(منزہ احتشام گوندل)
طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی بھی سماج میں عام ہے۔سبھی انسانی معاشروں کے اندر اس کی موجودگی کسی نہ کسی شکل میں رہتی ہے۔کہیں کم کہیں زیادہ،مگر سبھی معاشرتی اخلاقیات کے اندر طلاق کو کبھی پسند نہیں کیا گیا ۔لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہوگا کہ طلاق کا تمام تر خسارہ عورت کو جائے،جیسا کہ ہمارے سماج میں ہورہا ہے۔ہمارے ہاں طلاق کا مطلب ہے سو فیصد عورت کی ناکامی،خواہ اس میں اس کا قصور ہو یا نہیں ،ملبہ اسی کے اوپر گرتا ہے،حالانکہ طلاق کے سو میں سے اسی واقعات میں مرد کی کج روی شامل ہوتی ہے۔اگر ہم طلاق کی وجوہات کی ایک موٹی سی فہرست بنائیں تو یہ چند وجوہات بنتی ہیں جو زیادہ عام ہیں۔اولاد نہ ہونا،جہیز کی کمی،فریقین میں ناموافقت،مزاج کا بعد،وغیرہ وغیرہ۔اور یہ وہ وجوہات ہیں جن میں عدم مطابقت کا زیادہ تر سہرا مرد کے سر جاتا ہے۔میں کتنی عورتوں سے واقف ہوں جو سرد خانوں میں زندگی بتا رہی ہیں۔جوکھوکھلے تنوں کے بندھی ہیں اور ان کے بدن سے ہریالی کی امید کی جاتی ہے۔جن کی راتیں آنسو بہاتے گزرتی ہیں اور دن طعنے سنتے گزر جاتے ہیں،مگر وہ زبان نہیں کھولتیں کہ طلاق لے کے بھی کہاں جانا ہے؟۔ماں باپ پھر کسی نہ کسی کھونٹے کے ساتھ باندھ دیں گے۔پھر بھی اسی زندگی کو دہرانا ہے تو یہ ایک ہی کافی ہے۔ایک ہی طرح کی ذلت سہتے سہتے آخر انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے۔بے اولادی،بانجھ پن اور بنجر پن کے سارے اشتہار اپنے بدن پہ لگوا کے یہ عورت زیست اس لیے کر جاتی ہے کہ وہ بدن کی دیوار پہ طلاق کا لفظ نہیں لکھوانا چاہتی۔وہ مار کھاتی ہے،ہڈیاں تڑواتی ہے،بھوک سہتی ہے،نفس مارتی ہے،زندہ جلائی جاتی ہے،چھپ چھپ کے روتی ہے،طعنے سنتی ہے،سب اذیتیں،ساری ذلتیں وہ اس لیے سہہ جاتی ہے کہ وہ طلاق نہیں چاہتی۔آخر طلاق ان تمام اذیتوں پہ بھاری کیوں ہے؟حالانکہ اس کا حق تو عورت کو مذہب اور قانون دونوں نے دیا ہے؟جواب سادہ سا ہے کہ سماج نے طلاق کے تصور کو اتنا بھیانک بنا دیا ہے کہ عورت خودکشی تو کرجاتی ہے مگر طلاق کے تصور سے بھی کانپتی ہے۔ہم نے سبھی آسانیاں مرد کے لیے رکھی ہیں۔وہ کچھ بھی کرے ہم اس کی مذمت نہیں کرتے۔ ہمارے سماج میں عورت کے لیے کوئی معیار نہیں کہ اگر وہ خود بہت مہذب،دانش مند اور شائستہ ہے تو اس کے لیے مرد بھی ایسا ہی ہو۔اور جب ایسا نہیں ہوتا تو تب بھی ہم اسی سے سمجھوتے کی توقع کرتے ہیں۔وہ اگر ذہین ہے تو اپنی ذہانت ختم کرلے۔اگر دانش مند ہے تو اپنی دانش کو آگ لگا دے۔مر د عدم تحفظ کا شکار ہو جائے تو بھی عورت کی شامت آتی ہے۔وہ جس بلندی پہ اسے نظر آتی ہے وہاں سے اسے نیچے لانے کے لیے تگ ودو کرتا ہے،اس کی ٹانگیں کاٹتا ہے۔ہمارے سماج کا مرد خود سے بہتر عورت کو نیچا دکھانے کے لیے یہ کیوں نہیں کرتا کہ اس سے بلند ہوجائے؟
آخر عورت کی ٹانگیں کاٹ کے اسے نیچے لانے میں ہی اس کی تسکین کیوں ہے؟
پڑھی لکھی اور ذہین عورت کی متاہلی زندگی عام عورت کے مقابل کئی گنا مشکل اسی لیے ہے کہ اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔وہ جتنا بھی خود کو مار لے،مٹا ڈالے،سمجھوتے کرلے،مرد اس سے پھر بھی غیر محفوظ ہی رہتا ہے اور یہ عدم تحفظ اس کو طرح طرح سے عورت کو ستانے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ہمارے ہاں علمائے سو اکثر ایک حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ ’’مرد عورتوں پر فائق ہیں‘‘
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں،اعتراض ہے تو صرف اس کی تشریح پر ہے۔مرد عورت پر فائق ہے مگر میرٹ اس کی شرط ہے۔جس طرح ہمارے ہاں اس آیت کی تشریح کی جاتی ہے اس حساب سے کیا میں یہ کہوں کہ میرے دفتر کے نائب قاصد،چپڑاسی،جاروب کش ،شبراتی کنجڑا اور صلابتی مسلی بھی مجھ پہ فائق ہیں کہ انہوں نے ماں کے پیٹ سے مردانہ اعضاء کے ساتھ جنم لیا ہے،تو یہ ایک بھیانک مذاق ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مجھ پہ فوقیت اسی کو ہے جس کا علم،عقل،وجدان،شعور اور تجربہ مجھ سے بہتر ہے۔اور اس کی فوقیت کو میں بھی تسلیم کروں گی۔مطلق یہ کہہ دینا کہ مرد عورت پر فائق ہے ۔یہ بات قرین قیاس نہیں ہے۔تو یہی ہمارے معاشرتی رویے ہیں جنہوں نے طلاق کو ،جو کہ بعض اوقات ایک سہولت بھی ہے ،ایک قباحت بنا دیا ہے۔سبھی سوال عورت سے کیے جاتے ہیں۔ہمدردی کا اظہار بھی اسی سے کیا جاتا ہے۔اور کردار کشی بھی اسی کی ہوتی ہے۔نکاح کا فائدہ مرد کو تھا۔طلاق کا نقصان عورت کوہے۔عورت کو طلاق ہوجائے تو بھی لوگ اس کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں،سسرال اور شوہرکے پاس معقول ترین بہانے ہوتے ہیں،اور کچھ نہ سہی مرد اتنا ہی کہہ دے کہ وہ بدکردار تھی تو کافی ہوجاتا ہے۔اس کے بعد پھر کوئی تحقیق نہیں کرتا ۔کہ اس معاملے میں تحقیق کرنا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔اور اگر کوئی عورت طلاق لے یا خلع کا دعوی کردے تب تو اس پہ لازمی بدکرداری کا الزام آتا ہے۔ایسی صورتحال میں مرد کو مظلومیت دکھانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔اس سب میں ہم سب شامل ہیں۔بلکہ پہلا قصور اس میں والدین کا ہے جو بیٹیوں کو زمانہ شناسی کا موقع نہیں دیتے،گھٹن اور پابندیوں میں رہ کے لڑکی کبھی آدم شناس نہیں بن پاتی ،یہی وجہ ہے کہ بہت سی پسند کی شادیاں بھی ناکامی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔چوری چھپے کسی ایک لڑکے کے ساتھ رابطہ،خفیہ ملاقاتیں،خواہش کی شدت ،اور شادی کی جلدی یہ سب عوامل مل کے ایک ناکام رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں۔جب کہ محبت ایک طویل پراسیس کا نام ہے۔جس میں فریقین کے سامنے ایک دوسرے کی سبھی خوبیاں اور خامیاں آجائیں۔ایک دوسرے کے مزاج کا اندازہ ہوجائے اور پھر انسان اس بات کا تخمینہ بھی لگائے کہ وہ دوسرے فرد کی خاطر اپنی کتنی خواہشوں کی قربانی دے سکتا ہے،کتنی جگہوں پہ ہتھیار ڈال سکتا ہے،اور کتنے رویے ہیں جو فریق ثانی کی رفاقت کی خاطر چھوڑے جا سکتے ہیں۔اور یہ سب دونوں طرف سے ہو۔اس پہ وقت لگتا ہے،مگر ہمارے ہاں چونکہ یہ تربیت ہماری اخلاقی قدروں کے خلاف سمجھی جاتی ہے اس لیے ہماری پسند کی شادیاں بھی اکثر طلاق پہ منتج ہوتی ہیں۔کیونکہ وہ جلدی میں ابھرنے والی خواہشوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔دوسری طرف جو شادیاں ماں باپ کرتے ہیں،اس میں سمجھوتے زیادہ ہوتے ہیں۔اور یہ سمجھوتے بھی لڑکی کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے ،لڑکا شادی کے لیے تیار نہیں پھر بھی لڑکے اور لڑکی کے ماں باپ شادی پہ مصر ہیں۔لڑکے کو اگنور کیا جاتا ہے اور لڑکی کو سمجھایا جاتا ہے۔ بیٹی تم ہمت سے کام لینا۔کب تک ایسا کرے گا۔آخر ایک دن تمہارے پاس ہی آئے گا۔حوصلہ رکھنا،صبر کرنا وغیرہ وغیرہ۔میں یہ نہیں کہتی کہ یہ سب وعظ و نصیحت غلط ہے۔میں صرف یہ کہتی ہوں کہ آخر ایسی کون سی مجبوری ہے کہ زبردستی دو لوگوں کو اذیت دی جائے۔جو غیر مطلوبہ بیوی ہے کیا وہ اذیت میں نہیں؟جو زبردستی شوہر بنا دیا گیا ہے کیا وہ اذیت میں نہیں؟ہم بطور ایک معاشرتی اکائی کے آخر کیوں زبردستی کے کاموں کو ثواب سمجھتے ہیں؟پوری زندگی سمجھوتوں کی چکی میں پس کے آنے والی مائیں پھر ایک بار اپنی بیٹیوں کو سمجھوتوں کی نذر کردیتی ہیں۔ان سب رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
طلاق کوئی ایسی بھیانک چیز نہیں جیسی اسے سمجھ لیا گیا ہے۔اور پھر عورت کے حق میں کچھ زیادہ ہی بھیانک سمجھ لیا گیا ہے۔جہاں ہمارے سماج میں عورت کا بدن پہلے ہی گالی ہے۔ہر جنسی چھیڑ چھاڑ کی ناگفتنی کسی نہ کسی عورت کے مقدس وجود کے ساتھ منسوب ہے اسی طرح طلاق بھی ایک گالی کے طور پہ دی جاتی ہے۔بانجھ پن بھی ایک گالی ہے،بیوگی بھی ایک گالی ہے،اور یہ سبھی گالیاں عورت کے لیے ہیں۔مرد ان میں سے کسی ایک کا بھی سزاوار نہیں،حالانکہ وہ ان میں سے ہر مسئلے کا شریک ہے۔نہ صرف شریک ہے بلکہ ماخذ اور منبع بھی ہے۔متذکرہ بالا بہت سے مسائل کی وجہ بھی ہے۔پھر بھی اس کے لیے گالی نہیں،اس کے لیے مذمت کا کوئی ایک لفظ نہیں،یہی وجہ ہے کہ مرد کو کبھی اپنے کیے کی شرمندگی نہیں ہوتی۔بلکہ وہ اس پہ اکثراوقات نازاں رہتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے کسی بھی کرتوت کے بھیانک نتائج عورت کو بھگتنے ہیں اسے نہیں۔خمیازہ عورت کو اٹھانا ہے اسے نہیں۔ان رویوں میں ہم کسی حد تک کمی لا سکتے ہیں اگر چند چیزیں سیکھ لیں۔
یا تو ہم طلاق یافتہ لڑکی کو برا سمجھنا چھوڑ دیں۔ یا ہم طلاق دہندہ مرد کو بھی برا سمجھیں۔
کہیں نہ کہیں انصاف کا کوئی پہلو ہونا لازم ہے۔ہوتا یہ ہے کہ ایک طلاق دہندہ مرد کو پھر بھاگ کے بیٹیوں کے رشتے دینے لگتے ہیں،تب لوگوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہجوم سے بھری بس میں کوئی نشست خالی ہوگئی ہے۔اور ہر ایک کھڑے آدمی کی کوشش ہے کہ اس پہ پہلے وہ بیٹھے۔اگر ہم ایسے لوگوں کی مذمت نہیں کریں گے جو جہیز کی کمی،یا اپنی ناقص جسمانی کارکردگی،کی بنیاد پر کسی معصوم لڑکی کی زندگی کو داغدار کرتے ہیں تو یہ سلسلے چلتے رہیں گے۔ہمیں اس تربیت کی ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ ہر گناہ اور غلطی کا بوجھ عورت کے کندھے پر نہ لادیں،بلکہ اس کے شریک کی بھی مذمت کریں۔ہم بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کے کردار پر بھی دھیان دیں۔کیونکہ یہ صحتمند معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے۔اگر ایک سماج کی سبھی مائیں خوفزدہ ،رسموں رواجوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی،سکڑی سمٹی اور سہمی ہوئی ہوں گی تو وہ سماج خود کیسا ہوگا؟
کیا آپ نے یہ کبھی سوچا ہے؟ کہ جس عورت کے رحم میں آپ کا نطفہ انسانی شکل میں ڈھل رہا ہے،وہ آپ ہی کی ستم گزیدہ ہے،تو وہ کیسی نفسیات کے بچے کو جنم دے گی؟
جن بچوں کی ماؤں کو ہم نے اس وقت ذہنی اور جسمانی اذیتیں دیں جب وہ ماؤں کے پیٹ میں تھے تو ہم ان بچوں سے کیونکر توقع کریں کہ وہ بڑے ہوکر عمدہ اخلاق کے مالک بنیں گے۔ہم ایک گھٹیا بنیاد کے اوپر ایک مضبوط عمارت کیسے استوار کرسکتے ہیں؟
ہمارا کام صرف سوال قائم کرنا ہے۔
ان سوالات کے اوپر سوچنا آپ سب کی ذمہ داری ہے۔