(اصغر بشیر)
بات گھر سے شروع ہوتی ہے۔ ہمارے بڑے ہمیں اپنی طرح جینا سکھاتے ہیں۔ اگرچہ وہ اچھی زندگی گزارنے کے تمام گر اپنی زبان سے سکھاتے رہتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ بندہ سن کر نہیں عمل دیکھ کر سیکھتا ہے۔ بس جیسے وہ زندگی گزارتے ہیں ، ہم بھی ویسی ہی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم سکول جاتے ہیں۔ سکول والے ہمیں سرکاری پروپیگنڈا رٹا نے لگتے ہیں۔ ہم بھی علم کے نام پر ہندسے اور فارمولے یاد کرنے لگتے ہیں۔ اس عمل میں ہم لوگ گھر سے توڑا بہت بدل جاتے ہیں۔ہم چیزوں کو زندگی میں پہلی بار اپنے مخصوص نقطہ نظر سے مختلف دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کو بہت کچھ پتہ چل گیا ہے۔ دنیا تو اب شروع ہوئی ہے۔ پہلے تو ہم صرف جاہل تھے۔ اکثریت کا علم یہی پر رک جاتا ہے اور ہم پان سگریٹ، سبزی، کریانہ، ریڑھی، رکشہ وغیرہ سے اپنی زندگی کے پہیہ کو دھکا لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمیشہ ناکام رہتی ہے کیونکہ زندگی کا پہیہ بہت بھاری ہے۔ ہم میں سے جو خوش نصیب کالج جاتے ہیں وہ اپنے اوپر معاشی بوجھ اتنا لاد چکے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے بنیادی حیثیت صرف امتحان میں نمبر لینے کی ہے۔ پھر نمبروں والے لوگ یونیورسٹی میں چلے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی کے متعلق ہم نے ساری عمر یہی سنا تھا کہ یہ برائی کا گڑھ ہے۔ یہاں پر شیطان نامکمل انسان کی شکل میں مختلف روپ دھارے قدم قدم پر دعوت گناہ دیتا ہے۔اس لیے ہم ماں باپ کے بوڑھے چہروں کو ذہن میں لاتے ہوئے خود سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم نے وہاں پر صرف پڑھائی کے لیے جانا ہے اور یہ بات یاد رکھنی ہے کہ اپنی اوقات میں رہتے ہوئے ماں کے زیور والا شعر روزانہ یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے دہرانا ہے۔
شہر میں جا کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا۔
خود سے لڑتے جب ہم ڈگری پوری کرتے ہیں تو ماں باپ بچے کے جن اتارنے کے لیے اس کی فوراً سے پہلے شادی کر دیتے ہیں تاکہ ایک تو بچہ جلد کمانا شروع کر دے ۔دوم یہ کہ بچہ گناہ سے بچ جائے۔ اس سارے عمل میں ہم بالآخر کماؤ پوت تو بن جاتے ہیں بس اچھے انسان نہیں بن سکتے۔ ہم یا تو وہ ہوتے ہیں جو ہمارے بڑے ہوتے ہیں یا وہ ہوتے ہیں جو ہمیں سرکاری پروپیگنڈہ کے تحت بنے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا اپنا آپ کدھر رہ جاتا ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔
کیا ہی اچھا ہو ہم لوگ یونیورسٹی میں جس مرضی ڈگر ی میں جائیں ابتدائی سمسٹر میں ہمیں ایک کورس تنقید اور تنقیدی تھیوری کے موضوع پر پڑھا دیا جائے۔ تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہر دنیا میں یہود و ہنود کی سازشوں کے علاوہ بھی کچھ پایا جاتا ہے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہر نئی چیز سے اسلام کو خطرہ نہیں ہوتا، تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ویکسی نیشن سے ہمیں نامرد نہیں کیا جا رہا، تا کہ ہمیں پتہ چلے کہ سرمایہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے دنیا کی ہر چیز بیچ رہا ہے، تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ دوسرے لوگ ایک خاص مسئلہ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تاکہ ہم اپنی پہچان کر سکیں۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ ذہن کی علامت یہ ہے کہ وہ کسی نظریہ کو قبول کیے بغیر اس کو اپنے ذہن میں جگہ دے سکتا ہے۔ جب ہم تنقیدی نظریات اور پھر زندگی میں روزمرہ معاملات پر ان کا اطلاق کرنے کی مشق کریں گے تو ہمارے اندر قوت برداشت ہو گی اور ہم معاشرے کے زیادہ ذمہ دار شہری ہوں گے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں جب صبح کے وقت گرلز کیفے ٹیریا پر خود کش حملہ ہوا تو اس کا صرف چند طالبات پر قاتلانہ حملہ ہی نہیں تھا۔ بلکہ تانیثیت کی رو سے عورت کو کمزور جان کر اس پر نشانہ لگایا گیا تھا۔ سیاسی طور پر یہ نظریات کی جنگ تھی۔ سماجی طور پر ہماری عزت پر حملہ تھا۔ مارکسی طور پر ہمارا معاشی امیج خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور مذہبی طور پر یہ حق و باطل کی جنگ تھی۔ اسی طرح اس کی لا تعداد توجیحات کی جاسکتی ہیں۔ کیا ان میں سے صرف ایک درست ہے یا سب اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں؟
کون صحیح ہے کون غلط ہے ۔ یہ ایک شخصی فیصلہ ہوتا ہے۔ اس میں مطلقیت نہیں پائی جاتی۔ ایک نقطہ نظر سے ٹھیک دوسرے سے غلط ہوجائے گا۔ اس لیے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق صرف فیصلہ کرنے والے کو حاصل ہونا چاہیے۔ ہمارے یونیورسٹی اساتذہ کو یہ حق ہمیں سکھانا چاہیے کیونکہ وہ سرکاری پروپیگنڈا سے کسی حد تک آزاد ہو کر کام کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ سے صرف ایک گزارش ہے ۔ ماسٹر جی تقلید نہیں، تنقید سکھاؤ۔