لڑنے جھگڑنے میں عزّت ہوتی تو کُتّا بادشاہ ہوتا۔ مشال شہید کے والد محترم اقبال شاعر کی مشال ریڈیو سے گفتگو کا ترجمہ
(ترجمہ: علی ارقم)
میرا نام اقبال شاعر ہے، پولیس میرے پاس آئی تھی اور کہا کہ آپ کے کوئی تحفظات ہیں تو بتائیں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں اس موقع پر تو موجود نہیں تھا، اس لئے کسی پر خواہ مخواہ کا الزام نہیں دھر سکتا، البتہ اس یونیورسٹی میں کیمرے موجود ہیں، اور میں تو اتنا کہتا ہوں کہ صرف میرا بیٹا ہی قتل نہیں ہوا، بلکہ اس حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، تو اگر یہ اس کی کچھ خبر لیں گے تو میری بھی دادرسی ہوجائے گی۔
اور صاحب میں آپ کو بتادوں، یہ میرا بیٹا تھا، میں نے اسے پال پوس کے بڑا کیا تھا، خدا کو علم ہے، اور لوگوں کو پتا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو بند دروازوں کے پیچھے بڑا کیا تھا، اگر میرے محلے میں کسی نے میرے بچوں پر انگلی اُٹھائی تو بتادیں میں ذمّہ دار ہوں گا۔ جہاں تک اس کے خیالات کا تعلق ہے توجب بھی دین کی بات آتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتا، اور چوں کہ وہ صحافی تھا سو اس نظام پر تنقید بھی کرتا تھا، اور اس وقت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا حوالہ دیتا تھا۔
میں یہی کہنا چاہوں گا سب سے جو میری طرح والدین ہیں، کہ ہم اپنی تنگدستی میں اپنے بچّوں کو پڑھاتے ہیں، انہیں کہاں کہاں ، یہاں تک کہ روس تک بھیجتے ہیں، اُن پر خرچ کرتے ہیں، یہ اس کا آخری سمسٹر تھا، اور اُس نے فارغ ہونا تھا، چونکہ اس دن والدہ نے اسے گھر آنے کا کہا تو اُس نے کہا کہ کل جمعہ ہے، پھر ہفتہ اتوار کی چُھٹی ہے، تو گھر آجاؤں گا، وہ (اب) آیا تو اس طرح سے۔
میں یہی کہوں گا کہ جو ہم یہ صدمہ ہم تک پہنچا ہے، جو قیامت ہم پہ ٹوٹی ہے، ہم تو اسے سہہ ہی جائیں گے، کیوںکہ ہم صبر کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم امن والے لوگ ہیں، ہم اس وطن میں محبت اورامن کا پیغام دیتے ہیں۔ جنگ اور فساد کےخلاف ہیں، اور صاحب ! میں نے حامد میر سے بھی سکردو میں ایک گفتگو میں کہا تھا کہ اگر لڑنے جھگڑنے میں عزّت ہوتی تو کُتّا بادشاہ ہوتا، کیوں کہ وہ سب جانوروں سے زیادہ جم کے لڑتا ہے۔