(فہمیدہ ریاض )
کامریڈ (Comrade)ہفتہ وار انگریزی اخبار، مولانا محمد علی جوہر کی امیدوں کا مرکز، ان کے سیاسی نظریات کا ترجمان اور حق و صداقت کا نقیب تھا۔ اس پرچہ میں مولانا نے مختلف سیاسی اور سماجی مسائل پر لکھتے ہوئے جا بجا غالب کے اشعار کا استعمال کیا اور ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا۔ اس طرح غیر اردو داں طبقے سے غالبؔ کو متعارف کرانے کا اولیت کا سہرا مولانا کے سر ہے۔
جن اشعار کو مولانا نے انتخاب کیا ہے۔ ان کے ذریعے انھوں نے قوم میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ خود داری کے جذبہ کو ابھارا اور آزادی کی خواہش اور خواہش کے حصول کے جذبہ کو تیز تر کیا۔
مولانا کی اہمیت اس لحاظ سے سب سے زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ انھوں نے غالبؔ کے اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا۔ ان کے استعمال سے ان کی سیاسی اور سماجی اہمیت اور افادیت کو واضح کیا اور بتلایا کہ ہماری تحریک آزادی میں غالب کس طرح شریک رہے۔ حسن و عشق کے افسانوں سے ہٹ کر انھوں نے زندگی کے وسیع تجربوں کو کس طرح سمیٹ کر الفاظ میں مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔
مولانا محمد علی کو غالبؔ سے روحانی تعلق تھا۔ اپنی تحریروں میں سب سے زیادہ غالبؔ کے اشعار محمد علی نے استعمال کیے۔ افکار کے ہجوم میں بار بار ان کے اشعار کو یاد کیا۔ پڑھا اور سنایا۔ نا امیدی اور غموں کی یورش میں غالب کے اشعار سے اپنے غم کو ہلکا کیا۔ مرزا غالبؔ کے مزار کی تعمیر و مرمت اور غالب کے شایان شان یادگار قائم کرنے کی تجویز سب سے پہلے مولانا نے پیش کی۔ ۱
مولانا محمد علی نے کامریڈمیں غالب کے جو اشعار پیش کیے ہیں ان سے مولانا کی (۱) ذہنی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ ( ۲ ) ان کے دل کا معاملہ کھلتا ہے۔
ان اشعار میں جو ذہنی اضطراب ہے وہ مولانا کے ذہن میں رچا بسا ہوا ہے۔ وہ اشعار اس مرد مجاہد کے دل کی کیفیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ غالب کی مانند مولانا کی آرزوئیں اور خواہشیں نا تمام رہ گئیں۔ خواب ٹوٹ گئے۔ غالب کے اشعار میں وہی درد و کرب ہے جو موالانا کی روح محسوس کر رہی ہے۔
’’ترجمے میں اصل کی خوبیاں بہت مشکل سے آتی ہیں۔ مترجم لوگوں کو اس عظیم زبان کے چند خوبصورت نمونے دکھانا چاہتا ہے جو شعلوں کی طرح روشن ہیں۔ جن سے وہ خود گرمی لیتا ہے۔ جس کی گرمی اس کے جذبات کی گرمی سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ ‘‘
کامریڈ اور ہمدرد کی ضمانت کی ضبطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
It is at times such as this that iron enters into the soul of a man and his reason deserts him. It is such a condition that Ghalib has depicted for us in his well known verse.
وفا کیسی، کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
What fidelity and what love! When it has come to battering one’s head, why then should it be the stone of thy threshold, o stone- hearted one.
محمد علی نے غالب کے اشعار کا جو انگریزی ترجمہ کیا ہے وہ ادبی خدمت یا ترجمے کی نیت سے نہیں کیا۔ وقت کا تقاضا تھا۔ رجحانات کی ہم آہنگی تھی۔ ان اشعار میں مولانا کو اپنا کرب ملا۔ یہ ترجمہ سادہ نثر میں ہے، لفظی ہے۔ مولانا کی انگریزی زبان و ادب پر قدرت، علمی ژرف نگاہی، روایتی تحریر اور فنی بصیرت نے ترجمہ کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔
کسی زبان کی شاعری کا ترجمہ کرنا مشکل کام ہے۔ غالب کے اشعار کے ترجمے میں یہ بات اور دقت طلب ہو جاتی ہے۔ غالب کے الفاظ میں جو معانی کا طلسم ہے۔ ان کے اشعار میں جذبات اور احساسات کی جو گرمی اور سردی ہے۔ ایسے بیان کرنا ،سمجھانا آسان نہیں۔ اس کو دوسری زبان کے پیکر میں پیش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ مولانا اس حقیقت سے واقف تھے۔ اسی لیے انھوں نے باقاعدہ طور پر سنجیدگی سے اس کام کا ارادہ یا کوشش نہیں کی۔ ورنہ اس میں بھی ان کے جوہر نمایاں ہوتے۔ تاہم جو کچھ کیا ہے اس کی اہمیت، افادیت، ادبیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمہ صرف کام چلانے کی خاطر کیا گیا تھا۔ چند اعتبار سے اس ترجمے کی اہمیت مسلم ہے۔
( ۱ ) غالب کے اشعار کا پہلا ترجمہ ہے۔
( ۲ ) ترجمہ دیانت داری سے کیا گیا ہے۔
( ۳ ) ترجمہ نثر میں ہے۔ کیفیات اور احساسات سے پُر ہے۔
( ۴ ) شعر کے اصل مفہوم کو سامنے رکھ کرترجمہ کیا گیاہے۔ وہ کہیں مجروح نہیں ہوتا۔
( ۵ ) مفہوم کو صحت کے ساتھ انگریزی میں پیش کر دیا ہے۔
( ۶ ) غالب کے اکثر مترجمین نے اشعار کا ترجمہ کرنے میں غلطیاں کی ہیں۔ مولانا محمد علی کے ترجمہ میں یہ غلطی نہیں ہے۔
( ۷ ) بعض اشعار کو مولانا نے مختلف موقعوں پر استعمال کیا ہے اور موقعہ کی مناسبت سے ترجمہ کیا ہے۔
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
اک مرگِ ناگہانی اور ہے
All afflictions o Ghalib!, are over only one remains, a sudden death. ۲
دوسری مرتبہ اس کے ترجمے میں trialsکا لفظ استعمال کیا ہے۔
All trials are now over, o Ghalib, Sudden death is the only one that remains.. ۳
غالب کے اشعار کے ذریعے مولانا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس طرح ان کے نہاں خانۂ دل کے حجابات بھی اٹھ گئے اور ان اشعار کے واسطے سے کامریڈ کے پڑھنے والوں سے مولانا مخاطب ہوئے۔ اس ترجمے کا ایک انداز خطابیہ بھی ہے، ملاحظہ کیجیے۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
Why need it be supposed that all would receive the similar answer? Come, let us also climb the Mount Sinai. . ۴
مولانا محمد علی کے ترجمۂ غالب کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن (۱) اس ترجمے کی اہمیت ادبی نہیں۔ (۲) یہ ترجمہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ (۳) صحافتی عجلت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
ذیل میں غالب کے اشعار اور ان کا انگریزی ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔
نکالا چاہتا ہے کام طعنوں سے تُو اے غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
Thou wishest to have thine own way by taunting him. O Ghalib! But why should he favour thee, merely because thou accuses him of unkindness.. ۵
نا صح سے نہ لڑتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے ہیں
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے
Why fight with our counsellor or quarrel with the sarmoniser. we understand every one in what so ever guise he may come. . ۶
ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا ،نہ کہیں مزار ہوتا !
If by dying we are ashamed, why did we not drown ourselves? Never would the pier have been carried nor would have been a grave anywhere.. ۷
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا
He has resolved to give up oppressing his friends after having killed me on the premature repentance of the penitent .. ۸
جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو ، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
When the tavern is deserted, what matters the place ? It may be a mosque , a school or the abode of the saint.. ۹
نہ لٹتا دن کو تو یوں رات کو کیوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
If I had not been robbed in the day could I have slept so soundly at night? The fear of the theft is gone and I greatfully pray for the theif.. ۱۰
نظر لگے نہ کہیں ان کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
I fear lest the evil eye should effect the strength of his hand and arm. why do these people stare at the wound of my heart?. ۱۱
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
اک مرگِ ناگہانی اور ہے
All afflictions O Ghalib! are over only one remains a sudden death. . ۱۲
۱۹۱۲ء میں ترکی کے سیاسی حالات کی ابتری کے سلسلے میں مولانا جوہر نے غالب کے اس شعر کو نقل کیا تھا۔
چت رنجن داس کی موت کے بعد محمد علی نے ۲۶ جون ۱۹۲۵ء کے کامریڈ کے ایک مضمون کے سلسلے میں پھر اس شعر کو نقل کیا اور اس کا یہ ترجمہ کیا۔
All trials are over now , o Ghalib! Sudden death is the only one that remains.. ۱۳
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
Every one of lust has become a worshipper of beauty, the honour of the cult of beauty is now gone.. ۱۴
۱۹۱۳ء میں لکھنؤ میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ مولانا نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر سلف گورنمنٹ Self Govt.)) کے خیال کی مخالفت کی۔ اس وقت مولانا نے غالب کا ذیل کا اشعر استعمال کیا تھا۔
وفا کیسی ، کہاں کا عشق ، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھراے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
Fidelity and love! What fidelity and love? When it comes to breaking one’s head, why need it be the stone of thy threshold. O heart of stone.. ۱۵
۱۹۱۴ء میں کامریڈ کی ضمانت ضبط کئے جانے کا نوٹس ملا۔ مولانا نے پھر اس شعر کو نقل کیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔
What fidelity and what love! When it has come to battering one’s head, why then should it be the stone of thy threshold O, stone hearted one.. ۱۶
کمزوریوں نے کام سب آسان کر دےئے
اب ضبطِ آہ و نالہ بھی مشکل نہیں رہا
Weakness has made everything easy.It is not difficult to suppress the sighs and the wails.. ۱۷
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
مولانا نے غالب کا یہ شعر کئی جگہ استعمال کیا ہے ۔ ’’گپ‘‘کامریڈ کا مقبول کالم تھا۔ کچھ عرصے تک وہ یہ کالم نہ لکھ سکے ۔ ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء کے شمارے میں گپ کا کالم پھر لکھا تو یہ شعر استعمال کیا اور یہ ترجمہ کیا۔
What is there that does not go just as before with out Ghalib ! why shed cop ious tears and why wail for him.. ۱۸
۷ نومبر ۱۹۱۴ ء کو کامریڈ کی ضبطئ ضمانت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ خریدار بقایا رقم ادا کردیں تو کامریڈ ایک سال کے اندر نکلے گا۔ ورنہ
What is there that can not go just the same without Ghalib. Then why weap fast , falling tears and why make mean.. ۱۹
۱۹۵۰ء میں ہمدرد اور کامریڈ کی مالی حالت کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پھر اس شعر کو دہرایا اور یوں ترجمہ کیا۔
What purpose is left unserved without Ghalib why weap copiously and where fore cry “alas” and slack.. ۲۰
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
After giving away the two worlds he thought he has got rid of us. And we are embrassed by the gift and inclined to think it would be ungracious.. ۲۱
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
I know the reward of obedience and piety but my nature can not be prevailed upon to incline that way. . ۲۲
جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
I swim with every rapid current for a while. I do not quite know my guide.. ۲۳
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
why do you gather my enemies . that would be an exhibition, not a grievence. . ۲۴
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
The self forgetfulnesss is not without some reason, O Ghalib, something there must be that has to be unwrapped.. ۲۵
حضرت ناصح اگر آئیں دیدہ و دل فرشِ راہ
پر کوئی اتنا تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
If the councillor consents to visit us ,our eyes and hearts must carpet his path but some one must explain this much. What will he counicel. . ۲۶
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
In the universe , the mere scrawling of fidelity has offerd no consolation. It is a word which owes nothing to sense and meaning.. ۲۷
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھکو زباں اور
O god, They have not understood nor will they understand my meaning . Give them another heart if thy will not give me another toungue.
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بے داد نہیں
My wails are no more than an excellent method of asking for more.O! inventor of cruelties! it is only a demand for more unkindness nor a complaint of cruelty?. ۲۸
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یوں بھی مت کہہ کہ جو کہئے تو گلہ ہوتا ہے
My unkind love get wrath with the very name of complaint; nay say not even that , for if thou sayest that it becomes a complaint. ۲۹
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
In the company of the beloved, he who speaks has his tongue cut off. The beloved alone should speak and others only listen.. ۳۰
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
Mark the diliciousness of the discourse of the beloved that what so ever the beloved said, I took it that it too was in my own mind.. ۳۱
ہم پکاریں پھرکُھلے یوں کون جائے
یار کا دروازہ پائیں گر کھلا
we should call and it should open (this is the proper way of entering) who would care to enter if the beloved’s door was found to be open.. ۳۲
قفس میں مجھ سے رو دادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم !
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
Fear not, o companion , in telling me in the cage what has befallen the garden the nest, that was struck yesterday, by lightening , how can it be mine?. ۳۳
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
Pardon me O Ghalib ! for the bitterness of this lament. I feel this day a pang in my heart more than usual painful.. ۳۴
مفت کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
We used to drink wine without paying for it, but we know the intoxication of hungry poverty would one day show itself in its true colour.. ۳۵
حواشی
۱۔کامریڈ، ۲۷ مئی ۱۹۱۱ء ۲۔ کامریڈ، ۲ نومبر ۱۹۱۲ء، ص: ۳۴۷
۳۔کامریڈ ۲۶ جون ۱۹۹۵ء ، ص: ۳۷۸ ۴۔کامریڈ، ۲ مئی ۱۹۱۴ء
۵۔کامریڈ، ۲۷ مئی ۱۹۱۱ء ۶۔ کامریڈ، ۲۷ مئی ۱۹۱۱ء
۷۔کامریڈ، ۱۷ جون ۱۹۱۱ء ۸۔کامریڈ، ۱۳ جنوری ۱۹۱۴ء
۹۔کامریڈ، ۱۰ فروری ۱۹۱۲ء ۱۰۔کامریڈ، ۲۴ فروری ۱۹۱۲ء
۱۱۔کامریڈ، ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء ۲ ۱۔کامریڈ، ۳ نومبر ۱۹۱۲ء
۱۳۔ کامریڈ ۲۶ جون ۱۹۲۵ء ۱۴۔کامریڈ، ۱۵ مارچ۳ ۱۹۱ء
۱۵۔کامریڈ، ۲۹ مارچ ۱۹۱۳ء ۱۶۔کامریڈ ۷ نومبر۱۹۱۴ء
۱۷۔کامریڈ، ۳ مئی ۱۹۱۳ء ۱۸۔کامریڈ، ۳۱ جنوری ۱۹۱۴ء
۱۹۔کامریڈ، ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء ۲۰۔کامریڈ،۹ اکتوبر ۱۹۲۵ء
۲۱۔کامریڈ، ۱۴ فروری ۱۹۲۵ء ۲۲۔کامریڈ، ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء
۲۳۔کامریڈ، ۲۵ اپریل ۱۹۱۴ء ۲۴۔کامریڈ ، ۲ مئی ۱۹۱۲ء
۲۵۔کامریڈ، ۱۳ جون ۱۹۱۲ء ۲۶۔کامریڈ ۲ مئی ۱۹۱۲ء
۲۷۔کامریڈ ۱۲ اگست ۱۹۱۴ء ۲۸۔کامریڈ، ۱۲ اگست ۱۹۱۴ء
۲۹۔کامریڈ ، ۷ نومبر ۱۹۱۴ء ۳۱۔کامریڈ، ۷ نومبر ۱۹۱۴ء
۳۱۔کامریڈ ،۲۳جنوری ۱۹۲۵ء ۳۲۔کامریڈ، ۱۷ جولائی ۱۹۲۵ء
۳۳۔کامریڈ، ۱۴ اگست ۱۹۲۵ء ۳۴۔کامریڈ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۵ء
۳۵۔کامریڈ، ۱۸ دسمبر ۱۹۲۵ء
خالد کے نام خط : مولانا محمد علی جوہر سے متعلق یہ تحریر خواجہ طارق محمود کی کتاب ’’منتشر مضامین‘‘ سے لی گئی ہے۔ خالد خواجہ صاحب کے بھائی تھے
تقریر اور شعلہ بیانی کے ضمن میں مولانا محمد علی جوہر کا نام ذہن میں آتا ہے۔ قلم اور زبان پر ، اردو یا انگریزی میں مولانا محمد علی کو بیشک کما حقہ ملکہ تھا ۔ ایک انگریز نقاد کی رائے میں بہت کم انگریز ہی اتنی اچھی انگریزی لکھ سکتے تھے ۔ تیسری گول میز کانفرنس لندن ۱۹۳۰ء میں، شدید بیماری کے باوجود ،وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے انہوں نے ہندوستا ن کی آزادی کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں یہ تاریخی الفاظ کہے :
”Where Islam and India are concerned I am mad…..and unless you give us the substance of freedom in India, you will have to give me a grave here.”
کیا حسن اتفاق ہے کہ تمہاری تقریر اور طرز بیاں کو میں نے سراپا سوال اور سراپا اشتعال سے منسوب کیا جو اس عظیم انسان کی تقریر کا وصف تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت سے تم بہت متاثر تھے۔ مولانا محمد علی کی خود نوشت سوانح حیاتMY life .. A Fragment..کے سرورق پر مولانا محمد علی جوہر کی تصویر میں رومی ٹوپی پر چاند تارا نمایاں طور پر مزین تھا۔ اس اثر کو قبول کرتے ہوئے تم نے نہایت فخر یہ انداز میں چاند اپنی ٹوپی پر لگایا۔ اگرچہ یہ گورنمنٹ ہائی سکول کے قواعد کی خلاف ورزی تھی۔ بظاہر چاند تارا قسم کے نشان بجائے خود بے ضرر ہیں لیکن یہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ طاقتور اور دور رس رحجان ان بے ضرر نشانوں میں مضمر ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔ یہ نشانات ، رحجانات اور ان کے اثرات اور عوامل کا موضوع اپنی جگہ اہم اور بحث طلب ہے لیکن اس وقت عین بر محل و موزوں ہے کہ مولانا کا ذکر خیر موزوں طریقے سے مکمل کیا جائے اور ایک کتاب Great Men of Indiaسے چند الفاظ یہاں درج کئے جائیں :
Maulana Mohammad Ali was mild and wild; docile and dogged; impulsive and repulsive constitutionalist and seditionary; nationalist and communalist; panislamist and internationalist. Sometimes he rolled in the high waters of nationalism, sometimes in the backwaters of communalism.
مختصراً: بالفاظ اقبال :
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
پس مان لیا جائے کہ حضرت انسان عموماً مجموعۂ اضداد ہے۔
کبھی سوزوساز رومی کبھی پیچ و تابِ رازی
یہ عجیب کشمکش ہے جو خاص طور پر ان افراد کے حصے میں و افر مقدار میں آتی ہے جو سیاسی اور سماجی اور قومی سطحوں پر معاشرے کی قیادت اور اصلاح کا ذمہ اور فکر اپناتے ہیں ۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عوام کی امنگوں سے ہم آہنگی قیادت کا لازمی جزو ہے جس کے بغیر کوئی رہنما خاطر خواہ ، دور رس کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ۔ اس موضوع پر اقبال کے مندرجہ ذیل شعروں پر خاتمہ بالخیر ہو :
نہ جدا رہے نوا گر تب و تاب زندگی سے
کہ ہلاکئ امم ہے یہ طریق نے نوازی
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
لیکن محمد علی جوہر جیسے انمول کا یہ ذکراتنی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔