(نسیم سید)
نو محرّم تھی، ایّا م عزا کی آخری شب، ہا ل میں اندھیرا کر دیا گیا تھا لیکن اما م بار گاہ کی چو کی پر جلتی ہوئی شمع کی رو شنی چو کی سے پھسل کے بہتی ہو ئی ہال میں بچھی ہو ئی سفید چا ند نی تک آ گئی تھی ۔ اندھیرے اور روشنی کی الجھی ہو ئی کرنیں سفید چا ندنی پر جا نے کیسی کیسی تصو یر ین بنا رہی تھیں۔کبھی بھو ک پیا س اور صد مے سے نڈ ھا ل بچّو ں اور بیبیو ں کی شبیہیں۔ کبھی جلتے ہوئے خیموں اوربے حوا س بچّوںکے دامن تک لپکتی ہوئی آگ کےمنا ظر۔کہیں کسی صحرا میں دور دور تک بکھر ی ہوئی بے گور و کفن لا شیں۔
میں دیر سے
ہا ل کے ایک کو نے میں دیوا ر سے ٹیک لگا ئے ان منا ظر میں بھٹک رہی تھی۔ آج کی رات اما م بار گاہ کا در وازہ بند نہیں کیا جا تا۔ رات بھر زائرین کا تا نتابند ھا رہتا ہے۔ پرسہ دار
غو ل در غول ایک کے بعد ایک آتے ہیں ۔اما م با ر گا ہ میں شمعیں رو شن کر تے ہیں۔ اگر بتیاں سلگا تے ہیں۔خا ک نشین بیبیوں کو ان کے وارثین کا پر سہ دیتے ہیں اور کسی اور
اما م بار گا ہ میں حا ضری دینے چل دیتے ہیں۔
شا م سے یہی سلسلہ تھا۔ پگھلتی ہو ئی شمعوں کے سا تھ رات یوں ہی دھیرے دھیرے پگھلتی گئی۔اگر بتّیا ںجلتے ہوئے خیمو ں کے سا تھ سلگ سلگ کے را کھ ہو رہی تھیں۔ پرسہ داروں کا ہجوم اب کم ہو گیا تھا۔ دیر سے کوئی نہیں آ یا تھا۔ سو گوار سی رات ۔۔۔ بجھتی ہوئی شمعو ں کی اداس سی روشنی۔۔ چا ند نی پر اندھیر ے، اجا لے سے مٹتے بنتے نقوش۔ ابھی میں ان میں بھٹک رہی تھی کہ اچا نک ہال کے دروازے سے کچھ خوا تیں اندر داخل ہوئیں۔ وہ ایک کے بعد ایک اندر آ رہی تھیں۔ دس با رہ نہیں۔ بیس پچیس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعدا د میں۔ایک جلوس کی
صو رت، ننگے سر، ننگے پیر، تھکن سے چور سی ۔۔۔ فرش پہ جہا ں جگہ پاتیں بیٹھ جا تیں۔ میں انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ آج کی رات تو سب کا لے لبا س میں ہو تے ہیں۔۔مگر ان کے لبا س تو کا لے نہیں ہیں؟
ان میں سے کسی نے اما م بار گا ہ کا رخ نہیں کیا؟ زائر ین تو سیدھے اما م با ر گاہ کی طرف
جا تے ہیں۔۔
یہ کو ن ہیں؟
شا ئد اسی سوا ل سے گھبرا کے کسی نے تمام بر قی قمقمے اچا نک رو شن کر دیئے۔ روشنی میں ان کے چہرے یو ں لو دینے لگے جیسے اچا نک سیکڑ و ں چرا غ جل اٹھے ہوں۔ حسن و جمال کا عجیب امتزا ج ہم سب کو مبہو ت کئے تھا۔ان کے سنہری با لوں میں
پڑ ی ہو ئی ریت با دلو ں میں گند ھی سو رج کی ننھی ننھی کر نوں جیسی چمک رہی تھی۔ چاند نی سے تر شے ہو ئے جسمو ں پہ لبا س جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ سوجی ہوئی آنکھیں یوں جھکی ہو ئی تھیں جیسے وہ عالم خواب میں ہوں۔ اپنے ارد گرد سے بے نیاز وہ ایک کے بعد ایک آئیں اور یوں بیٹھتی گئیں جیسے انکی ہمّتیں جوا ب دے گئی ہوں۔جیسے برسوں وہ
کسی درد کے صحرا میں بھٹکتی رہی ہوں۔
میں نے گھبرا کے آ نکھیں ملیں۔ شائد میری آنکھیں جنہیں معجزوں کا یقیں نہیں آ ج کسی معجز ے کی گو ا ہ بننے جا رہی تھیں۔یقینا یہ
حو ریں ہیں ۔انسا ن کا بھیس بدل کے اما م کے پر سے کو آئی ہیں۔شا ید یہ ابھی ابھی کر بلا کی خاک پہ بکھر ی ہوئی لاشوں کاما تم کر کے آئی ہیں۔جلے ہوئے خیموں کی راکھ انہوں نے اپنے با لوں میں ڈا لی ہے۔ لٹی ہوئی بیبیو ں اور بچّوں کے غم میں یہ حا ل بنایاے۔
میری سوچیں اندا زے لگانے میں مصر و ف تھیں کہ ایک سترہ اٹّھا رہ سا ل کی
لڑکی میرے با لکل قریب فرش پہ آ کے بیٹھ گئی۔کسی مجسّمہ ترا ش کے فن کا شاہکار یہ لڑ کی اداسی کی، رنج وغم کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ میں نے ڈر تے ڈرتے کہ کہیں میرے چھو تے ہی غا ئب نہ ہو جا ئے دھیرے سے اس کی پشت پر ہا تھ رکھّا
کو ن ہیں آپ؟
آپ سب؟
اس نے میرے سوا ل کا کو ئی جوا ب نہیں دیا۔ نہ ہی سر اٹھا کے مجھے دیکھا۔ میں اٹھ کے سبیل تک گئی اور پا نی کا گلاس لیے جلدی سے پلٹی۔ پا نی پیجئے۔
میں نے گلا س اس کے آ گے بڑ ھا یا۔۔ اس نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا۔ اس
کی جھیل جیسی آنکھوں میں آنسووں کی مو جیں سر پٹک رہی تھیں۔ ایک نظر اس نے پا نی پر ڈا لی۔ دھیرے سے پہلو بد لا اور پھر سر جھکا کر اپنے آپ میں گم ہو گئی ۔۔لڑ کی نے پہلو بد لا تو اس کے تلوے جو کر تے کے دا من سے ڈھکے ہو ئے تھے عیا ں ہو گئے۔ دکھ اور حیرت کی ایک لہر جیسے مجھے سمیٹ لے گئی۔۔اس کے تلوے یوں زخمی تھے جیسے ان پہ تیروں کی
بوچھاڑ کی گئی ہو۔۔ بڑے بڑے آ بلے پھٹ کے زخم کی صورت اختیا ر کر گئے تھے۔ اس کے پیر دھول میں اٹے ہوئے تھے، یوں لگتا تھا جیسے برسو ں کے صحراؤں کے سفر سے لو ٹی ہو
میں نے گھبرا کے پھر اپنا سوا ل دھرا یا۔
کو ن ہیں آپ؟
اس با ر اس نے اپنے برا بر بیٹھی ہوئی خا تون کی جا نب دیکھا اور آنسووں سے بھیگے لہجے میں اس سے سوا ل کیا۔
کون ہیں ہم؟
پھر زیرِ لب بڑ بڑائی جیسے خودسے پو چھ رہی ہو۔
کون ہیں ہم؟
سوال کی گو نج ہال کی دیوا روں سے، ستونوں سے، فرش سے چھت سے۔ اما م بارگاہ سے سر ٹکرا کے فرش پر بکھر گئی
کون ہیں ہم ؟
کون ہیں ہم؟
نہ جا نے سسکیوں سے رو تی ہوئی بیبیا ں یہ سوال دھرا رہی تھیں۔۔ یا در و دیوا ر فر یا د کر رہے تھے۔ جس عورت سے میرے قریب بیٹھی ہوئی لڑکی نے سوا ل کیا تھا وہ بے قراری سے کھڑ ی ہو گئی ۔۔گردن گھما کے اس نے چاروں طرف کھڑی حیران و پر یشا ن عور تو ں کی طرف دیکھا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھا تی منبر کی طرف بڑھی۔ اس کی شخصیت میں بلا کا دبد بہ تھا۔ جیسے وہ ان تباہ حال بیبیوں کے قافلے کی قا فلہ سالا ر ہو۔وہ خوا تیں کے در میا ں جگہ بنا تی ممبر تک گئی اور اس کے پہلے زینے پر بیٹھ گئی۔زرا دیر سر جھکا ئے وہ ایسے گہری گہری سا نس لیتی رہی جیسے منبر تک چل کے آ نے میں ہا نپ گئی ہو۔کچھ دیر اس نے خو د کو سمیٹا ۔پھر نگاہیں اٹھا کے فر ش پر بیٹھی بیبیوں کے گرد حلقہ با ند ھے ان خوا تین کو د یکھا جو ہال میں پہلے سے مو جو د تھیں۔ اس کی آ نکھو ں کے بیاباں کا گہر ا سنّا ٹا ہماری رگو ں میں ا تر رہا تھا ۔۔ اور ہم سانس روکے اس کی آوا ز کے منتظر تھے۔اس کی نگا ہیں ہما رے چہرو ں سے گز ر تی ہو ئی ادھر ادُھر ہا ل میں عجب حسرت و یاس سے بھٹک رہی تھیں۔وہ ڈو بتی ہوئی نحیف آوا ز میں اٹک اٹک کے مخاطب ہوئی
یہ فر ش عزا۔۔پر سہ داروں کا ہجو م۔۔ امام بارگاہ کی دیواروں پہ جلتے ہوئے خیمو ں کے
منا ظر۔۔ لٹی ہو ئی بیبیو ں کی شبیہیں ۔۔ اور یہ سیا ہ رات ۔۔۔ہمارا خیا ل تھا یہ سب ہمیں
پہچا نتے ہو نگے۔
مگر۔۔۔۔یہا ں بھی اسی ایک سوا ل کی بازگشت نیزے تانے ہمارے سا منے کھڑ ی ہے جس سے گھبر ا کے ہم صحرا صحرا بھٹک رہے ہیں۔۔۔
ہم کو ن ہیں؟؟
اب تو ہم بھی نہیں جا نتے کہ ہم کون ہیں
اس کی آ وا ز چٹخ چٹخ کے جل رہی تھی اور پھیلتی ہوئی آگ کی طر ح اس کی لپیٹیں ہمارے اطرا ف پھیل کے دلوں کو جھلسارہی تھیں۔۔۔آنسوؤں سے سیلاِ۔۔۔دھواں دیتا لہجہ دھیرے دھیرے شعلوں میںتبدیل ہو رہا تھا۔
ہما را کو ئی گھر نہیں۔ہما رے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔۔ہمارا کوئی وا رث نہیں ۔۔ہما رے وارثوں کو قتل کر دیا گیا۔۔ ہماری بچیوں کا نام ا لمدینہ تھا۔۔ہما رے بیٹوں کا نام ا لمصطفیٰ تھا۔۔۔ہم نے ان کا نا م ان کے جد کے نا م پر ر کھا تھا۔۔ بس اتنا ہی قصو ر تھا اں سب کا ۔ ان سب کی لا شیں ان کے خو ن میں ڈو لبی ہماری گلیو ں میں ۔۔ہما رے میدانو ں میں بے گور و کفن پڑی ہیں۔۔ہماری بیٹیاں آبلہ پا۔ ایک ایک دروازے پر آواز لگا رہی ہیں،
المد د۔۔المد د
مگر کو ئی اپنا در وازہ ہمارے لئے نہیں کھو لتا ۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔وہ پچھتّر سا ل کی عورت اور وہ چھ سال کی بچّی۔
اس نے سرنہڑائے، زمین کو تکتی بو ڑھی عورت اور حیرا نی کی تصو یر بنی چھو ٹی سی بچّی کی
طر ف اشا رہ کیا۔
تم انہیں پہجا نتے ہو نا؟ کہ ان کی بے حرمتی کا قصّہ کئی بار سنا یا گیا ہے دنیا کو۔۔
طنز کی سان پر تیز کی ہو ئی آ واز تلوا ر کی طرح دلو ں کو کا ٹ کے ٹکرے ٹکرے کر رہی تھی۔۔ہما ری آ نکھیں برس رہی تھیں۔
اور اس کا لہجہ بپھرے ہو ئے بادلوں کی طرح گر ج رہا تھا۔میں اگر اہل بو ژ نیا کامرثیہ
شرو ع کر دوں۔ ان کی حدیث پڑ ھوں۔ وہ واقعا ت جو ہم پہ گز رے ہیں ایک ایک کر کے سناوں تو یہ شب عا شو ر اتنا طول پکڑ ے گی کہ بر سوں سویرا نہیں ہو گا۔۔۔۔
اس پر ایک با ر پھر رقّت طا ری تھی ۔۔گر جتی ہوئی آ وا ز آنسووں کی ٹپکتی ہو ئی بو ندوں میں بجھ کے راکھ ہوئی۔ وہ چپ تھی ۔۔۔مگر لگتا تھا کچھ کہناچا ہ رہی ہے اور کہہ نہیں پا رہی ہے۔ کبھی فرش پہ بیٹھی بے حا ل بیبیو ں کو دیکھتی۔ کبھی اپنے پھٹے ہو ئے کرتے کا دامن پھیلا تی۔ یوں لگتا تھا کہ کو ئی واقعہ سنانا چا ہ رہی ہو مگر ہمّت نہ ہو سنانے کی۔۔ وہ ذرا دیر سر جھکا ئے زار و قطا ر رو تی رہی۔پھر یو ں گو یا ہوئی جیسے کسی اور سے نہیں خو د سے مخاطب ہو۔
ہم با رہ دن سے قید تھے ۔۔
وہ پھر بلک بلک کے رو نے لگی اورفر ش پہ بکھر ی ہوئی سسکیاں اچانک زور زور سے بین کر نے لگیں۔ آ نسووں اور سسکیو ں کے در میاں اس نے گفتگو
جا ری رکھی۔
خاردار تاروں سے گھرے ہو ئے ایک احا طے میں ہم سینکڑوں کی تعدا میں عو ر تیں اور بچّے بھوک، پیاس اور رنج و غم سے نڈ ھا ل با رہ دن سے قید تھے۔ بہت سی لڑ کیوں کی گودوں میں شیر خوار بچّے تھے جو راتو ں کو رو تے توفوجی وردی میں ملبوس پہر یدا ر ہمیں ڈا نٹتے۔ انہیں چپ کراو ورنہ ہما ری گو لیا ں انہیں چپ کرا دیں گی۔ خو ف و دہشت سے ہم بچّو ں کے منہ پہ ہا تھ رکھ دیتے۔ ان کو کلیجے سے لپٹا ئے رکھتے۔ٹہل ٹہل کے انہیں
بہلا تے اور بلک بلک کے انکی زندگی کی دعا ئیں ما نگتے ۔۔
اس دن ایک پہریدا ر ہما رے بچّو ں کی گنتی کر کے گیا تھا۔
اس نے زرا دیر رک کے اپنی آواز پر قا بو پانے کی کو شش کی اور پھر گھٹنوں پر سر رکھ کے زار و قطا ر رو نے لگی۔
خو ف کا طو فا ن مجھے بہا ئے لئے جا رہا تھا۔۔یا اللہ ۔۔ان کے بچّو ں کی خیر۔۔۔۔۔یہ کیا وا قعہ سنا نے وا لی ہے
عو رت نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا یا ، کر تے کے دا من سے اپنا آنسوو ں سے بھیگا ہوا چہرہ
پو نچھااور پھرمخا طب ہو ئی۔
دو پہر ڈھل رہی تھی بچّے بھو کے تھے اور بھو ک سے رو رہے تھے ۔۔۔ما ئیں انکے منہ پہ ہا تھ رکھ کے انہیں چپ کرا نے کی کو شش کر رہی تھیں۔۔اچا نک کچھ وردی پو ش احا طے میں دا خل ہو ئے۔ انہو ں نے پہر یدارو ں سے کچھ کہا۔ پہر یداروں نے
بندو قیں ہما ری طرف تا ن لیں اور ہمیں احاطے کے در وازے کی طرف بڑ ھنے کا حکم دیا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ اب ہمیں کہاں لے جا ئیں گے۔ خوف سے ایک قدم چلنا
محا ل تھا۔ وہ ہمیں جا نوروں کی طرح ہا نکتے ہو ئے نہ جانے کدھر لئے جا رہے تھے۔ ہما رے چا روں طرف بندو قیں تھا مے فو جی تھے۔ان فو جیو ں کے ہا تھو ں میں چمڑے کی لمبی لمبی چا بکیں جیسی تھیں جس سے وہ ہما رے پیرو ں پہ مسلسل ضر ب لگا رہے تھے اور تا کید کر تے جا تے تھے
جلد ی چلو
تیز چلو۔
گرتے پڑتے اور خوف سے لرز تے جب ہم در یا کے پل پر پہنچے تو انہو ں نے چیخ کے ہمیں رک جا نےحکم دیا۔ ہما رے گر د فوجیو ں کا حلقہ تنگ ہو گیا
ان میں سے ایک نے بلند آ وا ز سے ہمیں حکم دیا۔
جو بچّہ تمہیں سب سے پیا را ہو اسے گو د میں اٹھا لو
خو ف سے ہما رے دل دھڑ کنا بھو ل گئے تھے۔۔چھو ٹے چھوٹے بچّے ماؤں کی ٹا نگو ں سے لپٹے تھر تھر کا نپ رہے تھے۔
جلدی کرو
اس نے پھر چّلا کے ہمیں حکم دیا۔۔۔۔اس کے سا تھ ہی فوجیوں نے بندو ق کا نشا نہ ہما ری طر ف کر کے لبلبی پر انگلی جما لی۔ ہم سب نے گھبرا کے سب سے چھو ٹے بچّو ں کو گو د میں اٹھا لیا۔ میں دس تک گنتی گنوں گا۔ ان فوجیوں میں سے ایک نے کہا۔
دس کی گنتی تک اپنے گود کے بچّے در یا میں پھینک دو۔۔ ورنہ ہم ان بچّو ں کو بھون دیں گے جو تمہا ری ٹا نگوں سے لپٹے کھڑے ہیں۔
ہم نے گڑ گڑا کے رحم کی بھیک ما نگی۔ ہم انکے قد مو ں میں گر کے لو ٹنے لگے
مگر انکی گنتی جا ری رہی ۔۔۔۔آ ٹھویں گنتی پہ ایک گو لی نے ماں کی ٹا نگو ں سے لپٹے ایک بچّے کا کا م تمام کیا
نویں گنتی پہ ایک اور بچّہ اپنے خون میں ڈوب گیا۔۔۔۔دسویں گنتی پر تڑا تڑ کئی بچّے زمیں پر گرے۔۔۔
اس میں اب تا بِ بیا ں نہیں تھی، وہ اپنا سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔۔ اپنے منہ پہ طما نچے ما ر رہی تھی، پھر وہ منبرکے زینے پر کھڑ ی ہو گئی۔
اے اہلِ عزا ۔۔۔۔
ہم نے اپنے بچّے در یا میں پھینک دیئے ۔۔ کا
یہ جو فر ش پہ بے حال و بے حوا س عورتیں بیٹھی ہیں یہ عورتیں اپنے بچّے در یا میں پھینک آئی ہیں۔ہما ری بچّیا ں اپنے قا تلوں کا حمل اٹھا ئے صحرا صحرا بھٹک رہی ہیں۔۔۔مگر دن میں تیں مر تبہ جلدی کرو نیکی کے لئے۔۔۔۔۔ کی اذانیں کر نے وا لی زمینو ں نے ہما ری فریاد نہیں سنی۔
فرش پہ بیٹھی عو ر تو ں میں کہرام بپا تھا۔۔۔۔
اما م با ر گا ہ میں علم تھر تھر ا رہے تھے ۔۔۔در و دیوار ان کی آہ و زا ری سے لرز رہے تھے۔
اما م بارگاہ کی چوکی پہ آگ لگ گئی ۔۔۔۔کو ئی کسی سے کہ رہا تھا۔
پا نی لاو۔۔۔
آ گ تیزی سے پھیل رہی ہے ۔۔۔
میں گھبرا کے سبیل کی طرف بھاگی
چو کی جل رہی تھی ۔۔۔چو کی کے سا تھ خیمے جل رہے تھے ۔۔۔بیبیا ں جل رہی تھیں۔۔۔دھوئیں میں آگ میں گھرے ہوئے بچّے جل رہے تھے۔
مجبور آوازیں المدد ۔۔۔۔۔المدد پکا ر رہی تھیں۔
میں گلاس میں پا نی لے کے بیبیو ں کی طرف پلٹی ۔۔۔۔۔مگر فرش پہ کو ئی نہیں تھا۔
کہاں گئیں وہ سب؟ میں نے زہرا کو روک کے حیرانی سے پوچھا
کو ن؟؟
ابھی جن سے ہال بھرا ہوا تھا۔۔وہ سب جو فرش پہ بیٹھی زار و قطا ر رو رہی تھیں وہ سب کہا ں گئیں ؟؟
یہا ں تو دیر سے کو ئی نہیں آیا!!
کو ئی نہیں آ یا؟؟
میں سر تھا م کے فرش پر بیٹھ گئی ۔ میں نے اس لڑکی کی پشت پر ابھی ہا تھ رکھا تھا۔۔۔ابھی تو سب یہا ں
تھیں۔۔۔۔میں نے گھبرا کے چا روں طرف دیکھا۔۔مگر وہا ں کوئی نہیں تھا۔
یا جلی ہو ئی چوکی تھی یا د ھوئیں میں لپٹی المدد ،،المدد کی سسکیاں
پر ہو ل سنّا ٹا،،اور سنّا ٹے میں ما تم کر تی آ وازیں
اے اہلِ عزا ہم نے اپنے بچے دریا میں پھینک دیتے ہیں
نو محرّم تھی، ایّا م عزا کی آخری شب، ہا ل میں اندھیرا کر دیا گیا تھا لیکن اما م بار گاہ کی چو کی پر جلتی ہوئی شمع کی رو شنی چو کی سے پھسل کے بہتی ہو ئی ہال میں بچھی ہو ئی سفید چا ند نی تک آ گئی تھی ۔ اندھیرے اور روشنی کی الجھی ہو ئی کرنیں سفید چا ندنی پر جا نے کیسی کیسی تصو یر ین بنا رہی تھیں۔کبھی بھو ک پیا س اور صد مے سے نڈ ھا ل بچّو ں اور بیبیو ں کی شبیہیں۔ کبھی جلتے ہوئے خیموں اوربے حوا س بچّوںکے دامن تک لپکتی ہوئی آگ کےمنا ظر۔کہیں کسی صحرا میں دور دور تک بکھر ی ہوئی بے گور و کفن لا شیں۔
میں دیر سے
ہا ل کے ایک کو نے میں دیوا ر سے ٹیک لگا ئے ان منا ظر میں بھٹک رہی تھی۔ آج کی رات اما م بار گاہ کا در وازہ بند نہیں کیا جا تا۔ رات بھر زائرین کا تا نتابند ھا رہتا ہے۔ پرسہ دار
غو ل در غول ایک کے بعد ایک آتے ہیں ۔اما م با ر گا ہ میں شمعیں رو شن کر تے ہیں۔ اگر بتیاں سلگا تے ہیں۔خا ک نشین بیبیوں کو ان کے وارثین کا پر سہ دیتے ہیں اور کسی اور
اما م بار گا ہ میں حا ضری دینے چل دیتے ہیں۔
شا م سے یہی سلسلہ تھا۔ پگھلتی ہو ئی شمعوں کے سا تھ رات یوں ہی دھیرے دھیرے پگھلتی گئی۔اگر بتّیا ںجلتے ہوئے خیمو ں کے سا تھ سلگ سلگ کے را کھ ہو رہی تھیں۔ پرسہ داروں کا ہجوم اب کم ہو گیا تھا۔ دیر سے کوئی نہیں آ یا تھا۔ سو گوار سی رات ۔۔۔ بجھتی ہوئی شمعو ں کی اداس سی روشنی۔۔ چا ند نی پر اندھیر ے، اجا لے سے مٹتے بنتے نقوش۔ ابھی میں ان میں بھٹک رہی تھی کہ اچا نک ہال کے دروازے سے کچھ خوا تیں اندر داخل ہوئیں۔ وہ ایک کے بعد ایک اندر آ رہی تھیں۔ دس با رہ نہیں۔ بیس پچیس نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعدا د میں۔ایک جلوس کی
صو رت، ننگے سر، ننگے پیر، تھکن سے چور سی ۔۔۔ فرش پہ جہا ں جگہ پاتیں بیٹھ جا تیں۔ میں انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ آج کی رات تو سب کا لے لبا س میں ہو تے ہیں۔۔مگر ان کے لبا س تو کا لے نہیں ہیں؟
ان میں سے کسی نے اما م بار گا ہ کا رخ نہیں کیا؟ زائر ین تو سیدھے اما م با ر گاہ کی طرف
جا تے ہیں۔۔
یہ کو ن ہیں؟
شا ئد اسی سوا ل سے گھبرا کے کسی نے تمام بر قی قمقمے اچا نک رو شن کر دیئے۔ روشنی میں ان کے چہرے یو ں لو دینے لگے جیسے اچا نک سیکڑ و ں چرا غ جل اٹھے ہوں۔ حسن و جمال کا عجیب امتزا ج ہم سب کو مبہو ت کئے تھا۔ان کے سنہری با لوں میں
پڑ ی ہو ئی ریت با دلو ں میں گند ھی سو رج کی ننھی ننھی کر نوں جیسی چمک رہی تھی۔ چاند نی سے تر شے ہو ئے جسمو ں پہ لبا س جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ سوجی ہوئی آنکھیں یوں جھکی ہو ئی تھیں جیسے وہ عالم خواب میں ہوں۔ اپنے ارد گرد سے بے نیاز وہ ایک کے بعد ایک آئیں اور یوں بیٹھتی گئیں جیسے انکی ہمّتیں جوا ب دے گئی ہوں۔جیسے برسوں وہ
کسی درد کے صحرا میں بھٹکتی رہی ہوں۔
میں نے گھبرا کے آ نکھیں ملیں۔ شائد میری آنکھیں جنہیں معجزوں کا یقیں نہیں آ ج کسی معجز ے کی گو ا ہ بننے جا رہی تھیں۔یقینا یہ
حو ریں ہیں ۔انسا ن کا بھیس بدل کے اما م کے پر سے کو آئی ہیں۔شا ید یہ ابھی ابھی کر بلا کی خاک پہ بکھر ی ہوئی لاشوں کاما تم کر کے آئی ہیں۔جلے ہوئے خیموں کی راکھ انہوں نے اپنے با لوں میں ڈا لی ہے۔ لٹی ہوئی بیبیو ں اور بچّوں کے غم میں یہ حا ل بنایاے۔
میری سوچیں اندا زے لگانے میں مصر و ف تھیں کہ ایک سترہ اٹّھا رہ سا ل کی
لڑکی میرے با لکل قریب فرش پہ آ کے بیٹھ گئی۔کسی مجسّمہ ترا ش کے فن کا شاہکار یہ لڑ کی اداسی کی، رنج وغم کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔ میں نے ڈر تے ڈرتے کہ کہیں میرے چھو تے ہی غا ئب نہ ہو جا ئے دھیرے سے اس کی پشت پر ہا تھ رکھّا
کو ن ہیں آپ؟
آپ سب؟
اس نے میرے سوا ل کا کو ئی جوا ب نہیں دیا۔ نہ ہی سر اٹھا کے مجھے دیکھا۔ میں اٹھ کے سبیل تک گئی اور پا نی کا گلاس لیے جلدی سے پلٹی۔ پا نی پیجئے۔
میں نے گلا س اس کے آ گے بڑ ھا یا۔۔ اس نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا۔ اس
کی جھیل جیسی آنکھوں میں آنسووں کی مو جیں سر پٹک رہی تھیں۔ ایک نظر اس نے پا نی پر ڈا لی۔ دھیرے سے پہلو بد لا اور پھر سر جھکا کر اپنے آپ میں گم ہو گئی ۔۔لڑ کی نے پہلو بد لا تو اس کے تلوے جو کر تے کے دا من سے ڈھکے ہو ئے تھے عیا ں ہو گئے۔ دکھ اور حیرت کی ایک لہر جیسے مجھے سمیٹ لے گئی۔۔اس کے تلوے یوں زخمی تھے جیسے ان پہ تیروں کی
بوچھاڑ کی گئی ہو۔۔ بڑے بڑے آ بلے پھٹ کے زخم کی صورت اختیا ر کر گئے تھے۔ اس کے پیر دھول میں اٹے ہوئے تھے، یوں لگتا تھا جیسے برسو ں کے صحراؤں کے سفر سے لو ٹی ہو
میں نے گھبرا کے پھر اپنا سوا ل دھرا یا۔
کو ن ہیں آپ؟
اس با ر اس نے اپنے برا بر بیٹھی ہوئی خا تون کی جا نب دیکھا اور آنسووں سے بھیگے لہجے میں اس سے سوا ل کیا۔
کون ہیں ہم؟
پھر زیرِ لب بڑ بڑائی جیسے خودسے پو چھ رہی ہو۔
کون ہیں ہم؟
سوال کی گو نج ہال کی دیوا روں سے، ستونوں سے، فرش سے چھت سے۔ اما م بارگاہ سے سر ٹکرا کے فرش پر بکھر گئی
کون ہیں ہم ؟
کون ہیں ہم؟
نہ جا نے سسکیوں سے رو تی ہوئی بیبیا ں یہ سوال دھرا رہی تھیں۔۔ یا در و دیوا ر فر یا د کر رہے تھے۔ جس عورت سے میرے قریب بیٹھی ہوئی لڑکی نے سوا ل کیا تھا وہ بے قراری سے کھڑ ی ہو گئی ۔۔گردن گھما کے اس نے چاروں طرف کھڑی حیران و پر یشا ن عور تو ں کی طرف دیکھا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھا تی منبر کی طرف بڑھی۔ اس کی شخصیت میں بلا کا دبد بہ تھا۔ جیسے وہ ان تباہ حال بیبیوں کے قافلے کی قا فلہ سالا ر ہو۔وہ خوا تیں کے در میا ں جگہ بنا تی ممبر تک گئی اور اس کے پہلے زینے پر بیٹھ گئی۔زرا دیر سر جھکا ئے وہ ایسے گہری گہری سا نس لیتی رہی جیسے منبر تک چل کے آ نے میں ہا نپ گئی ہو۔کچھ دیر اس نے خو د کو سمیٹا ۔پھر نگاہیں اٹھا کے فر ش پر بیٹھی بیبیوں کے گرد حلقہ با ند ھے ان خوا تین کو د یکھا جو ہال میں پہلے سے مو جو د تھیں۔ اس کی آ نکھو ں کے بیاباں کا گہر ا سنّا ٹا ہماری رگو ں میں ا تر رہا تھا ۔۔ اور ہم سانس روکے اس کی آوا ز کے منتظر تھے۔اس کی نگا ہیں ہما رے چہرو ں سے گز ر تی ہو ئی ادھر ادُھر ہا ل میں عجب حسرت و یاس سے بھٹک رہی تھیں۔وہ ڈو بتی ہوئی نحیف آوا ز میں اٹک اٹک کے مخاطب ہوئی
یہ فر ش عزا۔۔پر سہ داروں کا ہجو م۔۔ امام بارگاہ کی دیواروں پہ جلتے ہوئے خیمو ں کے
منا ظر۔۔ لٹی ہو ئی بیبیو ں کی شبیہیں ۔۔ اور یہ سیا ہ رات ۔۔۔ہمارا خیا ل تھا یہ سب ہمیں
پہچا نتے ہو نگے۔
مگر۔۔۔۔یہا ں بھی اسی ایک سوا ل کی بازگشت نیزے تانے ہمارے سا منے کھڑ ی ہے جس سے گھبر ا کے ہم صحرا صحرا بھٹک رہے ہیں۔۔۔
ہم کو ن ہیں؟؟
اب تو ہم بھی نہیں جا نتے کہ ہم کون ہیں
اس کی آ وا ز چٹخ چٹخ کے جل رہی تھی اور پھیلتی ہوئی آگ کی طر ح اس کی لپیٹیں ہمارے اطرا ف پھیل کے دلوں کو جھلسارہی تھیں۔۔۔آنسوؤں سے سیلاِ۔۔۔دھواں دیتا لہجہ دھیرے دھیرے شعلوں میںتبدیل ہو رہا تھا۔
ہما را کو ئی گھر نہیں۔ہما رے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔۔ہمارا کوئی وا رث نہیں ۔۔ہما رے وارثوں کو قتل کر دیا گیا۔۔ ہماری بچیوں کا نام ا لمدینہ تھا۔۔ہما رے بیٹوں کا نام ا لمصطفیٰ تھا۔۔۔ہم نے ان کا نا م ان کے جد کے نا م پر ر کھا تھا۔۔ بس اتنا ہی قصو ر تھا اں سب کا ۔ ان سب کی لا شیں ان کے خو ن میں ڈو لبی ہماری گلیو ں میں ۔۔ہما رے میدانو ں میں بے گور و کفن پڑی ہیں۔۔ہماری بیٹیاں آبلہ پا۔ ایک ایک دروازے پر آواز لگا رہی ہیں،
المد د۔۔المد د
مگر کو ئی اپنا در وازہ ہمارے لئے نہیں کھو لتا ۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔وہ پچھتّر سا ل کی عورت اور وہ چھ سال کی بچّی۔
اس نے سرنہڑائے، زمین کو تکتی بو ڑھی عورت اور حیرا نی کی تصو یر بنی چھو ٹی سی بچّی کی
طر ف اشا رہ کیا۔
تم انہیں پہجا نتے ہو نا؟ کہ ان کی بے حرمتی کا قصّہ کئی بار سنا یا گیا ہے دنیا کو۔۔
طنز کی سان پر تیز کی ہو ئی آ واز تلوا ر کی طرح دلو ں کو کا ٹ کے ٹکرے ٹکرے کر رہی تھی۔۔ہما ری آ نکھیں برس رہی تھیں۔
اور اس کا لہجہ بپھرے ہو ئے بادلوں کی طرح گر ج رہا تھا۔میں اگر اہل بو ژ نیا کامرثیہ
شرو ع کر دوں۔ ان کی حدیث پڑ ھوں۔ وہ واقعا ت جو ہم پہ گز رے ہیں ایک ایک کر کے سناوں تو یہ شب عا شو ر اتنا طول پکڑ ے گی کہ بر سوں سویرا نہیں ہو گا۔۔۔۔
اس پر ایک با ر پھر رقّت طا ری تھی ۔۔گر جتی ہوئی آ وا ز آنسووں کی ٹپکتی ہو ئی بو ندوں میں بجھ کے راکھ ہوئی۔ وہ چپ تھی ۔۔۔مگر لگتا تھا کچھ کہناچا ہ رہی ہے اور کہہ نہیں پا رہی ہے۔ کبھی فرش پہ بیٹھی بے حا ل بیبیو ں کو دیکھتی۔ کبھی اپنے پھٹے ہو ئے کرتے کا دامن پھیلا تی۔ یوں لگتا تھا کہ کو ئی واقعہ سنانا چا ہ رہی ہو مگر ہمّت نہ ہو سنانے کی۔۔ وہ ذرا دیر سر جھکا ئے زار و قطا ر رو تی رہی۔پھر یو ں گو یا ہوئی جیسے کسی اور سے نہیں خو د سے مخاطب ہو۔
ہم با رہ دن سے قید تھے ۔۔
وہ پھر بلک بلک کے رو نے لگی اورفر ش پہ بکھر ی ہوئی سسکیاں اچانک زور زور سے بین کر نے لگیں۔ آ نسووں اور سسکیو ں کے در میاں اس نے گفتگو
جا ری رکھی۔
خاردار تاروں سے گھرے ہو ئے ایک احا طے میں ہم سینکڑوں کی تعدا میں عو ر تیں اور بچّے بھوک، پیاس اور رنج و غم سے نڈ ھا ل با رہ دن سے قید تھے۔ بہت سی لڑ کیوں کی گودوں میں شیر خوار بچّے تھے جو راتو ں کو رو تے توفوجی وردی میں ملبوس پہر یدا ر ہمیں ڈا نٹتے۔ انہیں چپ کراو ورنہ ہما ری گو لیا ں انہیں چپ کرا دیں گی۔ خو ف و دہشت سے ہم بچّو ں کے منہ پہ ہا تھ رکھ دیتے۔ ان کو کلیجے سے لپٹا ئے رکھتے۔ٹہل ٹہل کے انہیں
بہلا تے اور بلک بلک کے انکی زندگی کی دعا ئیں ما نگتے ۔۔
اس دن ایک پہریدا ر ہما رے بچّو ں کی گنتی کر کے گیا تھا۔
اس نے زرا دیر رک کے اپنی آواز پر قا بو پانے کی کو شش کی اور پھر گھٹنوں پر سر رکھ کے زار و قطا ر رو نے لگی۔
خو ف کا طو فا ن مجھے بہا ئے لئے جا رہا تھا۔۔یا اللہ ۔۔ان کے بچّو ں کی خیر۔۔۔۔۔یہ کیا وا قعہ سنا نے وا لی ہے
عو رت نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا یا ، کر تے کے دا من سے اپنا آنسوو ں سے بھیگا ہوا چہرہ
پو نچھااور پھرمخا طب ہو ئی۔
دو پہر ڈھل رہی تھی بچّے بھو کے تھے اور بھو ک سے رو رہے تھے ۔۔۔ما ئیں انکے منہ پہ ہا تھ رکھ کے انہیں چپ کرا نے کی کو شش کر رہی تھیں۔۔اچا نک کچھ وردی پو ش احا طے میں دا خل ہو ئے۔ انہو ں نے پہر یدارو ں سے کچھ کہا۔ پہر یداروں نے
بندو قیں ہما ری طرف تا ن لیں اور ہمیں احاطے کے در وازے کی طرف بڑ ھنے کا حکم دیا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ اب ہمیں کہاں لے جا ئیں گے۔ خوف سے ایک قدم چلنا
محا ل تھا۔ وہ ہمیں جا نوروں کی طرح ہا نکتے ہو ئے نہ جانے کدھر لئے جا رہے تھے۔ ہما رے چا روں طرف بندو قیں تھا مے فو جی تھے۔ان فو جیو ں کے ہا تھو ں میں چمڑے کی لمبی لمبی چا بکیں جیسی تھیں جس سے وہ ہما رے پیرو ں پہ مسلسل ضر ب لگا رہے تھے اور تا کید کر تے جا تے تھے
جلد ی چلو
تیز چلو۔
گرتے پڑتے اور خوف سے لرز تے جب ہم در یا کے پل پر پہنچے تو انہو ں نے چیخ کے ہمیں رک جا نےحکم دیا۔ ہما رے گر د فوجیو ں کا حلقہ تنگ ہو گیا
ان میں سے ایک نے بلند آ وا ز سے ہمیں حکم دیا۔
جو بچّہ تمہیں سب سے پیا را ہو اسے گو د میں اٹھا لو
خو ف سے ہما رے دل دھڑ کنا بھو ل گئے تھے۔۔چھو ٹے چھوٹے بچّے ماؤں کی ٹا نگو ں سے لپٹے تھر تھر کا نپ رہے تھے۔
جلدی کرو
اس نے پھر چّلا کے ہمیں حکم دیا۔۔۔۔اس کے سا تھ ہی فوجیوں نے بندو ق کا نشا نہ ہما ری طر ف کر کے لبلبی پر انگلی جما لی۔ ہم سب نے گھبرا کے سب سے چھو ٹے بچّو ں کو گو د میں اٹھا لیا۔ میں دس تک گنتی گنوں گا۔ ان فوجیوں میں سے ایک نے کہا۔
دس کی گنتی تک اپنے گود کے بچّے در یا میں پھینک دو۔۔ ورنہ ہم ان بچّو ں کو بھون دیں گے جو تمہا ری ٹا نگوں سے لپٹے کھڑے ہیں۔
ہم نے گڑ گڑا کے رحم کی بھیک ما نگی۔ ہم انکے قد مو ں میں گر کے لو ٹنے لگے
مگر انکی گنتی جا ری رہی ۔۔۔۔آ ٹھویں گنتی پہ ایک گو لی نے ماں کی ٹا نگو ں سے لپٹے ایک بچّے کا کا م تمام کیا
نویں گنتی پہ ایک اور بچّہ اپنے خون میں ڈوب گیا۔۔۔۔دسویں گنتی پر تڑا تڑ کئی بچّے زمیں پر گرے۔۔۔
اس میں اب تا بِ بیا ں نہیں تھی، وہ اپنا سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔۔ اپنے منہ پہ طما نچے ما ر رہی تھی، پھر وہ منبرکے زینے پر کھڑ ی ہو گئی۔
اے اہلِ عزا ۔۔۔۔
ہم نے اپنے بچّے در یا میں پھینک دیئے ۔۔ کا
یہ جو فر ش پہ بے حال و بے حوا س عورتیں بیٹھی ہیں یہ عورتیں اپنے بچّے در یا میں پھینک آئی ہیں۔ہما ری بچّیا ں اپنے قا تلوں کا حمل اٹھا ئے صحرا صحرا بھٹک رہی ہیں۔۔۔مگر دن میں تیں مر تبہ جلدی کرو نیکی کے لئے۔۔۔۔۔ کی اذانیں کر نے وا لی زمینو ں نے ہما ری فریاد نہیں سنی۔
فرش پہ بیٹھی عو ر تو ں میں کہرام بپا تھا۔۔۔۔
اما م با ر گا ہ میں علم تھر تھر ا رہے تھے ۔۔۔در و دیوار ان کی آہ و زا ری سے لرز رہے تھے۔
اما م بارگاہ کی چوکی پہ آگ لگ گئی ۔۔۔۔کو ئی کسی سے کہ رہا تھا۔
پا نی لاو۔۔۔
آ گ تیزی سے پھیل رہی ہے ۔۔۔
میں گھبرا کے سبیل کی طرف بھاگی
چو کی جل رہی تھی ۔۔۔چو کی کے سا تھ خیمے جل رہے تھے ۔۔۔بیبیا ں جل رہی تھیں۔۔۔دھوئیں میں آگ میں گھرے ہوئے بچّے جل رہے تھے۔
مجبور آوازیں المدد ۔۔۔۔۔المدد پکا ر رہی تھیں۔
میں گلاس میں پا نی لے کے بیبیو ں کی طرف پلٹی ۔۔۔۔۔مگر فرش پہ کو ئی نہیں تھا۔
کہاں گئیں وہ سب؟ میں نے زہرا کو روک کے حیرانی سے پوچھا
کو ن؟؟
ابھی جن سے ہال بھرا ہوا تھا۔۔وہ سب جو فرش پہ بیٹھی زار و قطا ر رو رہی تھیں وہ سب کہا ں گئیں ؟؟
یہا ں تو دیر سے کو ئی نہیں آیا!!
کو ئی نہیں آ یا؟؟
میں سر تھا م کے فرش پر بیٹھ گئی ۔ میں نے اس لڑکی کی پشت پر ابھی ہا تھ رکھا تھا۔۔۔ابھی تو سب یہا ں
تھیں۔۔۔۔میں نے گھبرا کے چا روں طرف دیکھا۔۔مگر وہا ں کوئی نہیں تھا۔
یا جلی ہو ئی چوکی تھی یا د ھوئیں میں لپٹی المدد ،،المدد کی سسکیاں
پر ہو ل سنّا ٹا،،اور سنّا ٹے میں ما تم کر تی آ وازیں
اے اہلِ عزا ہم نے اپنے بچے دریا میں پھینک دیئے
ہما رے پیروں تلے زمیں نہیں
ہم در بدر بھٹک رہے ہیں
ہم اہلِ بو زنیا ۔۔۔۔ہم نہیں جا نتے ہم کو ں ہیں
ہم کو ن ہیں؟؟
علم شائد بڑ ھا دیئے گئے تھے۔
انسانیت کے علم ۔۔۔ بڑھا دیئے گئے ، میری سوچوں نے مجھے سوگوار آ واز میں پرسہ دیا
ہمکتے بچے ۔۔دریا۔۔خا لی گودیا ں
نفرتوں کے دہکتے صحراوں میں بکھری ہوئی انسانیت کی لاشیں ۔ رسن بستہ تہذیب، اور اپنی تلاش میں بھٹکتی زندگی کی شام غریباں میں سوا ئے خود کو پرسہ دینے کے اور کریں بھی تو کیا؟
ہما رے پیروں تلے زمیں نہیں
ہم در بدر بھٹک رہے ہیں
ہم اہلِ بو زنیا ۔۔۔۔ہم نہیں جا نتے ہم کو ں ہیں
ہم کو ن ہیں؟؟
علم شائد بڑ ھا دیئے گئے تھے۔
انسانیت کے علم ۔۔۔ بڑھا دیئے گئے ، میری سوچوں نے مجھے سوگوار آ واز میں پرسہ دیا
ہمکتے بچے ۔۔دریا۔۔خا لی گودیا ں
نفرتوں کے دہکتے صحراوں میں بکھری ہوئی انسانیت کی لاشیں ۔ رسن بستہ تہذیب، اور اپنی تلاش میں بھٹکتی زندگی کی شام غریباں میں سوا ئے خود کو پرسہ دینے کے اور کریں بھی تو کیا؟