( نعیم بیگ)
ناول ’ ٹوٹی ہوئی دیوار ‘
مصنف: بلند اقبال
اشاعت: ستمبر۲۰۱۶ ، ٹورنٹو کینیڈا
’’علم کو انسان کے قریب تر لانے کی پہلی کوشش دراصل مکالماتِ افلاطون ہیں۔ یہ کتاب گویا پہلا خلاصۃ الافکار ہے۔ جس میں مقبول عالم مکالمات کو جمع کر دیا گیا، جن کا مقصد یہ تھا کہ ایتھنز کے پڑھے لکھے باشندوں کو مسحور کر کے فلسفے کی دلاویز مسرت سے آشنا کردے۔ افلاطون کا خیال تھا کہ فلسفے کا ادب کی شکل اختیار کرنا، تمثیل کی طرح شعور میں آنا، اسلوبِ نگارش سے آراستہ ہونا، فلسفے کی توہین کا موجب نہ ہے۔ ‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو ول ڈیورانٹ نے اپنی کتاب کے دیپاچہ میں ۱۹۲۶ء میں نیویارک میں لکھے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔
بلند اقبال کا ناول ’’ ٹوٹی ہوئی دیوار ‘‘ دراصل کچھ ایسی ہیآمیزش کا آیئنہ دار ہے۔ جس میں فلسفے کی دلآویز آگہی اور ادب میں اسکا کردار،جو انسانی مسرت کا باعث بنتا ہے ، شامل ہے۔ وہیں یہ ناول انسان کی کلیدی اساس میں محبت کے اس لازوال رشتوں کی مسحور کُن کیفیات ، اور مذہب کے نام پر انفرادی و سماجی ڈھکوسلے اور ان پر بنائے جانے والے محلات و طاقت کے سرچشموں کی داستان بیان کرتا ہے۔
مذہب کی اوٹ میں دہشت گردوں کی پناہ ایک ایسا المیہ ہے جو اس ناول کی کہانی کو جنم دیتا ہے۔
بات کچھ بھی ہو ، امن اور شانتی کی تلاش اور جنگوں کی تباہ کاریوں سے جنم لیتا ہوا غم کسی بھی ذی روح کے لئے اولاً امتناعی اور ثانیاً شدید اضطرابی کیفیت رکھتا ہے جس کے فکری، معاشی ، معاشرتی اور سماجی اثرات نہ صرف خود اس انسان کے لئے سوہانِ روح بنتے ہیں بلکہ اس سے منسلک تمام درو بست ، رشتے ، ناتے ، عمرانی ، سیاسی و ثقافتی سطح پر دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔
انسانی ارتقاء ، مذاہب کی آمد و معاشروں میں اسکی افزودگی، انسانی ابتلاٗ ، ثقافتی اور لسانی بکھیڑے اور اسکے خمیر سے اٹھتا ہوا یہ ناول نہ صرف موضوعاتی تنوع کی ایک بہترین مثال ہے بلکہ نائن الیون کے بعد اکیسویں صدی کی ابتدائی تاریخ کا ایک مطالعہ بھی ہے۔ جنوب مغربی ایشیا سے اٹھتی ہوئی اسلام کی وہ بنیاد پرستی ، جس کے ڈانڈے اسلامی متبرک مراکز کے ان ملوکیت کی محلوں سے جا ملتے ہیں، جہاں سرمایہ اپنی حفاظت کا سامان مذہب میں تلاش کرتا ہے۔
’’ ٹوٹی ہوئی دیوار ‘‘ کا ادبی کینوس جہاں مذاہب پر منطق و عقلی دلائل سے گفتگو کرتا ہے وہیں اسکے کردار زمین سے جڑت رکھتے ہوئے ان قدروں کی پاسداری کرتے ہیں جن کی اساس میں انسانیت سرِ فہرست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کردار صرف آئڈیلزم کی طرف نکلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے جیسے عام طور پر ادبِ لطیف میں جمالیاتی رچاؤ کے ناتے ہوتا ہے۔ یہ کردار اکیسویں صدی میں گلوبل حقیقت پسندی اور اسکے مثالی معاشروں میں انسانی جبلت کے ان عناصر کو بھی اسی طرح گفتگو اور طرز زندگی میں لاتے ہیں جو مبنی بر حقائق ہیں۔
بلند اقبال اپنے قلم سے نکلتے ہوئے کرداروں میں وہ نثری لطافت اور رنگین بخیہ گری کرتا ہے جو قاری کی خود ہجر و فراق کی بیشمار طویل داستانوں اور راتوں کا پس منظر ہوتا ہے۔ بلند اقبال صرف لفظی پیکروں اور منسلک سیاسی اور مذہبی تھیوریوں سے انسانی رشتوں کے بنتے بگڑتے مناظر تشکیل نہیں کرتے اور نہ ہی انکے نثری مناظر منجمد یا ساکت ہوتے ہیں ۔ انکا قلم ہمہ جہت امیجری سے بڑے واضح اور متحرک اور حیرت انگیز مناظر پیش کرتا ہے۔ سامنے سے واضح اور متحیر تصویر بنتی ہے تو باطن میں وہی تصویر کہیں دلفریب اور کہیں دلدوز ہوتی ہے۔ آگ اور ٓانسوؤں کی اس بھٹی میں ڈھلا فلسفہ قاری کو جکڑ لیتا ہے۔ چونکہ بنیادی طور پر انکا پیشہ میڈیکل سائینس اور طب ہے اسی لئے ان کے ہاں انسانی دماغ کے ان مخفی پہلوؤں پر بھی قاری کو گفتگو ملتی ہے جس کے ساتھ تحلیلِ نفسی کے مظاہر انکے کرداروں سے عیاں ہوتے ہیں۔
میں ناول کی کہانی تو آپ کے سامنے پیش نہ کروں گاکیونکہ یہ قاری کا فطری حق ہے کہ وہ ادبی حظ اٹھانے کے لئے کسی بھی نثری یا شعری فن پارے کو خود اپنی فکری ہم آہنگی سے تفہیم دے۔ تاہم میں اس ناول میں چیدہ چیدہ امید و بیم کے حصار میں گھرِی ہوئی تقدیرِ آدم کی ازلی سچائی کا ذکر ضرور کرونگا۔
ناول ایک ایسے پلاٹ پر کھڑا کیا گیا ہے جہاں نائن الیون کے بعد آباد ہوتی دنیا میں افغانستان سے ایک پروفیسر کی کہانی اٹھتی ہے ، جو بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد ابھرتی ہوئی طالبان کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتا ہے اور اسی میں اپنے والدین اور محبت کی قربانی دیتا ہے۔ اسی کہانی کا دوسرا فلسفیانہ سرا کراچی میں پایا جاتا ہے جہاں ادریس نامی ایک عام شخص کس طرح مذہبی تنظیموں کا آلہِ کار بنتا ہے جس سے وہ معاشی ابتری سے نکل کر سماجی طور پر ایک باعزت شخص تو بن جاتا ہے لیکن اس سبب میں اپنے بیٹے کو کھو دیتا ہے۔ اسی سے جڑی تیسری کہانی مسیِ ساگا کینیڈا میں اپنے حقیقی سماج کا پرتاؤ بنتی ہے۔ جہاں ایک پاکستانی نژاد احمدی لڑکی ثانیہ وہیں پڑھتے ہوئے ایک انڈین لڑکے دلیپ کی محبت کا شکار ہوتی ہے۔ بظاہر یہ تینوں کہانیاں الگ الگ ہیں لیکن قاری اپنے وجود کے اندر ان کہانیوں کو ایک ساتھ روح میں اترتے دیکھتا ہے۔ یوں حالات کے جبر سے شروع ہوتی داستان اپنے عروج کو پہنچتی ہے ۔ بلند اقبال نے اسی زمین سے اٹھے عام کرداروں کو منتخب کیااور ایک ایسی کہانی تشکیل دی جو عصری تقاضوں ، علاقائی سیاسی حالات اور سماجی و معاشی مصائب سے جوانمردی سے نبردآزما ہوتی نظر آتی ہے۔ یوں بلند اقبال نے انہی مسائل کے اندر سے کچھ اہم عمرانی و سیاسی سوالات بھی اٹھائے ہیں ۔ انکے کردار نئی قوم کے بنتے بگڑتے حالات میں بھی مذہبی سیاست کی خاردار راہداریوں میں سچ بولتے رہے ۔
صفحہ نمبر ۵۹ سے ۶۰ سے ایک اقتباس اس ناول کی پہلی مباحث مذہب اور اسکی اساس ’’ محبت ‘‘ کی شاید وضاحت کردے۔
’ ’ سر کیا محبت۔ رنگ نسل قومیت مذہب دیکھ کر ہوتی ہے؟ ‘‘
’’نہیں ۔۔۔‘ ‘ اُس نے نہیں ٹایپ کرکے ایک لائین کھینچی اور پھر لکھا ’’ رنگ نسل قومیت مذہب دیکھ کر صرف نفرت ہوتی ہے! ‘ ‘
’’تو جو لوگ یہ دیکھ کر زندگیوں میں رشتے قائم کرتے ہیں اُسے آپ کیا نام دینگے ؟ ‘ ‘
’’سمجھوتہ ‘ ‘ اُس نے محض ایک ہی لفظ ٹائپ کیا۔
’’کیا سمجھوتے کے سہارے زندگی گزاری جاسکتی ہے ؟‘ ‘ پھر میسج باکس پر ثانیہ کا نیا سوال آگیا تھا۔
’’ہاں۔۔ گزاری جاسکتی ہے مگر اُس میں بس محبت نہیں ہوگی ‘ ‘ ۔
’’تو کیا ہو گی۔۔۔ ؟ نفرت؟ گھٹن؟ غصہ؟ تکلیف ؟ آنسو ؟ ‘ ‘ لگتا تھا وہ بھری ہوئی بیٹھی ہوئی تھی۔
’پہلے صبر ۔۔۔ اور پھرعا دت !‘ ‘ یہ لکھ کر بھیجنے کے فوراٌ بعد وہ دوسرا میسج ٹایپ کرنے لگا
’’ کبھی کبھی کچھ عرصہ ساتھ ساتھ رہنے کے بعد یک دوسرے کی کچھ خصوصیات بھلی بھی لگنے لگتی ہیں اور پھر عادت کو لوگ غلطی سے محبت سمجھنے لگتے ہیں، مگر ایسے رشتے اگر کسی وجہ سے ٹوٹ جائیں تو بہت زیادہ تکلیف نہیں ہوتی بلکہ بہت جلد ہی ایک دوسرے کو بھلا بھی دیا جاتا ہے اور نئی زندگی کے مسائل میں لوگ مصروف ہوجاتے ہیں، اس سے پھر جلد ہی پتہ بھی چل جاتا ہے کہ وہ محبت نہیں تھی محض ایک سمجھوتہ تھا ۔‘‘
دوسرا میسج بھیج کر واحدی کچھ دیر انتظار کرتا رہا مگر ثانیہ کی طرف سے فوراٌ ہی کوئی میسج نہیں آیا ۔ واحدی کو لگا جیسے ثانیہ لکھنے سے قبل کچھ سوچ رہی ہے کیونکہ میسج باکس پر بار بار کچھ ٹائپ ہوتا تھا مگر پھر بھی اُسے وہ میسج موصول نہیں ہورہا تھا ۔ اُسے لگا جیسے وہ لکھ کر اسے بار بار ایریز کر رہی ہے ور پھر دوبارہ سے ٹائپ کر رہی ہے۔ بالاخر کچھ سیکنڈز کے بعد ایک نیا میسج ثانیہ کی طرف سے آیا ۔
’’جب ہر مذہب کی ابتدا محبت ہے، انتہا محبت ہے تو پھر وہ اتنے سارے خانوں میں بٹ کیوں گئے ہیں ؟‘‘
’’فکر تو خیر ایک ہی ہے بس مختلف ادوار میں مختلف اذہان سے اُس کا اظہار ہوا ہے۔ اُن اذہان کے ماننے والوں نے اپنے ادوار کے لحاظ سے اُس کو جذب کیا ہے اور مجموعی اعتبار سے محبت ہی سب کا مرکز ہے اب یہ علیحدہ بحث ہے کہ یہ فکر فطری ہے یا غیر فطری ، سماجی ہے یا سیاسی، انسانی ہے یا الہامی مگر انفرادی طور پر اقوام میں بٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ یہ فکر کھربوں اربوں لوگوں کو متاثر کرنے کی وجہ سے سیاسی طور پر استعمال ہوگئی ہے اور خاصی حد تک پرا گندہ بھی ۔۔‘ ‘ واحدی نے پرسکون انداز میں جواب تحریر کر دیا۔
’یوں مصنف نے مغربی ثقافت میں بسنے والے اُن ایشیائی نژاد نوعمروں کے اذہان میں اٹھنے والے ان سوالوں کے فکری جواب دینے کی کوشش کی، جن کا پس منظر تو ایشیائی ہے لیکن انکی سوچ جدید فکری رحجانات کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے اور وہ اکثر دو متضاد نظریاتی فکر کو ہم آہنگ نہیں کر پاتے تو کنفیوز ہوجاتے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے وہ سچ کی تلاش جاری رکھتے ہیں۔
برصغیر میں عصرِ عہد کا دوسرا بڑا المیہ یہ رہاہے کہ جس نسل نے آج سے ستر برس پہلے تقسیم ہند میں ہجرت کرتے ہوئے جب پاکستان کی راہ کی راہ لی تھی تو ان کے ذہن میں ایک ایسی ریاست کا نقشہ تھا جس میں مسلمان ، ہندو ، سکھ ، عیسائی اور دیگر مذاہب سب مل جل کر ایک ایسا ماحول پیدا کریں گے جہاں امن و سلامتی ، معاشی و مذہبی آزادی اور سماجی انصاف اس ریاست کے اہم ستون ہونگے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اوررفتہ رفتہ مایوسی کی فضا نے جنم لینا شروع کیا۔ پچاس برس بعد اس ملک میں سماجی ناانصافی، معاشی تنزلی اور طبقاتی و مذہبی کشمکش نے ایسا خوفناک روپ دھارا کہ اس فضا سے ایک بار پھر چھٹکارا حاصل کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش ہجرت کی شکل میں نئی نسل کا بہانہ بن گئی۔ یہی وجہ تھی کہ نئی نسل کا اعتماد پاکستان پر ڈگمگانے لگا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ برین ڈرین کے نام پر ہزاروں خاندان یہاں سے ایک بار پھر مغربی ممالک کو ہجرت کر گئے۔ بلند اقبال اسی منظر کو کینیڈا میں رہنی والی لڑکی ثانیہ کے مکالمہ سے کھولتے ہیں۔
’’ثانیہ نے اردگرد دیکھ کر کہا ، ’’ مجھے نہیں چاہیے کوئی پاکستان نا ہی وہاں کا کلچر۔۔۔میں نہ تو یہاں پر اس سوسائٹی میں رہنا چاہتی ہوں اور نہ ہی میں وہاں جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے پتہ ہے وہاں زیادہ تر لوگ دوغلے ہیں ، جب دیکھو یہ لو گ خوامخواہ ہی جھوٹ بولتے رہتے ہیں کبھی ایک دوسرے سے، کبھی اپنے آپ سے ، وہ سچ سننا نہیں چاہتے ، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے کی جانوں کے پیچھے ہیں ، وہ نفرتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ آئی کین سی تھرو نیوز ، تھرو اور سوسائٹی، تھرو اور فیملی فرینڈز (I can see through news, through our society,through our family friends)۔ ۔۔ آئی کینٹ افورڈ آل دس نان سینس یار۔۔۔۔ ‘‘
اس اقتباس سے جہاں مصنف کی فکری نہج منکشف ہوتی ہے وہیں اس ناول کی عمارت ایک ایسے معروضی حالات میں تشکیل دیتی ہوئی نظر آتی ہے جو اپنی سچائی کو جواز نہیں بناتی بلکہ بعد از قیام جو حالات سامنے آتے ہیں وہی اسکا مقصد و منشا آشکار کر دیتے ہیں، اور میرا خیال ہے
کہ یہی مصنف کی کامیابی ہے۔
ایک اور اہم پہلو جو اس ناول کو انتہائی مضبوط اورکامیاب بناتا ہے کہ مصنف نے شعوری کوشش سے ایک ایسی کہانی کا تانا بانا بنُا جو بیک وقت خطے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مقامی کلچرل اور جدیدیت کا ادراک رکھتا ہے۔ وہ نہ تو مقامیت کو رد کرتا ہے اور نہ ہی اسکے ثقافتی پارا ڈاکسسز کو، بلکہ ارتقا پذیر نئی فکر و عمل سے انسانی سوچ میں گلوبل خواب ، اندیشے اور امکانات روشن کرتا ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ آج کے انسان کے ہاں خدا کا روایتی تصور وہ نہیں رہا جو عمومی طور پر دو سو برس پہلے انسان کے ہاں تھا۔ آج کا خدا انسانی فکر و دانش کے باعث زیادہ قوی، زیادہ قادرِ مطلق اور زیادہ فیاض و خلاق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلند اقبال اپنے ناول ’’ ٹوٹی ہوئی دیوار‘‘ میں انسان کے اس ذہنی سفر کو آشکار کرتا ہے جو خدا کی لاتعداد جہات کو مزید وضاحت سے پیش کرتے ہوئے عقلی دلائل کو سامنے رکھتا ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس کارخانہ حیات میں انسان اور زیادہ حیران و محدود کھڑا ہے ۔ اِسی جدید فکر میں نہائی ہوئی زندگی میں مصنف اُن نئے سوالات کو جنم دیتا ہے جس کے جوابات خود اسکے پاس نہیں۔ اسے احساس ہے کہ مذہب کے وہی روایتی اور پرانے انداز اپنی قدیم افادیت سے باہر نکل کر کچھ اور معنیٰ بھی دے سکتے ہیں ، ایسے معنی جس میں آج کی جدید فکر کا تحیر، اضطراب اور زندگی کی نئی پرتیں کھُل سکیں۔
اسی لئے تخلیق کے اس عمل میں وہ عصری موضوعات کو اپنی فکر کا محور بناتا ہے اور انجان راستوں سے ہوتا ہو ا اپنے کرداروں کے ذریعے فکرِ نو سے آراستہ نئی زندگی کا مفہوم دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ زندگی کی ان انجان چیزوں کی ہیئت کو مقید نہیں کرتا بلکہ انہیں کھول دیتا ہے تاکہ فکرِ نونئی دنیا بنانے پر مجبور ہو جائے۔ اب وہ کتنا کامیاب ہے یہ قاریہی بتا پائے گا۔
اچھے ناول کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جذبوں، احساسات اور افکار کی از سر نو بازیافت کرے اور گمشدہ جذبوں کو نئی فکری آہنگ سے روشناس کرے۔ یہ خوبی ’’ ٹوٹی ہوئی دیوار ‘‘ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔
اردو ادب میں مصنف بلند اقبال کی پہلی دو کتب، افسانوی مجموعہ’’ میری اکاون کہانیاں‘‘ اور مجموعہِ مضامین ’’ سارے محبت نامے مرے‘‘ ہیں، جس کی پذ یرائی پاک و ہند کا نہ صرف میڈیا کر چکا ہے بلکہ نقد و نظر کے ارباب اس پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔
اس ناول پر بات کرتے ہوئے کچھ قارئین کی طرف سے اعتراضات آ سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس ناول کو مذہبی تعلیمات اور اسلامی فکر و دانش سے ناپنے کی کوشش میں اسے مکمل رد کر دیں یا مصنف کی ہیومنسٹ سوچ کو یکسر مسترد کردیں یا اس ناول کو متنازع قرار دے دیں۔وہ کیوں ایسا کریں گے اس کی وضاحت تو ناول کی قراٗت سے ممکن ہے، تاہم راقم کے خیال میں مذہبی تفرقہ بندیوں نے ہمارے ہاں منقسم مذہبی بیانیے اور فکرو دانش کو جنم دیا ہے۔ الہامی کتاب سے ہٹ کر فقہی متون زیادہ تر مذہبی سکالرز کی اپنی تفہیمی سوچ سے آلودہ ہیں جو اکثریت کو بظاہر مذہبی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں لیکن حقیقی طور پر وہ متون یا بیانیے انسان کو مذہب سے دور کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔
ناول کی زبان و بیان حد درجہ سلیس ، عام فہم اور رواں ہے جو قاری کو دورانِ قراٗت لمحہ بھر کے لئے رکنے کو نہیں چھوڑتی اور شاید اسکی بڑی وجہ ناول کا طرزِ بیانیہ ہے جو عالمی ادب میں آج لکھے جانے والے ادب سے مماثلت رکھتا ہے۔ ناول کی بہت عمدگی سے چیپٹرائزیشن کی گئی ہے۔ وقت تاریخ مقام دینے سے متن کا باطنی حصہ خود بخود ایک تصویر کے روپ میں سامنے آتا ہے جس سے قاری کی تفہیم مزید آسان ہو جاتی ہے۔ اس طرز نگارش کو ہم مغربی طرزِ تحریر کہتے ہیں اور عصر حاضر میںیہ اسلوب مقبولِ عام ہے۔
آخر میں یہ عرض کروں گا کہ اس ناول کاعنوان اپنے علامتی اظہار میں پورے ناول کی کنجی ہے۔ قارئین اس عنوان سے پورے ناول کو کھول سکتے ہیں۔