(انیس ہارون)
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ ’’فیمنزم ‘‘ کیا ہے۔عموماً اس تحریک کو مغرب زدگی اور خواتین کی بے لگام آزادی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آپ نے خواتین سے بھی یہ سنا ہو گا کہ ’’ہمارے ملک میں عورت دوہرے استحصال کا شکار ہے یا اُن پر بڑا ظلم ہوتاہے ‘ ‘۔مگر دوسرے ہی سانس میں وہ کہتی ہے کہ ’’ میں فیمنسٹ نہیں ہوں ‘‘ ان میں پیشہ ور خواتین سے لے کر ادیب و شاعر بھی شامل ہوتی ہیں جو ہمیشہ عورتوں کے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں مگر اپنے آپ کو ’’فیمنسٹ ‘‘ کہلانا پسند نہیں کرتیں کیوں کہ ان کے ذہن میں بھی یہ ایک مغربی نظریہ ہے جسے ’’مردوں سے نفرت ‘‘ انتہا پسند نسوانیت اور گھر تباہ کرنے کامحرک سمجھا جاتا ہے۔یہ دراصل اُسی پروپیگنڈہ کا شکار ہیں جو فیمنزم کو صرف انتہا پسندانہ نظریات سے ہی جانچتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔خواتین پر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا یا ان کے حقوق کی بات کرنا ’’فیمنزم ‘‘ ہے۔اب اس کے مختلف مکاتب فکر یا School of Thoughts ہیں۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر یہ کہہ دینا کہ میں ’’فیمنسٹ ہی نہیں ہوں ‘‘ نا واقفیت پر مبنی ہے۔انہیں ’’فیمنزم‘‘ کی تاریخ،نظریات اور تفصیل جاننے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک مغرب زدگی کی بات ہے،پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرق نے ترقی یافتہ معاشروں سے کئی نظریات مستعار لیے ہیں۔مثلاً جمہوریت،انسانی حقوق،بچوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔انہیں اپنانے پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن جب خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو فوراً ’’مغربی نظریے ‘‘کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے اور خود عورتیں بھی اسی لابی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ جس کا مقصد دراصل عورتوں کو پیچھے اور پس ماندہ رکھنا ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ ہو کر غلامی کی زنجیرنہ توڑ سکیں۔اس مہم کے پیچھے مذہبی،استحصالی اور ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو فرسودہ اورجاگیردارانہ سوچ رکھتی ہیں اور معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتیں خصوصاً عورتوں کی آزادی کو وہ اپنے لیے زہر قاتل سمجھتی ہیں اور ’پدر شاہی نظام ‘کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
’پدر شاہی ‘ نظام مردوں کی معاشرتی بالا دستی کو کہتے ہیں جس کی بنیاد سماج ،خاندان، سیاست،معیشت اور مذہب پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔اس پورے نظام کی تاریخ ہے جس کی جڑیں مختلف سماجوں،مروجہ رسوم و روایات اور مختلف ادوار تک پھیلی ہوئی ہیں۔۱۷ ویں صدی کے زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ اس کے بعد آنے والی صدیوں کے مختلف اور ۲۱ویں صدی کے اپنے حالات ہیں جس نے عورتوں کی جدوجہد کو مختلف سانچوں میں ڈھالا ہے۔
’فیمنزم‘ دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے معاشرے،مزاج اور ضروریات کے مطابق شکل اختیار کرتا ہے۔جس میں خود عورتوں کی اپنی تعلیم،شعور،کلاس اور ماحول کا دخل ہوتا ہے۔عورتیں اپنی جدوجہد کے دوران ’پدر شاہی ‘ کو سمجھنے ،اس سے نجات حاصل کرنے اور ایک غیر استحصالی معاشرہ قائم کرنے کے مراحل سے گزرتی ہیں۔
جنوبی ایشیاء کے پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان،ہندوستان،بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا کی خواتین نے اپنی مختلف ورکشاپس میں ’فیمنزم‘ کی دو تعریفیں اس طرح کی ہیں۔
1. ”Fiminism is an awareness of women’s oppression and exploitation in society, at the place of work, withen the family and conscious action to change this situation”
(Kamla Bhasin & Nighat Saeed Khan: p.3: Feminism and its relevance in South Asia
فیمنزم اس احساس کا،کہ معاشرے میں عورت مظلوم ہے اور اس کا استحصال کیا جاتا ہے، اور اس صورت حال کو بدلنے کی شعوری کوشش کا نام ہے۔
2. ” Fiminism is an awareness of patriarchal control, exploitation and oppression at the material and idealogical level of women’s labour, fertility and sexuality, in the family, at the place of work and in society in general and conscious action by women and men to transform the present situation”
’’فیمنزم نام ہے اس احساس کا کہ معاشرے میں پدری نظام مسلط ہے اور مادی اور نظریاتی سطح پر عورت کی محنت،جنسیت اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کا خاندان میں اور کام کرنے کی جگہ پر غرض پورے معاشرے میں استحصال کیا جاتا ہے اور اسے کچلا جاتا ہے اور وہ تمام مرد اور عورتیں جو اس حالت کو بدلنا چاہتے ہیں وہ فیمنسٹ ہیں۔‘‘
ان کی رو سے کوئی بھی عورت یا مرد جوان حالات کو بدلنے کی کوشش کرے وہ فیمنسٹ ہو سکتاہے۔اگر ہم آج پاکستان کے حالات دیکھیں تو میں سمجھتی ہوں کہ جتنی ناانصافی کا شکار خواتین ہمارے معاشرے میں ہیں دنیا میں بہت کم مثالیں ایسی ملتی ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کی جدوجہد بڑے ابتدائی مراحل میں ہے۔ یہاں تو فیمنزم زندگی کے بنیادی حقوق مثلاً زندہ رہنے کا حق،تعلیم کا حق،آمد و رفت پر پابندی نہ ہونے،اپنی مرضی کا پیشہ اختیار کرنے،پسند کی شادی کرنے اور بحیثیت انسان معاشرے میں پہچانے جانے کا حق مانگ رہا ہے،عورت تعلیم،صحت،ملازمت اور سماجی حقوق میں مردوں سے کہیں کم ہے اور اپنی زندگی کے فیصلوں پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔غیرت کے نام پر قتل (کارو کاری )،عورت کی خرید و فروخت،وٹہ سٹہ اور کم عمری کی شادی،بدلِ صلح، سام رکھنا اور دلور کی رسمیں بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ان سب رسموں کا ختم ہونا عورت کی عزت اور حیثیت بحال کرنے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔
پاکستان میں عورتوں کی سماجی حیثیت یوں تو کبھی قابل فخر نہیں رہی لیکن ضیاء الحق نے ان کا آئینی مرتبہ کم کر کے رہی سہی کسرپوری کر دی۔ ۱۹۷۹ء میں نافذ ہونے والے نام نہاد اسلامی قوانین میں خواتین کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا۔ قانون شہادت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی۔حدود آرڈ یننس میں خواتین کے خلاف زیادتی کی انتہا کر دی گئی کہ ریپ (زنا) اور زنا بالجبر(Adultery) میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ زیادتی کاشکار ہونے والی خاتون کو خود ہی جرم کا ثبوت پیش کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ خود ملزمہ بنا کر جیل پہنچادی جاتی ہے۔ حد کی سزا کے لئے صرف چار مسلمان مردوں کی گواہی کو لازم قرار دیا گیا۔یعنی اگر قتل یا ریپ صرف خواتین اور غیر مسلم مردوں کی موجودگی میں ہو تو حد کی سزا نہیں دی جاسکے گی۔ان سراسر غیر منصفانہ قوانین کا شدید نقصان خواتین کو پہنچا ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں غریب عورتیں جن میں ۱۶ سے ۲۰ سال تک کی خوتین شامل ہیں ’زنا‘ آرڈیننس میں جیل جا چکی ہیں۔جنہیں ان کے شوہر،سسرال والوں یہاں تک کہ والدین نے بھی اپنی مرضی سے شادی کرنے یا بدلا لینے کی خاطر پولیس میں شکایت کر کے جیل پہنچا دیا۔یہ درست ہے کہ ایک عرصہ جیل میں گزارنے کے باوجود ان کا جرم ثابت نہ ہونے پر رہا کر دیا گیا لیکن اس معاشرے میں جو عورت ایک بار جیل جا چکی ہے کیا اس کا گزارہ ہو سکتا ہے ؟
ایک طرف تو پاکستانی خواتین کا مسئلہ ان پر بہیمانہ تشدد ہے جو گھروں میں،گھروں سے باہر،پولیس لاک اپ میں اور پبلک لائف میں ہوتا ہے۔روزانہ کے اخبارات اس منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کس طرح ۱۱۔۱۲ سالہ لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے اور شوہر اسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔جائیداد کے لیے عزت و ناموس کا بہانہ بنا کر خاندان سے باہر شادی نہیں کی جاتی اور اگر وہ غلطی سے اپنا حصہ مانگ لے تو قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ گاؤں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں پڑھی لکھی لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوتاہے۔میں ذاتی طور پر چار ایسی بہنوں کو جانتی ہوں جو خوف و ہراس میں زندگی بسر کر رہی ہیں کیوں کہ سب سے بڑی بہن کو بھائی نے جائیداد میں حصہ مانگنے کی پاداش میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ضمانت پر باہر آگیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں فیمنزم کا مقصد بنیادی سطح کے حقوق کی جنگ ہے جس میں عورت بحیثیت انسان زندگی گزارنے کا حق مانگ رہی ہے۔وہ اپنی مرضی سے تعلیم،ملازمت اور شادی کرنے کا حق چاہتی ہے۔یہ فیصلہ بھی عورت کا ہی ہونا چاہیے کہ وہ کب اور کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہے۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ جب عورتیں معاشی طور پر خود کفیل ہوں اور انہیں اپنے آپ پر اعتماد ہو تو وہ ایک سے زیادہ بیوی برداشت نہیں کرتیں اور کثیر الازدواجیت(Polygamy) کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہیں۔مذہب کے ٹھیکہ داروں کو یہ گوارا نہیں آتاہے اس لئے وہ اس کی آزادی پر بے راہ روی یا مغرب زدگی کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ Polygamy کی مخالفت کا تصور مغرب سے نہیں آیا بلکہ اسلام میں ہی مشروط طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔سب سے پہلی ایک بھرپور آواز جو کثیر الازدواجیت کے خلاف اٹھائی گئی وہ مصر میں ھد ااشراوی کی تھی جنہوں نے ۱۹۳۵ ء میں جامعہ اظہر میں اپنا مقالہ پیش کیا اور تنقید کا نشانہ بنیں۔
ہم عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں قرۃ العین طاہرہ کا کردار کیسے بھول سکتے ہیں۔۱۹۰۶ء میں بنگال کی رقیہ سخاوت حسین نے ایک کتاب (سلطانہ کا خواب ) “Sultana’s Dream” لکھی جس میں عورتوں کے سارے کردار مردوں کو دے کر انہیں ایک آئینہ دکھایا گیا تھا۔کیا ہم ان کو فیمنسٹ نہیں کہیں گے ؟
عورتوں کے حقوق یا فیمنزم کی جدوجہد میں ایک بہت اہم کردار ترقی پسند کیمونسٹ تحریک نے ادا کیا ہے۔ہیگل اور لینن نے عورت کی محکومی کے بارے میں ایک جامع تحقیق پیش کی ہے کہ کس طرح نو آبادیاتی سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کی آزادی کو غلامی میں تبدیل کیا۔لینن کی “Origin of Family & State” نے عورتوں کا شعور اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
۱۹۲۰ء میں کلا رایٹیکن، الیگزنڈرا کونستائی اور کرپس کا یا لینن جیسی خواتین نے عورتوں کی ملازمت، کام کی مساوی اجرت اور ان کے حقوق بارے بہت سے سوال اٹھائے اور یورپ کی وہ عورت جو سرمایہ دارانہ نظام کے آنے سے پدر شاہی “Patriarchy” کو مضبوط ہوتا دیکھ رہی تھی۔اس نے رہنمائی او رشعور حاصل کیا اور اپنے آپ کو ’’فیمنزم‘‘ کی جدوجہد میں منظم کرتی گئی۔اٹھارویں صدی میں عورتوں کی حقِ رائے دہی کی تحریک (Suffragales) نے بھی ان کے شعور کو جگانے اور عورت کی آزادی کی تاریخ میں اہم باب رقم کیا۔ عورتوں کی یہ جدوجہد تاریخ کا ایک حصہ ہے اورہم اسے یکسر مسترد نہیں کر سکتے۔
اگر ہم قیام پاکستان ہی کی تاریخ دیکھ لیں تو عورتوں کا ایک بھرپور کردار سامنے آتا ہے۔ قائداعظم نے بہت جلد یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ مسلم لیگ میں خواتین کی شمولیت اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں ان کے فعال کردار کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔چنانچہ ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ء کو دہلی میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں لیاقت علی خاں کا پیش کردہ ریزو لیشن متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں ہندوستان بھر سے خواتین کے نام مسلم لیگ ویمن سب کمیٹی میں شامل کیے گئے۔اور ۱۹۴۴ء میں قائداعظم نے اپنی تقریر میں کہا۔’’ یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری عورتیں گھروں کی چار دیواری میں قیدیوں کی سی زندگی گزاریں۔ہماری عورتیں جن شرمناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔آپ اپنی عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کامریڈ کی طرح ساتھ ساتھ لے کر چلیں۔‘‘
قیام پاکستان کی جدوجہد میں کئی اہم نام ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔محترمہ فاطمہ جناح، بیگم لیاقت علی خاں، بیگم شاہ نواز، سلمیٰ تصدق حسین،لیڈی ہارون،شائستہ اکرام اللہ، نور الصباح بیگم اور کئی ایسی اور معتبر شخصیتیں اور لاہور سیکریٹریٹ پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے والی صغرا خاتون کا بھی نام آتا ہے۔پشاور میں سینکڑوں عورتوں نے جلوس نکالا اور پولیس کا مقابلہ کیا۔ ۱۹۴۷ کے فسادات میں برصغیر کی لاکھوں عورتوں نے اپنی عزتیں اور جانیں گنوائیں۔ بعد میں صلہ یہ دیا گیا کہ بس اب تمھاری ضرورت نہیں رہی گھر بیٹھ جاؤ۔ کبھی ان پر مذہب کے نام پر یا انوکھی روایات کے نام پر من پسند پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور ان کو چیلنج کرنے والوں کو ’مغرب زدہ ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔لیکن تاریخ کا پہیہ ہمیشہ آگے کی طرف ہی جاتا ہے۔
میرے نزدیک تو وہ نازک سی لڑکی بھی فیمنسٹ ہے جو سیاہ برقع میں ملبوس مجھے اپنی کہانی سنانے آتی تھی کہ کس طرح اس نے اپنے شوہر کی دوسری شادی کو اپنی ہتک سمجھا اور گھر چھوڑ کر نکل آئی۔وہ ایک لوئر مڈل کلاس کی لڑکی تھی جس کی ماں خود بھائی کے رحم و کرم پر تھی اور وہ اپنی بہن کو دو چھوٹے بچوں سمیت رکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ہمت والی ماں نے اپنے دل کے ٹکڑے ساس سسر کے حوالے کئے۔محنت کی اور آگے پڑھا،اسکول میں ملازمت اختیار کی اور اب اس مقام پر پہنچ گئی تھی کہ اپنے بچوں کو واپس لینے مجھ سے مشورہ کرنے آتی تھی۔ تمہیں کس نے کہا تھا گھر اور بچے چھوڑنے کو ؟میں نے پوچھا۔
’’میری عزت نفس نے ‘ بچوں کے لیے تو میں دن رات تڑپتی ہوں لیکن اس گھر کو چھوڑنے کا مجھے ذرا بھی افسوس نہیں جس میں مجھے عزت نہ ملی ‘‘۔
اس نے تو کوئی ’’فیمنزم‘‘ نہیں پڑھا بلکہ وہ تو پیلے اسکول میں پڑھتی تھی۔یہی ہماری عورت کی جدوجہد کی کہانی ہے۔
اس موضوع پر یہ ایک عمدہ اور پر اثر مضمون ہے۔ میں مصنفہ کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ نسائیت feminism کی اصطلاح پر ‘ٹھوس’ علمی مباحث کے بجائے ‘ٹھوس’ عمل کی ضرورت ہے۔ عورت کا گھر یا کام پر کردار تو سماج ہی کافی حد تک طے کرتا ہے لیکن میری رائے میں عورت کا بحیثیت انسان ایک شخصیت entity کو تسلیم کرنا ہی نقطہ آغاز ہوگا۔ ابھی تک بہت سے اذہان میں شعوری یا لاشعوری طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ عورت کا باعث تخلیق مرد کے لیے راحت و آرام ہی ہے۔ معاشرے میں لڑکی کی تعلیم و تربیت میں اسی سیاق کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔