فرد، پاکستانی معاشرہ اور ہماری ریاست
از، ڈاکٹر افتخار بیگ
اس وقت پاکستانی معاشرہ فکری پسماندگی، انتشار اور ابتری کی جس صورتِ حال سے دو چار ہے ، اس پر ہر محبِ وطن اور صاحبِ بصیرت ہراساں اور پریشان ہے۔ہماری سماجی زندگی میں ہر سطح پر ایسے رویے رائج اور جاری ہیں جو کسی بھی زندہ معاشرے میں شرمناک سمجھے جاتے ہیں۔عمومی طور پر ان اطوار اور رویوں پر تنقید کی جاتی ہے، ان مسائل اور مصائب کی نشان دہی کی کوشش کی جاتی ہے اور اس تنقید اور نشان دہی کے عمل کو مثبت بھی قرار دیا جاتا ہے، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اور سماجی سطح پر رائج اس ابتری اور انتشار سے نجات کیوں ممکن نہیں ہو رہی ؟ ان سوالات کے جواب سہل نہیں ہیں۔ فکری سطح پر اہمال کا شکار معاشرے ان سوالوں کا جواب تلاشنا بھی نہیں چاہا کرتے ،کہ ایسے معاشروں میں بسنے والے لوگوں کے ہاں جذبِ دروں اور یقینِ ذات کے سوتے خشک ہو چکے ہوتے ہیں۔
ایسے میں سماجی دانشوروں پر لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ صرف پسماندہ فکری، انتشاراور ابتری کے واقعات کو زیرِ بحث نہ لائیں بلکہ اس صورتِ حال کی بنیادی وجوہات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے، نئے سماجی حالات اور ضروریات کے مطابق فرد کے رویوں کے تعین کے لئے تجاویز مرتب کریں اور معاشرے کو نئی راہ سجھائیں۔ ہم ایسا نہیں کر رہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں مستقبل بینی کا فقدان ہے۔آج ہمارا معاشرہ عبوری دور سے گزر رہا ہے، علم، سائنس ، سائنسی علوم اور صنعت کے اثرات نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔روایت اور جدت کی آویزش نے رویوں میں کشاکش اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز کر دیا ہے۔موبائل فون ، انٹر نیٹ اور ذرائع آمد و رفت کی سہولتوں نے زمینی فاصلے کم کئے ہیں ، مگر جذباتی سطح پر ایک خلیج پیدا کر دی ہے۔ جدید تعلیم او ر نظامِ تعلیم کی وجہ سے ممکن ہوا کہ معاشرے کے غریب پسماندہ لوگوں کے بچے(جنھیں اس معاشرے کی حکمران اشرافیہ ’’کمی‘‘ کہنے میں خوشی محسوس کرتی ہے)
پڑھ لکھ گئے اور ریاستی اداروں کے لئے افرادی قوت کی ضرورتوں کو پورا کرنے لگے۔یہ ترقی اور سماجی انصاف کی سمت ایک قدم تھا، مگر جاگیردارانہ پس منظر کے معاشرے میں یہ عمل ایک قباحت بن گیا۔ ایک نئی طرز کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔اس طرح کے پڑھے لکھے لوگ ہر شعبے میں شامل ہوئے، لیکن المیہ یہ ہوا کہ اس طرح کے لوگ ثقافتی اور تہذیبی احساسِ کمتری سے نہ نکل پائے یا علاقائی وڈیروں، جاگیر داروں اور اشرافیہ نے انھیں ثقافتی روایات کے حوالے سے بلیک میل کیا۔ یوں ادارہ جاتی سطح پر ایسے افسروں اور اہلکاروں کا طبقہ پیدا کیا گیا جس کی کوئی رائے نہ تھی ، یہ لوگ شدید احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ ان لوگوں نے اداروں میں بیٹھ کر جاگیرداروں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے اصول ، قانون اور قاعدے کی دھجیاں اڑائیں ۔ نتیجتاًریاستی مفادات کی بجائے علاقائی سرداروں ، جاگیر داروں اور حکمران اشرافیہ کے مفادات کو پورا کرنے اور ملحوظ رکھنے کا رواج عام ہوتا چلا گیا۔
دوسری طرف ادارہ جاتی ملازمتوں نے فرد کو جہاں معاشی آسودگی سے ہمکنار کیا ہے، وہیں والدین اور اولاد کے درمیان فاصلوں کو بڑھایا ہے ، یہ فاصلے ذہنی بھی ہیں اور جذباتی بھی ۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں المناک صورتِ حال پیدا ہونے جا رہی ہے ۔ اس صورتِ حال میں ہم پر لازم ہے کہ ہم طے کریں کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی معاشرے کا ڈھب ڈھارا کیا ہو گا اور کیا ہونا چاہیے۔
اس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں معاشرے کی بنیادی صورت گری کے عوامل پر غور کیا جائے۔ طے کیا جائے کہ فرد اور معاشرے کا باہمی تعلق کیا ہے اور اس کی بنیادی تعریف کس انداز میں متعین کی جا سکتی ہے۔’’ فرد قائم ربطِ ملت سے‘‘ ہے یا’’ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر‘‘ کے مخمصے سے نکل کر واضح نقطہء نظر اپنانا ہو گا۔
اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بیسویں صدی میں ریاست ، معاشرہ اور فرد باہم مشروط مگر الگ الگ شناخت کے حامل بن چکے ہیں۔ریاستی ڈھانچہ ایک ایسا ’’چھتر‘‘ ہے ، جو معاشرے اور فرد کو اپنی چھاؤں میں رکھتا ہے۔ فرد مجموعی معاشرتی رویوں اور ریاستی قانون اور ضابطوں کے زیرِ اثر اپنی زندگی کا ڈھب طے کرتا ہے۔ دوسری طرف افراد ہی ریاستی ڈھانچے کو چلانے والے ہوتے ہیں۔ جب ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ ( سول بیوروکریسی) وژن سے عاری ہو جائیں تو ریاستی ’’ چھتر‘‘ چھاؤں میں رخنے پیدا ہونے لگتے ہیں۔
آئیے اس صورت، حال کے پس منظر پر نظر ڈال لیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ریاستی اداروں کے انحطاط کا عمل قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے معاشرے کو ایک نئے ریاستی ڈھانچے کی ضرورت تھی۔جس پر بوجہ توجہ نہیں دی گئی۔ ریاستی اداروں کو اسی انداز میں چلایا گیا ، جس طرح نوآبادیاتی دور میں چلایا جاتا تھا۔ ۵۰ کی دہائی میں ہمارے ریاستی اداروں میں رشوت ستانی، اقربا پروری اور دفتری تاخیری حربے عام ہو چکے تھے۔ اور ریاستی اختیار کو ذاتی منفعت اور مفاد کے لئے استعمال کیا جانے لگا تھا۔ نوآبادیاتی دور میں حکمرانی کا مسلمہ طور یہ تھا کہ عوام کو خوف زدہ رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بعدفتح مندی کے احساس سے سرشار عوام خوف کی زنجیریں توڑ چکے تھے اور ان کے ہاں آزادی کی ایک نئی ترنگ موجود تھی ، مگر افسر شاہی کو دورِ غلامی کا اصولِ حکمرانی ازبر تھا۔ سو پولیس اور عدلیہ کو ٹول بنایا گیا۔ عوام کو حقوق سے محروم رکھا گیااور محض رعب، خوف اور دہشت کی بنیاد پر ریاست اور ریاستی امور کو چلایا گیا۔ نتیجتاًاس معاشرے کے فرد کے ہاں موضوعی تیقن مجروح ہوا اور انسانی عز و وقار کا احساس معدوم ہوتا چلا گیا۔
بد قسمتی در بدقسمتی یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد مختلف ادارو ں کی تنظیم میں جو نئے لوگ شامل ہوئے، ان کے ہاں لاشعوری طور پر یہ یقین موجود تھا کہ ریاستی اداروں کا نظم و نسق اسی انداز میں بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے جس انداز میں انگریز چلایا کرتے تھے۔اس افسر شاہی نے علاقائی جاگیرداروں، وڈیروں، قبائلی سرداروں اور رئیسوں کو اپنا آلہ کار بنایا، جس کے نتیجے میں پولیس اور عدلیہ کا کردار آمرانہ روپ اختیار کرتا چلا گیا۔مارشل لائی ادوار میں اس طرزِ حکومت اور رویے کو زیادہ فروغ ملا۔
پچاس کی دہائی میں ریاستی اداروں کی تنظیم میں شامل ہونے والی افسر شاہی نے تیس سال تک ریاستی امور کو نوآبادیاتی انداز میں آگے بڑھایا ۔ یہ لوگ لگ بھگ اسی کی دہائی تک سول بیوروکریسی پر چھائے رہے ، ان کی ریٹائرمنٹ ضیاء الحق کے مارشل لائی دورمیں ہوئی۔ اس عرصے میں عوامی حقوق کی تمام تحریکوں کو سختی سے کچل دیا گیا۔ عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کے بارے میں شرمناک پروپیگنڈہ کیا گیا ۔ اسی دہائی میں افسروں کی ایک بڑی کھیپ سول سروسز میں شامل ہوئی۔یہ کھیپ فکری پسماندگی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہ ضیا الحق کے آمرانہ طرز حکومت کے مداح تھے۔ان کے نزدیک قانون قاعدے سے زیادہ مخصوص مذہبی رویے زیادہ اہم تھے۔( ان میں وہ سائنس دان بھی شامل تھے جو جنوں کے ذریعے بجلی بنانے کے منصوبے بنایا کرتے تھے)اس دور میں قید اور کوڑوں کے ذریعے ریاستی اداروں کی رِٹ اور وقار قائم رکھنے کی کوششیں کی گئیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا چلا گیا۔
ادھر روایتی تہذیبی رویوں اور جدید سائنسی علمی روایات کے درمیان جو کشاکش جاری تھی اس کو نہ صرف بڑھاوا دیا گیابلکہ مذہب کے نام پر مقامی ثقافتی اور تہذیبی رویوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو ابھارا گیا ۔ ان شکوک و شبہات نے پاکستانی معاشرے کے فرد کے ہاں بے یقینی اور فکری مخمصوں کو عام کر دیا۔خوف و ہراس اور بے یقینی نے اثباتِ ذات کے تمام رستے مسدود کر دیے گئے۔ اس دور میں پاکستانی معاشرے کوایک آہنی دیوار میں چن دیا گیا۔باقی ماندہ دنیا خصوصاً یورپ کے معاشرتی اور تہذیبی رویوں اور مذہبی عقائد کے بارے میں استہزا آمیز اور توہین آمیز تبصروں کو ریاستی سر پرستی میں عام کیا گیا۔فکری جکڑ بندی اتنی شدید تھی کہ عوام اپنی زندگی میں جس ذلت اور توہین کا سامنا کر رہے تھے اسے کبھی مقدر کا جبر اور حب الوطنی کا تقاضا سمجھنے لگے۔
اسی دور میں ریاستی سطح پر دو اقدامات اٹھائے گئے: مجلسِ شوریٰ کا قیام اور نان پارٹی الیکشن، مجلسِ شوریٰ میں شامل لوگ تاریخ کے معکوس سفر پر یقین رکھتے تھے۔انھوں نے معاشرے کی ثقافتی بنیادوں کو ہلا دیا۔نان پارٹی الیکشن کے نتیجے میں جو لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنے، انھوں نے قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ جاگیر داروں، وڈیروں، قبائلی سرداروں اور ابتدائی دور کے سرمایہ داروں نے ریاستی اداروں کو گھر کی لونڈی بنا لیا۔پولیس ، عدلیہ اور بیوروکریسی ان لوگوں کے اقتدار اور اختیار کو یقینی بنانے کا فریضہ ادا کرنے لگی۔ ایک نئی دہشت فرد کے ہاں بے بسی اور بے چارگی کا احسا س پیدا کرنے لگی۔
اسی دور میں یونیورسٹیوں میں مخصوص مذہبی رجحانات کے حامل گروہوں کو ریاستی پشت پناہی میسر آئی۔ ایسا نصاب ترتیب دیا گیا، جس نے ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی نفی کی اور فرد کے جذبہء حمیت کو سلا دیا۔ نوجوانوں کے سامنے مقصدِ حیات معدوم ہو کر رہ گیا۔فرد کے جوش ، جذبے ، احساسِ عز و وقار اور یقینِ ذات کی نفی کی گئی۔ نتیجتاً فرد کے ہاں مردہ دلی عام ہوئی، اور بیگانگی کا احساس بڑھتا چلا گیا۔ واضح نصب العین کے فقدان اور تہذیبی، ثقافتی اقدار پر عدم اعتماد نے معاشرے میں بے گانگی کو بڑھایا، جس کے نتیجے میں ایک آپا دھاپی عام ہوتی چلی گئی۔ہر فرد اپنی جگہ پر اپنے مفادات کو بچانے کے چکر میں پڑ گیا۔ ریاستی اداروں سے اعتماد ختم ہو کر رہ گیا۔علاقائی سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور خوانین ، نے ریاست ، ریاستی اداروں ، اور قانون ، قاعدے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ریاستی ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے۔ عام آدمی کے لئے اپنی بقا اور اپنے تحفظ کا ایک ہی راستہ بچ گیا، ان وڈیروں ، سرداروں کی خوش نودی اور خوشامد۔ابتری اور انتشارمیں اضافہ ہوا اور فرد کے ہاں بے چارگی اور بے بسی کا احساس بڑھتا چلا گیا۔
اس عدمِ استحکام اور ادارہ جاتی نظام کے مفلوج ہونے کی بنا پر ریاست اور ریاستی اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔اس کیفیت نے فرد کے ہاں محض ذاتی یا انفرادی بقا اور مفاد کو اہم تر بنا دیا۔ انسانی حوالے سے یہ بات مسلمہ ہے کہ فرد کی خوشیاں اور خوب صورتیاں وقتی اور لمحاتی ہوتی ہیں۔ فرد کے نزدیک جذبے کی یہ خوشگوار کیفیتیں اپنی اولاد کے مستقبل کو محفوظ بنانے تک ہوتی ہیں ( کم از کم برِ صغیر میں انسانی رویہ ایسا ہی ہے)ہمارے معاشرے کے فرد نے اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ و مامون بنانے کے حوالے سے روایتی انداز اختیار کیا۔ریاست اور ریاستی اداروں نے فرد کے ہاں یہ احساس ابھرنے ہی نہیں دیا کہ انسانی معاشرے کا معاملہ صرف ایک نسل کا معاملہ نہیں ہوتا، ہم انسانوں نے نسل در نسل زندہ رہنا ہے، اور اس کے لئے محض چند لاکھ روپے جمع کرنا، یا محض زرعی اراضی ، یا مکان خرید کر چھوڑنا ایک لا یعنی مصروفیت ہے۔سو معاشرے کے افراد عمومی طور پر اسی میں مگن اور خوش رہتے رہے۔پا کستانی معاشرے کا ہر فرد جذبی سطح پر اسی گرداب میں پھنسا رہا ہے اور پھنسا ہوا ہے۔
۸۰ کی دہائی میں ریاست کے امور بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں نئے روپ دھارنے لگی، تو مرکنٹائیل کلاس نے اپنی دولت کے بل پر معاشرے کی ہر چیز ، ہر قانون قاعدے، ہر ریاستی ادارے، اور ہر سماجی قدر کو بکاؤ مال کے طور پر دیکھا۔ اخلاقیات، اور مذہبی شعائر مارکیٹ کی اشیا بن کر رہ گئے۔دنیا کے مخصوص خطے کے لوگوں کو محترم قرار دے دیا گیا۔ عام آدمی کے فکری مخمصے بڑھتے چلے گئے۔ حصولِ دولت کی کوشش ایک قدر کی حیثیت اختیارکر گئی۔ جائز ، نا جائز، اچھا ، برا، صحیح ، غلط کا تعین بھی دولت کے پیمانے سے ہونے لگا۔مائیں اور دادیاں تک بیٹوں اور پوتوں سے اوپر کی کمائی کا حساب پوچھنے لگیں۔ انصاف ، اصول اور قانون کی بات کرنے والوں کو’’ ترقی پسند ‘‘ یا ’’کمونسٹ‘‘ کی گالی دے کر لا جواب کر دینے کا رواج عام ہوا۔
بیسویں صدی کی آخری اور اکیسویں کی پہلی دہائی میں روا رکھے گئے رویوں نے زوال و انحطاط کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ریاستی اداروں نے سیاست اور سیاست دانوں کے بغض میں چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہوں کی پشت پناہی کرتے کرتے معاملے کو یہاں تک پہنچا دیا کہ انھوں نے خود ریاست کے وجود کو چیلنچ کردیا۔غیر ریاستی عناصر نے جمہوری نظام ، آئین ساز اداروں ، عدلیہ اور جدید تعلیم کے تمام نظام کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ غیر ریاستی عناصر کے یہ گروہ اتنے طاقت ور اور خود سر ہو گئے کہ ان کے لوگوں نے خود اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف ’’جہاد‘‘ شروع کر دیا ۔بم دھماکے آئے دن کا معمول بن گئے۔ ۵۰ ہزار سے زیادہ لوگ ان بم دھماکوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔معاشرے میں شدید ابتری اور بے یقینی پھیلتی چلی گئی۔
دوسری طرف ہوسِ زر نے رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ جعلی ادویات، جعلی گھی اور آئل۔۔۔جعلی ڈاکٹر ، جعلی پیر۔۔۔ہر شے دو نمبر ہوتی چلی گئی۔لوگ مخصوص طبقوں کی ہوسِ زر اور ہوسِ منافع کی بھینٹ چڑھتے رہے ۔ دولت سماجی تفوق کا پیمانہ بن گئی۔ فرد کی انا، خود داری مجروح ہوتی رہی۔ سول بیوروکریسی عرب ریاستوں سے آنے والے مہمان عرب شہزادگان کے لئے جنگل میں منگل پیدا کرنے میں ماہر ہوتی چلی گئی۔
عام آدمی کے لئے کئی طرح کے فکری بہلاوے ایجاد کئے گئے: کرپشن مافیا نے نچلی سطح کے ملازم پیشہ لوگوں کو حصہ بقدرِ جثہ کے اصول سے مطمئن کیا۔ عوام، مزدور ، کسان کو تقدیر کے نام پر مطمئن رکھا گیا۔ مذہبی گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ریاستی اداروں میں مخصوص شباہت کے لوگوں کی پہنچ اور رسائی بڑھتی چلی گئی۔عام لوگوں میں ماضی پرستی اور مستقبل بعید کے سہانے خوابوں کے کھلونوں سے بہلایا گیا۔سب اچھا کی نویدیں سنا سنا کر عام آدمی سے وہ خواب، اضطراب اور تجسس چھین لیا گیا، جس کی وجہ سے وہ کچھ کر گزرنے کی اکساہٹ محسوس کیا کرتا ہے۔
لوگ تھک گئے، ان کو قدم قدم پر کرپشن ، دھونس، دھاندلی، ظلم، زیادتی اور بے انصافی کا سامنا رہا مگر آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔سوچئے ! پاکستانی معاشرہ اپنی ہییت اور ساخت میں شاید واحد معاشرہ ہے، جہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والے کو ہر طرح کے الزامات اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں انسانی عز و وقار کے حصول کی جد و جہد کرنے والے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں مگر پاکستان میں جو لوگ عوامی اور انسانی حقوق پائمال کرتے ہیں وہ محترم گردانے جاتے ہیں۔ دنیا کے کسی معاشرے میں فکری حوالے سے ایسا معکوس سفر اور اتنا بڑا فکری مغالطہ نظر نہیں آئے گا۔
یہ سب یہاں کی اشرافیہ ، مذہبی رہنماؤں کی کم نظری اور ریاستی اداروں میں موجود کوتاہ بین بیوروکریسی کی دین ہے، جنھوں نے کشادگیء فکر و نظر کے راستے مسدود کر رکھے ہیں۔یہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کے لوگ جب تک اقتدار و اختیار کی غلام گردشوں کے مسحور کن ماحول میں رہتے ہیں ، عوام کی کوئی بات ، عوام کا کوئی مفاد ، ان کو یاد نہیں آتا۔مگر جب اپنے عہدوں سے ریٹائر ہوتے ہیں یا اقتدار سے دور ہوتے ہیں تو فکری مغالطوں سے بھرپور نعروں کے ساتھ عوام کو دھوکے میں مبتلا کرتے ہیں۔ادھر عوام وقتی اور لمحاتی فیصلوں اور وقتی، لمحاتی منصوبوں کی لوریوں میں تسکین محسوس کرتے اور اپنی نجات دیکھتے ہیں۔ ادھر تقدیر کی لوریاں ہیں، ماضی کی خوبصورتیوں کی لوریاں ہیں۔تسکین ان ہی لوریوں میں ملتی ہے۔ تاریخ کا معکوس سفر جاری ہے۔ اس معاشرے کا انسان ہلکان ہو رہا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ بے چارگی اور بے گانگی کا شکار ہو چکا ہے۔ آج اس معاشرے کے سامنے کوئی منزل ، کوئی نصب العین نہیں ہے۔ جبر کے سامنے سر اُٹھانے کی ہمت مفقود ہو چکی ہے۔ ’’انکار‘‘ کا حوصلہ ناپید ہو گیا ہے۔ اس معاشرے کے لوگ صرف ’’اقرار‘‘ کے سہارے زندگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور یہ معاملہ زیادہ عرصہ چل نہیں سکتا۔
اب لازم ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری کو قبول کریں اور نبھائیں۔کرپشن کے خلاف اشتہارات شائع کرنے سے کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ریاست کو قومی سطح پر نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ نصاب کو نئے زمانے کے تقاضوں ، قومی مفادات اور قومی نصب العین ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ایک ایسا نصاب جو نوجوانوں میں خود داری، خود انحصاری، مستقبل بینی اور ’’انکار‘‘ کا حوصلہ پیدا کرے۔ فرد کو عز و وقار کا یقین دلانے کے لئے ریاستی اداروں میں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہو گا۔ عام آدمی کو خوف اور دہشت سے نجات دلا کر اسے باور کروانا ہو گا کہ یہ دیس ، یہ مٹی، یہ تہذیب و ثقافت اس کی اپنی ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ طے کیا جائے جس میں عوامی حقوق کی نگہداری اور پاس داری کی ضمانت موجود ہو۔ بصورتِ دیگر سورج سوا نیزے پر آ چکا ہے۔