محمدی بیگم : اردو کی پہلی خاتون مدیرہ
ممتاز علی اور محمدی بیگم کے انتقال کے بعد اس رسالے کی مدیرہ ممتاز علی کی بیٹی وحیدہ بیگم رہیں۔ پھر ممتاز علی اور محمدی بیگم کے بیٹے امتیاز علی تاج 1935ء میں تہذیب نسواں کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہ رسالہ تقریباً پچاس برس جاری رہا۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ کا آخری شمارہ 1949ء میں شائع ہوا۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ نے خواتین کو ان کی تعلیم اور حقوق کے بارے میں شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ محمدی بیگم اور ان کے رسالے نے اردو ادب میں عطیہ بیگم فیضی، زہرہ بیگم، نذر سجاد حیدر یلدرم جیسی مایہ ناز شخصیات کا اضافہ کیا۔
محمدی بیگم 22 مئی 1878ء کو شاہ پور، پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد احمد شفیع وزیر آبادی، ہائی اسکول وزیر آباد کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ 1897ء میں محمدی بیگم کی شادی سید ممتازعلی سے ہوگئی۔ ان کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہوچکا تھا۔وہ خواتین کے حقوق اور تعلیم کے قائل تھے اور خواتین کے لیے ایک رسالہ نکالنا چاہتے۔ وہ پنجاب کے مشہور دارالاشاعت، رفاع عام پریس اور ایک پرنٹنگ پریس کے مالک تھے۔ بحیثیت مصنف اور ناشر، انھوں نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگالیا کہ محمدی بیگم ایک ماہر مدیرہ بن سکتی ہیں۔
انھوں نے محمدی بیگم کو انگریزی، ہندی، فارسی، عربی، پروف پڑھنے اور حساب کتاب اور ایڈیٹنگ کی تربیت دینا شروع کردی۔ ان تمام امور کے ساتھ ساتھ محمدی بیگم ممتاز علی کی پہلی بیوی کے دو بچوں کی دیکھ بھال بھی کیا کرتی تھیں۔ چند سالوں بعد ’’تہذیب نسواں‘‘ جاری ہوگیا۔
اسی دوران محمدی بیگم کے یہاں، امتیاز علی تاج کی ولادت بھی ہوئی۔ محمدی بیگم امتیاز علی تاج کو تاج پکارا کرتی تھیں اور ان کی تربیت کے لیے اکثر ہاتھ سے کہانیاں اور کتابیں لکھیں۔ انھوں نے امتیاز علی تاج کے لیے لوریاں بھی بڑی تعداد میں لکھیں۔ جو بعد میں ’’خواب راحت‘‘ نامی لوریوں کے مجموعے میں شامل ہوئیں۔ امتیاز علی تاج بعد میں معروف ڈرامہ نگار، محقق، مدیر اور مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بنے۔
محمدی بیگم کا دوسرا کام، امتیاز پچیسی، امتیاز پھلواری (مضامین اور کہانیاں، ہاتھ سے لکھی ہوئی جو شائع نہ ہوسکیں) آج کل، ادبی ملاقات، پان کی گلوری، تاج پھول، تاج گیت، چندن ہار، حیات اشرف، خانہ داری، رفیق عروس، ریاض پھول، سچے موتی، سگھڑ بیٹی، شریف بیٹی، صفیہ بیگم، علی بابا چالیس چور، نعمت خانہ اور کچھ دوسری کتابیں شامل ہیں۔ محمدی بیگم نے لڑکیوں کے لیے اسکول اور لاہور میں خواتین کے لیے دکان بھی کھولی جہاں خواتین ہی دکاندار اور خواتین ہی خریدار تھیں۔
1905ء میں محمدی بیگم نے رسالہ ’’مشیر مادر‘‘ ماؤں کے لیے جاری کیا۔ جوان کے انتقال کے بعد بند ہوگیا۔ اتنی سخت محنت نے محمدی بیگم کو شدید بیمار کردیا اور ۲ نومبر 1908ء کو صرف تیس سال کی عمر میں محمدی بیگم کا شملہ میں انتقال ہوگیا اور لاہور میں تدفین ہوئی۔