(ارشد محمود)
ہماری عورتوں کی اکثریت کو ’’آزادیِ نسواں ‘‘یا عورتوں کے حقوق کی کسی تحریک کا کچھ علم نہیں۔ سماج، سرکار، میڈیا اور ملاؤں نے ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا رکھی ہے کہ ’’ہمارے مذہب نے ہمیں وہ تمام حقوق دے رکھے ہیں جن کی ہم کو ضرورت ہے، لہٰذا ہمیں کسی آزادی کی تحریک کی ضرورت نہیں۔‘‘ انھیں بتایا جاتا ہے کہ آزادی کرپشن کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سب ’’مشرقی‘‘عورتوں کو یقین ہے کہ آزادی کے لحاظ سے مغرب کی عورت آئیڈیل نہیں ہے۔ ہمیں مردوں کے برابر حقوق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری عورتوں کے ذہن میں شرم اور عزت کے تصورات اتنے گہرے بیٹھے ہیں کہ وہ آزادی اور کرپشن کو ایک ہی چیز سمجھتی ہیں۔ ہماری عورت کو صدیوں سے مرد کنٹرول کررہے ہیں۔ انھیں سماج سے الگ اور گھر کی چاردیواری میں محدور رکھا جاتا ہے۔ انھیں ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مردوں سے کمزورکہا جاتا ہے۔ اس کا کام اطاعت کرنا، مان لینا اور سپرد کر دینا ہے۔ اسے سکھلایا جاتاہے کہ اس نے دوسروں کی خدمت کرنی ہے۔ اس کی ماں اس کی آئیڈیل ہوتی ہے۔ لڑکی گھر کی عزت ہے، اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اسے کنوارا اور خالص رکھنا ہے، ایک ایسے مرد کے لیے جو مستقبل میں اس کا شوہر ہو گا۔ شادی دو مساوی پارٹنرز کا بندھن نہیں؛ اس میں ایک فریق طاقت ور ہے اور دوسرا کمزور۔ شادی بذاتِ خود عورت کو کنٹرول کرنے کے ادارے کاکام کرتی ہے جس کا مطلب فیملی کے فریم ورک میں عورت کو مطیع بنانا ہے، اسی لیے شادی کو نہایت مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محبت (love) جیسے حسین اور باہمی پیار سے لبریز جذبے کا مطلب اصطلاح میں یہ رہ جاتا ہے کہ بیوی ایک کٹھور قسم کے (اجنبی مرد) خاوند کی دن رات خدمت اور فرمانبرداری کرے، جس کی اس کے علاوہ اور بھی بیویاں ہو سکتی ہیں۔ یہ لطافت کی موت نہیں تو کیا ہے؟ یہ بات بھی غورطلب ہے کہ ہماری سوسائٹی عورت کو احترام اور طاقت اس وقت دیتی ہے جب وہ جنسی لحاظ سے بے کار ہو جاتی ہے۔ یعنی بوڑھی عورتوں (ساس،ماں،دادی،نانی) کو احترام اور طاقت کا حقدار سمجھا جاتا ہے! عورت کو میک اَپ اور فیشن میں بھی مبتلا اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان کا دماغ وقت اور پیسہ یونہی مصروف رہے۔ آج کل لڑکیوں کو تعلیم اس لیے نہیں دی جاتی کہ وہ سماج میں کوئی مفید کردار ادا کریں، بلکہ اس کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کے لیے دی جاتی ہے، تاکہ شادی کا امکانات بہتر بنائے جاسکیں۔ وہ تعلیم یا فتہ ہونے کے بعد بھی خاندان کی شرم اور عزت کے چکر سے جڑی رہتی ہیں، لہٰذا معاشرے کے لیے کوئی تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ عورت کا پہلا کام’’بیوی‘‘بننا ہے؛ کمائی والا کام عورت کی دوسرے درجے کی ترجیح ہے۔ اسے ایسی پیشہ ورانہ تعلیم دینے سے گریز کیا جاتا ہے جس سے وہ خود مختار ہوجائے۔ ملازمت کرنے والی عورت پر دوہرا دباؤ آجاتا ہے اس نے باہر بھی کام کرنا ہے اور گھر اور بچوں کو بھی سنبھالنا ہے۔
ماں باپ کو راحت بچی کی شادی کے موقعے پر ملتی ہے، جب بیٹی کی حفاظت سے ان کی جان چھوٹتی ہے۔ شادی کے بعد لڑکیوں پر پابندیاں نرم ہو جاتی ہیں اور سماجی تعلقات میں اسے ذرا کھلے پن کی اجازت ملتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی شادیوں اور ہمارے ہاں کی شادیوں میں بہت فرق ہے۔ وہاں جوڑا شادی سے قبل کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ کہیں ملاقات ہوتی ہے، آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں، دوستی ہوتی ہے پھر dating اور کورٹ شپ کے بعد کہیں جاکر منگنی اور شادی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں شادی کو ئی پر اسس نہیں ہوتا۔ دونوں کے لیے سیدھی ہی سہاگ رات آجاتی ہے۔ عموماً ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی !یہاں شادی دو افراد کے درمیان نہیں، دو خاندانوں کے بیچ ہوتی ہے۔ لڑکے والوں کی طرف سے جب رشتہ آتا ہے تو فوراً ہاں نہیں کردی جاتی۔ اس میں بھی عزت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اگر جلدی سے ہاں کر دی تو لڑکے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ لڑکی میں کوئی نقص ہے، یا ماں باپ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ لڑکی والے خود لڑکے والوں سے رشتہ نہیں مانگ سکتے۔ لڑکی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے رشتے کے مانگے جانے کا انتظار کرے۔ عام طور پر منگنی کے بعدبھی دونوں کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
’’محبت‘‘شادی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یہ لفظ شادی سے پہلے ممنوع ہے۔ لڑکی کو کسی لڑکے سے محبت ہو جائے تو یہ شرمناک بات ہے۔ اور اگر لڑکے کو ہو جائے تب بھی والدین وہاں اس کی شادی کی منظوری نہیں دیتے۔ لڑکیاں بھی محبت کی شادی کو خاندان کی ترتیب شدہ شادی سے زیادہ خوش کن نہیں سمجھتیں، کیونکہ محبت کو عورت کی بے عزتی سے جوڑا ہوا ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ ایک تو محبت سے وہ بدنام ہو گی، اور دوسرے مرد بھی اسے استعمال کرنے کے بعد کسی اور لڑکی سے شادی کر سکتاہے۔ ادھر مرد بھی سمجھتے ہیں کہ جو لڑکی محبت کرتی ہے وہ اچھی نہیں ہے، اور اگر مجھ سے محبت کرتی ہے تو کسی دوسرے سے بھی کر سکتی ہے۔ دونوں طرف شک کا عنصر قائم رہتا ہے۔ جب کہ روایتی شادی میں ذمے داری خاندان کی ہو جاتی ہے۔ پھر وہ نتائج کو بھی بر داشت کرتے ہیں۔ چنانچہ عورتیں محبت کی شادی سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ عورتیں مردوں کے چہرے سے ڈرتی ہیں۔ بظاہر وہ بڑے مہربان،محبت کرنے والے اور افہام وتفہیم کے مالک نظر آتے ہیں لیکن ناقابلِ بھروسہ ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں محبت کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن وہاں بھی شادی نہیں ہوتی۔ ایک تو لڑکی گریجویشن کے بعد جب گھر جاتی ہے تو خاندانی دباؤ سے وہ ان کا تجویز کردہ رشتہ قبول کر لیتی ہے۔ دوسرے تازہ تازہ تعلیم مکمل ہونے کی وجہ سے لڑکا شادی کا خرچہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ عورت کے ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ جتنی جلدی پہلی آنے والی آفر کو قبول کر لے اتنا ہی بہتر ہے۔ عمر ذرا بڑی ہو گئی تو کسی بہتر آفر کے چانس کم ہو جائیں گے۔ پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ خواتین زیادہ عمر میں شادی کرتی ہیں،بلکہ ان کی ایک اچھی خاصی تعداد بغیر شادی کے رہ جاتی ہے۔ خاتونِ خانہ کی زندگی گزارنے والی عورتوں کی شادیاں کم سنی میں بھی ہو سکتی ہیں۔ لڑکیوں کا ذہن عام طور پر اس طرح کا بنایا جاتا ہے کہ وہ شادی کو خوشیوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جبکہ آس پاس کی ناخوش شادیوں کو استثنائی قرار دے کر نظر انداز کردیتی ہیں۔ چنانچہ لڑکیاں آئیڈیل کے حصول کی جدوجہد میں رہتی ہیں۔ حقائق اس سے برعکس نکلتے ہیں۔ اور جب انھیں آئیڈیل نہیں ملتا، وہ خود کو گناہ گار اور نا خوش محسوس کرنے لگتی ہیں۔ عورت پر سو شل کنٹرول کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ فیملی کے بغیر نہیں رہ سکتی، لہٰذا اسے کسی بھی رشتے دار مرد کے رحم وکرم پر رہنا ہوتاہے۔ چنانچہ نچلے طبقے کی عورت سمجھتی ہے کہ اپنے خاندان کے افراد کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے ایک خاوند کے ہاتھ ذلیل ہونا بہتر ہے، کیونکہ اپنے گھر میں اس پر حکم چلانے والے بہت سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا شادی ماں باپ کے ناجائز دباؤ اور گھٹن کے ماحول سے نجات کا بھی ذریعہ ہوتی ہے۔
اس معاشرے میں میاں بیوی کی جنسی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ جب یہ سوال ایک عورت سے پوچھا گیا تو اس کا جواب تھا: ’’میرے خاوند کے لیے سب سے اہم چیز سیکس اور کھانا ہے۔ ‘‘بیوی کے ساتھ افہام وتفہیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ بیوی کے ساتھ میٹھے بول سے پیش آنا ضروری نہیں۔ معمولی بات پر وہ چلّا سکتا ہے، طلاق کی دھمکی دے سکتا ہے۔ جب سونے کے کمرے میں جائے،عورت کوبھی تیار رہنا ہوتا ہے۔ نہ بلانے پر جاکر پوچھنا پڑتا ہے۔ ہاں بھی کرسکتا ہے اور تھکا ہوا کہہ کر انکار بھی کر سکتا ہے151 سب اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر عورت کسی وجہ سے تیارنہ ہو تو خاوند کی نافرمانی میں خدا، مقدس روحیں اور فرشتے سبھی ناراض ہو جاتے ہیں! سوشل سسٹم خاوند سے توقع رکھتا ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ محبت کی بجائے آمرانہ طریقے سے پیش آئے، ورنہ لوگ جورو کا غلام کہنا شروع کردیتے ہیں۔ اگر انھیں اپنی بیوی کا خیال بھی ہو تب بھی سماجی نظام انھیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کا اظہار کریں، لہٰذا بیویاں اپنے خاوند کے احساسات سے غافل رہتی ہیں۔ جنسی تشفی کو صرف مرد کی ضرورت سمجھا جاتا ہے جب کہ عورت نے ’’خدمت گار‘‘کی حیثیت سے خاوند کی جنسی ضرورت بھی اسی طرح پوری کرنی ہوتی ہے جس طرح وہ اس کی دیگر ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ جیسے کھاناپیش کرتی ہے، استری شدہ کپڑ ے دیتی ہے، اسی طرح اس کی جنسی تسکین بھی پوری کرے۔یقین کیا جاتا ہے کہ جنسی لحاظ سے عورت کی فطرت وصول کرنے والے کی ہے اور وہ عام طور پر ٹھنڈی (frigid) ہوتی ہے،جب کہ مرد کی جنسی خواہش شدید ہوتی ہے اور وہی اس میں سرگرم ہونے کا حق رکھتا ہے۔ عورت کی جنسی فعل میں جوابی شرکت کا مطلب اس کا ’’چالو‘‘ہونا ہے اور اس پر بطور بیوی بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔
لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ سیکس مردوں کا کام ہے۔ ’’باعزت‘‘لڑکی ایسا کچھ نہیں کرتی جس سے کوئی مرد اسے چاہنے لگے۔ ان کے اندر مرد اور جنس کا خوف بٹھایا جاتا ہے، اور انھوں نے ہر قیمت پر اپنے کنوارپن کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ انھیں سخت ورزش یا چھلانگیں لگانے سے روکا جاتا ہے۔ پردۂ بکارت کی حفاظت جسم کے دوسرے سب اعضا سے زیادہ اہم ہے۔ جوان لڑکی کے جسم اور ذہن دونوں کنوارے ہونے چاہیے۔ زنابالجبر کے قصوں سے انھیں دہشت زدہ کیا جاتا ہے اور اس طرح عورت کے مکمل استحصال کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ عورت کے ہاتھ کے ساتھ کسی مرد کا ہاتھ بھی چھو جائے تو اُسے ایسا لگتا ہے کہ کوئی جرم ہو گیا ہو۔ جب کہ مرد یا نوجوان لڑکے جنسی تجربے کا کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیتے ہیں جسے سوسائٹی نظر انداز کیے رکھتی ہے، بلکہ اسے شادی کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف چونکہ عورت کو ہمیشہ سے جنس سے خوفزدہ رکھا گیا ہوتا ہے، لہٰذا ہنی مون مرد کے لیے تو قابلِ لذت ہوتا ہے، عورت کے لیے نہیں۔ عورت کے لیے شادی کی پہلی رات خوف ودہشت کی رات ہوتی ہے، کیونکہ مرد نے بھوکے بھیڑیے کی طرح عورت پر حملہ آور ہونا ہوتا ہے151 اور پھر یہ تشویش کہ وہ اس کے معیارِ عصمت پر پوری اُترتی ہے یا نہیں۔ چنانچہ ان پاک باز معاشروں میں شادی کی پہلی رات کسی ’’ریپ ‘‘سے کم نہیں ہوتی۔شادی سے قبل دونوں کو سیکس کا نہایت ہی محدود علم ہوتا ہے۔ دونوں اپنی جنسی صلاحیت کے بارے میں خوف زدہ ہوتے ہیں۔ عورتوں کو female orgasm کا نہیں ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں کہ جنسی تسلی (fulfilment) ان کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح مردوں کو بھی عورت کے جنسی میکانزم کا علم نہیں ہوتا، نہ ہی اپنے ساتھی کو شریک اور تیار کرنے کا۔ ہماری عورت کو اس سے فرسڑیشن ہوتی ہے،لیکن اسے مانتی نہیں اورنہ اس کا اظہار کرتی ہے۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں جنسی فعل میاں بیوی میں سے کسی کے لیے بھی حقیقی طمانیت کا باعث نہیں بنتا۔ ان کا ازدواجی رشتہ جنسی ملاپ اور بچے پیدا کرنے تک ہی محدودرہ جاتا ہے، وہ مکمل جسمانی ملاپ کے تجربے سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے۔ اگر چہ مردوں کو عورت (بیوی) سے اونچی جنسی توقعات ہوتی ہیں کہ وہ میک اَپ کرے،سیکسی لباس زیب تن کرے، لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ جنسی فعل کو خوبصورت اور پُر لطف بنانے میں مرد کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں لیتے،اس لیے کہ انھیں اپنی ’’عزت اور وقار‘‘بلند رکھنا ہوتاہے! بیوی کو ویسے تو اس کا خیال بھی نہیں ہوتا، اور اگر عورت ایسا کرے تب بھی مرد بُرا منا جاتے ہیں۔ وہ بھی جنسی فعل کو بے جھجک نہیں کرناچاہتے کہ عورت’’خراب ‘‘ہی نہ ہو جائے۔ اور دوسرے بیوی اپنی ’’ملکیت‘‘میں ہوتی ہے، اسے for granted بھی لیا جاتا ہے۔ رومانس اور محبت کا ویسے ہی کوئی تصور نہیں، بلکہ شادی کا مطلب رومانس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے ادھورے رشتے کی وجہ سے مردوں کی اکثریت شادی کے بعد بھی دوسری عورتوں میں دلچسپی لینا نہیں چھوڑتی۔
عورت کو سکھلایا جاتا ہے کہ اس نے سونے کے کمرے میں اپنے خاوند کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا ہے، اس کی جنسی طلب کو پورا کرنا ہے، کیونکہ یہ اس کی خدا کی طرف سے مقرر کردہ مقدس’’ڈیوٹی‘‘ہے۔ یہ اس کے وقار کے خلاف ہے کہ وہ خاوند سے محبت کی طلب گار ہو۔ شادی کا مطلب مذہب کی منظور شدہ جنسیت ہے نہ کہ دو محبت کرنے والوں کا ملاپ۔ اسی طرح مرد کو بھی یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ عورت پر غالب ہے۔ لڑکیوں کو بچپن سے سکھلایا جاتا ہے کہ مردوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذا بیوی کی ڈیوٹی ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اسے ’’خوش‘‘رکھے، خاص طور سے بستر پر، تاکہ بیوی کو ضمانت مل جائے کہ خاوند اس کے ساتھ وفا دار رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خاوند کے بُرے سلوک کے باوجود بیویاں بستر پر مرد کے پاس چلی جاتی ہیں۔ اور اس میں ان کے اس گہرے ایمان کا حصہ ہوتا ہے کہ خدانے عورت کو مرد کے خدمتگار کے طور پر پیدا کیا ہے، اور اگر وہ اس کے منافی حرکت کرتی ہے تو خاوند کا اس پر تشدد جائز ہو گا۔ بیوی کا فرض ہے کہ وہ کسی بات پر نہ اعتراض کرے اور نہ شکایت۔ اگر عام عورت سے پوچھا جائے کہ کیا سیکس اس کے لیے بھی اہم ہے، تو اس کا جواب ہو گا نہیں۔ عورتوں کی اکثریت سمجھ لیتی ہے کہ اس سلسلے میں وہ مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ جنس میں دلچسپی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔
اس طرح کے معاشروں کا ادبی لٹریچربھی غور طلب ہے۔ ان کے ہاں اکثر محبت کی لوک کہانیاں مشہور ہوتی ہیں۔ لیکن ان قصوں کا عاشق اپنی محبوبہ سے جنسی اختلاط نہیں کرتا،ان کی محبت ’’پاک‘‘ اور روحانی ہوتی ہے۔ ان کہانیوں میں عاشق اور محبوب کو شادی یا ملاپ سے روک دیا جاتا ہے، کیونکہ شادی کا مطلب عشق نہیں،عشق کا خاتمہ ہے! لیکن عملی طورپر سوسائٹی غیر جنسی (nonsexual) محبت کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔دو محبت کرنے والے شادی نہیں کرسکتے۔ جنرل ضیا کے اسلامی دور میں جب دو جوان لڑکی لڑکا گھر والوں کی مخالفت کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئے تو عدالت نے ان کی شادی کی اجازت دینے کی بجائے انھیں کوڑے مارنے کی سزادی تھی، حالانکہ وہ کرسچن مذہب سے تھے۔ ساری دنیا محبت کرنے والے دو دلوں کا احترام کرتی ہے، لیکن پاک سرزمین پر محبت گناہ ہے اور شادی کے لیے محبت کا ہونا اور بھی غلط ہے۔ ان کی شریعت میں شادی محبت نہیں، سیکس ہے۔ اس لیے جو عورت خاوندسے محبت کرسکتی ہے، وہ کسی اور سے بھی محبت کرسکتی ہے !اس کی حیثیت جنسی اور گھریلو خدمت گار کی ہے یا پھر اس سے وارث پیدا کر نے ہوتے ہیں۔سچی محبت کا مطلب ہے، دونوں محبت کرنے والے مساوی ہوجائیں گے، عورت کی غلامانہ حیثیت نہیں رہے گی۔اس طرح پاک باز معاشرے کا درجہ بندی پر مشتمل ڈھانچہ ٹوٹ سکتا ہے۔ محبت کے ناپسندیدہ ہونے میں دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ جب بھی عورت اور مرد کو کہیں ملنے کا موقع ملے گا وہ فوراً سیکس کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ لہٰذا ان میں دوستی اور محبت کے رشتے قائم ہی نہ ہونے دیے جائیں۔
محبت کے بارے میں انگریزی زبان کے love-making جیسے جملوں کے مترادف الفاظ ہماری زبانوں میں نہیں ہیں، اس لیے کہ یہاں کے جوڑوں (couples) کے بیچ محبت کا کبھی وجود نہیں رہا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ہاں کے میاں بیوی میں محبت ہوتی ہی نہیں۔ان کے درمیان بھی محبت ہو سکتی ہے، لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ یہاں محبت بڑی پرائیویٹ قسم کی ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی محبت دکھاتے نہیں ہیں۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی سے اظہار محبت کرے گا تو اسے اس کی کمزوری اور بے عزتی پر محمول کیا جائے گا۔ اور جب وہ دونوں خلوت میں ہوں گے، تب بھی محبت کو اظہار سے روکا جاتا ہے،کہ ان کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہوتی ہے۔ انھوں نے محبت کرنے والے کبھی دیکھے ہی نہیں ہوتے۔ خاوند سمجھتے ہیں اس سے بیوی خراب ہو جائے گی، فائدہ اٹھانا شروع کردے گی، اور اس کے تقاضے بڑھ جائیں گے۔ اس سوسائٹی میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ غصے کا اظہار تو کرسکتے ہیں، محبت کا نہیں۔ غصہ کرنا مردانگی ہے۔ ہمارے کلچر میں عورتیں غصے کا اظہار شکایت کرکے یا پھر رو کر کر تی ہیں، جب کہ مرد چلا کر اور مشتعل ہو کر یوں اپنی بیوی پر اس کنٹرول کا اظہار کرتے ہیں، جو انھیں حاصل ہے۔ مردوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو اور سرد مہری کا رویہ رکھے۔ بیوی کبھی کوئی شرارت یا مذاق کر بیٹھے یا سیکس کی بات کر دے تو اسے کہا جائے،’’ ہم بچے نہیں ہیں۔‘‘ حتیٰ کہ باپ بیٹی سے جتنا اظہارِ محبت کرسکتا ہے خاوند اتنا بیوی سے نہیں۔ باپ بیٹی کو گلے لگا سکتا ہے، چوم سکتا ہے، لیکن خاوند اپنی بیوی کو نہیں۔
ہماری سوسائٹی کی شادیوں میں میاں بیوی کے درمیان رفاقت اور دوستی (companionship) کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں نہ دونوں کے تعلقات میں مساوات ہے اور نہ خاوند دوست بنتا ہے۔ وہ گھر کا حاکم ہے۔ میاں بیوی کے درمیان پیار کی زبان کا کوئی رواج نہیں ہوتا۔ یہاں آپس میں ’’شکریہ‘ ‘اور’ ’مہربانی‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔ بیوی آسانی کے ساتھ خاوند سے ایسی بات نہیں کرسکتی جو اسے پریشان کرتی ہو۔ ہمارے ہاں بیٹیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ اپنے خاندان کی بات احتیاط برت کرکرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے بعد میں بیوی کے خلاف استعمال کرے۔ اس سوسائٹی میں میاں بیوی کے رشتے سے بہن بھائی کا اور ماں بیٹے کا رشتہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
ہماری عورت کے لیے تفریح کا نہ کوئی بندوبست ہے اور نہ کوئی وقت۔ مغرب کی عورت کے پاس فارغ وقت گزارنے کا اپنا شیڈول ہوتا ہے۔ اس نے سوئمنگ یا سپورٹس وغیرہ میں لازماً شریک ہونا ہوتا ہے، جب کہ ہماری عورتوں کے پاس کہیں اور دل لگانے کو کچھ نہیں ہو تا۔ ان کا اپنا (independent) شیڈول کوئی نہیں ہوتا، اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاوند اپنے دوستوں میں وقت گزارنے کی بجائے جلدازجلد گھر آئیں اور انھیں کوئی کمپنی مل سکے۔