ماسٹر نہیں، شیطان تھا وہ
از، ثنا ڈار
لمبی سفید داڑھی والے اس شخص کو لوگ ماسٹر جی کہتے تھے۔ وہ پانچ وقت کا نمازی تھے۔ میں نے انہیں ہمیشہ مسجد میں داخل ہوتے یا مسجد سے نکلتے ہی دیکھا۔ کرنا خدا کا کچھ عجیب ہوا کہ کچھ برس قبل اسی کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی تھی۔ محلے کے لوگ طرح طرح کی باتیں اور بھانت بھانت کے سوال کرتے تھے۔ سوالوں کے تیروں سے بچنے کے لئے اس نے گھر سے نکلنا بہت کم کردیا۔ صرف ضروری کاموں اور اشیائے صرف کے لئے ہی وہ گھر سے باہر قدم رکھتا۔ اس نے اپنی سرکاری نوکری سے بھی جلدی ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔
ماؤں کو بچوں کی تعلیم سے فکر فطری ہوتی ہے۔ میری اماں بھی مختلف ہرگز نہیں۔ فیصلہ ہوا کہ ساتویں جماعت میں موسم گرما کی چھٹیوں میں مجھے بھی ٹیوشن پڑھنا تھی۔ میری والدہ نے مجھے ماسٹر جی کے پاس ٹیوشن ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ وہ صبح کے وقت لڑکیوں اور شام کے وقت لڑکوں کو پڑھایا کرتا تھے۔ صبح سویرے ہی ماسٹر جی کا ڈرائنگ روم کھچا کھچ بھرجاتا۔
ماسٹر جی کی دو نواسیاں بھی ہمارے ساتھ ٹیوشن پڑھتی تھیں۔ جو ہمیشہ اپنے نانا کے قریب بیٹھنے سے کتراتی تھیں۔ ایک دن میں نے ایک سے پوچھا، تم اپنے نانا کے پاس جا کر کیوں نہیں بیٹھتی۔ وہ بولی، “ابو جی سے ڈر لگتا ہے۔ وہ بہت مارتے ہیں۔” مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ میں نے بظاہر تو کبھی ماسٹر جی کو کسی کو مارتے نہیں دیکھا تھا۔ان کی سزا کا عجیب سا فارمولا تھا جو شاید انہیں کا خاص تھا۔ جس لڑکی کو سزا دینا ہوتی بس اس کی چھٹی بند کر دیتے۔
چھٹی کے وقت میری والدہ حسب معمول باہر موجود ہوتی تھیں۔ ایک دن چھٹی کے وقت جلدی میں نکلتے ہوئے میں اپنی حساب کی کتاب میز پر ہی بھول آئی۔ گلی کے نکڑ پر پہنچ کرجب کتاب کے نہ ہونے کا احساس ہوا تو والدہ کو بتایا۔ وہ بولیں، “میں ادھر کھڑی ہوں، تم بھاگ کر جاؤ اور اپنی کتاب لے آؤ۔” میں بھاگتی ہوئی واپس گئی اور بنا دروازہ کھٹکٹائے جھٹ ماسٹر جی کے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔
اس وقت صرف ایک لڑکی وہاں موجود تھی۔ اور ماسٹر جی اسے ہوم ورک نہ کرنے کی سزا دے رہے تھے کہ اس کی چھٹی بند کردی گئی تھی۔ اسے آج دیر سے گھر جانا پڑنا تھا۔ لیکن مجھے ماسٹر جی کے ہاتھ میں کوئی چھڑی نظر نہیں آئی۔ لیکن سزا کا منظر بڑا ہولناک تھا۔
میں نے دیکھا کہ ماسٹر جی کا ایک ہاتھ اس سزا یافتہ لڑکی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان جبکہ دوسرا ہاتھ اسکے سینے پر تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ماسٹر صاحب کے چہرے پرایک شیطانی سی مسکراہٹ آئی۔ مجھے ڈر سا لگا کہ اب وہ مجھے بھی اپنی کتاب بھول جانے کی سزا دیں گے۔ میں فوراً پلٹی اور بنا اپنی کتاب لئے ماسٹر جی کے اس ڈرائنگ روم سے بھاگ نکلی۔ میری والدہ نے مجھے پریشان حال بھاگتے دیکھا تو وجہ دریافت کی۔ میں نے جواب دیا، کمرے میں اندھیرا تھا، میں ڈر کر بھاگ آئی۔ میری والدہ نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ چلو کوئی بات نہیں میں تمہیں نئی کتاب لے دوں گی۔
اس واقعے کے بعد میں نے دوبارہ ماسٹر جی کے پاس ٹیوشن نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی والدہ کو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ مجھے اب ٹیوشن کی ضرورت نہیں۔ پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی ماسٹر جی کی ہوس کا نشانہ بننے والی اس معصوم لڑکی کا بے بس چہرہ مجھے میرے بزدل ہونے کا احساس دلا کر شرمندہ کرتا ہے۔ ماسٹر جی کی شیطانی مسکراہٹ کا خیال آتے ہی میری روح آج بھی کانپ جاتی ہے کہ اگر میں کتاب نہ بھولتی تو اگلا نشانہ میں بھی ہو سکتی تھی۔اس دن کے بعد مجھے ماسٹر صاحب کبھی نظر نہیں آئے لیکن مسجد سے نکلتا ایک سفید داڑھی والا شیطان مجھے اب بھی نظر آتا ہے۔
ایسے بہت سے ملتے جلتے واقعات آج سے چالیس پچاس سال پہلے ہم بچپن کے اِن دنوں بھی دوستوں اور کچھ بڑوں سے سنا کرتے تھے ، جو ہمیں سمجھانے کے واسطے سسنر شدہ واقعات سنا دیا کرتے تھے ۔۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی نیا جرم نہیں ہے ۔ جب تک شیطان زندہ ہے ۔۔ انسانی فطرت اسکے جراثیم سے آلودہ رہے گی ۔۔۔۔
ہم دراصل بہت آئیڈئل حالات دیکھنا چاہتے ہیں جو دنیا کے کسی معاشرے میں میسر نہیں ۔ جبکہ مذاہب سمیت دیگر اخلاقی و روحانی تعلیمات آئیڈئیل انسان کی شکل میں ایک رول ماڈل ضرور پیش کرتے ہیں لیکن اسکا مطلب قطعی یہ نہیں کہ ہر انسان ایسا بن جائے گا۔۔۔۔۔
نیکی اور بدی کا تصور تو خدا نے انسان کی تشکیل کے ساتھ ہی ممکنا دیا تھا ۔۔۔ جبھی آدم جنت سے نکلے ۔۔۔۔