غالب کون تھا، میں کون ہوں؟

غالب

(اصغر بشیر)

غالب کے دور میں تین مہابیانیوں نے عام زندگیوں تک اتنی رسائی حاصل نہیں کی تھی وہ لوگوں کی ذہنی ساخت کو بدل کر ان کو کائنات میں اپنی محدود سوچ کے مطابق اپنا مقام طے کرنے کا حوصلہ عطا کرتے۔ کسی ڈارون نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ انسان بندر کی

لکھاری کی تصویر
صاحب تحریر: اصغر بشیر

ترقی یافتہ نسل ہیں۔ کسی فرائڈ نے ابھی تک جنس کو انسانی وجود کا سب سے مقدم عمل قرار دے کر انسانی سوچ کا تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ کارل مارکس نے ابھی غیرمنصفانہ معاشی تقسیم کے خلاف جہاد کا علم بلند نہیں کیا تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ غالب کو کہنا پڑا کہ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے۔ پھر اسی معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے وہ کسی نادیدہ طاقت کی طرف دیکھتے ہوئے جس کی طرف صدیوں سے انسانی آنکھیں ترستی نگاہوں سے دیکھتی رہی ہیں ،کہتا ہے کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!لیکن آج وقت کی اس ٹائم لائن میں رہتے ہوئے انسان بتدریج خود آگہی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے ہونے کا ادراک اس حقیقت میں پاتا ہے کہ وہ مجبور ہے کہ وہ اپنی منزل بھی خود ہی متعین کرئے پھر اس کے حصول کے لیے وہ اپنے لیے زادِ راہ بھی خود ہی اکھٹا کرئے۔ یہی کائنات کا وہ بگر پلان ہے جس کی بھنک تک پڑ جانے پر کسی دور میں آنکھیں نکال دی

جاتی تھیں اور کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔
یہی سوال اگر میں خود سے پوچھوں تو میں عجیب سی نظروں سے دوسروں کو نہیں دیکھتا اور نہ ہی میں آئیں بائیں شائیں مارتا ہوں۔ میں تن کر بیٹھ جاتا ہوں۔ سینے میں ممکن حد تک سانس بھر لیتا ہوں۔ پھر سوال پوچھنے والی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا دیتا ہوں کہ یہی میں ہوں اور یہی میرا اصل ہے۔میں بتاتا ہوں کہ میں اپنے لیے انسانیت کا سب سے اہم کا م چنتا ہوں ۔ میں اپنے ذمہ لیتا ہوں کہ میرا کام تخیل بانٹنا ہے۔ میں روز صبح سویرے اٹھ کر تخیلات کی منڈی جاتا ہوں۔ اپنے استعداد کے مطابق مختلف نوعیت کے تخیل خریدتا ہوں۔ جن میں کچھ میری پسند کے اور کچھ لوگوں کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتے ہیں۔

اس لیے کہ اگر صرف میری پسند کے ہونگے تو لوگ خریدیں گے نہیں اور اگر صرف لوگوں کی پسند کے ہونگے تو مجھے سکون نہیں ملے گا۔پھر گلی گلی محلے محلے جا کر بیچتا ہوں۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والا سودا ہے۔ میں اپنی گلی میں سبزی بیچنے والے ہاکر سے قطعاً مختلف نہیں ہوں۔ یہ معاشرے نے بتایا کہ کون افضل ہے کون نہیں ۔ ورنہ تو سب پیٹ پالتے ہیں۔ میں خیال بیچتا ہوں تو کیا؛ کمانا تو میں بھی پیسے ہی چاہتا ہوں۔ میری نظر میں میرے پیشے میں صرف ایک اچھی بات ہے کہ ہم سسکتی انسانیت کو جپھی ڈال کر کہتے ہیں کہ چل کوئی گل نہیں!!!