(منزہ احتشام گوندل)
ہمارے قدیم شعراء نے محبوب مجازی کی خوبی اور صفت بیان کرنے میں انتہائی غلو سے کام لیا ہے۔ حافظ شیرازی، فردوسی، انشاء، جرأت، مصحفی وغیرہ نے تو محبوب کو خدا اور حسن و خوبصورتی میں کائنات سے کہیں برتر و اعلیٰ ثابت کر کے دم لیا۔ جہاں سعدی شیرازی نے عورت کے حسن میں کچھ اس طرح سے قلابے ملائے ہیں کہ محبوب کی قامت لاکھوں کو قتل کر سکتی ہے۔ اس کے لب و دہن قاتل ہیں۔ سر اس کے قدموں میں قربان، سمرقند و بخارا سارا محبوب کا مال غنیمت ہے۔ دونوں جہاں دل سے نکال دیئے ہیں تاکہ محبوب اندر آ سکے لیکن دل پھر بھی تنگ ہے اور اگر وہ خورشید کی مجلس میں بھی بیٹھے تو ممکن نہیں کہ خورشید اس کی برابری کر سکے اور اگر دنیا کا ظہور نئے سرے سے ہو تب بھی محبوب جیسا حسین جنم نہ لے سکے، ملاحظہ کیجئے چند مثالیں۔
حافظ نے محبوب کے رخسار کے تل پہ سمرقند و بخارا کو قربان کر ڈالا ہے۔ فرماتے ہیں:
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخالِ ہندوش بچشم سمرقند و بخارا را
نیز ان شعراء نے اس حد تک مغز ماری کی ہے کہ الاماں والحفیظ۔ یہ قدماء فارسی کے تھے یا اردو معلی کے، یا پھر مقامی زبانوں کے شاعر تھے۔ ہر ایک کے ہاں عورت کی تعریف کرنے کی روایت کم و بیش ایک جیسی تھی۔ اس معاملے میں عرب بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ بلکہ حافظ، ابو العلا معری، متبنی وغیرہ نے بھی محبوب مجازی کی تعریف میں قلم توڑے ہیں۔ لیکن جب سے ادب میں ترقی پسندی کی روایت داخل ہوئی ہے ہماری شاعری کے قدیم موضوعات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اور قدیم روایتی موضوعات کی جگہ مسائل نے لے لی ہے۔
لیکن ان سب سے ہٹ کر ہم صرف اس حقیقت پر بحث کریں گے کہ وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جس نے آج کے اور آج سے کچھ عرصہ پہلے کے شاعروں سے عورت کے حسن و جمال کی تعریف کا حق چھین لیا ہے تو اس کی جہاں اور کئی وجوہات ہیں وہاں پہلی وجہ یہ ہے کہ:
بہت پہلے عورت باپردہ تھی۔ وہ زیادہ تر گھر کا حصہ ہوا کرتی تھی اور معاشرے میں کہیں کہیں طوائف کا وجود تھا اور چونکہ طوائف کا کام ہی اپنے عشاق کے دلوں کو لبھانا اور گرمانا ہے۔ اس لئے جہاں گھر داری میں گھریلو عورت کو سجنے سنورنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ گھر کے طرح طرح کے معاملات اور بکھیڑوں میں الجھ کر وہ اپنے بناؤ سنگھار اور ناز و انداز سے بیگانی ہو چکی تھی وہاں طوائف کا کام ہی یہی تھا۔ وہ ہر وقت بناؤ سنگھار کر کے بنی ٹھنی نظر آتی۔ طرح طرح کے ناز و انداز اور الفاظ و خیالات کے اسلحہ سے مسلح اپنے عشاق کے دلوں کو مٹھی میں کرنے کے لئے ہمہ وقت میسر ہوتی۔ یوں گھریلو عورت اور طوائف زادی کے درمیان ایک واضح فرق آ گیا تھا اور طوائف جو بلاشبہ معمولی شکل و صورت والی ہوتی لیکن اپنے ماحول اور ہار سنگھار کی بناء پر وہ زیادہ بھلی اور خوش نما معلوم ہوتی اور گھریلو عورت اپنی سادگی کی وجہ سے روکھی پھیکی ہو چکی تھی۔ اس لئے مرد جب طوائف کو دیکھتے تو اسے نہایت خوبصورت اور پری شمار کر لیتے ۔ اوریہ طوائف زادی اس دور کے مردوں کے لئے خاصے کی چیز ہوا کرتی تھی اس لئے جہاں تک ممکن ہوتا وہ اس کے حسن میں مبالغہ کرتے اور بہت آگے تک پہنچ جاتے۔ اور آج جبکہ بازاری عورت اور عام عورت کی سج دھج میں کوئی فرق نہیں رہا۔ آج گھریلو عورت کا بھی وہی رکھ رکھاؤ ہے جو طوائف کا یا فلمسٹار کا ہے۔ عورتیں اپنے بناؤ سنگار کا حق استعمال کرنے لگی ہیں۔ اس لئے اس دور کے ادیب کو طوائف کے اندر کوئی نئی بات نظر نہیں آتی اور اس طرح شاعری محض ایک عورت کے لباس، میک اپ، ہار سنگھار، بناؤ زیورات سے ہٹ کر موجودہ حالات، واقعات، احساسات کی طرف مڑ گئی ہے۔ دوسرا میڈیا کا بھی اس تبدیلی میں بڑا عمل دخل ہے۔ میڈیا نے خوبصورت، رنگ برنگی، حسین و جمیل اور نازک عورتوں کو گھر گھر آشناکروا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج کا مرد یا شاعر نہ تو محبوب کی وہ تعریف و توصیف کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ناز و انداز اور بے اعتنایوں کو شاعری کا موضوع بناتا ہے، بلکہ آج کے شاعر کی نگاہ یا توجہ مطلقاً عورت کے کردار اس کے ذہنی رویے، سوچ اور شعور کی طرف مڑگئی ہے اور یہ موجودہ دور اور موجودہ سوچ و فکر کا تقاضا بھی ہے۔ اب نسائی جذبوں کو پروان چڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ آج سے پہلے کی عورت جذبوں کے حوالے سے ایک پتھر کی طرح سمجھی جاتی رہی ہے کہ جیسے اس کے اندر کوئی خواہش کوئی جذبہ ہی نہیں، اور اس دور کی عورت کے لئے جذبوں اور خواہشات کا اظہار کسی گناہ سے کم نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اظہار و بیان کا مکمل اختیار مرد کے ہاتھ میں تھا، اور مرد کا یہ اظہار مبالغہ آرائی کی حد تک پہنچ چکا تھا ،کیونکہ جواباً عورت ایک خاموش سامع سے زیادہ کچھ نہ تھی، اور قیل و قال کی تمام تر آزادی مرد کو حاصل تھی، کہ وہ عورت کو ظالم، بے وفا، بے مروت، بد لحاظ، اپنے معشوقوں کے ناز نخرے اٹھانے والی اور عاشقوں کے دل کچلنے والی منافق عورت کہے یا اس کے حسن کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائے اور اسے مشتری و ثریا کا ہمنواکر دے۔ وہ ہر طرح سے اس کی شخصیت کو بنانے سنوارنے یا اس کی دھجیاں اڑانے کا اختیار رکھتا تھا۔
حالانکہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عورت ہر دور میں مرد سے لاشعوری طور پر دبتی آئی ہے۔ اگرچہ وہ طوائف زادی ہے اور ایک زمانہ اس کے اشارہ ابرو پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ مگر دوسری طرف اسے گھر داری اور زوجیت کا تقدس حاصل نہیں۔ بیشک وہ لاکھ چاہنے والوں کے درمیان ہے۔ دولت و دھن اور حسن و جمال اس کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہیں۔ اس کے باوجود وہ زندگی کی اس حقیقی نعمت سے محروم ہے جو ایک متاہل زندگی گزارنے والی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عورت فطرتاً گھر داری اور متاہل زندگی کو پسند کرتی ہے کیونکہ وہ پیدا ہی گھر کے لئے کی گئی ہے۔ وہ جہاں بھی ملازمت کر رہی ہو ملازمت کے مقررہ وقت کے بعد اپنے گھر ہی لوٹتی ہے۔ اور ملازمت کرنے کا مقصد بھی اپنے گھر کو زیادہ سے زیادہ بنانا، سنوارنا اور وسائل پیدا کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے قدماء نے عورت کی زندگی کا صرف ایک پہلو دیکھا اور دکھایا ہے۔ دوسرے پہلو کی طرف دیکھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ محبوبہ یا معشوقہ کو، دغا باز، طالم، سنگدل کہتے آئے ہیں جو عاشقوں اور دیوانوں کے دل پکڑ کر مسل ڈالتی ہے۔ لیکن اس پہلو پر کبھی طبع آزمائی نہیں کی وہ اتنے چاہنے والوں کے درمیان کس طرح مساوات قائم کر سکتی ہے۔ یا یہ کہ وہ اس زندگی سے کس قدر بیزار ہے اور اس کی تنہائی کس طرح گزرتی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر گھر داری کے لئے کس قدر درد مند ہے۔ وہ تنہائی میں کیا کیا سوچتی ہے اور گھریلو زندگی کے لئے کتنا تڑپتی ہے۔ اس پہلو پر اگر کسی ادیب نے لکھا ہے تو وہ ’’مرزا ہادی احمد رسوا‘‘ ہیں جن کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ میں طوائف کی زندگی اور اس کی قلبی کیفیات کے مکمل نمونے ملتے ہیں۔ اس سے بعد کے ادیبوں میں ’’سعادت حسین منٹو‘‘ اور ’’امرتا پریتم‘‘ ہیں۔ جنہوں نے عورت کی زندگی کی مختلف جہتوں پر طبع آزمائی کی ہے۔مگر یہ ادب کی دوسری اصناف ہیں۔ ہم شاعری کی بات کر رہے تھے۔
شاعری میں شروع دن سے جو روایت پڑی ہے وہ نہایت آہستگی سے شعور کی منزلیں طے کرتے کرتے آج کے دور تک موجود ہے۔ مگر قدماء کے مقابلے میں متاخرین نے عورت کی خارجیت کو ہی نہیں دیکھا بلکہ اس کے باطن کے اندر جھانک کر اس کے کرب کو بھی دیکھا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی، پروین شاکر، ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، وغیرھم کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
پروین شاکر نے جہاں ’’بشیرے کی گھر والی‘‘ کی طرح نظمیں لکھ کر نسائیت کا حق ادا کیا۔ وہاں ’’امرتا پریتم‘‘ نے ’’آج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ لکھ کر اپنے حصے کی عورت کی بھرپور وکالت کی۔
ساغر صدیقی جہاں کسی غریب کے جھونپڑے کے اندر سسکتی بلکتی بیٹی کی پکار سنتا ہے اور کہتا ہے
کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو
خزاں کے پتوں کی جھانجھروں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے
وقار یزداں نہ حسن عالم، ضمیر انسان بدل گیا ہے
کہیں مشیت پہ نیند طاری کہیں معیشت تڑپ رہی ہے
تو وہاں پروین شاکر نے اپنی زبان سے یوں عورت کا کرب بیان کیا ہے۔
کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھوں سے اس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آؤں گی
عورت کی روایتی شرم و حیا اب بھی قائم ہے لیکن وہ سکڑی، سہمی اور خائف عورت اب نسائی ادب سے خارج ہو چکی ہے۔ نسوانی کمزوریوں اور خصوصیات کے ادراک کے ساتھ ساتھ اب عورت کے اندر حق خود ارادیت بھی جاگ رہا ہے۔ کیونکہ آج کی عورت جہاں ظلم سہتی ہے وہاں اس کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ اس پہ ظلم ہو رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے کی عورت ظلم کو اپنی زیست اور مقدر کا حصہ سمجھ کر قبول کرتی آئی ہے۔مگر اب فکری کینوس بدل چکا ہے۔اب عورت کو بہلاوا دینا اتنا آسان نہیں رہا۔اور نہ ہی ادب کا موضوع وہ گڑیا نما عورت ہے جو مافوق الفطرت داستانوں کی ہیروئن ہوا کرتی تھی۔بلکہ ٓاج کے ادیب کی ہیروئن نزیراں ،بشیراں ہے