ڈاکٹر عرفان شہزاد
پاک ترک انٹرنیشنل سکولز اینڈ کالجز نے اپنے آفیشل ویب پیج پر اپنی تعلیمی تنظیم کے بانی اور سرپرست، فتح اللہ گولن سے اعلانِ برات کر دیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مفتی حنیف قریشی نے ممتاز قادری سے اعلان برات کر دیا تھا۔ پاک ترک انٹرنیشنل اسلامی تشخص رکھتا ہے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو ملک کے ان مہنگے ترین اسکولوں میں اسی لیے داخل کرواتے ہیں کہ ان کے بچوں کی اسلامی اصولوں پر اخلاقی تربیت کا محرک بھی پاک ترک انٹرنیشنل نے انہیں دے رکھا ہے۔ پاک ترک انٹرنیشنل کا یہ بیان کہ فتح اللہ گولن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، ایک سفید جھوٹ ہے جو ان کے اسلامی تشخص پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے۔ ان کے اسلامی اخلاق اور اسلامی بھائی چارہ کے معیار پر اور بھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔
مجھے ایک سال فتح اللہ گولن کی قائم کردہ اس تعلیمی تنظیم، پاک ترک انٹرنیشنل سکولز اور کالجز، میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ تنظیم گولن صاحب کے مریدین اور متعلقین پر مشتمل ہے۔ البتہ گولن صاحب کے ان مریدین کی ذہنی اور اخلاقی حالت انتہائی خستہ ہے، جس کا ایک مظاہرہ ان کا گولن صاحب سے حالیہ اعلان برات ہے۔
اسلام اور اسلامی بھائی چارہ کے نام پر یہ درحقیقت وہی سرمایہ دارانہ بے حسی اور منافع خوری کا کھیل ہے جو دوسرے لوگ اسلام کا نام استعمال کئے بنا کھیل رہے ہیں۔ ان کا سارا اخلاق خوش اخلاقی تک محدود ہے۔ اس سے باہر یہ ایک مکمل دنیا داروں کا ٹولہ ہے جس نے دینی لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اور شاید خود فریبی میں بھی مبتلا ہے۔
اپنے عملے اور طلباء میں یہ گولن صاحب کی ترجمہ شدہ کتب اور ان کی تنظیم، خدمت مومنٹ (ہزمت مومنٹ) کا لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ طیب اردگان کے خلاف جہاں بیٹھتے ہیں پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ طلباء کی تربیت کے نام پر جو کلاسیں یہ لیتے ہیں اس میں بھی طیب اردگان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ طلباء ہمارے پاس آ کر شکایت کرتے تھے کہ یہ طیب اردگان کے خلاف ہمارے ذہنوں میں نفرت کیوں ڈالتے ہیں۔ ہم نے بھی ایک بار اعتراض کیا کہ تعلیم سے سیاست کو دور رکھا جائے اور طلباء کو ان باتوں میں نہ الجھایا جائے، لیکن ایک ترک دوست سے یہ جواب ملا کہ ان کا اصل مقصد تبلیغِ دین (ان کا اپنا تصورِ دین) ہے، تعلیم تو اس کام کے کرنے کا ایک ذریعہ ہے،اور وہ ذریعہ پر مقصد کو قربان نہیں کرسکتے۔
اپنے حالیہ اعلامیہ میں ایک جھوٹ اور بھی انہوں نے شائع کیا ہے کہ ا ن کی تعلیمی تنظیم کا مقصد غریب اور محروم بچوں تک اعلی تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاک ترک انٹرنیشنل، پاکستان میں مہنگا ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ چند غریب اور مستحق بچوں کو یہ لوگ وظائف بھی دیتے ہیں، لیکن صرف اس لیے کہ دکھا سکیں کہ غریب اور مستحق بچوں کو بھی بغیر فیس کے یا رعایتی فیس پر تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان رعایتی فیس والوں کا تناسب بمشکل ایک فیصد سے بھی نہیں ہوگا۔ سارے سکول ایلیٹ کلاس کے بچوں پر مشتمل ہیں۔
بیکن ہاوس اور سٹی سکول جیسے اداروں کے مقابلے میں یہ دگنی فیس وصول کرتے ہیں۔ اتنی گراں فیس وصول کرنے کے باوجود تمام طلباء کے کمروں میں اے سی بھی نہں لگوائے گئے ہیں۔ جن کمروں میں لگے بھی ہوئے ہیں ان میں سے بہت سے درست کام نہیں کرتے۔ البتہ جس کمرے میں پرنسپل صاحب کا بیٹا پڑھتا تھا اس کا اے سی کبھی خراب نہیں ہوا۔ اسی طرح اپنے بروشرز میں یہ دکھاتے ہیں کہ ہر کمرے میں سمارٹ بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک دو کمروں کے علاوہ سمارٹ بورڈ اکثر خراب پڑے رہتے تھے اور ہم وائٹ بورڈ پر ہی کام کروایا کرتے تھے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ پاک ترک کے “اسلامی اسکول” نے دیگر “سیکولر سکولوں” کی طرح سی ڈی اے سے اپنی عمارتوں کے لے اسلام آباد میں جو زمینیں حاصل کی ہیں، وہ مشرف دور کی بندر بانٹ میں حاصل کی گئی ہیں۔ 100 روپے سے 500 روپے فی اسکویئر گز کے حساب سے چک شہزاد، ایچ ایٹ اور دیگر پوش علاقوں کے پلاٹ مختلف اداروں اور سکولوں کو دیئے گئے تھے۔ اس بندر باٹ میں پاک ترک انٹرنیشنل نے بھی اپنا حصہ وصول کیا اور اس میں ان کے “اسلامی ضمیر” نے بھی ان کو بالکل تنگ نہیں کیا، یا شاید انہوں نے اسے فی الدنیا حسنۃ کے کھاتے میں ڈال کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرلیا ہوگا۔ اس پر ایک صحافی نے ٹی وی کے ایک چینل پر باقاعدہ ایک پروگرام کیا تھا لیکن باوجود تلاش کے مجھے ملا نہیں۔
سکول کی انتظامیہ اپنے ملازمین خصوصا پاکستانی ملازمین کے لیے انتہا درجے کی بے حس واقع ہوئی ہے۔ ملازمین کے لیے تنخواہ کے علاوہ جاب سیکیورٹی، ہیلتھ انشورنس، قرضہ جات کی سہولت، پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں۔ بارہا اس پر توجہ دلائی گئی مگر جواب ندارد۔
طلبا کی فیس مارکیٹ سے زیادہ ہونے کے باوجود اساتذہ کی تنخواہیں، سوائے چند سینئر اساتذہ کے، مارکیٹ سے بہت کم ہیں ۔ اساتذہ کو اپنی گاڑیاں، بائیک اپنے رِسک پر سکول کی عمارت سے باہر پارک کرنے پڑتے ہیں جن کے لیے باوجود بار بار کے مطالبے کے کوئی شلٹر یا شیڈ تک نہین بنوائے گئے۔ دھوپ میں یہ گاڑیاں اور بائیک بہت گرم ہو جاتے ہیں اور بارش میں موٹر سائکلوں میں پانی چلا جاتا ہے۔ سٹارٹ کرنے میں نہایت دشواری ہوتی تھی۔ لیکن انتظامیہ نے 60 لاکھ کی خطیر رقم سے سکول میں اپنے من پسند کھیل، فٹ بال کے لیے گراؤنڈ بنوانا تو پسند کیا لیکن اساتذہ کی گاڑیوں اور بائیک کے لیے چند ہزار روپوں سے شلٹر بنوانا گوارہ نہ کیا۔
ترکی سے درآمد کیے ہوئے جتنی بھی اساتذہ ہم نے دیکھے، سب بے حد نالائق تھے۔ طلباءکی پے در پے تحریری شکایتوں کے باوجود بھی ان کو کبھی نہیں نکالا گیا، لیکن پاکستانی اساتذہ کو معمولی شکایتوں پر بھی نکال دیا جاتا یا وارننگ کے ساتھ وضاحتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
دیگر سرمایہ دارانہ اسکولوں کی طرح یہاں بھی بچوں اور ان کے والدین کو بطورِ گاہک دیکھا جاتا ہے۔ گاہک کو ناراض نہ کرنا سرمایہ دار کا بنیادی اصول ہوتا ہے۔ ہمارے ایک انتظامی افسر کی غیر موجودگی میں ایک طالب علم دھڑلے سے اس کی کرسی پر جا بیٹھا اور کمپیوٹر سے کھیلنے لگا۔ اس نے جب دیکھا تو ایک تھپڑ جڑ دیا۔ اگلے دن ہی ان صاحب کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ لیکن ایک طالب علم نے راہداری میں کھڑے ہو کر ایک استاد کو گالیاں دیں، لیکن اس کا کیس، ایک اتنظامی کمیٹی سے دوسری انتظامی کمیٹی، وہاں سے صدر دفتر کے درمیان چکر کھاتا رہا لیکن طالب علم، آخری خبریں آنے تک، نکالا نہیں گیا۔
ہمارے ایک کولیگ کا کاندھا ایک حادثے میں ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر نے دو ماہ کا آرام لکھ دیا۔ لیکن جب اس کا وائس پرنسپل اسے دیکھنے ہسپتال گیا تو اس نے اپنا کاندھا ڈھانک لیا اور ڈاکٹر کو منع کر دیا کہ اسے کچھ نہ بتائے، اور چھٹے دن وہ نوکری پر آ گیا۔ اسے ان ترکوں کے مزاج کا اندازہ تھا جو بات بات پر ملازمت سے فارغ کر دیتے تھے۔ (اردگان کی مثال ہی دیکھ لیجئے، ہزاروں لوگوں کو نکال چکا ہے، ترکوں کا یہی مزاج ہے) بعد میں اس نے موقع آنے پر انہیں یہ جتلا بھی دیا کہ وہ ملازمت چلے جانے کے ڈر سے ٹوٹی بازو کے ساتھ نوکری پر آیا تھا، اس پر وہ کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ آ پ رخصت لے لیں، لیکن اس نے نہیں لی۔ اس کے برعکس مجھے مسیحی مشنری ادارے، سینٹ میریز میں کام کے دوران حادثہ پیش آیا تھا،میرا پاؤں ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن ادارے نے بغیر کسی معاہدے یا میرے مطالبے کے مجھے دو ماہ گھر بیٹھے تنخواہ دی تھی،اور نوکری بھی سلامت رہی۔ (میں نے بھی یہ بات ایسے ہی پاک ترک انٹرنیشنل کو جتلا دی تھی۔) لیکن اسلامی مشنری ادارے کا یہ حال کہ اس کے زخمی مسلم ملازم کو ان پر اتنا بھی اعتماد نہ تھا کہ وہ اس کی نوکری بھی سلامت رہنے دین گے یا نہیں۔
ایک اور غلط پالیسی ان کا ہفتہ کے دن کو بھی اساتذہ کے لیے مستقل آن رکھنا ہے، جب کہ اس کا بھی کوئی واضح مقصد نہیں ہے۔ کہنے کو یہ دن سیکشن اور جنرل میٹنگز کرنے کے لیے ہوتا ہے تاکہ آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے، لیکن درحقیقت قابلِ بحث باتیں ہر ہفتے اکثر ہوتی ہی نہیں، جو کام دس پندرہ منٹ کی میٹنگ مین ہو سکتا تھا اس کے لیے یہ اساتذہ کا پورا دن برباد کرتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے یہ کتنی ذہنی کوفت کا سبب ہے اس کا اندازہ ایک استاد ہی لگا سکتا ہے۔ ویک اینڈ پر ایک دن گھر والوں کو دے کر، ذہنی سکون حاصل کر کے، دوسرے دن اساتذہ اپنے ہفتہ بھر کے اسباق کا منصوبہ تیار کرتے ہیں، لیکن ایک دن کی چھٹی میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر جگہ دو دن کا ویک اینڈ ہوتا ہے، رشتہ دار اسی حساب سے ملنا جلنا طے کرتے ہیں، لیکن ایک دن چھٹی کرنے والے خاندان سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ جن ملازمین کا گھر شہر سے باہر ہوتا ہے وہ اگر دو دن کی چھٹی ہو تو گھر سے ہو آتے ہیں، لیکن ایک دن چھٹی کی وجہ سے وہ گھروں کو بھی نہیں جا پاتے، یوں وہ ذہنی سکون سے محروم ہی چلے آتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اور اگر یہ ایک دن کی قربانی کسی مقصد سے بھی ہوتی تو گوارا کی جا سکتی تھی لیکن ہوتا یہ ہے کہ پرنسپل صاحب جن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، بائیو میڑک سسٹم کے تحت حاضری لگوا کر آنے کے باوجود، جنرل میٹنگ میں ایک کاغذ پر سب کی حاضری لیتے۔ جب سو کے قریب لوگ حاضری دے لیتے جس میں آدھا وقت بخوبی گزر جاتا تو اس کے بعد وہ ہمیں بتاتے کہ وقت پر کلاس میں جانا چاہئے، بچوں کو ڈانٹنا نہیں چاہئے، وغیرہ وغیرہ۔ ایم اے،ایم فل کیے ہوئے ذہین لوگ یہ باتیں سننے کے لیے مجبور ہوئے اپنی قسمت کو کوستے ہوئے یہ سب سنتے رہتے۔ یوں بھی ہوتا کہ اساتذہ ہفتے کو آتے، اور پرنسپل صاحب نہ ہوتے تو ہم سے کہا جاتا کہ سب قرآن لے کر بیٹھ جائیں اور ثواب کمائیں۔ ہفتے کے اس بے فائدہ دن پر بھی چھٹی حاصل کرنا جوئے شیر لانے یا شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کے برابر ہوتا ہے۔
ہاسٹل کے طلباء کا کم قیمت کم معیاری کھانا ایک مستقل شکایت ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ناشتے میں روٹی کے سوکھے ٹکڑے تک دیے جاتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے اگر ایسا ہی ہے تو ان طلبا کے والدین اتنی مہنگی فیسیں دینے کے بعد یہ سب کیوں برداشت کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان اسکولوں کا بظاہر دینی ماحول ہے۔ والدین بچوں کو معیاری تعلیم بھی دلوانا چاہتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کے کیے بھی فکر مند ہیں۔ بیکن ہاؤس، سٹی سکول، روٹس، فروئبلز وغیرہ جو آزادانہ بلکہ ‘بدتمیزانہ’ قسم کا کلچر فروغ دے رہے ہیں اس سے بچنے کے لیے والدین ان منافقانہ دین دار سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اس میں ان مادر پدر آزاد کلچر پھیلانے والے سکولوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ بھی اگر،کاروباری نقطہ نظر ہی سے سہی، اپنے ہاں بھی اخلاقی تربیت کا عنصر بھی شامل کر لیں تو پاکستانی والدین کی زیادہ بڑی تعداد کو اپنا گاہک پائیں گے۔
Lamentable
Is article me likhi biht saari chizein jhoit r zaati bad experience ki base pe likhi gai hn. One personn can have bad experience, it does not mean every one is having that. Its really bad habit to generalize ur own bad experience for every one.