(پروفیسر فتح محمد ملک)
روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا ادارتی صفحہ ایک بار پھر نظریاتی محاذ پر پسپائی کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ اب سے چند برس پیشتر جناب ارشاد حقانی نے اپنے کالم’’ حرفِ تمنّا ‘‘میں نظریاتی محاذ پر اپنی پسپائی کا اوّلیں مرحلہ پیش کیا تھا۔ تب اُن کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان تو پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کی غلطیوں سے وجود میں آیا ہے۔ پسپائی کے اِس دوسرے مرحلے پر اب وہ یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان قائداعظم کی غلطیوں کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ گویا قائداعظم کی سب سے بڑی غلطی قیامِ پاکستان ہے۔اُن کے خیال میں کابینہ مشن پلان یعنی اکھنڈ بھارت کی آئینی دستاویز کو ٹھکرا کر قائداعظم نے اُس فاش غلطی کا ارتکاب کیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تھا۔نظریاتی محاذ پر اپنی ہولناک پسپائی کے ہر دو مرحلوں پر جناب ارشاد احمد حقانی کابینہ مشن پلان کوانتہائی غیر ضروری حد تک اہمیت دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اپنے استدلال کو پیش کرتے وقت وہ یہ تاثر دیتے ہیں جیسے کابینہ مشن پلان کوئی مقدس دستاویز ہو۔ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کابینہ مشن پلان جھوٹ اور فریب کا ایک سنگین جال تھا جسے قائداعظم کی سی نظریاتی صلابت ہی توڑ سکتی تھی۔ پاکستان اور بھارت کی فیڈریشن قائم کر کے خطے میں ہندوبھارت کی بالادستی کے خام خیال میں مبتلا چند صحافی کابینہ مشن پلان کو ہماری قومی آزادی کی تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کابینہ مشن قیامِ پاکستان کوروکنے اور اکھنڈ بھارت کے قیام کی خاطر بھیجا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن چکی تھی۔ برصغیر کے گلی کوچوں میں اس طرح کے نعرے گونجنے لگے تھے:
لے کے رہیں گے پاکستان
اور
بٹ کے رہے گا ہندوستان
اِس قوت کو انتشار میں مبتلا کر کے بھارت کی سامراجی وحدت کا حصول برطانوی استعمار اور امریکی حکومت کا ایک مشترکہ مقصد بن چکا تھا۔ بالکل اس طرح جس طرح آج مغرب کی استعماری قومیں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کی خاطر پاکستان کو بھارت کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ کرنے میں کوشاں ہیں۔اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی نے ۱۵۔مارچ ۱۹۴۶ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت بڑی رعونیت کے ساتھ کہا تھا کہ :
“We are mindful of the rights of the minorities. On the other hand we cannot allow a minority to place a veto on the advance of a majority.”
درج بالا اعلان اِس حقیقت کا کھلا ثبوث ہے کہ برطانوی استعمار مسلمانوں کو ایک الگ قوم اور اپنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیادپر پاکستان کے قیام کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے ایک جداگانہ ، منفرد اور مہذب قوم علامہ اقبال نے قرار دیا تھا۔ اِسی محکم استدلال کی ہر آن تازہ تر تشریح قائداعظم کے حصے میں آئی تھی۔ اُنہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت کے اِس تصور کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا کر مسلمانوں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے پرچم تلے جمع کر لیا تھا۔ ایسے میں برطانوی وزیراعظم کی یہ دھمکی کہ وہ مسلمان ’’اقلیت ‘‘کو ہندو اکثریت کے مفادات پر ویٹو کا حق ہرگز نہ دیں گے، قابل غور ہے۔ اِس پُرفریب جملے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ برطانوی استعمار برصغیر کے مسلمانوں کوکسی صورت میں بھی پاکستان قائم کرنے کی اجازت نہ دے گا۔ برطانوی استعمار کی اپنے اِس مذموم مقصد کے حصول میں ناکامی صرف ایک شخص کے ایمان محکم اور ندرتِ کردار کا نتیجہ تھی۔ اِس عظیم شخصیت کو دُنیا قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے پہچانتی ہے۔
قائداعظم برطانوی استعمار کے مکر و فریب سے بھی آگاہ تھے اور اُس کی اندرونی کمزوریوں سے بھی خوب واقف تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں قائداعظم نے کیبنٹ مشن کے عیار ترین اور طاقتور ترین رُکن سرپیتھک لارنس کو ایک ایسا مداری(that ingenious juggler of words) قرار دیا تھا جولفظوں کے گورکھ دھندوں سے فریب کے جال بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایک برطانوی سیاسی مؤرخ لیونارڈ موزلے اپنی کتاب بعنوان The Last Days of the British Raj میں لکھتا ہے کہ قائداعظم سے ملاقات کے تصور ہی سے کابینہ مشن کے ارکان کی جان جاتی تھی:
“Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistant demand for Pakistan or nothing. An encounter with Jinnah cast them down.”
چنانچہ قائداعظم نے مذاکرات کی میز پر بھی ہتھیار پھینک دینے کی بجائے دادِ شجاعت دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ نتیجہ یہ کہ جب کابینہ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگرسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ غُل مچا کہ ہم ایک پاکستان پر بھی تیار نہیں مگر آل انڈیا کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد نے دو پاکستان دے دیئے ہیں۔ چنانچہ بلا تاخیر مولانا آزاد کو مسندِ صدارت سے ہٹا کر جواہر لعل نہرو کو کانگرس کا صدر مقرر کر دیا گیا۔ پنڈت نہرو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے لفظ تو وہی رہنے دیئے مگر معنی تبدیل کر کے رکھ دیئے۔حر ف و معنی کے اِس تصادم پر قائداعظم کے ردِعمل کو لیونارڈ موزلے درج ذیل لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
“Mr. Jinnah reacted to Nehru’s statement like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrel of a cocked revolver.”
جلد وہ وقت آ پہنچا جب قائداعظم نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول باہر نکالا اور برطانوی سامراج کے سینے پر تان دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے زندگی کے کھلے میدان میں مسلمان قوم کی عوامی عدالت میں جائیں گے۔ چنانچہ ۱۶۔اگست کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے (راست اقدام کے آغاز کا دن )قرار دے دیا گیا۔ جولائی کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ بمبئی میں اپنے خطاب کے دوران قائداعظم نے اعلان فرمایا کہ:
“….All these prove clearly beyond a shadow of doubt that the only solution of India’s problem is Pakistan. I feel we have exhausted all reasons. It is no other tribunal to which we can go. The only tribunal is the Muslim nation.”
چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے ایک قرارداد میں مسلمان عمائدین سے مطالبہ کیا کہ برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن حکمتِ عملی پر احتجاج کے طور پر وہ تمام برطانوی خطابات واپس کر دیں اور برطانوی ہند کی انگریز حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کریں:
“The time has come for the Muslim nation to resort to direct action to achieve Pakistan and to get rid of the present slavery under the British and contemplated future Caste Hindu domination”.
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمان عوام کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا۔یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا۔ کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ’’ لڑ ،کے لیں گے پاکستان‘‘مسلم ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیئے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی مفروضہ’’ غلطیوں ‘‘ کو اُچھالنے میں مصروف صحافی اِس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عوامی جمہوری تحریک کا ثمر ہے۔ قائداعظم کی عظیم قیادت میں اِس عوامی جمہوری تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جولائی کے آخر میں منعقدہ انتخابات میں مسلم لیگ نے کل ۸۶ مسلم نشستوں میں سے ۷۹نشستیں حاصل کر کے پچانوے فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر لیا تھا۔افسوس کہ ہمارے ہاں اِس حقیقت الحقائق سے مسلسل چشم کوشی چند صحافتی عناصر کا شیوہ بن کر رہ گیا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ اِن عناصر کو خبردار کیا جائے کہ جب وہ قیامِ پاکستان کوقائداعظم یا قائدِملت کی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ اُس عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں جس نے پہلے ووٹ کی پرچی کے ذریعے عوام کی اجتماعی رائے کی نمائندگی کی اور پھر جب برطانوی استعمار نے قیامِ پاکستان کے حق میں مسلمان عوام کے فیصلے کو مسترد کر دیا تو ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے ، احتجاج اور بغاوت کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان قائم کر دکھایا تھا۔