(شیخ محمد ہاشم)
خوش گمانیوں کےبہلاوےدیئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہا جاتا تھا کہ ہم کراچی کو پیرس بنائیں گے ۔ دعویٰ تھا کہ ہم کرپشن کا پیسہ پیٹ پھاڑ کر نکال لیں گے ۔پیسہ تو نہیں نکلا خود کرپشن کی گہرائیوں میں غوطے لگانے لگے ۔وہ توبھلا ہو ٹیکنا لوجی کی ترقی کا کہ ماضی میں کی گئی ہر بات،ہر دعوے کا کلپ کئی کئی بار چلتا ہے ،ریکارڈ میں محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔لیکن ڈھٹائی ہے کہ ترقی کی ہر شکل پر حاوی ہے۔ ہم تو کراچی کو کراچی بنتا دیکھنے کو ترس گئے۔ہم تو کراچی کو ہی نہیں پورے پاکستان کو 20 ویں صدی کا ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہی کیا ہر پاکستانی یہ ہی چاہتا ہے، پر شائد اس بد نصیب عوام کے نصیب میں ایسا نہیں لکھا ہے۔ کیونکہ یہ وعدے کرنے والے یہ خوش گمانیوں میں مبتلا کرنے والے ،یہ بہلاوے دینے والے ہمارے لیڈران ،ہمارے قائد جن کی صدا میں ہم اپنی خواہشوں کی تکمیل دیکھتے ہیں۔ جنھیں ہم سخت گرمی میں ،بارش میں ، دہشت گردی کے خطرات میں،طوفان میں قطار در قطار ہو کر ووٹ جیسی قیمتی شے سے نوازتے ہیں ، ان کی آواز پر جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں،یہ ہم سے ملک کی ترقی کے نام پر (ٹیکس)خراج وصول کرتے ہیں ،یہ ہم سے قربانیاں مانگتے ہیں ،یہ ہمیں کڑوی گولیاں کھانے کو کہتے ہیں ،ہم قربانیاں بھی دیتے ہیں ،کڑوی گولیاں بھی ہضم کر لیتے ہیں ،لیکن یہ ہم سے کئے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں ۔ یہ ہم سے اُسی بے وفا محبوب کی طرح آنکھیں پھیر لیتے جو وعدے تو پورے نہیں کرتا بلکہ کسی اور ہرجائی (دولت)کے پیار میں دیوانہ ہو جاتا ہے۔ بے چارہ محبوب(عوام) بہلاوے کے فریب میں آکر پیار کا روگ لئے جیتے رہتے ہیں ۔
سادہ سا سوال یہ ہے کیا کبھی حکمرانوں نے ہمیں جدید طرز کی تعلیم دینے کی کوشش کی ،کیا کبھی اُنھوں نے یا اِنھوں نے ہمیں ہسپتالوں میں ذلیل و رسوا ہونے سے بچانے کی کوشش کی، کبھی انھوں نے سوچا کہ ہمیں سستا انصاف دیں؟
کہتے ہیں کہ” ہم پاکستان کو تعلیم یافتہ پاکستان بنائیں گے”۔ لیکن دیکھومیرے ہم وطنوں ! اب بھی لاکھوں بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں ،کم از کم28فیصد بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے .پرائمری اسکول سے سیکنڈری اسکول میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کی شرح 50فیصد ہے۔فاٹا میں 542لڑکوں اور 108لڑکیوں کے اسکول کام نہیں کر رہے ہیں ۔سندھ کی صرف 16فیصد خواتین پرائمری تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں بلوچستان میں یہ تناسب صرف 8فیصد ہے۔سندھ کے بیشتر اسکول وڈیروں کے اوطاق بنے ہوئے ہیں یا پھر بھینسوں کے باڑے بن چکے ہیں ۔کیا کبھی اِنھوں نے جہالت کی تاریکی سے نکال کر عوام کو علم کی روشنی مہیا کرنے کی سعی کی ؟
پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم فلاپ ہو چکا ہے،ڈاکٹر حضرات گاہے بگاہے ہڑتال پر چلے جاتے ہیں ،لیڈی ہیلتھ ورکر ز اپنی ملازمتوں کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں ، لیکن عوام ہیں کہ بیماریوں کا سارا وقت انتظار،تکالیف، راہداریوںیا بستر مرگ پر گذار دیتی ہیں ۔بہت کیا تو حکمرانوں کو کوس لیا یا بد دعائیں دے ڈالیں۔ صحت کا بجٹ وفاقی بجٹ کا صرف 0.42فیصد ہے۔ کینسر، ہیپا ٹائٹس،پولیو، ڈینگی بخار ،بلڈ پریشر،شوگر کے ا مراض دن بدن ترقی کرتے نظر آرہے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، علاج معا لجہ انتہائی مہنگا ہونے کے سبب غریب کی دسترس سے نکل چکا ہے۔ کیا انھیں رتی برابر فکر لا حق ہے کہ غریب کب تک یونہی زندہ در گور رہے گا ؟
دیکھو ! انصاف کا ترازو بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔کسی غریب کی جرات نہیں کہ شاہی محل کی گھنٹی بجا سکے اور فوری بادشاہ سلامت اپنے قانونی مشیروں کے ہمراہ عدالت لگا کر غریب چرواہے کو انصاف دے۔ساری دُنیا نے دیکھا کہ عدلیہ اور اس کے سپریم کمانڈرنے تصادم کی راہ اختیار کی ۔این آر او جیسا کالا قانون رائج ہوا قاتل رہا ہوتے رہے مقتولوں کے ورثاء دہائی دیتے رہے ،اُن کی آہیں ،اُن کی صدائیں کالے کوٹوں اور کالے قانون کے ڈھیر تلے دب گئیں۔ کالادھن سفید ہو گیا ،شہری دن دھاڑے غائب ہوتے رہے ،لاپتہ شہریوں کے مقدمات کی سماعتیں دکھاوے کے طور پر سالوں ہوتی رہیں ۔لگتا ہے یہ قانون کی سماعت کی بجائے ایک کان میں گئی ،دوسرے کان سے نکلی سماعتیں تھیں۔
غنیمت ہوا کہ صوبہ سندھ میں یکدم زمانہ قدیم سے زمانہ جدید کی تبدیلی آگئی ۔اقتدار اعلیٰ کی مسندپر قائم علی شاہ کی بجائے مراد علی شاہ براجمان ہو گئے۔ صوبہ سندھ کے سرگرم حکمران کا نیا فرمان کہ ہم شا ہراہ فیصل کو ماڈل شاھراہ بنائیں گے ۔ میرے پاکستانی بھائیوں تم یہ بھی دیکھ لو کہ اس سلسلے میں انھوں نے ڈی آئی جی ٹریفک کراچی کو تمام اختیارات سونپ کر ڈی آئی ٹریفک کراچی کے ادارہ کو “کراچی کا قانون ساز ادارہ”قرار دے دیا ۔بجائے اس کے کہ ڈی آئی جی ٹریفک کراچی کو سمجھایاجاتا کہ تم قانون ساز ادارہ نہیں ہو بلکہ قانون پر عمل کرنے اور کروانے والے سرکاری ملازم ہو لیکن ایسا نہیں ہو ا،کیسے ہوتا آخر اقربا پروری کی اعلیٰ مثال بھی تو قائم کرنا تھی۔سارے احکامات دھمکیوں کے انداز میں غریب اور متوسط طبقے پر لاگوکئے جا رہے ہیں ۔ڈی آئی جی ٹریفک کی تمام قوت رکشے اور موٹر سائیکل چلانے والے غریبوں پر صرف ہو رہی ہے ۔کیا ڈی آئی جی ٹریفک اور سندھ کے حکمران یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ صوبے میں کتنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران ،ججز،بیوروکریسی ،تاجروں،پولیس افسران ،کمشنرزو ڈپٹی کمشنرز کی Vigosگاڑیوں کے سیاہ شیشے آپ نے اُتارے ؟کتنی سرکاری گاڑیوں کا چالان ہوا،بغیر رجسٹرڈ سرکاری گاڑیوں کے معاملے کا کیا بنا،شاہراہ فیصل پر دوڑتی ان گاڑیوں کا کیا علاج جن میں سرکاری اہل کار ہوں گے،ان موٹر سائیکلوں کا کیا جن کے سوار سرکاری ہوں گے مگر ہیلمٹ کے بغیر،ان بنا رجسٹرڈ گاڑیوں کا چالان کیسے ہوگا جن پر پولیس کی خود ساختہ پرانی نمبر پلیٹس ہوں گی؟۔آپ کے احکامات پر سر تسلیم خم۔مگر یہ بھی بتا دیجئے کہ اگر آج 20 ویں صدی کی دنیا میں وزیر اعلیٰ کا وژن یہ ہوگا تو سندھ کے تقریباًچھ کروڑ عوام بنیادی حقوق کے حصول کی توقع کس صدی تک رکھیں؟
زمینوں کے قبضے کا معاملہ بھی ایپکس کمیٹی کے سپرد ہے، اس کے باوجود ملیر ندی کی بجری بیچ کر اربوں کمانے والے ملیر کے وڈیرے اور ظالم سرکاری اہلکار اب اسی ملیر ندی کو کچرے سے پاٹنے اور اسے دوسرا گجر نالہ بنانے کا عمل تیزی سے مکمل کر ر ہے ہیں۔ ملیر کے سماجی و بلدیاتی نمائندوں کی ان کے خلاف دی گئی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذرہو گئی ہیں ۔امر بیل کی طرح پھیلتا کراچی،مسائلستان بن چکا ہے۔حکمرانوں کا گذر اگر صرف شاہراہ فیصل تک محدود ہے، تو انہیں اپنے اقتدار کا حصہ بھی اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے ۔
دیکھ لو پاکستانیوں کہ ماڈل شاہراہ کا خواب کی تعبیرماڈل حکمران کے بغیر نا ممکن ہے ۔ اور سنو ! کہ یہ ہمارے ،تمھارے اور آنے والوں کے خیر خواہ نہیں ہیں ۔ اب اذیت سہنے،درد اُٹھانے کے وقت کو تھم جانا ہوگا ۔سن لو !کہ اب تمھیں نیا نعرہ بلند کرنا ہوگا ،اور پرُ زور آواز میں بلند کرنا ہو گا وہ نعرہ یہ ہے کہ۔۔۔ہمیں ماڈل شاہراہ نہیں ۔۔ماڈل حکمران چاہیئے۔ اسی میں تمھاری بقا ہے ۔ اسی میں آنے والوں کا مستقبل روشن ہوگا۔ اسی میں ملک کی سلامتی ہوگی ۔