حقارت اور نفرت سے دیکھتے رہنا۔جگہ جگہ مرد کو فوقیت دیتے رہنا جیسے بازار میں یا کسی بھیڑ یا قطار وغیرہ میں۔عورت اس قسم کے ذہنی تشدد یا عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔
جنسی طور پر تو اُسے جگہ جگہ یہ احساس رہتا ہے کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے اِس سماج کے بے رحم ہاتھوں نے کسی بھی لمحے کچل دینا ہے، لہٰذا وہ بچ بچا کے رہے۔ اور جب حملے کی زد میں آئے تو اُسے بچانے کے لیے کوئی بھی نہیں آئے گا۔عورت ذات کو ’’عزت‘‘ کا خوف بہت ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے سماج میں عورت اگر جنسی زیادتی یا ذہنی تشدد کے عمل سے گزر رہی ہو تو بغاوت نہیں کر سکتی۔ اُسے ہر حال میں خاموش رہنا ہے کیوں کہ وہ اپنی لب کشائی کے بعد اپنی ’’ناموس‘‘ اور ’’پاک دامنی‘‘ جیسے مقدس القابات سے ہاتھ دھو سکتی ہے۔ مرد ہی اُسے ان القابات سے محروم کرے گا اور ایک مرد ہی ان القابات کو چھیننے کا سرٹیفیکیٹ عطا کرے گا۔
اگر ہم سماجی سطح پر تبدیلی چاہتے ہیں تو عورت ذات کو حقیر تصور کرنا بند کریں اور خصوصاً اُس کے استحصال کی خفیہ اور نمایاں، سب شکلوں کو بے نقاب کریں۔ورنہ عورت کو عدم تحفظ کے نام پر ذہنی تشدد کا شکار کیا جاتا رہے گا۔ اس سلسلے میں عورت کو تعلیم دینے کی ضرورت سب سے پہلے ہے ۔ معاشرے میں اس بہتری کی طرف عورت خود سفر کا آغاز کرے تو بہتری ممکن ہے ورنہ کچھ بھی بدلنا ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔