(پروفیسر محمد حسین چوہان)
محبت ایک فطری جذبہ ہے،اس کو اخلاقی و مذہبی قوانین اور مقامی رسم ورواج کی بھینٹ چڑھا کر دبایا نہیں جا سکتا،اور نہ ہی حکم ناموں کے نفاذ کے ذریعے اس پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ انسانی وجود کی ترقی یافتہ شکل شعور میں محبت کے شعلے مدفن ہوتے ہیں، خون کی گردش میں اس کی چنگاریاں موجود ہوتی ہیں۔ سورج سے جس طرح شعاعیں منعکس ہوتی ہیں انسانی وجود سے اسی طرح محبت کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔ انسان کو انسانیت کے بلند تر مقام پر فائز کرنے والا جذبہ مخبت ہی ہے،جو نہ صرف انسان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے بلکہ اس کا اظہار نغمہ و سرود اور آرٹ کی تخلیق میں بھی ہوتا ہے۔
اگر انسان کے اندر سے محبت کے جذبے کو نکال دیا جائے تو وہ پھر جنسی عمل تک محدود ایک حیوان رہ جائے گا،جس کے لئے ہمارے تقدیس ثنا خوان مشرق دن رات سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔حیوانوں کے اعصابی خلیے اگر انسانوں کے مقابلے میں ترقی کر لیتے تو وہ بھی عشق و سرمستی کا اظہار کرتے مگر وہ ترقی نہیں کر سکے یہ انسان ہی ہے جس نے کروڑوں سالوں کا ارتقائی سفر طے کر کے لطیف جذبات کے اظہار کے قابل ہوا ہے،شروع میں تو یہ بھی وصال کے سادہ اصولوں تک محدود تھا،جوں وقت گذرتا گیا یہ توالد و تناسل کے حیوانی عمل سے نکل کر عشق و سرمستی، وفاداری اور خود سپردگی کی لطیف کیفیات میں داخل ہوا۔
کلچر کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی نشو ونما بھی بڑھتی گئی،وجود کی سادگی نے مسلسل مشق کے ذریعے شعور کی اعلیٗ شکل اختیار کر لی۔وجود کی ترقی یافتہ شکل نے محبت کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔حقیقی محبت وجودی محبت ہوتی ہے جو ایک وجود دوسرے وجود کیلئے کرتا ہے،جس کے لئے ہمیں قانون اور نظم کی ضرورت نہیں بلکہ احساس ذمہ داری کی ضرورت ہوتی ہے۔احساس ذمہ داری اور جنسی تعلیم سے ہم نام نہاد اقدار کی لاج رکھ سکتے ہیں،گرچہ اقدار اور روایات کی حیثیت سڑک پر لگے ناکے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی یہ ارتقائی عمل میں بتدریج تحلیل ہو جاتی ہیں۔
ویلنٹائن ڈے پر نو جوانوں کے اظہار محبت پر پابندی لگانا یا علامتی طور پر ان کو ایسی تقریبات منانے سے روکنا ایک وحشیانہ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مسئلہ اس کے جواز اور عدم جواز کا نہیں بلکہ یہ ایک سرا سر طبقاتی مسئلہ ہے۔ محبت کا اظہار تو سب کرتے چلے آئے ہیں ۔ایک وقت میں ڈاچی والے سے محبت کا ظہار کرتی ہوئی عورت نظر آتی ہے۔جب وہ کہتی ہے ڈاچی والیا موڑ مہاراں یا میرے سجناں دی ڈاچی بادامی رنگ دی پھر جب زمانے نے ترقی کی اور گاڑی سڑک پر آگئی تو یہی نسوانی آواز نئے تہذیبی قالب میں ڈھل گئی ۔مینوں رکھ لے کلینڈر نال لمبیاں روٹاں تے۔ عورت مرد کی طاقت اور رعب سے متاثرہوتی ہے ایک عہد میں رعب کی علامت ڈاچی اور دوسرے دور میں گاڑی تھی ۔مگر موجودہ دور میں ثقافتی تنوع اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے انسان کو پرانے دور سے نکال دیا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام شہری کو محبت کے اظہار کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے اور وسائل و سہولیات دستیاب ہونی چائیے۔کیا عام محروم طبقات اس کو افورڈ کر سکتے ہیں۔ہر گز نہیں اشرافیہ اور دیگر متمول شہری ہر عہد میں رنگ رلیوں میں مصروف رہے ہیں اور اب بھی ہیں ان کے لئے ویلنٹائن ڈے کی اتنی اہمیت نہیں اگر اس دن طبقہ امرا کی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے گاڑیوں میں سوار ہو کر باہر پارکوں،ہوٹلوں،ریسٹورنٹوں پر جاتے ہیں تو ان کو سیکیورٹی بھی ملتی ہے اور ان سے پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اندر احساس ذمہ داری اور اظہار محبت کے لئے لوازمات و اسباب موجود ہیں،مگر پیدل چلنے والے یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زندگی کی تلخیاں بھلانے کے لئے کہیں اکھٹے بیٹھ جائیں تو شرعی دفعات کا نفاز شروع ہو جاتا ہے اور ملا کی گز گزلمبی زبانیں آپنے حلقوں سے باہر نکل آتی ہیں۔ حالانکہ اپنی آپنی جگہ سب محبت کر رہے ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ ملا کی محبت بھونڈی ہوتی ہے اور عام شہری کی سلیقے میں ڈھلی ہوئی۔ بوس وکنار سے ہمیشہ ان کو نفرت ہوتی ہے جن کے منہ پر لوگ تھوکتے ہیں ورنہ انسان انسان سے محبت نہ کرے تو کس سے کرے۔
مسئلہ ہماری جھوٹی اقدار کا ہے۔معاشرتی تفریق اور طبقاتی تقسیم کا ہے۔معاشرتی اونچ نیچ کا ہے۔ملا اور مافیا نے انسانی آزادی اور سچے جذبوں کو پنپنے سے روک دیا ہے۔ہماری اقدار کیا ہیں،شرافت نہیں ذلالت ہے ،محرومی و غربت ہے،حسد و محرومی ہے،انتقام و نفرت ہے،احساس کمتری وجہالت ہے ۔ہم خوشی ترقی اور خوشحالی کو دیکھنا پسند نہیں کرتے،ہماری تنگ نظری اور بخل سے گلی سڑی اقدار نے جنم لیا ہے اور ان کی رکھوالی پر ایسا تنگ نظر مذہبی طبقہ بیٹھا ہوا ہے جس کا گذر سر سبز باغ سے بھی ہو جائے تو وہ بھی صحرا بن جاتا ہے،کیونکہ ان کی معا ونت سے سیاسی مافیا نے معاشرتی ترقی کا عمل سبو تاژ کر رکھا ہے۔ویلنٹائن ڈے منانا یا نہ منانا سرے سے کوئی مسلہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ کیا عام شہری آپنے فطری جذبے کا اظہار کرنے میں متمول طبقے کی طرح آزاد ہے کہ نہیں۔ معاشرتی ترقی کے لئے اجتماعی ذہنی صحت مندی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن ہمارا شہری خوف میں مبتلا رہتا ہے،پولیس بلیک میل کرتی ہے۔ملا فتوے لگاتا ہے،اشرافیہ عیاشی کرتی ہے،معاشی ثمرات نچلے طبقے تک پہنچتے نہیں اس کے با وجود محبت کے اظہار کو قومی سانحہ سے کم نہیں سمجھا جاتا۔
ہم سب انسان ہیں اور انسان معاشرتی اقدار کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔کیا نوجوانوں کی جمالیاتی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر کے ایک صحتمند کلچر تخلیق کر سکتے ہیں۔فطری جذبے کے علامتی اظہار پر پابندی عائد کر کے نوجوانوں کی خود اعتمادی کو سخت ٹھیس پہنچتی ہے۔ان کے اندر احساس ذمہ داری کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے وہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ہم سچے جذبات کے اظہار پر پابندی عائد کر کے ایک گھٹن زدہ ماحول پیدا کر رہے ہیں مگر تہذیب کے دائرے سے باہر قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چائیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ محبت کرنے کی کھلی چھٹی دے کر ہم حیوانوں کی دنیا میں داخل ہو جائیں، مسئلہ تنگ نظری اور جہالت کے خلاف آواز بلند کرنے کا ہے، کرپٹ سیاسی مافیا کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا ہے، کیونکہ حقیقی وجودی محبت جو تمدن و عائلی زندگی کی اساس ہے کی راہ میں معاشی نا ہمواریاں کھڑی ہیں۔ ملائی فکر کو اچھی طرح باور ہونا چاہئے کہ نظریہ ضرورت کے تحت ان گنت لونڈیاں رکھنے کی روایت بھی قائم رہی۔ چار شادیوں کی بھی گنجائش نکالی گئی گرچہ استحصالی معاشرے میں ایک عورت بھی افورڈ نہیں ہوتی۔ ہنگامی صورتحال میں متعہ کی بھی گنجائش نکالی گئی۔
کیا ہمارے اجداد کی دانش کسی سے کم تھی ہر گز نہیں، جنس و جمالیات کو وہ ایک نظم کی رسی میں پرونا چاہتے تھے اور ان کی تمدنی ترقی کے ارتقا میں یہ کاوشیں قابل تحسین تھیں۔ مگر تجربی علم کی کمی نے ان کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی۔ لیکن تجربات کی دنیا میں وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اب انٹرنیٹ کی وجہ سے انسان جغرافیہ کی حدوں کوپھلانگ کر بین الاقوامی شہری بنتا جا رہا ہے۔ تجربی سائنس نے روایتی دانش کو مات دے دی ہے۔ محبت کے اظہار نے مجنوں کی صحرا نوردی، فرہاد کی جوئے شیر کی مہم جوئی، سوہنی ماہیوال کی کچے گھڑے پر تیرنے کی داستانوں سے آگے کا سفر طے کر لیا ہے۔ویڈیو کال نے تجسس کی حس ہی دماغوں سے نکال دی ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر پابندی ہمارا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار شہری بننا ہمارا فرض ہے۔ شرط ہے سلیقہ ہر اک امر میں۔عیب کرنے کو بھی ہنر چائیے۔ انگریزی کا مقولہ ہے:
Love laughs at locksmith