ہم لکھتے کب نہیں: قاری کے نام معافی نامہ

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

اصغر بشیر

لکھنا ایک طرح سے عہدِ تجدیدِ وفا کا عمل ہے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ہم اپنے آپ سے عہد کی تجدید کرتے رہتے ہیں۔ جوںہی عہد کی تجدید کا عمل رکتا ہے ، لکھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ پھر آدمی جتنے مرضی جتن کرئے، قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہے، ورڈ کھول پر کی بورڈ پر انگلیاں مارتا رہے، کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چند مہینے پہلے پتہ نہیں کیا ہوا کہ اچانک لکھنا چھوڑ دیا۔ دن پر لگا کر اڑنے لگے۔ راتیں فلموں اور ڈراموں کی نظر ہونے لگیں لیکن میوز ناراض ہی رہی۔ اے میرے قاری، میری بات سنئے۔ آج پچھلے چند مہینوں کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو سوائے دھول کے کچھ نظر نہیں آتا۔ آج جب کہ میوز ابھی تک ناراض ہےاور ذہن حسب معمول سویا ہوا ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اپنی طرف سے ایک معافی نامہ قاری کے نام لکھوں، میں اس میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں اتنے دن اپنے فرض سے غافل رہا ہوں۔

ہم لکھنے والے بھی کیا کریں، ہم اسی زمین میں رہتے ہیں۔ یقیناً لکھنا ایک لازمی عمل ہے لیکن دنیا کے تمام فلسفے اور ذمہ داریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جب ہمارے پیٹ کی بھوک نہیں مٹتی۔ سیانے کہتے ہیں کہ بھوک تخلیقی ذہن کو لکھنے پر مجبور کرتی ہے ۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن جب ہمارے بچے اور دوسرے انحصار کرنے والے افراد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہوتے ہیں تو ہم لفظ تو کیا خود کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہی وقت جو ہم چند الفاظ اور معانی گھڑنے پر لگائیں گے بہتر ہے ایک اور ٹیوشن پڑھا لیں یا پھر کسی فری لانسنگ پر کسی امیر زادے کو اسائمنت بنا دیں ، چلیں کچھ پیسے تو ملیں گے۔ اس صورت حال میں قاری کا نقصان ہوتا ہے، لکھنے والے کا ذہن مر تا ہے لیکن معاشرتی طاغوتی طاقتوں کی جیت ہوتی ہے۔ بقا کی جنگ میں انسانیت کہیں پہلی جھڑپوں میں مر جاتی ہے۔

میرے قاری، میرے دوست، مجھ سے پوچھتے ہیں بھائی بڑے دن ہوگئے کوئی تحریر نظر نہیں آئی۔ یہ ایک اچھا عمل ہے کیونکہ اس سے لکھنے والے کو اپنے آپ سے اور اپنے عہد سے بے وفائی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ لیکن جب ہم اپنے آپ میں مجبور ہوتے ہیں، تو یہ عمل مثبت کی بجائے منفی اثرات کا حامل ہوتا ہے۔لکھنے والے کے اندر خودستائی کا جذبہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ خود ترسی اور خودستائی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو المیاتی صورت حال میں ہم اپنے آپ سے ہار مان کر زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر معاشرتی عوامل اپنا بہتر کردار ادا کریں تو اس صورت حال میں کسی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک لکھنے والا جب بنجر دور سے گزر رہا ہوتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ کچھ نہ کچھ پڑھتا رہے۔ اگر پڑھ نہیں سکتا تو کم از کم چند لمحات کے لیے پڑھنے یا لکھنے کا پوز بنا کر ضرور بیٹھا رہنا چاہیے۔ اس سے کسی حد تک جھوٹی ہی سہی ، تجدید ِ وفا تو ہوتی رہتی ہے۔

لکھنے کا عمل ایک مہارت ہے جو مسلسل مشق سے نکھرتی ہے اور بے اعتنائی برتنے سے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے۔ اگر کسی نے لکھنا چھوڑ دیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو لکھنا بھول گیا ہے، یقیناً اس کی مہارت میں کچھ کمی آئے گی مگر مکمل بھول نہیں سکتا۔ تاریخ میں کتنے ایسے واقعات ہیں کہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں لکھنے کا ہنر جاننے والے اپنی زندگی میں مگن ہوگئے اور پھر ادھیڑ عمر میں جا کر انہیں یادِ ماضی ستائی تو انہوں نے دنیا کو فن پارے دیے۔ یقیناً مثبت سوچ ہمیشہ کسی انجام کا اشارہ دیتی ہوتی ہے۔

اے میرے قاری، جب ہم معاشرے میں مجموعی لکھنے والوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تخلیقی بنجر پن کا عمل قریباً سبھی لکھنے والوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اگر بنجر دور کچھ عرصے بعد ختم ہوکر لکھنے والے اپنے اصل کی طرف لوٹتے رہیں تو یہ ایک اچھا شگون ہے۔ لیکن اگر جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے تو یقیناً یہ شخصی عوامل سے بالاتر چیز ہے۔ اگر ہمارے عمومی معاشرتی عوامل ایک شخص کو ایسے مواقعے فراہم نہیں کرتے جن کی بنیاد پر وہ اپنے کمفرٹ زون میں واپس آسکے تو ایسی صورت حال میں معاشرہ بذات خود کسی مصنف کو کھونے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

میں اپنے قاری سے اپنی غیر موجودگی کی معافی مانگتا ہوں، میں قاری کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ میں مجموعی معاشرتی عوامل سے لڑتے ہوئے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ لیکن سوچتا ہوں کہ کتنے لوگ ہوں گے جو ایسا کر سکتے ہوں گے۔ یقیناً بہت کم ہوں گے۔ہم سے ہر ایک فرد کل کا حصہ ہے ، ہم سے ہر ایک کو بطور قاری اپنے لکھنے والوں کو بچانا ہوگا۔ ہمیں اپنے لکھنے والوں کو بچانے کےلیے باہر نکلنا ہوگا، ہمیں ہر ایک کو بطور فرد اپنا فرض نبھانا ہوگا تا کہ معاشرہ بدل سکے۔

2 Comments

  1. چلو جی اب قاری کو بات ہی اتنی حقیقت پر مبنی سنائی ہے تو معاف کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ 🙂 مگر ماضی کو بھول کر مستقبل میں قاری کو کسی تحریر میں مشغول رکھیں تو نوازش ہوگی ۔

Comments are closed.