(قاسم یعقوب)
پاکستان کے سیاسی نظام پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کوئی سربراہِ جماعت اتنا بھی طاقت ور ہو سکتا ہے کہ اُسے ’’مائنس‘‘ کرنے میں تین دہائیاں لگ گئیں۔ کیا سیاسی جماعتوں میں سربراہان اس قدر اثر رسوخ رکھتے ہیں کہ اُنھیں مائنس کرنے کے لیے اُنھی کی حماقتوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے؟
ایم کیو ایم نے بلاخر الطاف حسین کو مائنس کر دیا۔ کیا یہ بھی ایک’’ الطاف محبت‘‘ کا اعلامیہ تو نہیں؟ الطاف حسین کے بیانات کو ادبی شہ پاروں کی طرح تشریحات کرنے والے آج بے بس ہو گئے تو انھیں خفیہ طاقتوں نے کہ دیا کہ ’’صاحب ۔۔۔ بس بہت ہو گئی‘‘___بہت تشریح کی کوشش کی گئی۔ مگر بات نہ بنی تو ایک اور حل تلاش کر لیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم اسی(80) کی دہائی میں نوجوانوں کی ایک جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ بہت چھوٹی عمروں کے جوان جو سب ہی تقریباً تیس سال سے چھوٹے تھے۔ جامعہ کراچی اور مقامی تعلیمی اداروں کے نوجوانوں نے ضیائی مارشلائی سورج کی روشنی میں آنکھ کھولی۔ ایم کیو ایم شاید دنیا کی سب سے آسانی سے بننے والی جماعت ہے جس میں چند نوجوانوں نے ذرا سا غور کیا کہ مہاجروں کا کونہ خالی ہے کیوں نہ یہاں بیٹھ کے محوِ استغراقہُوا جائے۔سو سوچنے کی دیر تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے عملی جامہ پہنا نظر آنے لگا۔
نسلی بنیادوں پر ہمدردیاں لینا اور ذات برادریوں میں ایک ذات کے طور پر خود کو پیش کرنے میں ایک سہولت تو رہتی ہے کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ بس خود کو اُن کے نسلی تفاخر سے جوڑنے کی زحمت کرنا پڑتی ہے۔ الطاف حسین ایک ذہین نوجوان تھا جس نے یہ کام بہ احسن انجام دیا اور ایک نعرے کے ذریعے مہاجروں کو جمع کر لیا۔ اس جماعت کا ایک ہی نعرہ تھا: ہم مہاجر ہیں ہم مہاجر ہیں‘‘ اگلی بات نہ یہ کرتے تھے اور نہ اِن سے کسی نے پوچھی کہ بھائی بتائیں پھر ہم کیا کریں کہ آپ مہاجر ہیں۔
الطاف حسین نے حد کردی۔ پاکستان مردہ باد۔ کیا ہم اس قدر گرے شخص کو اپنے ہوم لینڈ کی قومی اسمبلی میں بھرپور نمائندگی دیتے آئے ہیں؟
مسئلہ یہ نہیں کہ الطاف حسین ایک مخبوط الحواس شخص ہے مسئلہ تو اُس برداشت کا ہے کہ کوئی ملک کی سالمیت کے خلاف باتیں کرتا ہے اور دن دھاڑے ٹی وی چینلوں پہ حملے کرواتا ہے اور پھر بھی عزت و توقیر کے بعد ’’مائنس‘‘ جیسے’’ ستارۂ عظمت‘‘ سے نوازنے کی سزا پاتا ہے۔
ایم کیو ایم کی طرح ہر اُس سوچ کی نفی کی جانی چاہیے جو تشدد ، مارشل لائی فکریات اور اور نسلی امتیازات کی فلاسفی پہ اُکساتی ہے۔پاکستان ہمارا وطن ہے ، ہمارا سب کچھ پاکستان ہے، اپنے ہوم لینڈ کی توقیر بحال کروانے کے لیے ہوم لینڈ کی محبت کو اُجاگر کرنے والے تمام تصورات کو معمول کی زندگی میں جگہ دینی ہو گئی۔
الطاف حسین کو پاکستان کو گالی دینے کے جرم میں پاکستان کے شہریوں کے غیض کا سامنا کروانا ہوگا۔ ’’مائنس‘‘ والا فارمولا الطاف حسین کو ایک ’’اسکیپ‘‘ رستہ دینے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جن طاقتوں نے ’’مائنس‘‘ کی فضیلت دلوائی ہے وہ خود ’’مائنسوں‘‘ اور’’ جمعوں‘‘ کے ساتھ ایک عرصے تک کھیلتی رہی ہیں۔
دوستوں دیکھنا پاکستان بچ گیا ہے، الطاف حسین بھی بچ جائے گا۔
Exactly sir.