(حُر ثقلین)
14 اگست 1947کوپاکستان ایک آزاد اورخود مختار ملک کے طور پر معرضِ وجود میں آیا تھا۔برصغیر کے مسلمانوں نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ یہاں عزت اور وقار کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کریں گے۔تحریکِ پاکستان کے قائدین نے مسلمانوں کو یہ باور کروایا تھا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی مرضی سے اس ملک میں رہ سکیں گے۔نئی بننے والی پاکستانی قوم اپنی خارجہ و داخلہ پالیسی اپنی خواہشات کے مطابق ترتیب دے گی۔یہاں کا آئین اور قانون مقامی تہذیبی ورثے کے عین مطابق ہو گا۔ملک کے اندر کسی بھی قسم کی بیرونی عملداری اور مداخلت ناقابلِ قبول ہو گی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بیانیے میں تبدیلی رونما ہوتی چلی گی اور پاکستان میں بیرونی مداخلت کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیااور قومی خود مختاری کا مفہوم بدلتا چلا گیا ۔ جو کام دشمن نہ کر سکتا تھا وہ دوستوں نے خوب کیا۔ دوستی کے نام پر دوست ملکوں نے یہاں اپنی مرضی کی بساط بچھائی اور من پسند چالیں چلی۔سمندر پار اور اردگرد کے ممالک نے یہاں خوب کھیل تماشا کیا اور بے دردی سے اس زمین کے مادی اور افرادی وسائل کو بھی لوٹا ۔1979میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو امریکہ ہمارا دوست بن کر یہاں آیا ۔اس نے روس کی پیش قدمی روکنے کے لیے پاکستانی سر زمین اور افراد ی قوت کا بھر پور استعمال کیا۔امریکہ نے یہاں کے پالیسی ساز اداروں پر اپنا اثر رسوخ قائم کیا ۔مسلم ممالک کے ساتھ ملکر یہاں ایک مخصوص سوچ کو بھی پروان چڑھایا ۔جب سعودی عرب کی مخصوص سوچ نے یہاں پھلنا پھولنا شروع کیا تو ایران نے بھی یہاں کی شیعہ آبادی میں اپنا اثر قائم کیا۔ان دوست ملکوں کے تانوں بانوں نے یہاں فرقہ واریت کو فروغ دیا اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئی۔9/11کے بعد امریکہ ایک بار پھر ہمارا دوست بن کر یہاں آیا اور اس نے بغیر کسی حکومتی یا ریاستی اجازت کے اس سر زمین پر اپنے قدم خوب جمائے۔ریمنڈ ڈیوس کا قصہ تو محض ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وگرنہ یہاں پر امریکیوں نے کئی ایک پاکستانیوں کا بے دریغ خون کیا ۔پاکستانی فوج کو ان مجاہدین کے خلاف لڑنا پڑا جن کو 80ء کی دہائی میں امریکہ نے دوست ممالک کے ساتھ مل کر روس کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔پاکستان میں اس وقت جاری ضربِ عضب اس کی ایک مثال ہے۔
چین کی پاکستان سے دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے۔اس ملک نے بھی پاکستان سے دوستی خوب نبھائی اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے اسے بھر پور استعمال کیا ۔سی پیک کا شور نہ صرف ملک میں ہے بلکہ اب عالمی سیاست بھی اس کے گرد کھوم رہی ہے۔بیرونی دنیا اس منصوبے کے خلاف ہے وہ اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کر رہی ہے۔ملک میں موجود دہشت گردی کے واقعات کو اسی سے جوڑا جاتا ہے۔پاکستانی بطورِ قوم اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔چینی مال یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک تو پہنچے گا ہی مگر مقامی مارکیٹ میں بھی اس مال کی فراوانی ہو گی۔پاکستانی مارکیٹوں میں چینی مال کی فراوانی مقامی صنعت کو شدید نقصان پہنچائے گی۔پاکستان نے بغیر کسی تجارتی معاہدے کے اس منصوبے کی تکمیل کی اجازت دی ہے۔ملک کبھی بھی ٹول ٹیکس کی آمدن سے نہیں چلا کرتے زرعی اور اقتصادی شعبوں میں ترقی ہی ملکوں کی ترقی ہوا کرتی ہے۔پاکستان اب ان شعبوں میں چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ہماری حکومتوں کا چاہیے تھا کہ وہ چین کے ساتھ مربوط معاہدے کرتے اور چین کو اس بات کا پابند بناتے کہ وہ یہاں کے مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر صنعتیں قائم کرے اور ان صنعتوں کے پیداواری مال کو بھی یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک پہنچائے۔
پاکستانی سیاست میں عالمی دوستوں کی مداخلت اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی یہی دوست ہمارے حکمرانوں کو مختلف امتحانوں میں سرخرو کرتے چلے آ رہے ہیں ۔نواز شریف ، آصف علی،جنرل مشرف اور اب پھر نواز شریف اور ان کی اولاد کو تحفظ دینے کے لیے بیرونی دوست سرگرم ہیں ۔پانامہ کیس میں قطری دوست کے خط نے ایک بار پھر ہمارے داخلی معاملات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
پاکستانی قوم کواب اس امر پر توجہ دینی ہو گی کہ آخر کب تک ہماری قومی خود مختاری یوں ہی پامال کی جاتی رہے گی اور ہماری سیاست بیرونی اشاروں پر ناچتی رہے گی؟