مارکس زندہ ہے
(ضیغم اسمعیل خاقان)
کارل مارکس محنت کش طبقےکے وہ انقلابی استاد تھے جنھوں نے سماج کی مادی تشریح کرتے ہوئے نہ صرف اس کے ناگزیز طور پر تبدیلی کے بارے میں بتایا بلکہ وہ اصول بھی وضع کیے جس پر دنیا کو تبدیل کردینے والی فکر مارکسزم کی بنیادیں استوار ہوئیں ۔ یہ مارکس ہی تھا جس کی انقلابی تعلیمات محنت کشوں کے لوٹ کھسوٹ پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے پیام مرگ ثابت ہوئی ۔
ہر چند کے مارکس سے قبل بھی متعدد فیلسوف اور دانشور سوشلزم کا خاکہ پیش کر چکے تھے اور اپنے طور پر اس کے تجربات بھی کر چکے تھے لیکن ٹھوس مادی،سائنسی بنیادیں نہ ہونے کی بنا پر یہ سارے خیالات اور تجربات ناکامی سے دوچار ہوئے ۔کارل مارکس اور ان کے انقلابی رفیق فریڈرک اینگلز وہ پہلے اشخاص تھے جو فلسفے کو بند کمروں سے نکال کر میدان عمل میں لائے اور سوشلزم کے سائنسی اصول دریافت کیے ۔
ذرائع پیداواور پر قابض سرمایہ دار طبقے نے سائنسی سوشلزم کو ایک حقیقی خطرے کے طور پر سامنے پایا اور تب سے اسے دیوانے کا خواب قرار دیا جانے لگا کہ یہ عمل کی کھسوٹی پر پورا اترنے سے قاصر ہے ۔ لیکن سات نومبرانیس سو سترہ کو روس کے محنت کشوں نے کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کی بالشویک پارٹی کی قیادت ورہنمائی میں دیوانے کے اس خواب کو عمل کی کھسوٹی پر کھرا ثابت کر دکھایا ۔ اس انقلاب کی کامیابی کے بعد چین ،ویت نام ،کوریا سے لیکر مشرقی یورپ اور کیوبا اور افغانستان سمیت متعدد افریقی و ایشیائی ممالک میں محنت کشوں کی اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں ۔ یوں دنیا دو بلاکوں اشتراکی اور سرمایہ دار میں تقسیم ہوگئی ۔ سرمایہ دار بلاک نے سوشلست بلاک کے خلاف کئی ایک سرد اور گرم جنگوں کے محاذ گرم کر رکھے تھے جن میں اشتراکی حکومتوں اور تحریکوں کے خلاف جنگوں ، مسلح مداخلت ، رہنماوں کے قتل اور فوجی آمریتوں کے ذریعے تختہ الٹنے کی حکمت عملیاں بنائی گئیں اور اشتراکی ممالک اور اس کے رہنماوں کے خلاف ایک عالمی پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا گیا ۔
بیسویں صدی کی نویں دہائی میں سوویت یونین کے انہدام اور سوشلسٹ بلاک کے خاتمے بعد سرمایہ دارانہ نظام کےہر منبر ومسند سے صدائے مرگ مارکس بلند ہوئی، اشتراکیت کے خاتمے کا جشن منایا گیا۔ سرمایہ داری کے نام نہاد دانشوروں نے یہاں تک کہہ ڈالا کی تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے یعنی مارکسی فکر اب تاریخ کاحصہ ہے۔ سرمایہ داری کے تضادات کو جمہوری عمل سے ختم کرنے کا دعوی کیا گیا۔ آزاد منڈی کی معیشت کو انسانی سماج کی آزادی کا معمار سمجھا جانے لگا۔ اشتراکی حکومتوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مارکس اور اس فکر کو بھی دفنا دیا گیا۔ لیکن آج 26 سال کے قلیل عرصہ گزرنے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بورژوا دانشوروں کے بلند و بانگ دعوے زمیں بوس ہونے لگے ہیں اور آج وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ غلط تھے، سرمایہ داری کے تضاد ختم نہیں ہو سکتے۔
سو اس تناطر میں مارکس مر سکتا ہے ؟وہ مارکس جس کے فلسفے نے دنیا کو تبدیل کردیا، آدھی دنیا میں اشتراکی نظام رائج کیا، 1917 میں روس کے محنت کشوں نے اپنی تقدیر کا فیصلہ کیا، کیا وہ مارکس جقیقتا مر سکتا ہے؟ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ دار دنیا میں محنت کشوں نے جو حقوق اپنے زور بازو سے سرمایہ دار طبقے سے چھینے تھے انہیں سرمایہ داردوبارہ غصب کر رہے ہیں۔ سامراج آج دنیا کے وسائل کی بلا روک ٹوک لوٹ کھسوٹ میں سرگرم عمل ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر وسائل کی لوٹ اور مغربی ممالک منتقلی کے باوجود محنت کش طبقے کی حالت زار تنزلی کا شکار ہے۔ امارت و غربت کی درمیانی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے، دنیا کی دولت میں اضافے کے باوجود امیروں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 75 لاکھ لوگ بےروزگار ہیں جو آبادی کے تناسب کا 4.8 فیصد ہے، برطانیہ میں 4.7 فیصد لوگ بےروزگار ہیں۔ یورپی یونین میں مجموعی طور پر 8.4 فیصد لوگ بےروزگار ہیں۔ جاپان میں 4.4 فیصد اور جنوبی کوریا میں 3.6 فیصد بےروزگار ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک ریپورٹ کے مطابق، سکینڈےنیویا، جو کہ دنیا کا خوشحال ترین اور مثالی خطہ سمجھا جاتا ہے،وہاں کےا عداد و شمار کچھ یوں ہیں: سویڈن 8.1 فیصد، فن لینڈ 8.9 فیصد، ڈینمارک 6.4 فیصد اور سویزرلینڈ میں 3.6 فیصد لوگ بےروزگار ہیں۔ فرانس میں یہ شراح 9.9 فیصد ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر دولت کے ارتکاز کے باوجود محنت کش طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ بدحال ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 4.5 کروڑ لوگ یعنی 14.5 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ برطانیہ میں 2 کروڑ لوگ خط غربت سے رندگی بسر کر رہے ہیں جو کہ آبادی کا 33 فیصد ہے جبکہ یورپی یونین میں 25 فیصد، چاپان میں یہ شرح 16 فیصد، فرانس میں 14 فیصد، ڈینمارک میں 5.4 فیصد، سویزرلینڈ میں 7.4 فیصد کارآمد آبادی اور 3 فیصد کل آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جرمنی میں یہ شراح 15.5 فیصد ہے۔
اگر ہم پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہاں روزانہ گیارہ سو سے زائد بچے قابل علاج امراض کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر 1000 میں 46 نومولود بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ہر 89 حاملہ خواتین میں سے 1 موت کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ طبی سہولیات کی عدم موجودگی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ یعنی سرمایہ دار طبقے کے لیے محنت کش اس کی فیکٹریوں کے ایندھن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک مرے گا تو دو اور آ جائیں گے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کی نجکاری کر دی گئی ہےاور آئے روز کے مزدور دشمن اقدامات معمول کاحصہ بنا دیے گئے ہیں ۔
اگر ہم عالمی سرمایہ داری کے سرخیل امریکا کو دیکھیں توآج ایک اوسط امریکی شہری سالانہ17,545 ڈالر صحت اور 16,188 ڈالر تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ یہ سہولیات ریاست کو مفت فراہم کرنی چاہیں جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ مفت فراہمی پر نجی ہسپتال اور نجی تعلیمی اداروں کے کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں و دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ جنگ کی بھی نجکاری کر دی گئی ہے، باقاعدہ جنگوں کی جگہ پراکسی جنگ نے لے لی ہے جس کی مثال مشرک وسطی میں بخوبی ملتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک پر جنگ و جدال مسلط کرنے کی ایک وجہ وہاں کے وسائل کا بلا معاوضہ استعمال ہے اور دوسری وجہ سامراجی جنگی صنعت کا فروغ اور بیش بہا منافع کا حصول ہے۔
اس سارے منظر نامے میں مارکسی افکار کومردہ قرار دینا باشعور محنت کشوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔عالمی سرمایہ داری کسی طرح دنیا بھر کے محنت کار عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ یہی سرمایہ دارانہ اور سامراجیت پر مبنی دنیا ان کا مقدر ہے اور ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں وہ بری طرح نامراد ہے ۔ سامراج آج پہلے سے کہیں زیادہ مارکس اور اس کے فلسفے سے خوف زدہ ہے۔ ٹریر میں پیدا ہونے والا مارکس جس نے اپنی تمام زندگی جلاوطنی میں گزاری، سرمایہ داری نظام میں طبقاتی جد و جہد کی تشریح کرنے والا، سرمایہ اور محنت میں تضادات کی نشاندہی کرنے والا، وہ مارکس جس نے سرمایہ، قدر فاضل، جدلیاتی و تاریخی مادیت کی تشریح کی، جس نے واضع کیا کہ سرمایہ دار معیشت بحرانوں کی معیشت ہے، جس نے مابعدالطبیعات پر مادیت اور سائنسی فکر کو ترجیح دی، داس کیپیتل، تھیوری اف سرپلس ویلیو، کمیونسٹ مینی فسٹو جس کی شاہکار تصانیف ہیں، مارکسزم لیننزم جس کی میراث ہے، وہ مارکس کیسے مر سکتا ہے جس نے طبقاتی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ سامراج کی وحشت اور سفاکی ایک نئے بالشویک انقلاب کو جنم دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سامراج مسلسل مارکس کو دفنانے کی کوشش کر رہا ہے مگرلاحاصل۔ مارکسی افکار محنت کشوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اینگلز نے مارکس کی وفات پر کہا تھا: “جیسا کہ ڈارون نے نامیاتی فطرت کے قوانین دریافت کیے، مارکس نے انسانی تاریخ کی ترقی کے قوانین دریافت کیے”۔ یہ بات درست کے کہ مارکس نے ہی یہ بتایا ہے کہ انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے جو کہ زاتی ملکیت کے آغاز سے شروع ہوئی اور آج بھی جاری ہے۔ سرمایہ داری کی ترقی طبقاتی تضادات کو شدت بخش رہی ہے اور بلاخر پرولتاری انقلاب کی صورت اختیار کر لے گی۔ آج دنیا کے محنت کش اپنی محنت سستے داموں بیچنے پر مجبور ہے۔ مارکس نے سرمایہ اور قدر فاضل کی تشریح سے سرمایہ داری کے تضادات کو واضع کیا۔ جدلیاتی و تاریخی مادیت کے قانون نے تاریخ کو ایک نئی سمت دی۔ یہ مارکسی فلسفہ ہی تھا جس نے 1917 میں بالشویک انقلاب کی راہ متیعن کی، اینگلز، لینن اورا ستالن جیسے اساتذہ دیے جنہوں نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔:
مارکس کی وفات پر ان کے رفیق اینگلز نے کہا تھا کہ “آج ایک عظیم زہن نے سوچنا بند کر دیا ہے”، مارکس نے تو سوچنا بند کر دیا لیکن مارکسی فکر آج بھی زندہ وتوانا ہے،یہ آج بھی فکرو عمل کے نت نئے در وا کر رہی ہے ، محنت کش طبقے کو پہلے سے کہیں زیادہ مارکس کی آج ضرورت ہے۔ مارکس آج بھی زندہ ہے، مارکسی فکر آج پہلے سے کہیں زیادہ کارآمد اور توانا ہے اور اشتراکیت سے اشتمالیت کی منزل تک رہنمائی کرتا رہے گا ۔
کامریڈ مشتاق علی شان نے مارکس کے لیے کیا خوب کہا ہے کہ :
جو تیرے خون جگر کا ہے آخری شاہکار
اسی سے سارے صحیفوں پہ مرگ طاری ہے
نظام زر کے وسیلے بھی کام آ نہ سکے
وہ اک کتاب سبھی فلسفیوں پہ بھاری ہے
مارکس آج پھر ہم سے مخاطب ہے کہ” دنیا کے محنت کشو ایک ہو جاو تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں ۔”