عورت کے معاملے میں مرد کا رویہ
از، سمیرا کیانی
عموماً مردوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ’’یومِ خواتین ‘‘منایا جاتا ہے تو ہمارا دن کیوں نہیں؟’’حقوقِ تحفظِ نسواں بل‘‘ منظور ہوتا ہے تو ہمارا کیوں نہیں؟تو اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ یہ مردوں کی دنیا ہے۔یہاں ان کا طوطی بولتاہے۔ہر دن ہی مردوں کا دن ہوتا ہے۔ عورت کا دن تو سال میں صرف ایک ہوتا ہے ۔وہ بھی صرف سیمیناروں اور میڈیا کی حد تک۔گھروں میں اس دن بھی حقیقت میں وہ ہی حکمران ہوتے ہیں۔اس وجہ سے کہ وہ جسمانی طور پر طاقتور ہوتے ہیں۔اس کی کوئی عزت نہیں لوٹتا جبکہ عورت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ لٹیروں سے خود کو بچا بھی نہیں پاتی اور چادر میلی کرا بیٹھتی ہے۔عورت کی اس فطری کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرد وں کا یہ دانا سماج اسے’’ صنفِ نازک‘‘کے لقب سے آراستہ کرتا ہے۔جس کا ایک نفسیاتی اثر عورت پر یہ پڑتا ہے کہ وہ خود کو نرم و نازک اور چھوئی موئی سی سمجھنے لگتی ہے اور مرد کی برتری کا دلی طور پر اعتراف کرتے ہوئے سر تسلیمِ خم کر لیتی ہے۔
عورت کے معاملے میں مرد کا رویہ ازل ہی سے تضاد کا حامل رہا ہے۔اپنے پہلو میں عورت کو سلائے بغیر اسے نیند نہیں آتی اور بیوی کی گود میں یہ صنف دیکھ کر وہ انگاروں پر لوٹتا ہے۔اس لئے زمانہء جاہلیت میں اسے زندہ درگور کر کے بیوی کی گود سونی کردیتا تھا اور سرِ بازار اسی جنس کی بولی لگاتا تھا۔ہادئ دیں ؐ نے ان بے ہودہ افعال کو روکا۔بیٹی کو رحمت قرار دیتے ہوئے جائیداد و وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا۔یہ تو ہم عموماً سنتے ہیں کہ ہر بچہ اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتا ہے مگر داناؤں کا مشاہدہ ہے کہ بیٹیاں اپنے ساتھ صرف اپنا ہی رزق نہیں لاتیں بلکہ ان کی برکت سے پورے گھر میں خوشحالی و کشادگی آتی ہے۔اس کے علاوہ رحمت اللعالمین ؐ نے بیٹیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والوں کے لئے آخرت میں اعلیٰ مقام و مرتبے کی بشارت دی ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
سائنسی تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش میں عورت نہیں مرد فعال عامل ہوتا ہے۔پہلی عورت حوا کی تخلیق خالقِ کائنات نے مرد کی پسلی سے کی اور ابد تک ہر عورت کی تخلیق کا بنیادی عامل مرد ہی ہے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ یہ اپنے اس عمل پر نادم ہوکر بیوی کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔بدلے میں کہیں اسے طلاق کا عندیہ دیتا ہے ؛ کہیں سوتن کے عذاب میں مبتلا کرتا ہے؛کہیں اس کے نازک وجود سے آٹھ آٹھ دس دس نازک وجود خلق کراتا ہے ۔مطلوبہ صنف کی بجائے غیر مطلوبہ صنف کی کثیر تعداد جمع کر لیتا ہے۔ایسے مرد عموماً آرام پسند ہوتے ہیں اور اپنی پانچ پانچ چھ چھ سال کی معصوم بچیوں کو خوشحال گھرانوں میں بطور ماسی بھجوا دیتے ہیں۔یہ ننھی منی بھوکی پیاسی ماسیاں امراء کے بچوں کو سنبھالتی،کھلاتی ہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما صورت اس وقت پیش آتی ہے ۔جب ان کے سامنے پر تکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انہیں اس سے محروم رکھ کر صرف بچہ سنبھالنے کا کہا جاتا ہے۔ایسی صورت میں وہ محرومی کا ازالہ چھوٹی موٹی کھانے کی چیز چرا کر کرتی ہیں۔ پسماندہ اور ناخواندہ خاندانوں میں اس کی مظلومیت کی تصویریں ہم سب نے عموماً دیکھی ہیں ۔کہیں کم سنی میں اسے خوں بہا میں دیا جاتا ہے ۔کہیں وٹے سٹے کی شادیوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔کہیں غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔کہیں خاندانی جائیداد بچانے کے لئے اسے شادی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ان عمومی تصویروں کے ساتھ ساتھ دورِ حاضر ،اس کی ایک نئی اور خصوصی تصویر پیش کرتا ہے۔یہ تصویر ملازمت پیشہ خاتون کی ہے جو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اور کسی پر بوجھ نہ بننے کے لئے چار دیواری سے باہر قدم رکھتی ہے۔اپنی مدد آپ کے تحت پڑھ لکھ کر بر سرِ روزگار ہو جاتی ہے تو باپ ساری نیکی اپنے کھاتے میں لکھواتے ہوئے کہتا ہے ’’میں نے تمہیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔‘‘ جب اس با پ نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے جو اٹھتے بیٹھتے بچپن سے اسے یہ سناتا رہا ہے کہ’’ میری جائیداد و وراثت میں تمہارے لئے کوئی حصہ نہیں۔تم دس بہنیں ہو اگر تمہیں حصہ دے دیا تو میرے بیٹوں میری نسل کے لئے کیا بچے گا؟اس لئے میرے بعد بھائی سے حصہ لینے کا سوچنا بھی مت ۔ تمہیں جہیز کی بھی ضرورت نہیں ۔تمہیں پڑھا لکھا دیا یہی تمہارا جہیز ہے ۔‘‘
تو اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا احسان چکائے۔اس کے بغیر اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔معاشرہ کہے گا پرایا دھن تھا ۔باپ کو اسے پڑھانا نہیں چاہئیے تھا۔باپ کہتا ہے ’’ بیٹی کی کمائی پر پہلے باپ کا حق ہوتا ہے پھر شوہر کا۔‘‘ عورت کوئی گوشت پوست کا انسان تھوڑی ہے جس کے اپنے کوئی ارمان اور خواب ہوں گے۔جو ہمیشہ سے سنتی آئی ہے عورت کا کوئی گھر نہیں پہلا گھر باپ کا ؛دوسرا شوہر کا اور تیسرا بیٹوں کا۔اپنی خون پسینے کی کمائی سے بھی اسے ذاتی جائیداد بنانے کا کوئی حق نہیں۔کیا یہی ایک اسلامی اور مہذب معاشرہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ابھی قصہ یہیں تمام نہیں ہوا باپ بھائی اس کی شادی نہیں ہونے دیتے کیونکہ اپنے سونے کے انڈے دینے والی مرغی کسی صورت کسی اور کو دینا نہیں چاہتے۔وہ کنواری ہی ملازمت سے ریٹائر ہو جاتی ہیں عموماً لوگ کہتے ہیں سٹیٹس ہائی (status High) تھا۔آئیڈیل کی تلاش میں رہی ۔اس لئے کوری ہنڈیا کی طرح ٹوٹ پھوٹ کے پھر مٹی میں مل گئی۔‘‘
تو جناب ! مسئلہ سٹیٹس کا ہوتا ہے اور نہ آئیڈیل کا ۔مسئلہ ہوتا ہے تو تنخواہ کا اور اس سونے کے انڈے کا جو وہ ہر مہینے دیتی ہے۔وہ لوگ جو وراثت و جائیداد میں سے اس کا شرعی حق دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔اب اس کی شادی بھی نہیں ہونے دیتے۔وہ اپنے تمام ارمانوں
کو دل کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ’’ سٹینڈ لے لیا کرے‘‘۔اس اقدام کے بعد بھی وہ مردوں کی اس دنیا میں ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔نہ ادھر کی رہتی ہے اور نہ ادھر کی۔جس نہج پر اس کی پرورش و پرداخت کی جاتی ہے اختر شیرانی کی ’’حیات و حرمت و
مہر ووفا کی شان‘‘ یہ عورت ساری عمر ہی کنواری دوشیزہ رہتی ہے۔کوری ہنڈیا کی طرح ٹوٹ پھوٹ کے پھر مٹی میں مل جاتی ہے۔
سونے پر سہاگہ جدت پسند جامعات میں کچھ بہکے اور بھٹکے ہوئے اساتذہ سیمیسٹر سسٹم کی آڑ میں انہیں بھی بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔انکار کی صورت میں کمرۂ جماعت میں انہیں زبانی کلامی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو کچھ تھوڑ دلی اورکم ہمت طالبات اپنا مستقبل داؤ پر لگا کر اور لاکھوں روپے کا زیان کر کے گھر میں بیٹھ جاتی ہیں۔ نوکریاں کرنے نکلیں تو دل پھینک قسم کے مرد افسروں سے خوفزدہ ہو کے نوکریاں چھوڑ دیتی ہیں۔الامان و الحفیظ ! کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔
Boht aalaw true face of society