(رابی وحید)
عورت سماجی صورتِ حال سے الگ تصور کی جاتی ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ عورت خود اپنے کردار کو کس طرح سمجھتی ہے؟ مرد سماج میں عورت اپنے کردار کو کچھ اسی قسم کا قبول کرنے کو تیار ہوتی ہے جس طرح کا کردار مرد سماج نے اُسے دے رکھا ہے۔ عورت کا سماجی کردار ظاہری بات ہے اُس کے سماج نے بنایاہُوا ہے، جس طرح مرد ، بوڑھے یا بچے کا کردار سماج تربیت دیتاہے۔ سماج کا پہلا ادارہ عورت کا گھر ہوتا ہے۔
گھر میں ایک بچی کس طرح تربیت پاتی ہے؟ یہ بہت دلچسپ اور مطالعہ کن تحقیق ہے۔ میں نے کہیں ایک انگریزی ماہر نفسیات کو پڑھا تھا کہ بچہ سب سے زیادہ اپنے قریبی افراد سے سیکھتا ہے یعنی اُس کی تربیت کا پہلا مرکز اُس کی ماں ہوتی ہے۔ جس طرح ماں اُس کی جسمانی تربیت کر رہی ہوتی ہے بالکل اُسی طرح ایک باپ بھی اُس کی نفسیاتی ذہن سازی میں کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بہن بھائی بھی ایک بچے (خصوصاً بچی) پر اثرانداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ماں کا کردار سب سے اہم ہے۔ مڈل کلاس گھرانوں میں بچی کی تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ تربیت سے مُراد مخصوص قسم کی ذہنیت کا ادراک ہے۔ یہ ذہنیت ماں اپنے ذہن میں پہلے سے رکھے ہوتی ہے۔ ماں بچی کو بتاتی ہی نہیں بلکہ سکھاتی بھی ہے کہ تم ایک عورت ہو اور ہمارے سماج میں ایک عورت کیا ہوتی ہے وہ تمھیں سیکھنا ہے۔ پھر اُس کے بہن بھائی جو اسی ماں کے پروردہ ہوتے ہیں بچی کو سمجھاتے ہیں کہ تم یہ یہ کر سکتی ہو اور یہ یہ نہیں کر سکتی۔ یہ یہ عورت کی حدود ہیں اور یہ یہ مرد کی حدود۔ بچی خود بخود ہی اپنے اردگرد ایک لکیر کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔
ماں کا کردار بہت قابلِ مذمت ہے۔ ظاہری بات ہے اُس ماں کا قصور نہیں کیوں کہ اُس ماں (عورت) نے خود سماج کے حوالے سے اسی قسم کی تربیت لی ہوئی ہے جو وہ اپنے بچوں کو سکھانے یا اُس پر پابند کرنے میں حق بجانب ہے۔ مائیں بچیوں کوبتاتی ہیں کہ تم ایک جنسی سراپا ہو۔ اپنے دوپٹوں، اپنے کپڑوں کو سنبھال کے رکھوں ورنہ کوئی غیر مرد تمھیں ’’اُچک‘‘ لے گا۔ اسی طرح شرم و حیا اور سماجی مردانہ اخلاقیات اُسے ازبر کروا دی جاتی ہیں۔
میں خود ایک عورت ہوتے ہوئے ان تمام مشاہدات کو اپنے ساتھ دیکھ چکی ہوں۔ہماری مائیں، چچیاں، دادیاں اور خالائیں ہماری ہر حرکت پر نظر رکھتیں اور سمجھاتیں کہ تم ایک عورت ذات ہو، تمھیں یوں گھومنا، اچھلنا کودنا یا بڑھ بڑھ کے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ وہ ہمیں باور کرواتیں کہ تم نے ایک خاوند کی مطیع کیسے ہونا ہے۔ وہ اپنے تجربات پیش کرتیں کہ ہم کیسے اپنے خاندنوں کے ساتھ خوش زندگی گزار رہی ہیں۔ایک اچھے خاوند کے اوصاف بتاتیں ۔ اور ایک اچھی عورت کو خاوند کے زیر سایہ شخصیت تعمیر کا درس دیتی۔ میری پھوپھو زادبہنیں( جو ہم سے کافی بڑی تھیں) یہیں کہتی کہ عورت کو اپنی ترجیحات میں محدود ہونا چاہیے تا کہ جب وہ اپنے’’ اصلی‘‘ گھر جائیں توانھیں کوئی پریشانی نہ ہو وہ خود بخود اپنے ’’میاں‘‘ کی مرضی میں ڈھل جائیں۔
باپ کا کردار سب سے زیادہ حیا اور غیرت کا درس دینے والا ہوتا ہے۔ مڈل کلاس خواتیں اپنے باپ کی موجودگی میں آنکھ اٹھا کے بھی ادھر ادھر نہیں دیکھ سکتیں۔باپ زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر اپنی بچیوں کو غیرت کا پہلا سبق پڑھواتا ہے۔ بچی جو آزاد اور بہت معصومانہ انداز سے ، اپنی جنسی بلوغت سے بے نیاز پرورش پا رہی ہوتی ہے، یک دم باپ اُسے احساس دلانا شروع کرتا ہے کہ اسے کپڑے اس ڈھنگ کے پہنواؤ اور اسے بازار نہ جانے دیا کرو۔ وغیرہ وغیرہ
(البتہ میں اپنے باپ کی طرف سے اس قسم کے تصورات سے کافی حد تک آزاد رہی شاید یہی وجہ ہے کہ میرے اندر صنفی انتہا پسندی نہیں)
یہ تو ابھی پورے سماج کاصرف ایک ادارہ یعنی گھر ہے۔جس میں ہر فرد عورت کو عورت بنانے میں کردار ادا کر رہا ہوتا ہے پھر اس کے بعد دیگر سماجی ادارے جیسے تعلیمی ادارے، خاندان،شادی یعنی خاوند کا کردار، اخبارات، میڈیا اوردینی اخلاقیات وغیرہ عورت کو عورت بنانے میں اگلے مرحلے پر ملتے ہیں۔ اس مرحلے تک عورت بہت حد تک’’ عورت‘‘ بن چکی ہوتی ہے۔
عورت کی شخصیت کو مسخ کردینا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا اسی طرح مرد بھی تربیت پاتے ہیں۔ مرد سماج میں اخلاقیات کا معیار دوغلا اور منافقت سے بھرا ہُواہے۔ ایک بلوغت کو چھوتا لڑکا زیادہ سے زیادہ آزاد ہوتا جائے گا مگر عورت اُسی تناسب سے محدود ہوتی جائے گی۔
عورت کو معافی کی کوئی گنجائش نہیں دی جاتی جبکہ مرد خطاؤں کا مرکز مان لیا جاتا ہے۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ تربیت ضروری نہیں اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عورت کے عورت پن کی آڑ میں عورت کا استحصال بند ہونا چاہیے۔ عورت اس قسم کی تربیت سے سماج میں کوئی متحرک کردار ادا نہیں کر پارہی۔ سماج میں جا کے اپنا کردار ادا کرنا تو دور کی بات وہ تو اپنے دیور، جیٹھ سے ہی گھبرائے رہتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں جا کے بھی اُس کے اندر کا خوف یعنی عورت ہونے کا خوف اُسے کچھ نہیں کرنے دیتا۔
وہ جلد از جلد اپنے کردار کو محدود کر دینے پر اکتفا کرنا چاہتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ یونہی وہ تعلیم مکمل کرتی ہے یا شادی کے بندھن میں بندھتی ہے فوراً ایک عورت کا ’’محدود‘‘ کردار قبول کرنے لگتی ہے۔ اُسے یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے یا فلاں فلاں صلاحیتیوں سے مالا مال ہے مگر اُسے سکھایا گیا عورت پن کا پہلاسبق سب پر حاوی ہو جاتا ہے۔
یقیناً ہمارے ہاں نوے فیصد سے زائد خواتین جنہیں ہر حال میں ایک دن ماں بننا ہوتا ہے بھلے وہ کسی بھی ورکنگ شعبے سے تعلق کیوں نہ رکھتی ہوں ۔۔۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ ان لڑکیوں نے ایک دن مان بننا ہے تو کیا ہمارا تعلیمی نظام اور اہل علم (جو نصاب منتخب کرتے ہین ) اس نصاب کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتا جو انہیں ایک اچھی ماں بننے کا حوصلہ اور سبق دے سکے۔۔۔ ہم سب کچھ صرف حالات پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔
اس ضمن مں لکھا گیا اچھا مضمون ۔۔۔۔ خوش رہیئے