(شیخ محمد ہاشم)
کمپیوٹر کھولا تو پہلی نظر گوگل پر پڑی ،گوگل پہ ایک ایسے شخص کا بنا ڈوڈل دیکھنے کو ملا جس کو دیکھ کر دل ڈوبتا چلا گیا ،پاکستان ،امریکہ ،ڈنمارک، پرتگال،آئس لینڈ،اوردیگر دُنیا کے کئی ممالک میں گوگل سرچ انجن کے توسط سے اُس کی تصویر اور کارکردگی چاند کی روشنی کی مانند جگمگا رہی ہے اور اسی جگمگاہٹ نے آج مورخہ 28فروری کو میرے دل اور قلم کو اضطرابی کیفیت میں مبتلا کیا اور مجبور کیا کہ اُس عظیم شخص کے بارے میں لکھوں ،جو 28فروری1928کوبھارت کے شہر گجرات میں پیدا ہوا ۔جس کی سالگرہ منانے کا گوگل نے اتنا شاندار اہتمام کیا کہ آج اُس کے ڈوڈل پر نظر پڑتے ہی آج اُس کی جُدائی میں کوئی دل ،کوئی چہرہ مخموم ہوئے بغیر نہیں رہ پایا ہو گا۔
ایک ایسا شخص جو پوری پاکستانی قوم کو یتیم کر گیا، جو اس ملک کی پوری فضاکو سوگوار کر گیا،ایک ایسا شخص جس نے اُس قوم کی سوچ کویکجا کیا جو منقسم سوچوں کی حامل قوم ہے۔ کھدر میں ملبوس ،پھٹے پرانے جوتے ،سفید داڑھی، پرانی طرز کی جناح کیپ سے سر اور ماتھا ڈھکا ہوا،لب کھولے تو آواز ایسی جو کانوں میں رس گھول دے۔اس کا رُوآں رُوآں محبت سے سرشار تھا ، میں اُس شخص کی سوانح حیات بیان نہیں کروں گامیں اُ س کی کارکردگی پر بھی مختصر ہی لکھوں گاکیو نکہ اس کے لئے تو مجھے زمین جیسی طویل کا غذ اور سمندر جتنی سیاہی کی ضرورت ہوگی ۔میں اُ س کی سالگرہ پراُس کی سوانح حیات کیوں لکھوں ؟اُس کے بارے میں کون ہے جو نہیں جانتا،اُس کی ایک ایک حرکات وسکنات سے کون ہے جو واقف نہیں ، پورے ملک میں وہی تو واحد شخص تھا ،جس سے ہر طبقے اور ہر نسل کا فرد محبت کرتا تھا ،جس کے “مشنِ ایثار و خدمت خلق “کا ہر شخص ہمہ وقت شریک تھا۔
اِن ہی بُنیادی وجوہات کی بناء پر میں اپنی قوم کے ایک ایک فرد سے ، حکمرانوں سیاسی وغیر سیاسی کٹھ پتلیوں سے،شہرت کے شوقین سیلفی بازوں سے چند سوالات کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ، کیا 19.2کروڑ کی آبادی میں کوئی شخص ا یسا ملے گا جو اس مفلس نما شہنشاہ کے ہم پلہ ہو،کیاکوئی ایسا انسانیت کامسیحاملے گا جس نے کوڑے میں پڑے ایک ببچے کو اُٹھایا ہو اور اسے اپنے باپ ہونے کا نام دیا ہو؟
اُس انسانیت کے مسیحا نے جس کی تصویر اور کارکردگی آج گوگل پر جگمگا رہی ہے 22000بچوں کو اپنی ولدیت دی، کیاکوئی ایسا زندہ دل شخص ہو گا جس نے مردہ شخص کے کھدر کے لباس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو، جس نے مردے کی وراثت میں سے اپنے لئے جوتوں کا انتخاب کیا ،جس نے1لاکھ32ہزار مسخ شدہ لاوارث بدبو دار لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلایا ہو انھیں مشکدار بناکراپنے ہاتھوں سے کفنایا اور دفنایا ہو۔کوئی تو موت سے غافل نہ رہنے والا شخص ایسا ملے جس نے اپنی موت سے پہلے قبر بنا لی ہو اور وصیت کی ہو کہ میرے جسم کے اعضا ء میری قوم پہ قربان کر دینا کیا 19.2کرورڑ کی آبادی میں ایک شخص بھی ایسا ہے ؟ایثار و قربانی کی طویل داستان یہیں ختم نہیں ہو جا تی ہے ،بلکہ میں قربان جاؤں اس کے لواحقین پر، جنھوں نے فوراً اُس عظیم شخص کی وصیت کو پورا کیا۔ کوئی تو شخص ایسا ہو جس کا جسم منوں مٹی تلے دبا ہو جس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہو لیکن اس کی آنکھیں دنیا کو دیکھ رہی ہوں، اتنی بڑی آبادی میں کوئی تو شخص ایسا ہو جو اس کی تقلید کرے اور اپنے اعضاء دوسروں کے لئے عطیہ کرئے؟
ارے تمھیں شاید علم نہیں کہ اس کے خاندان نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کی سوچ کا احترام کرتے ہوئے اپنے اعضاء عطیہ کرنے کے مسودے پر دستخط کر دئیے ہیں اور ہم گفتار کے غازی سوچوں کے دریا میں نقش آب پر خطاطی میں مصروف ہیں۔
میں سوال کرونگا اس بٹی ہوئی قوم سے کہ،اے پاکستانیوں !کیا تم نے ایک شہنشاہ کو کھو نہیں دیا، کیا ایسے شخص کوکسی مسند اعلیٰ پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں تھاجو ہمہ وقت قوم کے دکھوں ،تکلیفوں کو اپنے سینے میں سمائے رکھتا تھا، بلارنگ و نسل ہر شہری کو انسان سمجھتا تھا،وہ اپنے لئے مفلس تھا لیکن غریبوں کے لئے بادشاہ تھا۔ اس باصلاحیت شخص نے ایک ایمبولنس سے دو ہزار ایمبولنس کرلی تھیں اپنے ادارے کو بین الاقوامی شہرت کا حامل بنایا ۔تو کیا حرص و ہوس کی لعنت سے پاک اُس شخصیت میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ پاکستان کو فرش سے عرش تک پہنچاتا؟ ریاست کے شہریوں کو انسان نہ سمجھنے والے حکمرانوں کو کیا اس شخص نے یہ پیغام نہیں دیا کہ دولت لوٹنے کے لئے نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے لینے اور دوسرے ہاتھ سے دینے کا نام ہوتی ہے،کیا اس ملک کے حاکموں نے اُس کی زندگی میں اُس کی رتی برابر بھی قدر کی ، کیا ان موقع پرستوں نے اس کی موت اور اس کے بعداس کی نماز جنازہ پر تصویریں کھنچواکر وڈیوز بنواکر اپنے آپ کو بے حسی کی کیفیت سے نکالنے کی بھونڈی سی کوشش نہیں کی تھی؟
ایک عہد سازمفلس شہنشاہ کے عہد کا خاتمہ ہو گیا۔اے میرے ہم وطنوں!تم نے اور میں نے ایسے شہنشاہ کی قدر کیوں نہیں کی ؟ ہم اگر اس کو مسند اعلیٰ کا اہل اورمستحق سمجھ رہے ہوتے تو آج پاکستان کا ستارہ دنیا کے اُفق پر جگمگا رہا ہوتا۔ اب بھی وقت ہے ہوش میں آجاؤ ۔اُس کی تربیت میں رہنے والے افراد ابھی زندہ ہیں اُن جیسے پھولوں کو چنو اور اپنے دامن میں سمولو ۔ معاشرے میں موجوداُ ن افراد کوتلاش کرو جو اُس جیسے ہوں ۔ زندگی میں کئے گئے فیصلے ہی خوشحالی اور بربادی کا تعین کرتے ہیں ،سوچو بار بار سوچو کہ اب تک تم نے اور میں نے آنے والوں کے لئے کیا کیا ہے ؟صرف کانٹے ہی بوئے ہیں اور بو رہے ہیں اس کی تم کو مجھ کو اور آنے والوں کو سزا ملے گی اور برابر ملے گی اورمل بھی رہی ہے۔
مفلس شہنشاہ عبدالستار ایدھی امر ہوگیا اور آج بھی زندہ ہے ۔ تمھیں یقین نہیں آرہا ہو تو اُس شخص سے پوچھو جو اُس کی آنکھوں سے دُنیا کو دیکھ رہا ہے ۔دیکھ لو! گوگل سرچ انجن پر عبدالستار ایدھی آج بھی زندہ ہے ۔