یاسرچٹھہ
(بینجیمن ویلیس ویلز کا یہ مضمون نیو یارکر میگزین میں ایک مختلف عنوان سے شائع ہوا۔ اس کے سب حقوق مصنف کے ہیں۔ یہاں اس مضمون کا ایک تھوڑی سی حد تک ادارت شدہ ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔)
گذشتہ سردیوں کے موسم میں فرانس میں مربوط قسم کے دہشت گرد حملے ہوئے؛ امریکہ کے نامی گرامی برُوکنگز انسٹیٹوشن سے منسلک محقق کرِس میسرول، حتی الامکان حد تک جتنی معلومات اکٹھی کر سکتے تھے انہوں نے دولتِ اسلامیہ (یعنی داعش) کے متعلق جمع کرنا شروع کیں۔ یہ معلومات اس موضوع کا احاطہ کرتی تھیں کہ داعش کے جنگجو کن کن ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جناب کرِس میسرول نے ایسے روابط کی جانچ پرکھ کا ایک باقاعدہ سلسلہ بھی رواں کیا جو دہشت گردی کے مختلف واقعات کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا کام سر انجام دیتا تھا۔ آج کل تجزیہِ دہشت گردی کے ترویج پاتے علم کے ماہرین نے اپنی توجہ کا زیادہ تر حصہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور ان کی نفسیاتی حوالہ بندی پر ہی مرکوز کر رکھا ہے۔ لیکن جناب کرِس میسرول اور ان کے شریکِ کار جناب وِل میکانٹس نے اپنے لئے استفہامیہ سوالوں کی نئی جہت کا انتخاب کیا۔ اُن کے سوالات تھے:
1.کسی بھی مسلمان ملک سے شام میں جانے والے سُنّی مسلمانوں کا سماجی مرتبہ و حیثیت کیا تھی؟
2.کیا شام میں جہاد کے لئے جانے والے افراد کے اس سماجی مرتبہ و حیثیت کے کسی پہلو، اور ان کی وہاں جانے والوں کی تعداد میں باہم کوئی ربط و تعلق تھا؟
میسرول کو امید تھی کہ نئی تجزیہ میں معاون تکنیکیں جمع شدہ معلومات کے ذخیرے سے ضرور کوئی با معنی ربط تلاش کر لیں گی، جب وہ ان امید افزاء تکنیکوں کو برُوئے کار لائے تو کتنے سارے ربط واقعتًا سامنے آ بھی گئے۔
ان روابط مین سے دو تو کچھ زیادہ مُحکم اور حیران کُن نہیں تھے:
ایسے ممالک جن میں سُنّی مسلمانوں کی اکثریت آبادی شہری علاقوں میں مرتکز تھی
اور جہاں بے روزگار نوجوانوں کی شرح بہت زیادہ تھی، وہاں سے داعش کو نسبتًا زیادہ سپاہیانہ کمک ملی۔
لیکن تیسرا سامنے آتا ربط زیادہ معنی خیز تھا۔ یہ اب تک سامنے آنے والے روابط میں سے سب سے قوّی متغیر تھا۔ اس ربط کی رُو سے کسی بھی ملک کی دہشت گرد پیدا کرنے اور اُنہیں سامنے لانے کی صلاحیت کا اس بات پر بہت زیادہ انحصار تھا کہ کیا اس ملک میں لوگوں کو فرانسیسی زبان بولنا آتی تھی۔
فرانسیسی زبان بولنے اور دہشت گردی کا باہمی ربط ، فی نفسہ، کوئی تسلی بخش ربط ہر گز معلوم نہیں پڑتا تھا، (بلکہ بظاہر بوداسا لگتا تھا)؛ لیکن یہ بات بھی تو اپنی جگہ زیرِ نظر رہنی چاہئے کہ کوئی زبان کئی اور بہت سی چیزوں کی بھی تو قائمقام ہوتی ہے۔ اس ذیلی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آخرِکار میسرول اور میکانٹس نے سوچا کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ دونوں محقق فرانس، بیلجیئم اور تیونس میں داعش کے جنگجوؤں کے پائے جانے کی بلند شرح کی کسی حد تک پہلے سے معلوم و موجود سے بدرجہا بہتر اور زیادہ با معنی تفہیم و تشریح کرنے کے تو قابل ہوئے ہیں: سنہ 2010 اور 2011 میں پورے فرانسیسی بولنے والے خطے میں پردہ کے خلاف چلنے والی ابلاغی مہم! 2010 میں بڑے پیمانے اور سطح پر ہونے والی بحث و تمحیص کے بعد، فرانسیسی حکومت نے ایک قومی قانون کے نفاذ اور اس پر عمل در آمد کا آغاز کیا جس کی رُو سے مسلمان عورتوں کو عوامی مقامات پر پردہ اور چہرے کو ڈھانپنے والا نقاب اوڑھنا موثر انداز سے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ بیلجیئم نے بھی جولائی 2011 میں اسی طرح کا قانون پاس کردیا۔ (تیونس، جہاں قانون کی کتابوں میں تو کافی عرصے سے پردہ پر پابندی لاگو ہو چکی تھی، اس نے بھی 2006 میں اس قانون کا موثر نفاذ شروع کردیا۔)
جناب میسرول کی ملاقات، دہشت گردی کے موضوع کی تخصیص کے حامل ایک اور محقق، جناب امرناتھ امرسنگھم سے ہوئی۔امرناتھ امرسنگھم ڈلہوزی یونیورسٹی ، نووا سکوٹیا، میں تحقیق کار ہیں، اور وہ ان دنوں اُن سولہ افراد کے متعلق مصروفِ تحقیق تھے جو کیوبک (Quebec) سے شام کی لڑائی میں شامل ہونے گئے تھے۔ جناب امرسنگھم کا یہ ماننا تھا کہ کیوبِک میں پردہ کرنے کے فعل و عمل کی کینیڈا کی شہریت کے حصول کی ضابطے کی کاروائیوں میں ممنوع قرار دینے کی اعلٰی سطحی مگر ناکام ابلاغی مہم کے اس سلسلے میں اہم کردار ہونے کے قوّی امکانات ہو سکتے تھے۔ ان سولہ میں سے چودہ جہادیوں نے صوبہ کیوبِک کو وہاں پردہ ممنوع کرنے والے قانون کے متعلق ہونے والی بحث کے فوراً بعد ہی خیر باد کہہ دیا۔ امرسنگھم نے جناب میسرول کو بتایا کہ انہیں ان جنگجوؤں کے خاندان کے افراد کے کئے گئے انٹرویوز کے سلسلے کے دوران پتا چلا کہ کیوبِک میں پردے کے متعلق مسودہِ قانون نے ان جہادیوں میں عود کر آنے والی شدت پسندی میں ایک بڑے عمل انگیز کا کام کیا۔ ان لمحوں کے دوران جناب میسرول کو یہ سُوجھ گئی کہ جیسے یہ کسی اہم نکتے پر پہنچنے کے قریب آ گئے ہیں۔ داعش کے ترجمان نے کسی وقت کہا تھا کہ ان کے گروہ کا مطمعِ نظر ان آدھے تیتر آدھے بٹیر قسم کے علاقوں کے لوگوں سے اپنے لئے افرادی قوت بھرتی کرنا ہے جہاں کے باسی اپنے آپ کو مبہم اور نیم دِلانہ سے انداز میں مسلمان قرار دیتے ہیں؛ ایسے لوگ جو کبھی اپنے آپ کو آدھا مغرب والے سمجھتے ہیں اور کبھی آدھا مسلمان۔ میسرول اور میکانٹس نے قیاس کیا کہ ہو سکتا ہے کہ پردے کے متعلق ہونے والی بحث و تمحیص نے ان جیسوں کا کام آسان کیا ہو۔ (کیوبِک میں سیکولر روایت فرانس جیسی توانا نہیں؛ اسی چیز نے جناب میسرول کی دلچسپی کا ساماں زیادہ کیا کہ آخر کیا ہوا کہ جب سیاسی افکار کو براہِ راست فرانس سے درآمد کیا گیا۔)
اس سال مارچ میں میسرول اور میکانٹس نے موقر امریکی جریدے فارن افیئرز میں اپنی تحقیق سے حاصل شدہ علم کا مختصراً تذکرہ شائع کیا۔* اس کے علاوہ میسرول نے اپنے بلاگ پر اپنی تحقیق پر نسبتاً مفصل مضمون تحریر کیا۔ مضمون شائع ہوا تو اس نے ہر وضع قطع کی تنقید اور تبصرہ کو بھی دعوت دی۔
تنقیدوں کے اس سلسلے میں جناب میسرول ان تنقیدی تبصروں کو زیادہ سنجیدگی سے زیرِ غور لائے جو آپ کے تحقیقی طریقہِ کار کو نشان و سوال زدہ کررہے تھے: کہ آپ کے تحقیقی طریقہِ کار سے یہ مفہوم نکلتا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے زیرِ نظر وہ اسباب زیادہ تھے جنہیں قومی سطح پر پہچانا اور ڈھونڈا جا سکتا تھا، حالانکہ جہادیوں کی جانب سے اصلی کام تو سماجی رابطہ کاریوں کے در و دیوار کے اندر رہ کر کیا جا رہا تھا۔ جب زیادہ تر جہادی نسلاً مراکشی اور بہت سارے اردگرد کے علاقوں سےتھے، تو میسرول اور میکانٹس کو کیا پڑی تھی کی وہ ایسے سوال کریں کہ کس طور پر فرانس، انگلستان سے مختلف ہے، یا بیلجیئم ، ڈنمارک سے؟
میسرول نے مراکشی تارکینِ وطن کی یورپ کے ہر ملک میں موجود تعداد کا موازنہ، داعش کی اس ملک میں موجود افرادی قوت کی تعداد سے کیا۔ ایسا کرنے سے انہیں ایک ہی بات سامنے آتی محسوس ہوئی کہ ما سوائے فرانسیسی زبان بولنے کے تعلق کے کوئی اور ربط و واسطہ نا تھا۔ فرانس میں تقریباً پندرہ لاکھ مراکشی تھے، اور اس ملک (یعنی فرانس) سے اندازاً بارہ سو جہادی مشرقِ وسطٰی گئے تھے۔ اس کے بر عکس، اسپین میں اگرچہ آٹھ لاکھ مراکشی تھے لیکن یہاں سے صرف پچہتر افراد جہاد کے لئے گئے۔ بیلجیئم اور اٹلی، ہر دو ملکوں میں پانچ پانچ لاکھ مراکشی تھے، لیکن بیلجیئم سے اٹلی کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ جہادی برآمد کئے گئے۔ آپ کا یہ کہنے کو دل کر سکتا ہے کہ ایسا مراکشی نیٹ ورکس کی زیادہ فعالیت کی وجہ سے ہے، لیکن میسرول کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ ایسا مراکشیوں کی خاص طور پر فرانس اور بیلجیئم میں گزری زندگی سے جُڑا ہی کوئی حاصل حصول ہو سکتا ہے۔
میسرول کے اپنے تحقیقی عمل کے مراحل کے لئے استعمال کردہ اسپریڈ شیٹ میں بزور نافذہ سیکولرازم کا متغیر شامل کیا تھا۔ لیکن اس متغیر نے فرانسیسی زبان کے حامل ملکوں اور دیگر سخت گیر ملکوں مثلاً چین اور ترکمانستان کو ایک ہی گٹھری میں گانٹھ دیا تھا، اور ہوا یوں کہ اس متغیر سے کسی حد تک خصوصی پیش بینی میں با سہولت ہونے کی صلاحیت کم سے کم ظہور پذیر ہو رہی تھی۔ میسرول کا غیر حتمی و عارضی نظریہ یہ تھا کہ شدت پسندی نے فرانس کے جن دو بنیادی سیاسی آدرشوں سے بڑی تقویت حاصل کی وہ سیکولرازم اور آزادی تھے۔ فرانس اور بیلجیئم نے مسلمانوں پر ایک طرف سے سیکولرازم نافذ کی تھی لیکن دوسری طرف ساتھ ہی انہیں اسی کے خلاف منظم ہونے کی آزادی بھی فراہم کردی۔
اب کوئی بھی اس تحقیقی مطالعہ کے اندر سے اپنے علاقوں کے حالات کے مطابق کچھ بھی مطالب و معانی اخذ کر سکتا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کے متعلق اسرائیلی اخبار (Haaretz) میں گذشتہ ہفتے غرشم غورنبرغ اس بات پر سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ اسرائیل کے سیکولر بنیاد گزاروں اور ان کے بعد کے وارثوں نے انتہائی سخت گیر یہودیوں کو نو آباد بستیوں میں، اور شدت پسندی کی جانب دھکیل دیا ہو! انہوں نے اسرائیلیوں پر زور دیا کہ “اُنہیں بھی لندن کے رائے دہندگان سے کچھ سبق لینا چاہئیے”، جنہوں نے لندن کا میئر ایک مسلمان، صادق خان، منتخب کیا ہے، ” نہ کہ پیرس کی فیشن پولیس کو۔”
امریکی ، اسرائیلیوں کے برعکس، میکانٹس اور میسرول کے اس مفروضے میں ایک گونہ قومی سطح کی تسکین کشید کر سکتے ہیں۔ “پیرس کی فیشن پولیس ” کے مقابلہ میں امریکی اس بات کو سکون افزاء مان سکتے ہیں کہ ان کے ہاں تو مذہبی تکثیریت و تنَوُّع اور مذہب کے مختلف طریقہ ہائے اظہار کی آسان دستیابی ہے؛ اور یہ شاید ایک طرح سے داعش کی بھرتیوں اور صف بندیوں کے خلاف حفاظتی حصار ہے۔
لیکن اصل دباؤ مذہبی آزادی کی فراوانی پر نہیں بلکہ اس مخلوط شناختی حیثیت پر ہے؛ دباؤ اس بات کے تصور اور احساس پر ہے کہ کوئی مسلمان اپنے آپ کو بیک وقت فرانسیسی اور مسلمان ، یا امریکی اور مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ نہیں۔ سیکولرازم کے کلچر کا باضابطہ نفاذ ایک ایسی قوت ہو سکتی ہے جو دُہری شناخت کے خلاف سیدھے سبھاؤ اثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن ہلکے پُھلکے اثرات والی تسکین اور مخاصمت کی اشتہارات بازی کے علاوہ چھوٹے چھوٹے معاملات و تعلق واسطے بھی کسی عام فرد کی زندگی میں بڑے اہم ہوتے ہیں۔ ایک مشترکہ نکتہ جو غیر ملکی جنگجوؤں کی جانب سے اپنی شدت پسندی کی جانب آنے سے متعلق سنائی گئی کہانیوں میں اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ بقول جناب میسرول کے یہ ہے، کہ اسکولوں میں ان بعد ازاں کے شدت پسندوں کو مسلمان ہونے کے ناتے کس کس طور پر الگ تھلگ رکھا گیا اور عام معاملات میں عدم شمولیت کا شکار کیا جاتا رہا۔
پچھلے کئی برسوں تک امریکیوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں خطرے میں ایک بنیادی عدم توازن تھا، کہ وہ خطرہ عام امریکی زندگی کے مراکز سے بہت دُوردراز سے تھا۔ اس خطرے کی بابت سمجھا جاتا تھا کہ ایسا مغرب کی جانب سے ان بربریت کا مظاہرہ کرنے والے طالع آزماؤں کی پُشت پناہی کرنے کی وجہ سے تھا؛ ایسی بربریت جو وہ طالع آزماء کسی حد تک مغرب مخالف مولویوں پر ایک ایسے علاقے میں کرتے تھے جہاں یہ مذہبی طبقات کے پیشوا کسی مختلف زبان اور دُنیا کے کسی بالکل مختلف خطے میں رہ کر ایک طرح کی مغربی مخاصمت کی سیاست کرتے تھے، اور جو بربریت وہ طالع آزماء مشرقِ وُسطٰی کے متوسط طبقات والوں کی اولادوں کے لئے کسی بھی عصری حوالے کے موقع پر کُھلے ترقی کے مواقع پر کرتے تھے۔ ستمبر گیارہ کو ہائی جیکروں کے ہیمبرگ میں اکٹھے ہونے کی کہانیاں پڑھنا کسی کے لئے بھی احساس دلانے کو کافی ہے کہ وہ ہائی جیکر امریکی معاشرے کی کس قدر دُھندلی تصویر اپنے ذہنوں میں سمیٹے ہوئے تھےاور ان کے امریکی طرزِ معاشرت پر اعتراضات کتنے تجریدی نوعیت کے تھے۔
وقتِ حاضر میں جس طرح کے دہشت گردوں سے امریکیوں کو پریشانی ہو سکتی ہے وہ اب زیادہ تر بذاتِ خود مغرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان کے مغربی معاشرے سے گِلے شکوؤں کی نوعیت بڑی واضح ہے، اور اگر وہ نشانہ بھی بناتے ہیں تو اپنے گھروں کے آس پاس کے علاقوں کو! اگر میسرول اور میکانٹس درست کہتے ہیں تو شدت پسندی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے جزیروں اور خارجہ پالیسی کے کاغذوں سے باہر آن نکلی ہے؛ اب یہ مغربی معاشرت کے مرکزی دھاروں کے عین بیچ آ براجمان ہوئی ہے: ایک ایسی معاشرت جس میں ایک اشد ضروری تکثیریت کا وجود ہے، جہاں مختلف شناختوں والے افراد باہم ایک بن کر رہ رہے ہیں۔