(ظفر سید)
15 فروری کو مرزا اسد اللہ خاں غالب کی برسی کے موقعے پر ادبی تنظیم ’احباب‘ نے اسلام آباد میں ایک خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا، جس میں ناقدین نے شاعر کی زندگی اور فن کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
اس اجلاس میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے آغاز پر منظر نقوی نے غالب کی زندگی اور فن کے مخلتف پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ اس کے بعد مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر و نقاد اختر عثمان نے شاعر کی فارسی شاعری کے خصائص بیان کیے۔ انھوں نے کہا کہ خسرو، بیدل اور نظیری کو چھوڑ کر شاعر فارسی کے بڑے ہندوستانی شاعر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شاعر خود اپنی فارسی شاعری کو اردو کلام پر ترجیج دیتے تھے لیکن یہ زمانے کی عجیب و غریب ستم ظریفی ہے کہ انھیں اسی اردو کلام نے شہرت بخشی۔
انھوں نے کہا کہ غالب مرتی تہذیب کے نوحہ خواں نہیں ہیں، اور نہ ہی آنے والے دور کے قصیدہ خواں ہیں، بلکہ ان کا کلام نئی صدیوں کے ساتھ ایک بڑے فنکار کا مکالمہ ہے۔
معروف شاعر اور مارکسی نقاد یوسف حسن نے کہا کہ غالب نے فارسیت کے غلبے کے باوجود ایسا آہنگ تخلیق کیا جو ان کی شاعری کو ممتاز بناتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے اس شاعر کو ظاہر سے دلچسپی نہیں بلکہ وہ چیزوں کےاندرونی پراسس کو دریافت کرنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے غالب کے دیوان کے اولین شعر ’نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا‘ کی مثال دی اور کہا کہ غالب نے اس میں روح اور جسم کی دوئی کو عقل کے ذریعے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
معروف شاعر و نقاد احسان اکبر نے کہا کہ شاعر روایت کو چیلنج کر کے اس سے آگے دیکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں
انھوں نے اضافہ کیا کہ غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ عقلی اظہار کے محض ظاہری پہلوؤں تک محدود نہیں رہتے بلکہ شعر کو فنی اعتبار سے جذباتی اظہار بنا دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ غالب نے سٹیم انجن اور مشینی کھڈی کے دور میں شاعری کی تھی، اب روبوٹک آٹومیشن کا زمانہ ہے لیکن غالب کو اب بھی پڑھا جاتا ہے، اور آئندہ بھی پڑھا جاتا رہے گا۔
آخر میں معروف نقاد و شاعر اور اس نشست کے مہمانِ خصوصی احسان اکبر نے کہا کہ اردو بڑی ذمہ داریاں اٹھانے والی زبان ہے، یہ ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہے، اسے اپنی زمین پر پذیرائی نہیں ملی، دوسرے ملک گئی تو وہاں اسے اپنایا نہیں گیا، لیکن عوام نے اسے ہمیشہ گلے سے لگایا۔
انھوں نے کہا کہ غالب محض شاعر نہیں بلکہ مفکر بھی ہے جس نے برصغیر کی تاریخ کو نیا موڑ عطا کیا، کیوں کہ سرسید کو جدید بنانے والا غالب ہے۔ یہ غالب ہی تھے جنھوں نے سرسید سے کہا تھا کہ تم کیا پرانے مقبروں میں جھانکتے پھرتے ہو، ذرا ان انگریزوں کو اور ان کی دخانی کشتیوں کو دیکھو کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں اردو کا پہلا جدید ذہن ہیں۔
انھوں نے کہا کہ غالب ہر حال میں روایت کو چیلنج کر کے اور قدیم کو رد کر اس سے آگے دیکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اس شعر کی مثال دی:
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے