احمد ندیم قاسمی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے، وہ ایک ادیب اور صحافی دونوں میدانوں میں عمر بھر سرگرم رہے۔ احمد ندیم قاسمی کی نعت اُردو شعرا کی تاریخ میں ایک منفرد اعزاز کے ساتھ جانی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب نے نعت گوئی کے عقیدت بھرے جذبات کو ہمارے اتنا قریب کر دیا کہ ہر پڑھنا سننے والا اُسے اپنے دل کی آواز سمجھتا ہے۔
:ذیل میں قاسمی صاحب کے کچھ منتخب نعتیہ اشعار پیش کیے جا رہے ہیں
دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا
معجزہ حسنِ صوت کا ، زمزمہِ صدا ترا
میرا کمال فن ، ترے حسن کلام کا غلام
بات تھی جانفزا تری ، لہجہ تھا دلربا ترا
جاں تری سر بہ سر جمال ! دل ترا ، آئینہ مثال
تجھ کو ترے عدُو نے بھی دیکھا تو ہو گیا ترا
اے مرے شاہِ شرق و غرب ! نانِ جویں غذا تری
اے مرے بوریا نشیں ! سارا جہاں گدا ترا
سنگ زنوں میں گِھر کے بھی ، تو نے انہیں دعا ہی دی
دشت بلا سے بارہا ، گزرا ہے قافلہ ترا
میرا تو کائنات میں ، تیرے سوا کوئی نہیں
ارض تری ، سما ترے ، بندے ترے ، خدا ترا
دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں
اس تیرگی میں مطلعِ انوار آپ ہیں
یہ بھی ہے سچ کہ آپ کی گفتار ہے جمیل
یہ بھی ہے حق کہ صاحبِ کردار آپ ہیں
ہو لاکھ آفتابِ قیامت کی دھوپ تیز
میرے لیے تو سایہِ دیوار آپ ہیں
مجھ کو کسی سے حاجتِ چارہ گری نہیں
ہر غم مجھے عزیز کہ غم خوار آپ ہیں
انسان مال و زر کے جنوں میں ہے مبتلا
اس حشر میں ندیم کو درکار آپ ہیں
تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق
تو نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا
سمٹ آیا ترے اک حرف صداقت میں وہ راز
فلسفوں نے جسے تاحدِ گماں الجھایا
راحتِ جاں ! ترے خورشیدِ محبت کا طلوع
دھوپ کے روپ میں ہے ابر کرم کا سایا
اپنے رفیقوں کے لئے پتھر بھی ڈھوئے آپ نے
اور دشمنوں کے حق میں مصروفِ دعا بھی آپ ہیں
ظلماتِ این و آں میں ہوں ، میں کب سے سرگرمِ سفر
اور اس سفر میں ، میری منزل کا پتہ بھی آپ ہیں
میری پہچان ہے سیرت ان کی
میرا ایمان ! محبت ان کی
آج ہم فلسفہ کہتے ہیں جسے
وہ مساوات تھی عادت ان کی
فتحِ مکہ ، مرے دعوے کی دلیل
عدل کی جان ، عدالت ان کی
حرفِ اَتًمَمْتُ عَلَیْکُم ہے گواہ
حسنِ تکمیل ہے بعثت ان کی
ارتقا اس سے اجازت مانگے
اُن کی ہو جائے جو امت اُن کی
میں کہ راضی بہ رضائے رب ہوں
کوئی حسرت ہے تو حسرت ان کی
وقت اور فاصلہ برحق لیکن
میرا فن کرتا ہے بیعت ان کی
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا
میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا
ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
اس قدر کون محبّت کا صِلہ دیتا ہے
اُس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے
جب اُترتی ہے مِری رُوح میں عظمت اُس کی
مجھ کو مسجوُد ملائک کا بنا دیتا ہے
رہنمائی کے یہ تیور ہیں کہ مجھ میں بَس کر
وہ مجھے میرے ہی جوہر کا پتا دیتا ہے
اُس کے ارشاد سے مجھ پر مِرے اَسرار کُھلے
کہ وہ ہر لفظ میں آئینہ دِکھا دیتا ہے
ظُلمتِ دہر میں جب بھی میں پُکاروں اُس کو
وہ مِرے قلب کی قندیل جلا دیتا ہے
اُس کی رحمت کی بھلا آخری حد کیا ہو گی
دوست کی طرح جو دُشمن کو دعا دیتا ہے
وہی نِمٹے گا مِری فِکر کے سناٹوں سے
بُت کدوں کو جو اَذانوں سے بسا دیتا ہے
وہی سرسبز کرے گا مِرے ویرانوں کو
آندھیوں کو بھی جو کردارِ صبا دیتا ہے
فن کی تخلیق کے لمحوں میں، تصوّر اُس کا
روشنی میرے خیالوں میں مِلا دیتا ہے
قصر و ایواں سے گُزر جاتا ہے چُپ چاپ ندیم
دَر محمد کا جب آئے تو صدا دیتا ہے
قطرہ مانگے جو کوئی تو اُسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے، اپنی تمنا دے دے
وہ جو آسوُدگی چاہیں انہیں آسوُدہ کر
بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے
میں اس اعزاز کے لائق تو نہیں ہوں لیکن
مجھ کو ہمسائیگی گنبد خضری دے دے
غم تو اِس دور کی تقدیر میں لکھے ہیں مگر
مُجھ کو ہر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے
تب سمیٹوں میں ترے ابرِ کرم کے موتی
میرے دامن کو جو تو وسعتِ صحرا دے دے
تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے
قدم اُٹھیں تو زمانہ مجھے رَستا دے دے
جب بھی تھک جائے محبّت کی مسافت میں ندیم
تب تِرا حُسن بڑھے اور سنبھالا دے دے
خلد مری صرف اس کی تمنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم
وہ مرا سدرہ ، وہ مرا طوبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
اس کا جلال ہے بحر و بر میں ، اس کا جمال ہے کوہ و قمر میں
اس کی گرفت میں عالمِ اشیا صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتنے صحیفے میں نے کھنگالے ، نصف اندھیرے ، نصف اجالے
تو ہی حقیقت ، تو ہی صداقت ، باقی سب کچھ صرف ہیولا
تو نے دیا مفہوم نمو کو ، تو نے حیات کو معنی بخشے
تیرا وجود اثبات خدا کا ، تو جو نہ ہوتا ، کچھ بھی نہ ہوتا
راہ گم کردہ مسافر کا نگہباں تو ہے
آفتِ جاں پہ مثال مہ تاباں تو ہے
اس خدا سے مجھے کیسے ہو مجالِ انکار
جس کے شہ پارہِ تخلیق کا عنواں تو ہے
یہ بتانے کو کہ با وزن ہے انسان کی ذات
دست یزداں نے جو بخشی ہے وہ میزاں تو ہے
تیرا کردار ہے احکامِ خدا کی تائید
چلتا پھرتا ، نظر آتا ہوا قرآں تو ہے
رنگ کی قید نہ قدغن کوئی نسلوں کی یہاں
جس کے در سب پہ کھلے ہیں وہ دبستاں تو ہے
میرے نقاد کو شاید ابھی معلوم نہیں
میرا ایماں ہے مکمل ، مرا ایماں تو ہے
روح و بدن میں ، قول و عمل میں کتنے جمیل ہیں آپ
انساں ہے مسجود ملائک ، اس کی دلیل ہیں آپ
آپ کی اک اک بات کلامِ الہی کی تفسیر
قرآں تو اجمالِ بلیغ ہے اور تفصیل ہیں آپ
آپ کے ذکر سے کھلتے جائیں راز جہانوں کے
قدم قدم پہ وجود و عدم میں سب کے کفیل ہیں آپ
کتنے یقیں سے بڑھتا جائے آپ کی سمت ندیم
اس کو کیا اندیشہِ شب ، جس کی قندیل ہیں آپ
علاجِ گردشِ لیل و نہار تو نے کیا
غبارِ راہ کو چھو کر بہار تو نے کیا
ہر آدمی کو تشخص ملا ترے دم سے
جو بے شمار تھے ان کو شمار تو نے کیا
اٹھا کے قعرِ مذلت سے ابنِ آدم کو
وقار تو نے دیا باوقار تو نے کیا
کوئی نہ جن کی سنے ان کی بات تو نے سنی
ملا نہ پیار جنہیں ، ان کو پیار تو نے کیا
جمالِ قول و عمل ہو کہ حسنِ صدق و وفا
جو بے زباں تھے انہیں شعلہ بار تو نے کیا
میں کہ بے وقعت و بے مایہ ہوں
تیری محفل میں چلا آیا ہوں
آج ہوں میں ترا دہلیز نشیں
آج میں عرش کا ہم پایہ ہوں
چند پل یوں تری قربت میں کٹے
جیسے اِک عمر گزار آیا ہوں
تیرا پیکر ہے کہ اِک ہالہِ نور
جالیوں سے تجھے دیکھ آیا ہوں
کہ یہ کہیں خامیِ ایماں ہی نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
میں نے یہ مانا کہ وہ میرا ہے تو سب کا بھی وہی
مجھ کو یہ ناز ، وہ سب کا ہے تو میرا بھی وہی
وہ مری عقل میں ہے ، وہ میرے وجدان میں ہے
میری دنیا بھی وہی ہے ، مری عقبی بھی وہی
وہ جو برسا مری تشکیک کے صحراؤں میں
میرے وہموں کی شبِ تار میں چمکا بھی وہی
وہ بشَر ہے کہ یہی اس کا ارشاد مگر
اس جہانِ بشریت میں ہے یکتا بھی وہی
گرچہ پرکار مشیت کا وہی دائرہ ہے
لیکن اس دائرے کا مرکزی نکتہ بھی وہی
عالم کی ابتدا بھی ہے تو ، انتہا بھی تو
سب کچھ ہے تو ، مگر ہے کچھ اس کے سوا بھی تو
کندہ درِ ازل پہ ترا اسمِ پاک تھا
قصرِ ابَد میں گونجنے والی صدا بھی تو
فردا و حال و ماضئ انساں یہی تو ہے
تو ہی تو ہو گا ، تو ہی تو ہے اور تھا بھی تو
یوں تو مرے ضمیر کا مسند نشیں بھی ہے
لیکن ہے شش جہات میں جلوہ نما بھی تو
تو میرِ کارواں بھی ہے ، سَمتِ سفر بھی ہے
میرا امام بھی ، مرا قبلہ نما بھی تو
بے اجْر تیرے در سے نہ پلٹے گی میری نعت
اک اور نعت کا مجھے دے گا صلہ بھی تو
مجھ کو تو اپنی جاں سے بھی پیارا ہے ان کا نام
شب ہے اگر حیات ، ستارا ہے ان کا نام
تنہائی کس طرح مجھے محصور کر سکے
جب میرے دل میں انجمن آرا ہے ان کا نام
ہر شخص کے دکھوں کا مداوا ہے ان کی ذات
سب پاشکستگاں کا سہارا ہے ان کا نام
بے یاروں ، بے کسوں کا اثاثہ ہے ان کی یاد
بے چارگانِ دہر کا چارا ہے ان کا نام
لب وا رہیں تو اسمِ مُحمّد ادا نہ ہو
اظہارِ مدعا کا اشارہ ہے ان کا نام
لفظ مُحمّد اصل میں ہے نطق کا جمال
لحنِ خدا نے خود ہی سنوارا ہے ان کا نام
قرآن پاک ان پہ اتارا گیا ندیم
اور میں نے اپنے دل پہ اتارا ہے ان کا نام
ہر ایک پھول نے مجھ کو جھلک دکھائی تری
ہوا جدھر سے بھی آئی ، شمیم لائی تری
وہ شخص اپنے مقدر کا خود ہے صورت گر
کہ جس نے اپنے ارادوں میں لَو لگائی تری
مرے نقوشِ قدم پر چراغ کیوں نہ جلیں
کہ رہنما ہے مری شانِ رہنمائی تری
گواہی دیتا ہے یہ ارتقائے انسانی
کہ کام آئی جہاں بھر کو پیشوائی تری
مجھے قسَم ہے تری سیرتِ منَزَّہ کی
کہ تاج و تخت پہ اک طنز تھی چٹائی تری
مری حیات کا گر تجھ سے انتساب نہیں
تو پھر حیات سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں
امڈ رہی ہیں اگر آندھیاں تو کیا غم ہے
کہ میرا خیمہِ ایمان بے طناب نہیں
ترے کمالِ مساوات کی قسَم ہے مجھے
کہ تیرے دیں سے بڑا کوئی انقلاب نہیں
ندیم پر ترے احساں ہے اس قدر جن کا
کوئی شمار نہیں ہے کوئی حساب نہیں
کتنا سادہ بھی ہے سچا بھی ہے معیار ان کا
ان کی گفتار کا آئینہ ہے کردار ان کا
ان کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم
پیار کرتا ہے ہر انساں سے ، پرستار ان کا
امتیازات مٹانے کے لیے آپ آئے
ظلم کی آگ بجھانے کے لئے آپ آئے
آدمیت سے تھا محروم گلستانِ حیات
اور یہ پھول کھلانے کے لیے آپ آئے
آپ کے دامنِ رحمت کا سہارا ہے مجھے
میں حکومت کی عنایت کا طلبگار نہیں
آپ کے سامنے کرتا ہوں یہ اعلان کہ میں
حق پرستی سے جو باز آؤں تو فنکار نہیں