محبت نبویؐ میں نفسانیت
از حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی ؒ
بخاری شریف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گزری کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک مَیں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے نزدیک محبوب نہ ہوجاؤں۔ (لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب إلیہ من والدہٖ و ولدہٖ و النّاس اجمعین) (بخاری، کتاب الایمان۔ حدیث نمبر 15)
فقیر ہی نے عرض کیا کہ: بحمداللہ! عام مسلمام بھی سرکارِ کائنات ﷺ کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو تو ایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ گالیوں کے جواب میں وہ بھی گالیوں پر اُتر آتا ہے، لیکن رسالت ِمآبؐ کی ہلکی سی سُبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے۔
سن کر حضرت (شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ) نے فرمایا: ’’ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمھاری نظر نہیں پہنچی۔ محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوبؐ کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے، لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آںحضرتؐ کی مرضیِ مبارک کے ساتھ ہے، وہ بھی ہمارے تمھارے سامنے ہے۔ پیغمبرؐ نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ اس سے کون ناواقف ہے۔ پھر سُبکی آپؐ کی، جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی ہے، اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی۔‘‘
خاکسار نے عرض کیا کہ: تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟
نفسیاتِ انسانی کے اس مبصر حاذق نے فرمایا کہ:
’’سوچو گے تو درحقیقت آںحضرتؐ کی سُبکی میں اپنی سُبکی (اہانت) کا غیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی خودی (self respect) اور اَنا (ego) مجروح ہوتی ہے کہ ’’ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں، تم اس کی اہانت نہیں کرسکتے۔‘‘ چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’’ہم‘‘ پر پڑتی ہے، لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کی محبت نے انتقام پر ان کو آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔ اپنی جگہ ٹھنڈے دل سے جو غور کرے گا، اپنے طرزِ عمل کے تناقض (تضاد) کے اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔ بہرحال محبوب کی مرضی کی جسے پروا نہ ہو، اذان ہو رہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پر کس حد تک پھبتا ہے۔‘‘
حضرت والا (شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ) کی تقریر کا یہی خلاصہ تھا۔ ظاہر ہے ندامت اور شرمندگی کے ساتھ سرجھکا لینے کے سوا ان کی اس نفسیاتی تنبیہ کے بعد میرے لیے کچھ اَور پوچھنے کی گنجائش ہی کیا باقی رہی تھی۔
(احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن۔ صفحات: 153 تا 155۔ طبع: مکتبہ حمادیہ، کراچی)
بشکریہ: علی ارقم