(قاسم یعقوب)
سکول کے پرنسل نے ایک ہنگامی میٹنگ بلائی۔سارا سٹاف اکٹھا ہو گیا۔
پرنسپل نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا:
’’دہشت گردی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ سکول کے بچوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں حکم آیا ہے کہ آپ اپنے حفاظتی اقدامات مکمل کریں۔ اس سلسلے میں آپ تجاویز دیں، ہم ان بچوں کی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کیا کر سکتے ہیں۔‘‘
ایک سینئر استاد فوراً بول اٹھے:
’’ ہمیں خاردار تاریں لگوا دینی چاہیے اور گیٹ کو سکول ٹائم پر بند رکھیں۔ایمرجنسی نمبرز نمایاں جگہ پر آویزاں ہوں‘‘
ایک اور استاد جوسب سے پہلے بولنے کی کوشش میں ناکام ہو گئے تھے بول اٹھے:
’’دائیں سمت جو پرائمری سکول کی بلڈنگ ہے اُس کے سامنے والے گیٹ کو ایمرجنسی ڈکلیئر کر دینا چاہیے تا کہ حملے کی صورت میں بچے فوراً بھاگ سکیں‘‘
پرنسپل نے اساتذہ کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے سکول انتظامیہ کی طرف سے ممکنہ حملے کے پیشِ نظر کئے جانے والے اقدامات کو بتانا شروع کر دیا۔
’’اگر حملہ آور گیٹ ون سے آتے ہیں تو وہ چھوٹے بچوں کی طرف جائیں گے اور وہاں پہنچ کے فائرنگ کریں گے لہٰذا اساتذہ سب سے پہلے اپنے کلاس رومز دروازوں کو بند کر دیں گے۔ ہم دروازوں کے اندرونی اطراف میں لوہے کے بڑے بڑے کنڈے لگوا رہے ہیں جو کل تک مکمل لگ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک’ بزر‘ کا اہتمام بھی کر دیا گیا ہے جو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں بجا دی جائے گی۔
جب سکول احاطے میں دہشت گرد پہنچ جائیں گے تو اُن کا پیچھا کرتے ہوئے ہمارا سیکیورٹی گارڈ پہنچ جائے گا۔ لہٰذا دروازے بند رکھنا تمام اساتذہ کے لیے لازمی ہو گا‘‘
کچھ اساتذہ نے تذبذب میں سوال کر ڈالا۔
سر، اگر وہ گیٹ گارڈ کا کام تمام کر کے اندر آئے تو پھر اُن کو کون روکے گا‘‘
پرنسپل کوئی جواب نہ دے سکے، بلکہ اُنھوں نے اپنی خفگی سے اُن کے سوال سے نا پسند یدگی کا اظہار کیا۔
سکول میں بریک ہو چکی تھی۔ بچوں کے کھیلنے کا شور میٹنگ روم میں بھی سنائی دے رہا تھا۔ جو اپنے اساتذہ کا امتحان بھی لے رہا تھا کہ ہمیں ان دہشت گردوں سے بچانے کے لیے وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘
سکول کے وائس پرنسپل نے کہا
’’ سر، سامنے مین روڈ ہے اور پچھلی سمت مارکیٹ، میرے خیال میں وہ دیوار کود کے آنے کی بجائے گیٹ پر ہی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے‘‘
میٹنگ روم میں کونے میں آتش دان کے قریب بیٹھے ایک استاد خاموشی سے یہ سب باتیں سن رہے تھے ،بلاخر گویا ہوئے:
’’سر، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دہشت گرد چھوٹے بچوں کو نہیں بلکہ ان بچوں کو نشانہ بنائیں گے جو بالغ ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں۔ وہ قتال میں اس روایت کے قائل ہیں کہ حضور نے جنگ کے دوارن اُن نوجوانوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جن کے زیرِ ناف بال آ چکے ہوں، لہٰذا اُن کا ٹارگٹ نویں اور دسویں کے بچے ہو سکتے ہیں، جونیئر کلاسسز نہیں۔‘‘
ان صاحب کے بولتے ہی بحث کا رخ کسی اور سمت مڑ گیا۔
کوئی کہتا کہ قتال تو فرض ہے مگر آپ اس کو ان دہشت گردوں کے ساتھ نہ جوڑیں۔ دوسری سمت سے آواز آئی۔ قتل کرنے والے اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔قتال کی نوعیت میں فرق ہے۔ روایات کو یوں بدنام نہ کیا جائے۔
پرنسپل اور تمام اساتذہ دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں پر کئے جانے والے اقدامات پر بات کرنے کی بجائے قتال کی حمایت اور مخالفت میں الجھ گئے۔
میٹنگ کا وقت ختم ہونے والا تھا۔ ایک ملازم چائے رکھنے لگا۔ چائے رکھتے رکھتے ایک دم اُس نے ہاتھ کھڑا کیا اور پرنسپل سے کہنے لگا:
’’سر، مجھے اجازت ہے میں بھی ایک تجویز دینا چاہتا ہوں‘‘
کچھ اساتذہ نے برا مانا مگر پرنسپل کے ہاں کرتے ہی سب خاموش ہو گئے اور وہ ملازم چائے کا آخری کپ رکھتے ہی بولنے لگا۔
’’سر میں گذشتہ پندرہ سال سے اس ادارہ میں پےئن ہوں۔ مجھے بھی بچوں سے محبت ہے۔ مجھے خود ان کی جان کی فکر لاحق رہتی ہے۔
سر،میرے خیال میں کل بچوں کی اسمبلی میں اجتماعی دعا کروانی جائے کہ یااللہ تو ہی ہماری مدد فرما اور جو قتال کو جائز قرار دے رہے ہیں، اور دہشت گردوں کی خاموش حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں ،انھیں ہدایت فرما۔
سر،آپ سب پڑھے لکھے ہیں، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دہشت گرد اور بچے تو ایک حملے میں مر جاتے ہیں مگر منفی سوچ کے ساتھ بچوں کو پڑھانے والے استاد کا خسارہ نسل در نسل نہیں مرتا۔ہمیں اس نظریے کو ختم کرنے کا اقدام کرنا چاہیے ورنہ خاردار دیواریں تو کوئی بھی پھلانگ سکتا ہے۔‘‘
پےئن کی بات سنتے ہی سب خاموشی سے چائے پینے لگے۔ پرنسپل نے بغیر کسی نتیجے کے میٹنگ ختم کر دی۔