عہد نامہ قدیم و جدید میں خوشبو کا حوالہ
از، ڈاکٹر کوثر محمود
عہدنامۂ قدیم و جدید۳۲ میں خوشبو یا مہک کا پہلا بالواسطہ حوالہ حضرت اسحٰقؑ کا ملتا ہے ۔ وہ اپنے بیٹے یعقوب ؑ کے بارے میں کہتے ہیں،
’’دیکھو! میرے بیٹے کی مہک اُس کھیت کی مانند ہے جسے خداوند نے برکت دی ہو‘‘ *۳۳
فرانسیسی نسخے*۳۴کی عبارت یوں ہے؛ ’ترجمہ‘ ہاں!میرے بیٹے کی مہک ایک زرخیزکھیت کی مانند ہے۔‘*۳۵
دوسری مرتبہ اسی کتا ب میں خوشبو کا باقاعدہ حوالہ یوں ملتا ہے، جب حضرت یوسف ؑ کے بھائی اُنہیں گہرے گڑھے یا کنویں میں پھینک کر کھانا کھانے لگے تو انہوں نے ایک قافلے کو آتے ہوئے دیکھا؛
’’ اور وہ کھانا کھانے بیٹھے اور آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ اسماعیلیوں کا ایک قافلہ جلعاد سے آ رہا ہے اور گرم مصالح او رروغنِ بلسان اور مُرّ اونٹوں پر لادے ہوئے مصر کو لیے جا رہا ہے‘‘*۳۶
پھر اسی کتاب میں آگے ذکر ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ کے بیٹے دوسری مرتبہ غلّہ لینے کے لیے انپے بھائی یوسف ؑ کے پاس مصر جاتے ہیں تو اسرائیل (یعقوبؑ ) انہیں تاکید کرتے ہیں؛
’’ تب اُن کے باپ اسرائیل نے اُن سے کہا، اگر یہی بات ہے تو ایسا کرو کہ اپنے برتنوں میں اِس ملک کی مشہور پیداوار میں سے کچھ اُس شخص کے لئے لیتے جاؤ، جیسے تھوڑا سا روغنِ بلسان ، تھوڑا سا شہد ، کچھ گرم مصالح اور مُرّ اور پستہ اور بادام ۔۔۔‘‘*۳۷
بائبل کی خوشبوؤں کا فرداً فرداً اور تفصیلی ذکر تو آگے چل کر آئے گا لیکن اس آیت میں ذکر ہوا ’’ روغن بلسان‘‘ کا تو یہ کیا ہے؟روغنِ بلسان (انگریزی مترادف Balsam فرانسیسیBaume) بلسم، بلسان کے درختوں سے رِسنے والی خوشبو کو کہتے ہیں یا تارپین کے شفاف تیلوں میں سے کوئی ایک, جیسے کینڈی بلسم ، جو سفید ے سے حاصل کیا جاتا ہے اور اشیاء کو خوردبین کے شیشے پر رکھ کردیکھنے کے لیے کام آتا ہے۔ سدا بہار سرو یا صنوبر کی مختلف اقسام میں سے کوئی ایک، گلِ مہندی ، خوشبو دار مرہم یا روغن جو تقریبات میں استعمال کے لیے ہو یا بطور دوا استعمال میں آئے۔ *۳۸
یہ خوشبودار روغن بلسامینیسی خاندان(Balsaminaceae family) سے تعلق رکھنے والے پودوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔اس کی ۸۵۰ ذیلی اقسام ہیں،اس پر سال میں ایک مرتبہ پھول آتے ہیں۔*۳۹ بلسم کی رال(resin)کو کنفیکشنری(بیکری کی اشیاء،کیک،پیسٹری وغیرہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے،اسے کینیڈا بلسم بھی کہتے ہیں۔یہ عموماًوینزویلا،ایکواڈوراور برازیل میں پایا جاتا ہے۔بیکری کی صنعت کے علاوہ،خوشبو کی تیاری،کھانسی بلغم کے شربت میں بھی استعما ل ہوتا ہے۔
’جلعاد‘ کا بلسم مشرقِ وسطیٰ میں زمانۂ قدیم سے بطور خوشبواستعمال ہوتا رہا ہے،اسی بلسم کے بارے میں حضرت یعقوبؑ نے کہا تھا کہ عزیزِمصر کے پاس بطور تحفہ لے جاؤ۔جلعاد کے خالص ترین بلسم کو اوپابلسم(Opabalsam)یا مکّہ بلسم(Mecca balsam)کہا جاتا ہے۔اس کا رنگ اورشکل شہد کی طرح ہوتا ہے*۴۰
اسی آیت میں اگلا لفظ ’’کچھ گرم مصالح‘‘آیا ہے جس کا انگریزی مترادف a Little Labdnumاورفرانسیسی نسخے میں اس کامترادف de la gome adragante آیا ہے جس کا ترجمہ گوند کتیرایاTragacanthبنتا ہے*۴۱
اسی کتابِ پیدائش میں اگلا خوشبو کا حوالہ تب ملتا ہے جب یعقوبؑ کی وفات ہوتی ہے اور اُن کی لاش میں تدفین کیلئے خوشبو بھری جاتی ہے۔
’’ اور یوسف ؑ نے اُن طبیبوں کو اُس کے نوکر تھے اپنے باپ کی لاش میں خوشبو بھرنے کا حکم دیا۔ سو طبیبوں نے اسرائیل کی لاش میں خوشبو بھری اور اُس کے چالیس دن پورے ہوئے کیونکہ خوشبو بھرنے میں اتنے ہی دن لگتے ہیں اور مصری اُس کے لیے ستّر دن تک ماتم کرتے رہے‘‘*۴۲
آگے چل کر کتاب خروج میں خداوند نے موسیٰ ؑ کو فرمایاکہ جب بنی اسرائیل خداوندِقدّوس کے لیے نذر لائیں تو فلاں فلاں شے ہونی چاہیے،اُن اشیاء کی تفصیل میں ذکر ہے ؛
’’اور چراغ کے لیے تیل اور مسح کرنے کے تیل کیلئے خوشبو دار بخور کے لیے مصالح‘‘*۴۳
آگے چل کر خداوند نے موسٰیؑ کو مسح کرنے کے لیے تیل بنانے کا حکم دیا تو بنانے کی ترکیب بھی بتلائی اور اس تیل کو مقدس ٹھہرایا اور اس تیل کے استعمال کو مذہبی رسوم کے علاوہ ممنوع قرار دیا۔
’’ اور خداوند نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ تو مقدس کی مثقال کے حساب سے خاص خاص خوشبودار مصالح لینا، یعنی اپنے آپ نکلا ہوا مُر پانچ سو مثقال اور تج پانچ سو مثقال اور زیتون کا تیل ایک ’ہین(Hin)‘ اور تو اُن سے مسح کرنے کا پاک تیل بنانایعنی اُن کو گَندھی کی حکمت کے مطابق ملا کر ایک خوشبو دار روغن تیار کرنا۔ یہی مسح کرنے کا پاک تیل ہوگا‘‘*۴۴
عبادت گاہ میں جلانے والی خوشبو ’’بخور‘‘ بنانے کی ترکیب آگے چل کر یوں بتائی گئی،
’’ اور خداوند نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ تو خوشبو دار مصالح ، مُرّ اور مصطکی اور لَون اور خوشبودار مصالح کے ساتھ خالص لُبان وزن میں برابر لینااور نمک ملا کر اُن سے گندھی کی حکمت کے مطابق خوشبودار روغن کی طرح صاف اور پاک بخور بنانا ۔۔۔۔۔۔اور جو بخور تو بنائے اُس کی ترکیب کے مطابق تم اپنے لیے کچھ نہ بنانا ۔۔۔۔۔۔ جو کوئی سونگھنے کے لیے بھی اُس کی طرح کچھ بنائے وہ اپنی قوم میں سے کاٹ ڈالا جائے۔‘‘ *۴۴
یعنی اس کی ترکیب یوں ہوگی بحصہ برابر؛
=1= Stacts drops ….. Storax مُر ۔۔۔ بحصہ برابر
=2= Onycha ….. onyx مصطکی ۔۔۔ بحصہ برابر
=3= Galbanum …..=galbanum لَون ۔۔۔ بحصہ برابر
=4=Frankincense…..=Purencens لُبان۔۔۔ بحصہ برابر
بائبل کا اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو ۱۲ مختلف اقسام کی خوشبوؤں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے؛
۱۔مُر(Myrrh) ،۲۔عُود (Aloes) ،۳۔کاسیا (Cassia)،۴۔لوبان (Frankincence)،۵۔سٹاکٹ (Stacte) ،۶۔سِنّامون (Cinnamon) ،۷۔مہندی (Myrtle) ،۸۔کالامیُو (Calamus) ، ۹۔بلسم (Balsam) ،۱۰۔نرد (Nard) ،۱۱۔سنبلِ ہندی (Spikenard) ،۱۲۔گلاب؟ (Rose) ۔
مذکورہ بالا متعین خوشبوؤں کے علاوہ غیر واضح خوشبوؤں کے ۴۹ حوالے*۴۵ملتے ہیں؛ لیکن ان خوشبوؤں کا فرداً فرداًجائزہ لینے سے پہلے مذکورہ بالا آیت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو’’ بخور‘‘ کیلئے پہلا جزو ’سٹاکٹ‘
( Stacteبزبانِ انگریزی اور Storax بزبان فرانسیسی) تجویز ہوا۔ جس کا اردونسخے میں ترجمہ مُرّ سے کیا گیاہے۔
Stacte کی تحقیق
اس خوشبو کا حوالہ صرف اسی آیت میں آیا ہے ’سٹاکٹ ‘کا لفظی معنی ’’ (درخت سے) قطرہ قطرہ رِسنا‘‘کے ہیں۔’ڈی اؤس کو ریڈس‘(Dioscorides) *۴۶دو طرح کے سٹاکٹ کا بیان کرتا ہے، *۴۷؛پہلا خالص مُرّاور دوسراثعلبی گوند (Storax)اور ایک چربی ملا ہوا(a fat mixed)لہذا یہ سٹاکٹ یا تو مُرکے قطروں کی شکل کا نام ہے یا کوئی اور خوشبو دار رال یا گوند ہے جو مُرہی کی طرح درختوں سے نکالی جاتی ہے جیسے کہ Tragacanth یا کتیرا کا درخت *۴۸۔
Stacteکا ترجمہ فرانسیسی نسخے میں Storax ،’سٹوراکس‘ سے کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ، ’’ثعلبی گوند، جو چھوٹے قد کے گوندل درخت سے حاصل ہوتی ہے اور دوا سازی ، عطر سازی میں استعمال ہوتی ہے؛ اِس کے پھول سفید اور گچھے دار ہوتے ہیں، لعابی بلسان جو ایک سیال عنبری درخت کی لکڑی اور اندرونی چھال سے حاصل ہوتا ہے یہ درخت ایشائے کوچک میں عام ہے‘‘ *۴۹
بہر حال یہ خوشبو اُن خوشبوؤں کا ایک حصہ تھی جو سنہری قربان گاہ (Golden altar) پرچڑھائی جاتی تھیں۔ عبرانی زبان میں اس لفظ کے مأخذ کے معنی کشید کرنا distill) (Toکے ہیں لہذا، کچھ مفسرین نے اِس لفظ کا ترجمہ’کشید کردہ مُرّ‘سے کیا ہے لیکن دیگر علماء اسے Storex tree نامی درخت، بلکہ جھاڑی کی گوند مانتے ہیں جس کا نباتاتی نام Styrax officinalis ہے۔ شامی اسے نہایت بیش قیمت سمجھتے تھے اور سینے یا چھاتی کی تکالیف میں اس کا استعمال کرتے تھے۔*۵۰
اونیکا(Onycha)سنگِ سلیمانی کی تحقیق
اس ترکیب میں دوسری خوشبو کو، بزبانِ انگریزی، Onycha ، فرانسیسی نسخے میں Onyx اور اردو ترجمے میں ’’مصطکی‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔Onyxکے معنی قومی انگریزی اردو لغت میں درج ذیل ہیں؛
’’ جزع، ناخُنہ، سنگِ سلیمانی ، سلیمانی پتھر ، مختلف رنگدار منطقوں یا شگافوں والا نیم شفاف چُونے کا زرد پتھر، عقیقِ سلیمانی کی تہیں رکھنے والا یشب جو بعض اوقات انگوٹھیوں میں استعمال ہوتا ہے،جس پر کوئی رنگ نہ چڑھ سکے، (صفت، کالا یا سیاہ) *۵۱ یہ گوند جب درخت سے نکلتی ہے تو پیلاہٹ مائل، نیم شفاف (جامد) آنسوؤںں کی شکل میں نکلتی ہے۔کیمیاوی طور پر یہ سٹائر کس بینزائن( Styrax Benzoin)ہے اور مؤثر جراثیم کش خصوصیات رکھتی ہے۔ عہدنامہ ہائے مقدس کی ۱۲ خوشبوئیں اب تجارتی پیمانے پر ایک ہی کٹ میں دستیاب ہیں۔ *۵۲
لَون(Galbanum) کی تحقیق
اس ترکیب میں تیسرا جزو لَون آیا ہے جس کا انگریزی مترادف Galbanum ہے اور اس کے معنی ہیں؛ ’’بارزد؛ بریجا ، مخصوص بُو والی ایک قسم کی لاکھ جو بعض ایشائی پودوں سے حاصل کی جاتی ہے اور دوائیوں نیز دھونی دینے میں استعمال ہوتی ہے۔ *۵۳ یہ پودا ایران میں بکثرت پایا جاتا ہے۔یہ لَون، ’کاغتی اے‘(Cartier) کمپنی کی مشہور فرانسیسی خوشبو “Must” میں شامل ہے۔
Frankincense لوبان؟
آخری جُزو ،فرینک انسنس یا لُبان آیا ہے۔ اس خوشبو کا حوالہ بائبل میں ۲۲مرتبہ آیا ہے ۔*۵۴ عبرانی زبان میں اسے لیبو ناہ (Lebonah)اور یونانی زبان میں اسے لیبانوس (Libanos)کہتے ہیں اور اس کا لفظی مطلب ہے ’’سفید‘‘۔ یہ ایک خوشبودار گوند ہے جو عرب اور فلسطین میں اُگنے والے پودوں سے حاصل کی جاتی ہے اور اسے جب جلایا جائے تو تیز خوشبوپیدا کرتی ہے۔ اس خوشبو کو یہودیوں اورعیسائیوں کی مذہبی تقریبات میں جلایا جاتاتھا لہذا اسے مذہبی تقدس حاصل ہوتا گیا اور عبادت کی علامت بن گئی۔
با ئبل کی اس خاص خوشبو فرینک انسنس یا اولی بانم (olibanum)کو موجودہ تجارتی لوبان سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے جو ’ناروے سپروس فر‘ِ (Norway Spruce fir) (چیڑ کی ایک قسم) یا پائنس آبیئس (Pinus abies)نامی درخت کے تنے پر چیرا لگا کر نکالی جاتی ہے۔
نو آہ ویبسٹر (Noah’s Webster’s) کی لغت میں اسے ایک خوشبو دار، مہک والی رال لکھا گیا ہے جسے بوس ویلّیا (Boswellia) خاندان کے درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے ،لیکن قدیم یہودیوں کی فرینک انسنس یا لوبان پر اب بھی اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل سٹینڈرڈ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق یہ عبرانی لفظ لیبو ناہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں، سفید یا سفیدی ؛ غالباً یہ نام اس کو اس کے دودھیا رنگ کے رس کی وجہ سے دیا گیا کہ جس شکل میں یہ د رخت سے نکلتی ہے۔ کنگ جیمز کے نسخۂ انجیل میں۶ جگہ اس کا ترجمہ انسنس (Incense)یا لوبان سے کیا گیا لیکن بائبل کے امریکی اور برطانوی نظر ثانی شدہ ترجمے میں اس کو لیبانوس (سفید Libanos) سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
انگریزی زبان میں یہ لفظ فرینک انسنس (Frankincense) قدیم فرانسیسی زبان کے لفظ Franc encens (اس کا فرنچ تلفظ ففاں کاں ساں ہے) کے توسط سے رائج ہوا جس کے معنی ہیں’ خالص لوبان ،یا خالص خوشبو‘ ۔اسی خوشبو کی ایک نہایت خاص اور خالص شکل،’ لیبو ناہ ذکّاہ‘(Lebonah Zakkah) کو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کے وقت اُن کی نذر گزرا گیا۔ اس کا حوالہ بائبل میں یوں آیا کہ ؛
’’ جب یسوع مسیح ہیرودس بادشاہ کے زمانہ میں یہودیہ کے بیتِ لحم میں پیدا ہوا تو دیکھو کئی مجوسی پُورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الغرض جب وہ مجوسی حضرت عیسیٰ کے پاس پہنچے تو) ۔۔۔اُس گھر میں پہنچ کر بچے کو اُس کی ماں مریم کے پاس دیکھا اور اُس کے آگے گر کر سجدہ کیا اور اپنے ڈِبّے کھول کر سونا اور لُبان اور مُرّ اُس کو نذر کیا‘‘۔*۵۵انگریزی عبارت یوں ہے؛”They also opened their treasures and presented it with gifts ,gold, frankincenseandmyrrh” (mathew 2:1) فرانسیسی نسخے میں یہ تحائف ان الفاظ میں مرقوم ہیں؛”L’or de l’encens et de la myrrhe”بدیہی طور پر ان تینوں عبارتوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’’آں ساں ‘‘ اور مُر‘‘ علیحدہ علیحدہ اشیاء ہیں ۔ واللہ علم…
یہودیوں میں یہ بھی روایت تھی کہ جس شخص کو پھانسی دی جاتی تھی تو اُسے شراب میں مُرّ حل کر کے دیتے تھے تاکہ پھانسی پانے والے کو زیادہ اذیت اور تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے ،لہذا جب حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کیا جانے لگا تواس کا ذکر یوں آیا؛
’’ اور وہ اُسے مقامِ گلگتا (Golgatha) پر لائے جس کا ترجمہ کھوپڑی کی جگہ ہے اور مُرحل ہوئی مے اُسے دینے لگے مگر اُس نے نہ لی‘‘*۵۶
اسی باب میں انہی آیات نمبر۲۳،۲۴ ،بحوالہ بالامیں ،مقدس تیل بنانے کی ترکیب یوں تھی،
-1-Myrrhe vierge اپنے آپ نکلا ہوامُرّ….. ۵۰۰ مثقال
-2-Sweet cinnamon دار چینی ۔۔۔۲۵۰ مثقال
-3-Sweet Clamus…rouseau خوشبودار اگر۔۔۔ ۲۵۰ مثقال
-4-Cassia….. Casse تج ۔۔۔۔۔۔ ۵۰۰ مثقال
یہ چار خوشبوئیں زیتون کے تیل کی ایک معین مقدار (ایک ہِن (hin) میں ڈال کر مسح کرنے کا تیل بنتا تھا۔
مُرّ کیا ہے ؟
مُرّ (Myrrh) کو مُر مکی بھی کہا جاتا ہے عرب اور مشرقی افریقہ کے چھوٹے درختوں خاص طور پر ببول کے درخت سے حاصل شدہ گوند جو طبی طور پر مقوی دواؤں اور منجن میں استعمال ہوتاہے قدیم زمانے کی قنطاریوں یا مُر ، جواب بھی لوبان اور عطر میں استعمال ہوتا ہے *۵۷
مُرّ، سرخی مائل بھوری گوند یارال (reddish brown resin)کو کہتے ہیں جو زیادہ تر یمن اورصومالیہ کے علاقوں میں پائے جانے والے درخت ’’ کومی فورا مائرہ‘‘ (Commiphora myrrha) اور اُردن کے درختوں، کومی فورا جلعادانسس (Commiphora Gileadensis) سے نکلنے والے رس کو کہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں، اس خاندان کے دیگر کئی درختوں ، مثلاً کومی فورا ایری تھریا (c. Erythraea) کومی فورا اوپسوبلسامم(C:Opsoboisamum) اور بلساموڈنیڈرون کیو آ(Bolsamodendrion Kua)وغیرہ سے یہ خوشبو حاصل کی جاتی ہے ۔ اعلی درجے کے مُر کے خالص پن کی جانچ، اس کی گہری رنگت ، شفافیت سے کی جاتی اور تازہ ٹوٹے ہوئے گوند کے ٹکڑے کی چپچپاہٹ سے اُس میں موجود تیل (روغن) کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی مہک ہزاروں سالوں سے مقدس تقریبات میں استعمال ہوتی رہی ہے ،اسے دیگر روغنیات کے ساتھ ملا کر مختلف خوشبوئیں تیار کی جاتی رہی ہیں۔ پندرہویں صدی تک اس خوشبو کو کلیسا میں اعترافات /استغفار کے مواقع پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔گرجا گھر کی صبح اورشام کی عبادات میں ایک چھوٹی سی طلائی انگیٹھی میں مُر کے ٹکڑے رکھے جاتے ہیں اور پادری اُسے ہلا ہلا کر خوشبو بکھیرتا ہے ۔ اس انگیٹھی کو پشال کینڈل یا پسکال کینڈل کہتے ہیں ۔ Pasch دراصل قدیم یہودیوں کی عید الفصح*۵۸کی ضیافت یا عیسائیوں میں ایسٹر کی دعوت کو کہا جاتا ہے۔
مُر، آیورویدک ، طب یونانی میں بطور مقوی اوراعادۂ شباب کیلئے نسخہ ہے ۔اسی سے ملتی جلتی ایک شے گُگل ہے جسے جریانِ خون اور اعصابی نظام کے لئے مقوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دورِ جدید میں مُر، ماؤتھ واش ، غرارے ،ٹوتھ پیسٹ ،خوشبو اور شراب میں بھی بسا اوقات شامل کیا جاتا ہے۔
۲۰۰۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ۳۵% سعودی عرب کے لوگ مُر کو بطور ’’دواء ‘‘ استعمال کرتے ہیں ۔ کو یت میں شوگر کے مریضوں اور کم بلڈ پریشر کے مریضوں پر مُر کے استعمال کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ *۵۹جدید تحقیقات سے مُر کی کیماوی ترکیب میں مندرجہ ذیل اجزاء شامل ہیں d-pinene, cadinine, Limonine, Cuminaldehyde, eugenol, m-creasol, hecrabolene, ecetic acid formic acid and other sequiterpines & acids) *۶۰
مقدّس تیل کادوسرا جزو ،دار چینی (cinnamon)، لارل (Laural) خاندان کے درخت کی اندرونی چھال)ہے۔
تیسرا جزو ۔ خوشبو دار ’’اگر‘‘ انگریزی میں اسکا مترادف Sweet Calamus اور فرانسیسی مترادف Roseau odoriferant ہے ؛جس کے معنی ہیں خوشبو دارنرسل، سرکنڈا، یا، بید ۔ انگریز ی اور فرانسیسی الفاظ تو ہم معنی ہیں لیکن ان الفاظ کا ترجمہ ’’ اگر‘‘سے کرنا محلِ نظر ہے۔’ اگر اگر‘ Agar-agar ملاوی زبان میں ایک لیس دار شے کو کہتے ہیں جو بعض ایشیائی سمندری کائیوں سے حاصل ہوتی ہے اور جراثیم پروری (Bacterial culture) میں وسیلے / خوراک کا کام دیتی ہے۔ *۶۱
چوتھا جزو ’’تج‘‘ کیا ہے؟ اسکا فرانسیسی مترادف Casseاورانگریزی مترادف Cassia ہے ؛موٹی دار چینی ، املتاس یا تیج پات بھی کہلاتا ہے۔ اسے bay-leafیا کائفل کاپتہ بھی کہتے ہیں اور کھانوں کو خوشبو دار بنانے کے کام آتاہے*۶۲
انجیل کے کچھ مفسرین نے اس خوشبو سے مستقبل میں حضرت عیسیٰؑ کا ظہور لیا ہے ۔ *۶۳
Aloes۔عود
ایسٹون کی لغت میں عبرانی لفظ اہالِم (Ahalim)کا ترجمہ آلوئیز (Aloes) سے کیا گیا ہے۔ یہ ایک خوشبودار لکڑی (یا اُس کی گوند تھی کہ) جس کا نباتاتی نام’’ آکی لاریا اگّالوکم‘‘ (Aquilaria agallochum)ہے۔ یہ چین، سیام (برما) شمالی ہندوستان اور جنوبی افریقہ میں پایا جاتا ہے ۔یہ درخت ۱۲۰ فٹ تک اونچا ہوسکتاہے اورعربی میں اسے عود کہتے ہیں۔اسی سے ملتاجلتا ایک اوردرخت ہے جس سے حاصل شدہ گوند کو’لین آلوئے‘ (lin-aloz)کہتے ہیں اور زمانۂ قدیم میں اِس کا شمار قیمتی ترین خوشبوؤں میں ہوتاتھا۔
اس عود یا (Aloewood) کو مصری اپنے مردوں کو مومیانے (تدفین) کے لئے استعمال کرتے تھے، علاوہ ازیں لباس اوربستر کو خوشبودار بنانے کیلئے بھی استعمال کی جاتی تھی۔ بائبل کی خوشبوؤں میں اس کا اہم مقام یوں ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ کی تدفین کی گئی تو یہی خوشبو استعمال کی گئی؛جس کا ذکر یوں آیا ہے؛
’’وہاں نکودیمس بھی آیا، چونکہ نکودیمس نے ۱۰۰پونڈ کے قریب عود خریدا تھا تو پھر یہ نہایت گراں قیمت خریدا ہوگا کیونکہ یہ نہایت مہنگا تھا ‘‘*۶۴
بائبل کے مؤرخین نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ یہ وہی نکودیمس بن گوریان ہے کہ جس کا ذکر ثالمود (Talmud) *۶۵میںآیاہے۔
Spikendard….سنبل ہندی
عبرانی زبان میں نرد (Nerd) ایک نہایت گراں قیمت خوشبو، جو ایک ہندوستانی پودے جٹا مانسی (Nardostachys Jatamansi)کی جڑوں سے حاصل کی جاتی ہے، اس کا تعلق ولیریانس( Valeriance )خاندان سے ہے اور عرب اسے سُنبلِ ہندی کہتے تھے۔
عہدنامہ جدید میں یونانی لفظ،نردوس پِسٹک( Nardos Pistike )کو نظر ثانی شدہ ترجمے میں پِسٹِک نارڈ(Pisticnard) قرار دیا گیا ہے۔پسٹک شاید مقامی نام ہے، کچھ لوگ اس کے معنی اصلی یا خالص کے لیتے ہیں دوسرے لوگ اس سے مراد ’مائع‘ لیتے ہیں ۔زیادہ صائب رائے یہ ہے کہ اِس لفظ کا مطلب ہے؛ خالص یا بھروسہ مندی سے تیار کیا ہوا ۔*۶۶
یہ خوشبو ایک خود رو جنگلی پودے ’جٹا مانسی‘ کے زیرِ زمین تنے (Rhizome) سے حاصل کی جاتی ہے ۔یہ کوہِ ہمالیہ میں نیپال کے علاقے میں پایاجاتا ہے ۔قدیم زمانے میں صرف بادشاہ یا بڑے بڑے لاٹ پادری اسے استعمال کرتے تھے۔ بائبل میں اسکا ذکر یوں آیا ہے؛
’’ پھر بتھانے *۶۷ کی مریم نے ایک پاؤنڈ سنبلِ ہندی لیا ، نہایتِ بیش قیمت اور عیسیٰ ؑ کے پاؤں پرمسح کیا اور اُس کے پاؤں کو اپنے بالوں سے صاف کیا اورتمام گھر اُس کی خوشبو سے مہک گیا‘‘ *۶۸
یہ دل و دماغ کوپرسکون کرنے والی خوشبو ہے اورگہرے نفسیاتی اثرات رکھتی ہے ۔اس کا استعمال گہری بے چینی، شدید اضطراب سے نجات دلا کر شانتی دیتا ہے ،یہ خوشبو اُن کے لیے خاص ہے جو روحانیت کے متلاشی ہوں *۶۹
مشہور مؤرخ، پلنی کلاں نے اس کی بارہ اقسام گنوائیں اوراسے نہایت گراں قیمت بتایا ہے۔ یود اسکر یوت*۷۰ کے مطابق ایک پاؤنڈ سنبل ہندی کی قیمت ۳۰۰دینار تھی* ۷۱
یہ خوشبو زندگی اورموت کے درمیانی مراحل میں آسانی پیدا کرتی ہے *۷۲
اسی خوشبو کے بارے میں سلیمان ؑ کی’’ غزل الغزلات‘‘*۷۳ میں یوں ذکر ہوا ؛
’’ جب تک بادشاہ تناول فرماتا رہا ، میرے سنبل کی مہک اُڑتی رہی۔‘‘*۷۴
Calamus کانہہ ۔ دوب گھاس؟
بائبل میں ایک اور خوشبو کا ذکر ہوا ،اسے ’سویٹ کان‘ (Sweet cane)بھی کہتے ہیں۔ اس کا نباتاتی نام choenthus Andropogon sہے۔ یہ ارضِ فلسطین میں ہندوستان سے درآمد ہوئی تھی یہ غالباً وہ ہے کہ جسے اب لیمن گراس (Lemon Grass) کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔
مہندی ۔ مِرٹل Myrtle
عبرانی زبان کے ہداس (Hadas) کو ماہرین ِ نباتات،’ مرٹس کومیونس‘ (Myrtus Comunis)کا نام دیتے ہیں۔ اگرچہ باغات کے علاوہ یروشلم کے کوہِ زیتون پراب اس کاکوئی وجود نہیں لیکن یہ درخت اب بھی یروشلم کی گھاٹیوں میں یہاں وہاں مل جاتا ہے۔
اس درخت پرگہرے رنگ کے چمکدار پتے اورسفید پھول ہوتے ہیں اوریہ بیت لحم اورحبرون کے نواحات میں کثرت سے پایا جاتاہے اسکاتنا سیدھا، بلندی ۸فٹ تا۱۰ فٹ ہوتی ہے اس کی ہرشاخ کے سرے پر ایک سفید یا گلابی پھول ہوتاہے جس کے نیچے کالے رنگ کی متعدد بیریاں ہوتی ہیں۔
قدیم زمانے کے لوگ اسے مقدس جانتے تھے اوروینس دیوی سے منسو ب کرتے تھے ۔اس کے پھول پتے اور بیریاں مختلف خوشبویات اورسامانِ آرائش (حناء، مہندی) کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں ۔
بین الاقوامی معیاری لغت میں مرٹل کوہداس یا مرسین (Mursine)سے مشتق بتایا گیا ہے۔ عہدنامۂ قدیم کی ایک شخصیت آستر نامی ایک یہودی لڑکی جس کے نام پر ایک کتاب بھی عہدنامۂ قدیم میں موجود ہے؛ اُس کا اصلی نام ہداسہ تھا یہودیوں کی عید الفصح( (Feast of Tabernacle میں اسے پودے سے آرائش کی جاتی ہے؛مقدس خوشبو کی تیاری میں اس کا ذکر آچکا۔
کیا بائبل میں گلاب کاذکر ہے؟
گلاب کا بائبل میں کوئی براہِ راست حوالہ نہیں ملتا؛ اگرچہ شام میں گلاب بہتات سے پایا جاتا تھا جس کی مشہور ترین قسم سفید دمشقی گلاب(WhiteDamascus) ہے۔غزل الغزلات میں جس لفظ کا ترجمہ (Can 2:1) للّی یا نرگس سے کیا جاتا ہے یا لفظ رہوڈون (Rhodon)کاذکر آیا *۷۵کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ’’ کوئی وجہ نہیں کہ اس کا ترجمہ گلاب کو ہی (Cistus) سے نہ کیا جاسکے۔
تاہم ایک خوشبو Labdanum (عربی لادن) جوایک نرم سیاہی مائل بھوری گوند ہے جومختلف گلاب ہائے کوہی (Rock roses) سے حاصل ہوتی ہے۔*۷۶
اس خوشبو کی تاریخ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جو بھیڑ بکریاں مذکورہ جھاڑیوں میں چرتی تھیں یہ گوند اُن کے بالوں ، پشم پرلگ جاتی تھی اور چرواہے اُس گوند کو اتار کر ساحلی تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔فراعنۂ مصراپنی سانسوں کومعطر بنانے کیلئے اپنی داڑھیوں پرا س گوند کولگایا کرتے تھے، علاوہ ازیں یہ نزلہ زکام، ایامِ ماہواری میں بے قاعدگی اور جوڑوں کے درد میں مفید سمجھی جاتی تھی ۔ آج بھی یہ خوشبو کی صفت میں استعمال ہوتی ہے*۷۷
کتابیات، تعلیقات و حواشی
*۳۲( ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ چار آسمانی کتابیں اُتریں ، تورات حضرت موسیٰ ؑ پر ، زبور داؤد ؑ اور انجیل حضرت عیسٰی ؑ پر اُتری ۔ اب اِن کتابوں کی اصل حقیقت کیاتھی ،واللہ اعلم، لیکن دستیاب کتب، بائبل (Bible) یا کتابِ مقدس ( عہدنامہ قدیم وعہد نامہ جدید) کے نام سے موجود ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے؛
عہدنامۂ قدیم و جدید۶۶ ،یازائد کتب پر مشتمل ہے ۔وہ یوں کہ اختلافِ تعداد کتب، عیسائیوں اور یہودیوں، اور عیسائیوں کے دوبڑے فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان ہے۔عہدنامۂ قدیم کی کل ۳۹ کتب ہیں، پہلی پانچ کتب خمسۂ موسوی (Pentateuque) کہلاتی ہیں جن میں احکامات وغیرہ ہیں بقیہ کتب تاریخی کتب کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن میں سات کتابیں دانشمندانہ اقوال اور منظوم شاعری پر مشتمل ہیں۔ انہی منظوم کتب میں داؤد ؑ کی کتاب، زبور (Les Psaumes) کے نام سے موجود ہے جو پانچ ابواب میں تقسیم ہے اور اس میں یونانی نسخے کے مطابق ۱۵۱ نغمے یا نظمیں اور شامی روایت کے مطابق ۱۵۵ نظمیں شامل ہیں۔
یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں تعدادِ کتب پر اختلاف یوں بنتا ہے کہ کچھ کتابیں ایسی ہیں مثلاً ؛ ۱۔ توبی کی کتاب ، ۲۔ جیودت ، ۳۔ مکابیوں کی پہلی کتاب، ۴۔ مکابیوں کی دوسری کتاب، ۵۔ دانش مندی کی کتاب، ۶ کلیسائی اصول (Lecclesiastique) اور، ۷۔ باروق کی کتاب ، کہ جن کو پروٹسنٹنٹ حضرات نہیں مانتے لہذا یہ سات کتب اُن کے نسخے، مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی ، انار کلی، لاہور میں شامل نہیں ہیں، لیکن کیتھولک فرقے کی کتاب یروشلم کی بائبل * La Bible de Jeruslemمیں شامل ہیں لہذا بدیہی طور پر اس نسخے کی کتب کی تعداد ۴۶ ہونی چاہیے لیکن اس مجموعے کو اگر شمار کیا جائے تو کل کتابیں ۴۳بنتی ہیں۔ یہ اشکال یوں ہے کہ کیتھولک نسخے میں ؛ ۱۔ سیموئل، ۲۔ سلاطین ، ۳۔تواریخ نامی کتابوں کو ایک ایک کتاب، یعنی کل تین کتابیں مانا گیا ہے لیکن پروٹسٹنٹ نسخے میں یہ چھ کتابیں شمار کی گئی ہیں ؛ ۱۔ سموئل اوّل، ۲۔ سموئل دوم ، ۳۔ سلاطین اوّل، ۴۔ سلاطین دوم، ۵۔ تواریخ اوّل اور ۶۔ تواریخ دوم، لہذا ان ۳ کتابوں کے فرق کا اشکال یوں حل ہو جاتا ہے۔)
* ۳۳(عہد نامہ عتیق باب کتابِ پیدائش، باب ۲۷، آیت ۲۷)
*۳۴LaBibledeJerusalem,par,NormandieRoto,Imp
ression,s.s.6125,Lonrai,EditionDescleedeBrower,PP-55,Feb2001)
*۳۵(L’Ancientestament,La genese27:27,
*۳۶ (عہدنامہ عتیق، کتابِ پیدائش ، باب ۳۷، آیت ۲۵)
*۳۷(عہدنامہ عتیق، کتابِ پیدائش ، باب ۴۴، آیت ۱۱، بحوالہ کتابِ مقدس ، ناشر بائبل سوسائٹی آف پاکستان ، انار کلی ، لاہور PBS-HKBS-1995-27.5M 93/95 سیریز ، صفحہ ۴۵)
*۳۸(بحوالہ قومی انگریزی اردو لغت P-147) مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد تیسرا ایڈیشن 1996ء ISBN-969-474-000-2
*۳۹http://Balsam(plant)MSN Encarta.htm.)
*۴۰Ref.Microsoft Encarta Encyclopedia standard, 2005/Balsam resin
*۴۱ Cassell’s French Dictionary-Revised by Denis Girard,MacMillan Publishing company,New York,USA,15 edition,pp-14,ISBNo-o2-522610-X(standard)1981 لہذا بجائے ’’ کچھ گرم مصالح‘‘ کے گوند کتیرا (سفید یا سرخی مائل ایک قسم کا گوند سے ترجمہ کرنا زیادہ مناسب رہے گا:ک ۔ م)جو جنس کنیر (Astragalus) کی پرانی جھاڑیوں سے اخذ کیا جاتا ہے اور پانی میں ڈالنے سے پھول جاتا ہے ۔ اس کے مرکبات سے دوائی ،گولیاں اور میٹھی ٹکیاں وغیرہ بنتی ہیں۔ کبھی کبھار ’’ پشاوری شکر کولا‘‘ بیچنے والے شربت میں تخم ملنگا کیساتھ سفید گوند نما شے ڈالتے ہیں وہ گوند کتیرا ہوتا ہے اور اُس کی خوشبو نہایت فرحت بخش ہوتی ہے)۔Labdnumکے معنی سیاہ رال، قیر، وہ لاکھ یا رال جو گلابِ کوہی سے حاصل کی جاتی ہے۔)
*۴۲اردو ترجمہ ۔ کتابِ مقدس۔ پیدائش۔ باب۵۰ آیت ۲ تا ۳)
*۴۳کتابِ خروج،باب۲۵آیت۶)
*۴۴ (بحوالہ بالا آیات ۳۴ ، ۳۵ ، ۳۷ ، ۳۷)
*۴۵http://scriptures.lds.org/en/bd/m/contents
*۴۶ ڈاؤس کو ریڈس(Dioscorides)،Dioscorides,Pedanius(40?-90?ad)، متوفی ۴۰ ق م، پودوں پر تحقیقی کتاب De Materia Medica لکھی)
*۴۷ http://scriptures.lds.org/en/bd/m/contents)
*۴۸ (مذکورہ لفظ کی تحقیق میں ملاحظہ فرمائیں Labdnum بحوالہ *Ref)
*۴۹(بحوالہ قومی انگریزی اردو لغت، صفحہ۱۹۶۶)
*۵۰http://scriptures.lds.org/en/bd/m/statacte) )
*۵۱(بحوالہ قومی انگریزی اردو لغت، صفحہ۱۳۵۷)
*۵۲http://aroma Essence.com/themiracle of onycha oil/dr. david stewart
*۵۳(بحوالہ قومی انگریزی اردو لغت، صفحہ۸۰۶)
*۵۴(http://refbible.ocm/frankincense.htm)
*۵۵(عہدنامہ جدید۔ متی کی انجیل باب۲ آیت۱۱)
*۵۶ (مرقس کی انجیل باب۱۵ آیت ۲۲،۲۳)
*۵۷(بحوالہ قومی انگریزی اردو لغت مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، صفحہ۱۲۹۱)
*۵۸ (Feast of tabernacleقدیم کنعانیوں کا فصل کی برداشت کا تہوار، جس میں وہ فصل کی کٹائی کے دوران خصوصی طور پر تیار کردہ جھونپڑوں میں رہا کرتے تھے اور اس دوران اپنے صوامع میں مہندی اور پام کے شاخوں سے آرائش کرتے تھے )
*۵۹ (http://www.wikipedia.com/myrrh.html
*۶۰(http://essential oils.co.za/essentialoils/myrrh html#oil20%prepration)
*۶۱ (بحوالہ قومی لغت صفحہ۳۹)
*۶۲ (A Dictionary of urdu, classical hindi-JhonT.PlattsUrduScience Board,MallRd. Lahore,1stedition 2005 ISBN: 969-477-115-3)
*۶۳ http://www.eng.wikipedia.com/myrrh.html
*۶۴(ْ Jhon 19:39-41)
*۶۵ Talmudثالمود یہودیوں کی سول اور مذہبی قانونی کتاب ثالمود قوانین کا ایک مجموعہ ہے جسے مشناہ (Misnah) کہتے ہیں اوراس مشناہ پر ایک حاشیہ ہے جس کوجمارہ (gemara)کہتے ہیں۔ اختلافی قانونی امور میں فیصلہ جات کے حصے کو’ ہالہ خاہ‘ (Halakhah)کہتے ہیں ،جو حصہ حکایات وقصص ، اقوال، تماثیل کے ذریعے روایتی قوانین کو بیان کرتا ہے اُسے ہگا د (Haggade) کہاجاتا ہے۔ثالمود کے دو نسخے پائے جاتے ہیں ایک فلسطین کی ثالمود جسے یروشلم کی ثالمود بھی کہا جاتا ہے اور دوسری، بابل کی ثالمود ۔ دونوں کتب میں مشناہ ایک جیسے ہیں لیکن جمارہ اپنے اپنے ہیں۔ فلسطینی ثالمود کوتیسری اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان تصنیف کیا گیا اور بابلی ثالمود تیسری اور چھٹی صدی کے درمیان تصنیف ہوئی۔ بابلی ثالمود کو زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے، اس کی اہم ترین تفاسیر میں فرانسیسی ربی راشی (Rashi) اور اُن علماء کی تفسیر (جنہیں’ تو سافسٹ ‘(Tosaphistsکہا جاتا تھا، جو بارہویں صدی عیسویں اورچودھویں عیسوی کے درمیان فرانس اور جرمنی میں مقیم تھے ) شامل ہیں**(Ref Saul Lieberman Microsoft-Encarta Encyclepedia Standard 2005/ talmud))
*۶۶Spickenard.html) (http://eston’s Bible Dictionary
*۶۷(یروشلم کے نزدیک ایک گاؤں (http://www.en.wikipedia.org/Bethaney
*۶۸(لوقا ….۵۰۔۳۷:۷)
*۶۹ (http://TheAnandaAromatherapy/spikenardoil.pure.wildcrafted essential oil htm)
*۷۰Judas Iscariotحضرت عیسیٰ ؑ کا حواری،جس نے چاندی کے ۳۰ سکوں کے عوض آپ سے غداری کی)
*۷۱(متی۔۲۰:۲۰)
*۷۲ (http://en.wikipedia.org/wiki/spikenard)
*۷۳ (یہ قدیم ترین محبت کی نظمیں ہیں یعنی مرد اورعورت کی محبت ، بائبل کے عیسائی نسخوں کی ترتیب میں یہ کتاب Ecclesiastesکے بعد آتی ہے لیکن عبرانی نسخوں میں Book of Jobکے بعد آتی ہے (یعنی ترتیب کافرق ہے) قدیم زمانے سے سلیمانؑ کی ان نظموں کوآسمانی صحائف ماننے کے بارے میں شکوک چلے آ رہے ہیں۔ثالمود اور یہودی مفسرین نے غزل الغزلات کو خدا اوراسرائیل (یعقوبؑ ) کے درمیان ایک تمثیلی مکالمہ قرار دیا ہے اس نوعیت کی تعبیر کامقصد یہ نظر آتاہے کہ چونکہ مخالفت کے باوجود اس کتاب کو صحائف میں شامل کیا گیا لہذا یہ تعبیر اسکی شمولیت کاجواز سمجھی گئی۔عیسائی مفسرین نے اسے عیسیٰ ؑ اور چرچ کے دممیان مکالمہ قرار دیا اور اسے الوہی محبت کا تمثیلی اظہار قرار دیا۔اُنیسویں صدی کا آغاز میں کچھ علماء نے اسے ایک ڈرامائی نظم قرار دیا جس میں ایک دیہاتی لڑکی (جس کا نام سُلامیت6:13 Sulamite تھا) جو ایک چرواہے کے عشق میں مبتلا تھی اوربادشاہ (سلیمانؑ ) کی کہانی قرار دیا لیکن دورِ جدید میں سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا نظریہ ،یہ ہے کہ یہ نظمیں انفرادی محبت کے غنائیے ہیں اورشاید یہ نغمات شادی بیاہ کے موقع پر گائے جاتے ہوں (Microsoft-Encarta Standard Encyclopedia/song of songs)
*۷۴Cantique des Cantiques 1:12
*۷۵ (Esdras Wisdom of Soloman 2:8) یا (Esdras 2:19