(پروفیسر علی احمد فاطمی)
نسیم سیدپر لکھنا میرے لیے مشکل کام ہے جبکہ میں بیحد لکھا ڑہوں،بدنامی کی حد تک۔لیکن جس شخصیت کے لیے غیر معمولی محبت وخلوص درپیش ہو توقلم از خود مر تعش ہونے لگتاہے۔میں نے نسیم سید سے ان کی شاعری سنی بھی ہے اورپڑھی بھی گھنٹوں سر تھامے بیٹھا بھی رہا ہوں۔کیا خاتون ہیں؟شاعری ہے یا بگولہ۔دھیمی دھیمی وہ چمکدارلپٹیں جن کو چھو نے کی کوشش میں انگلیاں جل جائیں ۔اس لیے اپنے آپ کو جلنے سے بچاتا رہا۔وہی بگولہ ملاقات پر شبنم کا دریا بن جاتا۔میں ان کی ادھوری گواہی سے لے کر سمندرراستہ دے گا تک کا سفر طے کر گیا، لیکن منزل تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو سکی ۔کنیڈامیں ملاقاتیں ہوئیں صاف اندازہ ہو تا کہ آپ کسی شاعرہ سے نہیںبلکہ ایک مکمل رواں دواں شعر سے مل رہے ہوں۔ صدف میں ڈھلا ہوا شعر۔نسیم، نسیمِ بہار لگنے لگتیں۔ کئی ملاقاتیں،کئی حکایتیں ،بقول فیض’’مزہ تو جب ہے کہ یاروں کے روبرو کہئے۔‘‘ گزشتہ دنوں(نومبر ۱۴) اچانک کراچی میں ملاقات ہوئی۔پتہ چلا کہ افسانے کا مجموعہ چھپوانے آئی ہیں وہ بھی مبین مرزا کے ذریعہ جو خود ایک کڑھے ہوئے انسان اورمنجھے ہو ئے افسانہ نگار ہیں۔جو نہی پہلی کاپی ہاتھ میں آئی کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں مرزا صاحب کی ضیافت کا لطف لیتے ہوئے سویٹ ڈش کے طورپر ان کا دھلا دھلایا اوربقول مشفق خواجہ لانڈری سے نکلا ہوا افسانوی مجموعہ ’’جس تن لاگے‘‘ہاتھ لگا توتن من کو عجیب سا سرور حاصل ہوا ۔سرورق پر چہکتی وچمکتی نسیم سید بھر پور تشدید کے ساتھ ۔جس اور تن ادھورے ادھورے سے۔ لاگ اور لاگے بھی نیم تن بالکل اس ہتھیلی کی طرح جس پر انھوں نے بے پناہ سیلاب اورطوفان روک رکھے ہیں لیکن یہ کام شاعری میں ضرور ہو سکتاہے،افسانہ نگاری میں یہ سارے سیلاب اورعذاب کرداروں کے تن من میں جذب و پیوست ہو جاتے ہیں بلکہ بقول منشا یاد کھال میں گھس جایا کرتے ہیں۔عورت کی کھال میں تونجانے کتنے مرد گھسے ہیں بقول منٹو۔’’عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیںکر سکی اس سے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گاتو مرد ہی کرے گا۔‘‘منٹو کی سوگندھی، سکینہ، موذیل وغیرہ پڑھئے یا دوسرے افسانہ نگاروں کے نسوانی کردار مثلاً لاجونتی، اندو، آنگی، تائی اسیری ،آپا رضو باجی وغیرہ کو بھی پڑھئے تومنٹو کی بات سچ لگنے لگتی ہے،
لیکن بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل رہا ہے تانیثیت کی کتابی بحثوں سے قطع نظر زندگی کی شاہراہوں پر عورت بہت بدل گئی ہے۔عورت کی تعریف و تانیث دونو ں ہی اب عورت نہ صرف عورت بلکہ بعض اوقات مرد کی کھال میں نہ سہی لیکن جال،جلال اورجمال میں گھس کر اپنے وجود کو نیم پختگی سے مکمل پختگی(جسے آزادی بھی کہا جا سکتاہے)کا سفر کاکمال پیش کر رہی ہے۔زندگی میں اب شعروادب میں بھی۔ نسیم سید کی تحریر و تخلیق جس کی بہترین مثال ہے۔جہاں اس کا جواب ہے کہ عورت ہونا واقعی کیا ہو تاہے اورکیسا ہوتاہے لیکن یہ ہونا اورنہ ہونا انیسویں صدی والا نہیںہے بلکہ اکیسویں صدی کا ہے۔عورت کا وجود اورمرد کا عدم وجود یا یوں کہئے کہ مرد کا وجود اوراس کے توسط سے عورت کی عدم وجودیت کی ناکام کوششیں عورت کی وجودی کوششوں کو نئے سرے سے پیش کررہی ہیں اوریہ کام صرف عورت ہی کر سکتی ہے اورکچھ دردتو ایسے ہیں جو درد زہ سے الگ ہوتے ہیں، درد زہ سے بھی زیادہ اذیتناک جسے صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے ۔ مرد تواپنے ذریعہ دئے ہو ئے دردکو بھی درد نشاط اورکرب کو طرب آگیں انداز وا سلوب میں دیکھنا پسند کرتا ہے کہ اسے عورت سے صرف لطف،حظ اورنشاط ہی مطلوب ہے خواہ وہ کسی روپ اوردھوپ میں ہو ۔آئیے دیکھیں نسیم سید کے افسانوں میں عورت کے کتنے روپ ہیںاورمرد کے کتنے سو روپ ۔پہلی کہانی ’چراغ آفر یدم‘کمزورو بے بس ماں کا انتقال اورجوان ہوتی لڑکی کو انتباہ۔ ’’اپنی آنکھیں اوراپنے ہونٹ ہمیشہ جائے نماز والے طاق پر رکھنا، اپنی پیشانی کو گھر کی دہلیز پر بچھا دینا۔‘‘وغیرہ۔۔۔۔۔ ’’اس لئے کہ تمھیں پرائے گھرجانا ہے۔‘‘ایک لڑکی کو آنکھ کھولتے ہی یہ احساس کرایا جانا دوسرے نمبر کی چیزبن جانا انسان کی جگہ سامان بن جانا کہ اس سے گھر مقدس رہتے ہیں۔یعنی گھر کی تقدیس ہی لڑکی کی تقدیر ہے۔ایسا کیوں؟سرکش ذہن میں سوال فطری ہے لیکن یہ بھی تاکید کہ لڑکیاں سوال نہیںکرتیں وہ صرف سپردگی کا جواب ہوتی ہیں لیکن کچھ لڑکیوں پر تربیت کا کم حیرت کا رنگ زیادہ چڑھتا ہے جو بعدمیں حقیقت کا روپ لے لیتاہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے۔اس کہانی کا مرکزی کردار(خواہ وہ مصنف ہی ہو)کچھ اسی سرکش رنگ کا ہے، جیسا کہ ان جملوں سے ظاہر ہو تاہے۔ ’’میری حیرتوں کی عمر کا ایک ان جان سا حیران سا لمحہ مجھ میں لق و دق صدیوں جیسا پھیل گیا۔ میں ہر صبح اس کے سنہری اجا لوں میں طلوع ہوتی اورہر شام اس کی نارنجی سرخی میں ڈوب جاتی۔‘‘ رومانی طلوع میں سرخ غروب اپنے طرز کے بلیغ اشارے ہیں جہاں سے نورو مانیت کااحساس شروع ہوتاہے، جس کا ایک رنگ انحراف و سرکشی کاہو ا کرتاہے جس کے در عمر اوروقت کے ساتھ کھلتے ہیں ۔
شادی بیاہ،پرایا گھر ،دوسری عورتیں اوران عورتوں کا گائے کی طرح کھونٹے سے بندھا ہونا اوران میں بعض ایسی کہ وہ ایسی بد نصیب تھیں کہ گائے جیسی تمام خصلتیں رکھنے کے با وجود ان کا اپنا کوئی کھونٹا نہیں تھا۔چنانچہ وہی ماحول۔وہی روایت۔وہی کھونٹا لیکن سرکشی کی بھی اپنی عمر اورانداز ہوا کرتا ہے۔ یوں بھی لڑکی جب عورت بنتی ہے توصرف بدن اورکوکھ سے نہیںکھلتی بلکہ ذہن اور رویوں میں بھی کھلنا چاتی ہے لیکن مرد ، مردانہ سماج سسرال جن میں عورتیں بھی شامل ہیںوہ یہی چاہتی ہیں کہ رات کو مسہری پر کھلو اوردن کی دھوپ میں سمٹی رہو لیکن سر کشی تو دن کے دھوپ میں کھلنا اور پھیلنا چاہتی ہے اوراسے روکو تودھوپ کی کرن نور کی ہر یالی بنا دیتی ہے تبھی تونسیم لکھتی ہیں۔ ’’عجیب سرور تھا ۔عجیب نشہ تھا۔عجیب احساس تھا جو مجھے مجھ میں نئے انداز سے سینچ رہا تھا گھنا اونچا اورسبز کر رہا تھا۔‘‘ یہ سبزی پک کر جلد ہی سرخی میں بدل جاتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے اورایک لڑکی پیداکرتی ہے توطعنوں کے پتھر ،’’پتھر جنا ہے نامرادنے‘‘سسرکشی نے سراٹھایا اور اس نے وہ ساری حیرتیں ،ہمتیں اس ننھی سی جان میں انڈیل دیں اوراعلان کر دیا ۔ ’’مجال ہے میرے دوسرے جنم میں مجھے کوئی لیر لیرکر دے۔‘‘ اورکہانی کا عنوان ہو گیا ’’چراغ آفریدم‘‘یعنی ایک عورت نے چراغ پیداکر دیا ۔جونئی نسل کو روشن کرتارہے گا۔ کہانی میں جذبہ ہے، حیرت ہے اورہمت ہے لیکن زینت کچھ زیادہ ہے جس سے یہ کہانی کہیںکہیں تاثر یا نثری نظم لگنے لگتی ہے لیکن نسیم سید کا جذبہ پوری کہانی میں رہتاہے جو کہانی کو سنبھالے رکھتاہے ۔یہی تخصیص ہے ضروری نہیںکہ کہانی کسی واقعہ پر مبنی ہو۔جذبہ ، احساس، خیالات،امکانات وغیرہ اگر کہانی کا تانابانا بنتے ہیںتو وہ اسلوب اورتکنیک کی کانٹوں بھری راہ سے گزرتے ہیں اورنئی تکنیک کے امکانات کو بھی روشن کرتے ہیں پھر ایسے جملے اب کہاں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔’’بالکل اس پانی کی طرح جو کٹورے میں کٹورے جیسا ڈھل جاتاہے اورگلاس میں اس کی قدو قامت میں ڈوب جاتاہے۔‘‘ بیکاایک قیدی بے بس لڑکی کی داستان ۔نام تو چھٹکی لیکن ٹی۔وی۔ کے ایک سیریل سے وہ بیکا ہو گئی۔کمزور بیکا کا سوال۔ ’’اللہ میاں نے ان کو ایسا کیوں بنایا؟‘‘ اس سوال کی گونج پوری کہانی میں پیوست لیکن ننھی سی بیکا قید میں ہوتے ہو ئے امید اورآرزو میں جیتی ہے۔یہ فطری عمل ہے جسے مصنفہ نے بڑے معنی خیز تخلیق انگیز اندازمیں لکھا ہے ؎ ’’کسی مدرسے میں خواہشیں،آرزوئیں ،خوشیاں غم اورسوال کہاں پڑھائے جاتے ہیں۔ وہ تووجود میں آپ ہی آپ اُگ آتے ہیں ۔سو اس کے وجود میں بھی ان کے کھیت کھلیان آپ ہی آپ اگتے اورپھیلتے جارہے ہیں
عمر کے ساتھ جذبہ ،عقل کے ساتھ سرکشی از خود جنم لیتی ہے ۔اکثر حالات بھی جانے انجانے میں اپنا رول اداکر جاتے ہیں۔ بیکا کا پروگرام ،سوال جواب،اس کی آرزوؤں کی پرورش کرتے ہیں اورایک نیا سوال جنم لیتاہے۔سب سے تواتناڈرتی کیوںہے؟ اورمجھے با ہر جانا ہے کی صدائے احتجاج کا روپ لینے لگتی ہے اور سات سال کی لڑکی اچانک ستائیس سالہ لڑکی کی طاقت میں بدل جاتی گئی۔چیخنا،رونا،دانت کاٹنا یہ سب کہ سب احتجاج کی شکلیں ہیں۔باپ کی سختی نے ایک عجیب روپ لیا قدآدم آئینہ ۔غصہ اوریہ جملہ ؎ ’’دیکھ دیکھ خود کو غورسے دیکھ۔اپنا چار بالشت کا قد دیکھ بندریا جیسی شکل دیکھ۔تیری منحوس ماں نے کس شرمندگی کو جنا ہے دیکھ۔ تجھے با ہر نکال کر ہم اپنا تما شا بنا لیں۔‘‘ اوریہ جملہ بھی۔’’تجھے توموت بھی گلے لگاتی شرمندہ ہو تی ہے۔تجھے نہیںآ تی موت۔‘‘مگر وہ زندہ رہی اوردادی مر گئی۔ تب سے وہ قید سماج کی خاطر ،عزت کی خاطر لیکن وہ سوال کرتی رہی۔میں ایسی کیوںہوں ؟آئینے سے، آپنے آپ سے، لڑکی کے وجود سے۔ چھٹکی بیکا نہیںہو سکتی ۔ٹی۔وی۔ اور ہے زندگی اور۔جہاں شر مندگی زیاد ہے۔ایک منفردکہانی جسے بڑے سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے ۔ایک انوکھے کردارکے ذریعہ ۔زندگی کی ایک ایسی حقیقت جہاںتلخی،گندگی اورٹھیکری زیادہ ہے۔جہاں قد آور لڑکیاں بھی ٹھگنی ہو گئی ہیں ۔نسیم سید نے ایک منجھے ہو ئے انداز میں کہانی کو ایک خاص پیرائے میں ایک خاص اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے جہاں تانیثت کم ہے زندگی کی حقیقت زیادہ ہے۔حقیقت سے متعلق خیالات اورسوالات۔ سوالات تو اگلی کہانی بگ فیٹ میں بھی ہیں ۔جہاںجہاز کا سفر ہے ٹورنٹو سے کیلگری۔مایا تخلیق کاراورناول نگار۔یہاں بھی سات سال کی ایک لڑکی۔ خاندان ،بچپن،پس منظر ذرابدلا ہوا لیکن باپ یہاں بھی بہکا ہوا اورماںسہمی ہوئی اورلڑکی گندی ہے اور پھر سوال میں گندی کیوںہوں ؟کہ مغرب کے گورے بچوں میںوہ کالی تھی اس لیے گندی کا خطاب ملا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔شکل بدل بدل کر ،کہیںڈگر تھی یہاں نگر (nigger) ہے لیکن نگر کے معنی کیا ہیںجسے ٹھیکرے کے معنی کیا ہیں۔ایک دوسرے قسم کی احساس کمتری کہ لڑکی کے مقدرمیںاحساس کم ہو تاہے کم تری زیادہ۔مایا کا مشاہدہ اورتجربہ۔جہاز کا سفر،مسافر اور پھر یہ جملے’’ دنیا میںرنگ،نسل،فرقے کی بنیاد پر نفرت زیادہ ہے محبت کم۔‘‘انسان ادیب ہو یا ادیب انسان لمحے بھر کے لیے فرق توہوتاہے لیکن رنگ ونسل کامسئلہ کا بھی تھا اورتمام تر ترقی کے باوجود آج بھی ہے۔ایک نیا گلوبل مسئلہ لیکن وہ بھی لڑکی کے حوالے سے۔یہ حوالہ لڑکا بھی ہو سکتاہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ دوسرے کرداربھی نسوانی ہیں اورمسئلہ لسانی سے زیادہ انسانی بن جاتاہے اورایک واقعہ اچھی کہانی کا روپ لے لیتاہے۔ اگلی کہانی کہانی کی کہانی میں بھی سوالات کی آریاں لیکن اس بار یہ سوالات خود کہانی کے ہیں ۔کہانی کار سے۔نیم خوابیدگی میں ڈوبے کہانی کارسے۔بیدارہوا اور ابھی کہ ابھی کہانی مکمل کرو اس لیے کہ
’’ابھی یوں کہ بہت سے سوالوں کی چھوٹی چھوٹی آریاں مجھے اندرسے کاٹ کاٹ کر ڈھیر کر رہی ہیں تم کو یہ ٹکڑے نہیں بٹورنے ؟تم کہانی لکھنے والے تو بنابتائے بھی بہت کچھ دیکھ لیتے ہو تومجھ سے سوال کیوں کرتی ہو،تمھیں تومیرے اندر با ہر کے سارے موسموں کا خود ہی پتا ہو نا چاہئے۔تم بتائو کہ میں اپنے سوالوں کا جواب کس سے پوچھوں ؟تم لوگوں کو تمام سوالات کے جواب معلوم ہو تے ہیں اور۔۔۔۔‘‘ کیا واقعی کسی کہانی کا ر کے پاس سارے سوالات کے جوابات ہوتے ہیں شاید نہیں اس لیے کہ وہ بھی ایک انسان ہی ہوتاہے اورانسان ظالم ہوتاہے اورمظلوم بھی۔جابر بھی اورمجبوربھی۔یہ کہانی کار کی مجبوری ہی ہے کہ اس کا فکر فن کہانی پن کے دبے کچلے سوالات اٹھا دے اور قاری تلا ش جواب میں بھٹکتاپڑے اسی لیے وہ کہانی سے مخاطب ہے ؎ ’’تمھاراخیال غلط ہے۔ہم تو خود سوالوں کی لکیریں کھینچ کھینچ کر مر جاتے ہیںہم مرجاتے ہیں انہیںجوڑنے،تقسیم کرنے اور ضرب دینے میں۔آخر میں سارے سوالوں کو سوالوں سے گھٹا دیتے ہیں ۔ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا تولوگ سمجھتے ہیں ہم نے سوال حل کر لیے۔‘‘ اورپھر کہانی اورکہانی کا ر کے درمیان سوال جواب جو جواب کم ہے اضطراب زیادہ اسی لیے نیم خوابیدگی بیداری بلکہ اضطرابی کیفیت میں بدل گئی جو ایک اچھی کہانی کے لیے ضروری ہوا کرتی ہے۔باہمی مکالمے بندھے اور گندھے انداز میں لیکن یہاں بھی ایک لڑکی کی کہانی۔ کہانی بھی تا نیث اورکہانی کار بھی۔اسی لیے اکثر تانیثیت سے وہ بھی ایک خاص انداز اسلوب میں اسی لیے تولاشعوری طور پر ایک جملہ نکلتا ہے۔’’میں اپنی کہانیوں میں اپنی تربیت کو مضبوطی سے تھامے رہتی ہوں ۔مجال ہے کوئی کہانی میرے اصول سے اختلاف کرے۔‘‘اورپھر کہانی کا دلچسپ جواب؎ ’’تو تم ایسا کرو۔کہانی لکھنے کے بجائے کسی اسکول میںدینیات پڑھا نا شروع کردو۔‘‘ یہ جملہ بظاہر طنز ہے لیکن بباطن بیحد معنی خیز اورغور کرنے پر مجبور کرتاہے کہ نسیم کی تانیثیت نمائشی تکنیک نہیں ہے بلکہ اس میں ایک قسم کی تربیت ہے۔اسی لیے وہ مشروط،محدود ہو کر سامنے نہیں آ تی۔اکثرمسائل نسوانی کم انسانی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔فکر و فلسفہ بھی۔اسی لیے کہانی بے چین ہے اوراس سے زیادہ کہانی کار بھی کہ۔’’ٹھن ٹھن کر تے خالی لفظوں سے توکہانیاں نہیں لکھی جاتیں۔‘‘درمیان میں کہانی کی تاریخ و تہذیب توتخلیقی انداز میں سامنے آ تی ہے ایک لڑکی کے کردار میں ۔آثاروآزاد میں حقیقت کے اظہار میں محبت
میں پیارمیں۔کہانی نے بھی عروج و زوال دیکھے۔جمال و جلال دیکھے۔جھونپڑیاں اورحویلی دیکھیں۔ اثرانگیزی اورپہیلیاں دیکھیںاورپھر یہاں بھی سوال ؎ ’’ایسا کیوں تھا یا ایسا کیوں ہوتاہے۔کسی انسان کا وجود کیسے کس طرح الجھ جاتاہے کہ پھر وہ زندگی کو خود سلجھانے نہیں پاتا اور سلجھانے کی کوشش کرے تواورالجھ جاتاہے۔اس کا جواب آج تک نہیں ملا ۔‘‘ اورپھر یہ بھی۔ ’’اس کیوں کا جواب منطق کی کسی کتاب میں ہے نہ عقل کے صحیفوں میںتوبھلا میں تم کو کیا جواب دوں۔‘‘ کہانی ،مکالمے،صحیفے پھر بھی لکھے جا رہے ہیں شاید زندگی کے انھیںسوالوں کے جواب میں ،جواب کا نہ ملنا ہی زندگی کا معمہ ہے اوراس کی شناخت بھی اورکہانی کی کہانی بھی کہ کوئی عمدہ کہانی زندگی کے سروکار سے الگ ہو کر زندہ نہیںرہ سکتی ۔اسی لیے دیکھئے بیکامیں بد صورتی مسئلہ تھی یہاں خوبصورتی۔’’نصیبوں جلی روز بروز چڑھتے چاند کی طرح اجلی ہو ئی جا رہی ہے۔‘‘محبت کی حقیقت انسان کی حقیقت اورزندگی کی حقیقت ۔گڈ مڈ حقیقت اورپھر بے رحم سفاک حقیقت جس سے اکثر تانیثیت ہی لہو لہان ہوتی ہے اورکہانی بھی کہ اس کا وجود بھی تانیثی ہے۔غرضکہ کہانی اور کہانی کار کے درمیان کی مکالماتی کہانی جسے بعض مصنوعی کرداروں کے ذریعہ سنبھالا بھی دیا گیا ہے جس سے یہ صرف کہانی کی کہانی نہیںرہتی۔انسان اورانسان زندگی کی کہانی بن جاتی ہے۔حالانکہ کہانی کا ر نے آخر میں اسے محض گونگی سوچ کہا ہے جسے بیان کرنامشکل۔صرف سوچ سے رشتہ اوریہ جملہ۔’’یہ وہ تحریر ہے جوبہت سے چہروں پران کے کتبوں کی طرح لکھی ہوئی ہے۔ اب ان کتبوں کو کیا پڑھنا۔‘‘لیکن زندہ کتبے توپڑھے ہی جاتے ہیں،سوالات تو کئے ہی جاتے ہیں ۔حالانکہ کہانی کا ر کی خواہش یہ ہے کہ اسے ایسی کہانیاں لکھنی چاہئے جن میں کوئی سوال نہ ہو لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ زندگی ۔زندگی کے پیچ و خم ۔سرد گرم کے بطن سے خار اورآزار پیداہوتے ہیں اوراوران کے بطن سے سوالات جن سے ہم ہزار پیچھا چھڑائیں لیکن وہ ہمارے پیچھے پیچھے ہیں۔سایے کی طرح۔ہم سایے کی طرح۔ایک فلسفیانہ رخ۔کہانی میں ابھرتا ہے جو کہانی کو وقیع اور بلیغ بناتا ہے تبھی تولارنسؔ نے کہا ہے کہ فکشن جب تک فلسفہ نہ بن جائے بڑا فکشن کہلائے جانے کا حق دارنہیںہو تا۔یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ نسیم کی تخلیقات میں ایک فکر ہے۔سوچ ہے۔نظریہ ہے اور فلسفہ بھی۔اوریہ سارے عناصران کی دیگر کہانیوں میں مختلف انداز و اسلوب میں پھیلے بلکہ ڈھلے ہوئے ہیں ۔وش می گڈ لک ایک معمرغیر شادی شدہ کا معاملہ ہے جسے گھروالے مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔جدید تناظراورکہیں کہیںمغربی تناظر۔کہیں کہیں یہ بھی مسئلہ،’’ماں اسپنش،باپ پشاورکا اوران دونوں کی مشترکہ تخلیق کسی اوردنیا کی۔‘‘
اس مجموعہ کی یہ پہلی کہانیلیتاہے۔’’جسم توہر عمر میں چاہت کا طلبگار ہوتاہے اسکی نمو ہی محبت کی حرارت میں ہے۔جہاں ایسا نہ ہو وہاں آنسوئوں کی صدا ابھرتی ہے۔مجھے کسی کا انتظارنہیں ۔حالانکہ وہ سراپا انتظار تھے۔ پتھرائی آنکھیں،ماتمی لباس،مغفرت کی دعائیں وہ بوڑھا مرتے مرتے یہی کہتارہا ۔Fack You all go to hell مغرب میں رشوں کی سوداگری ،زندگی کی بازی گری۔موت کی تیاری اورزمین جائداد کی نگہہ داری ایک صارفی تہذیب کا اشاریہ ایک بزرگ کاالمیہ۔اس مجموعہ کی پہلی کہانی کو ایک مرد کے تئیں فطری ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے مغربی کی تہذیبی اور سماجی زندگی کا تخلیقی اشاریہ بن جاتی ہے۔ نہالِ حیرت عشق میں پہلی بارواحد متکلم کا کردار ہے۔ روپوشی ،قید تنہائی اوردھشت گردی کی کہانی ۔ظاہر ہے کہ یہاں مرد کو ہونا ہی تھا اوروہ عذاب جسے صرف محسوس کیا جا سکتاہے لکھا نہیںجا سکتا ۔لیکن نسیم نے عورت ہو کر بھی لکھ دیا کہ وہ عورت بعدمیں ہیں انسان پہلے اوردردمند فنکار اس سے بھی پہلے اور یہ درد مندی نیز ہوش مندی قدم قدم پر ایسے سوالات بھی کرتی چلتی ہے۔ ’’میں اب سوچتاہوں کہ انسان میں جینے کی وہ کون سی عظیم طاقت ہے جس کو اتنے بدترین حالات میں بھی اپنے بازوئوں میں سمیٹے رہتی ہے‘‘دہشت گردی کی انتہائی اورکہانی کا یہ جملہ۔’’اس وحشت کا اس بربریت کا کیسے نقشہ کھینچوں کیسے بیان کروں جس کو دیکھنے کے بعد میری آنکھیں ،میراوجود،میرا خدا،میرا مذہب اور لفظ انسانیت سب مجھ میں پتھراگئے۔‘‘اس بر بریت میں ایک لڑکی کا کردار ابھرتاہے اغوا شدہ لڑکی۔ ایک لڑکی اورایک مرد اور دہشت گرد۔عجیب تثلیت ۔عجیب ماحول اورپھر اس دہشت ناک اور کربناک بارودی ماحول میں عشق کی ایک کرن نمودار ہوتی ہے ۔ایک بھرائی ہوئی آواز گونجی ؎ دلاورخاں کو تمھارا عشق بدل دیا لڑکی۔ہم نے معلوم نہیں کتنے لوگوں کا گلا کاٹا ہے کتنے لوگوں کوگولیوں سے بھوناہے مگر جب ہمارا وجود میں داخل ہو گیا تب سے ہم جیسے کسی گہری نیند سے جاگتاچلاگیا ہم تم پرہونے والا ہر ظلم اپنے دل پر گزارا ہے۔‘‘ عشق کی کیفیت ظلم کی معرفت ہواکرتی ہے اوردہشت گردکو باغی عاشق بنا دیتی ہے یہ جملہ بھی دیکھئے۔’’اس عشق نے ہمارا سوچ کا پتھر یلی پہاڑی زمین کو کھیت والی مٹی میں بدل دیا۔‘‘کھیت کی مٹی میں پھول نمودار ہو گئے۔محبت کے پھول اورکہانی اس جملہ پر ختم ہو تی ہے ؎ ’’تم آزادہو صنو بر خاں مگر ہم آزاد ہو کے بھی آزاد نہیں ہوا۔‘‘ عشق کا جذبہ کس طرح پتھر میں پھول کھلادیتاہے اس کو بہت پہلے جگا ۔بابو گوپی ناتھ وغیرہ میں دکھایا گیا ہے لیکن یہ کہانی نئے تناظرمیں ہے۔دھشت گردی کے تناظرمیں۔نئے سیاق میں لیکن جذبہ عشق وہی پرانا کہ طاقت عشق سے کیا کیا معرکے اور عجوبے سرہوتے ہیں اورکانٹے پھول بن جاتے ہیں اسی لیے اس کہانی کا عنوان ہے
نہال حیرت عشق جسے نسیم نے نہایت دانشورانہ و فنکارانہ انداز میں پیش کر کے اپنے موضوعات تنوع کا ایک اور کارگر اور پر اثرثبوت دیا ہے۔’’اندم اور اس جیسے مردوں کے نام ‘‘پوری کہانی مردوں کے نام اس لیے یہ الزام غلط ہو سکتاہے کہ نسیم سید صرف عورتوں پر کہانی لکھتی ہیں ۔لیکن عور ت یہاں بھی مردوں کے دائرے میں گھری ہو ئی سمٹی ہو ئی۔عجب کہانی جہاں ٹوبوکیفے ہے اورنائجرین پراٹھا بھی۔پھر ایک زخمی پرندہ اورپھر پرندوں کی جگہ بوڑھی عورت جسے ابتدا ً چڑیل سمجھا گیا۔عجیب تجسس کہ کچھ روز قبل ہی ایک عورت پرندے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ جواصلاً چڑیل تھی ۔تجسس کی ایک پرت اورجہاں شک و شبہات اوراندھ وشواس ہو وہاں کسی مذہبی فردکی مداخلت ناگزیر چنانچہ وہی ہوا۔مذہبی فرد کی کارگزاریاں اورتماشائیوں کی حیرانیاں ۔یہی ہے کہانی کا پلاٹ۔لیکن کہانی کی حقیقت توکچھ اورہے اور یہیں سے اس کے رشتے زندگی سے جڑتے ہیں ۔پولس کی مداخلت ۔بوڑھی عور ت کی حفاظت اورعوام میں حیرت اورحیرت سوال کو جنم دیتی ہے ۔ذرا دیکھئے مردوں کے سوالات۔ یہ ہمیشہ کوئی عورت ہی پرندے سے چڑیل یا چڑیل سے عورت کیوں بن جاتی ہے؟کیا کبھی دیکھا کہ کوئی پرندہ مرد بن کے گراہو؟ اوردوسرے مرد کو جواب ۔’’یار عورت اورچڑیلوں کی خصلت ایک ہوتی ہے اس لیے‘‘مردانہ سماج کی تعبیر ۔عورت کی مظلومیت کی تصویر اورپولس کی تفتیش ایک ساتھ ابھرتی ہے۔
بوڑھی عورت کا جواب۔’اتنی جلادیں تو ایک اور جلادو‘‘کہانی کا ایک سراپکڑ میں آتا ہے۔پولس کی تفتیش جاری ۔اب عورت کابیان بھی جاری۔’’میں سب کو پہچانتی ہوںمگر کوئی مجھے نہیں پہچانتا۔‘‘ اس لیے کہ لوگ ابھی بھی اسے چڑیل سمجھ رہے ہے اورپولس بھی۔پھر یہ جواب ؎ ’’مجھ جیسی اکیلی کمزوراوربوڑھی عورتیں چڑیل ہو نے کا ناٹک نہیں رچاتیں بلکہ خود کو چڑیل مان لینے پر مجبور کر دی جاتی ہیں ۔‘‘ غم ،وکھ،اوردردکی تجسیم نے پولس کو پگھلا دیا ۔انسان کو جگادیا اوربوڑھی عورت جسے سب چڑیل کہہ رہے تھے بوکا آنٹی نکلتی ہیں جو ساری عمرقدیم رواجوں اوراندھ وشواسوں سے لڑتے لڑتے بوڑھی ہو کر خود اندھ وشواس کا حصہ بن گئی۔درد بھراجملہ ابھرا۔ ’’تیری بوکاآنٹی تو اب چڑیل ہے‘‘اورکہانی فلیش بیک میں چلی جاتی ہے اورنہ بھی جاتی اوراسی جملہ پرختم ہو جاتی تب بھی اس کا اصل سراگرفت میں آجاتا لیکن کہانی کو آگے بڑھنا تھا سو بوڑھی عورت کی مظلومیت کی ایک اورداستان سنا گئی۔پڑھی لکھی عورت ۔بوڑھی اورکمزور عورت جوان اوراولاد کی موت پر چڑیل سمجھی جاتی کہ وہ جواب بیٹے کو کھا گئی اوریہ جملہ۔ ’’جو عورت کمزورہو اور میری طرح بوڑھی بھی اکثرمیری ہی طرح چڑیل ثابت کر دی جاتی ہے۔‘‘ اورپھر بربریت کی ایک اور تصویر ابھرتی ہے جو پولس کو بھی دہلا دیتی ہے اورپھر۔
’’انو! تیری بستی کی ہر کمزور عورت کوئی طعنہ ہے کوئی الزام ۔کوئی رحم ہے۔میں بھی عور ت نہیں بد روح ہوں۔میری جھریوں سے چڑیل کی داستان رقم ہے اسے پڑھو اندم۔ اور پھر یہ جملہ۔’’یہ لے ماچس یا تو ایک اورچڑیل کو جلادے۔یا ان روایات کو جلادے جوہمیں سانپ چھپکلی ۔پرندہ ، چڑیل جس شے میں چاہے تبدیل کر دیتی ہیں۔‘‘ اورپولس کا غیر متوقع جواب ؎ پرنسپل بو شاکا۔میری بوڑھی آنٹی۔یہ ذلت۔یہ طعنہ۔یہ الزام آپ پر نہیں مجھ پر اورمجھ جیسوں پر ہے۔جو سب جانتے ہوئے بھی یوں گزر جاتے ہیں جیسے کچھ نہیں جانتے۔‘‘ اورپھر اسی چڑیل یعنی بوکا نے اپنی داستان ستم کتاب میں لکھی اوراسے اندم سے منسوب کیا۔اندم اوراس جیسے مردوں کے نام۔اوریہی کہانی کا عنوان ہے جو ظاہر تو یہ کرتاہے کہ یہ کہانی مردوں سے متعلق ہے لیکن مرکزی کردار عورت اور عورت کی مظلومیت بنتی ہے۔لیکن مردجو ہوتے ہیں اوراچھے بھی ۔یہی صورت عورت کی بھی ہے لیکن پھر بھی عورت کی مظلومیت ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کو نسیم سید نے طرح طرح سے مختلف تہذیبی و جغرافیائی سیاق و سباق میں پیش کیا ہے اورپھر ان کا پیش کرنے کا مخصوص انداز ۔ مجموعہ کے عنوا ن کی کہانی جس تن لاگے۔بارہ سال سے پیچھا کرتی ہوئی کہانی جس کا بظاہر مرکزی کردارعبد الستارایدھی ہے پاکستان کے ایدھی جوکئی ایدھی سینٹر چلاتے ہیں کنیڈا کی نسیم سید پاکستان گئیں تو ایدھی کے منیجر نے خاتون زبیدہ کے حوالے کیا۔ تین سال کی زبیدہ خود اپنے آپ میں کہانی اس کے ہی جملے دیکھئے ؎ ’’بھلا بتائیں میڈم جی۔ساٹھ سال کا جھلنگی چارپائی جیسا مرد اورمیں سولہ سال کی کورے بان جیسی۔میں تو جی کاندھے پر ڈال کر اپنا کورا بان نکل بھاگی گھر سے شادی والی رات۔چھوٹا سا گائوں تھا میرا تو سب ڈھول پیٹنے اوربھنگڑا ڈا لنے میں مگن تھے میری شادی کی خوشی میں اورمیں اپنی جھگی کی پوس ایک کونے سے ہٹا اپنے ہنستے بولتے بدن کو ڈال اپنے کندھوں پر بھاگی جا رہی تھی معلوم نہیںکدھر۔اللہ کا کرم دیکھئے میڈم جی کہ کسی نیک کرموں والے نے ایدھی پہنچا دیا بس جی کوئی نیک کام کیا ہوگاکسی جنم میں جو اتنے اپنے مل گئے۔‘‘ ایدھی ایسے کرداروں کو چوم کے اٹھاتاہے اورکلیجے سے لگا کر ان کو زندہ رکھتاہے تبھی تونسیم نے لکھا ؎ ’’نو عمری میں بوڑھی ہو جانے والی کیانیاں دھندلی آنکھوں اورچہرے کی جھریوں میں لکھی اپنی بے بسی اوربے گھری کی داستان چھپائے کہانیاں ایک پناہ والی چھت،پیٹ بھر کھانا اور جمات پیڑ جیسے ایدھی کی محبت کی تسبیح پڑھتی ملیں۔‘‘
باہم کوئی رشتہ نہیںکوئی خون نہیں پھر بھی عجیب پیار۔عجیب احساس اورعجیب تجربہ اورعجیب آواز ہمارے گھر والوں سے کہیں ہمیں گھر سے جائیں۔لیکن پھر یہ بھی ۔بس جی خون کے رشتے وشتے کچھ نہیں ہوتے۔ سب جب تک ہیں ان کی کوئی غرض۔ کوئی کام جڑاہو رشتوں سے۔گھر والے انھیں اس پناہ گاہ میں چھوڑ گئے۔محروم و مایوس کرداروں کا سینٹربلکہ عبرت گاہ۔ انھیں میں سکینہ اورمریم بھی یہ جوان لڑکیاں ہیں خصوصاً مریم جو حاملہ ہے وہ یہاں کیوں ہے کسی کو نہیں معلوم کہ یہ حمل کس کا ہے لیکن مریم خود آ گے بڑھ کر نسیم کی ممتا بھری نظروں کو سمجھ کر کہہ اٹھتی ہے ؎ ’’آپ نے پوچھا نہیں کہ یہ جو بچہ ہے میرے پیٹ میں یہ کس کاہے ؟‘‘ ’’مریم خود کو ہلکان مت کرو ،کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ بچہ کس کا ہے۔‘‘ ’’پڑتاہے بڑافر ق پڑتاہے۔ اس کے تیزابی لہجے میں نفرت ،حقارت غم غصہ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے۔بجھے ہوئے انگاروں کی راکھ کو سب کچھ شامل اورپھر اس نے تیزاب مجھ پر انڈیل دیا۔ ’’یہ میرے باپ کا نطفہ ہے میرے پیٹ میں۔‘‘ مریم کی کہانی چپ گئی کہ اسے چپ رہنے کی تاکید ہے۔ میںاس کی انڈیلی ہوئی تیزاب میں قلم ڈبو رہی ہوں کہ یہ کہانی کار کا مقصدہے۔‘‘ ایک جھناکے کے ساتھ کہانی ختم۔یہ انسان،خاندان اوران کے رشتے کتنے ناپاک کتنے سفاک اور ایدھی سینٹراور خود ایدھی جو پس منظرمیں ہے کس قدر پاک اورشفاک،نسیم سید نے ایدھی اورمریم کے ذریعہ موجودہ زندگی ۔موجودہ پاکستان اور موجودہ انسان کی دلدوز کہانی پیش کردی۔ کہانیاں اوربھی ہیں۔عوررت کی کہانیاں مختلف کردار جو رسموں ،رواجوں میں گرفتار اپنے عورت ہونے کی قیمت اداکر رہی ہے۔پر سہ میں بوژنیاں کی عورتوں کا دکھ۔دیگر کہانیوں میں بھی عورت کہیں زندگی کا حوالہ اورکہیں زندگی عورت کاحوالہ بقول حمید شاہد ؎ ’’ہمیں اس خاتون افسانہ نگارنے بتا دیا ہے کہ عورت ہونا کیا ہوتاہے عورت کے متعلق سفاک حقیقت نگاری کا منصب ادا کرتی یہ کہانیاںہمیں اپنے وجودوں سے نکل کر اپنے کرداروں کی کھال اوڑھنے اوروہ سارے چر کے سہنے پر مجبورکردیتی ہیں جو ان کرداروں کے بخت میں تھے۔‘‘ منٹو کو جو کرنا تھا وہ منٹو نے جرات سے کیا ۔اب نسیم سید نے پوری جسارت اورحرارت کے ساتھ پوری تفکیر اورتخلیق کے ساتھ بتایا کہ عورت کا دردعورت ہی سمجھ سکتی ہے نیز یہ کہ عورت ہونا کیا ہوتاہے۔کیسا ہوتاہے۔
ان پر اثراورپر نظر کہانیوں کو پڑھتے ہوئے ساری تنقیدی اصطلاحیں دھندلی ہو تی نظرآ تی ہیں۔ نسائی حسیت یا تانیثی مزاحمت۔ ان میں کم کردار ہی ایسے ہیں جن میں نسائی حسیت یا تانیشی مزاحمت سراٹھا کر چلتی ہو اوراگر اسکا شائبہ ہے تووہ فطری زیادہ ہے نظر یاتی کم۔ اس لیے کہ نسیم سید نے ترقی پسند تصورات اورسماجی تجربات کچھ اس فکر و خیال کے ساتھ پیش کیا ہے کہ یہ ایک انسانی و اخلاقی شق بن کر ابھرتے ہیں اورسید ھے دل میں اتر جاتے ہیں۔ نسیم سید کا وصف یہ ہے کہ وہ بندھے ٹکے یا مخصوص روایتی جغرافیائی تناظرمیں نہیں بلکہ اس گلو بل اور پوسٹ کلونیل بلکہ یوں کہیے کہ اسے عالمی برداری کے سیاق وسباق میں پیش کرتی ہیں جس سے ان کا دائرہ انسانی اورتخلیق کا وجوانی نظریہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے ۔ہر چند کہ نسیم سید کا مخصوص و دلکش اسلوب لطف وکیفیت پیداکرتاچلتاہے لیکن اس کا فکری و نظریاتی نظام اسے تمام طرح کی خانہ بندیوں سے بلند کر دیتاہے مسٹرتھامس اور ایدھی، اندم کے کردار میں وہ بین الاقوامی مسائل سے وابستہ ہو جاتی ہیں جہاں صرف انسان ہے۔مظلوم انسان،اب اس کا کیا کیا جائے کہ مظلوم انسانوں میں عورت کی مظلومیت بھی زیادہ تھی اورآج بھی ہے۔اب یہ زیادتی اگر نسیم سید کے افسانوں میں نظر آتی ہے تویہ سماج کی زیادتی ہے نسیم سید کی نہیں چلتے چلتے ایک بات اور۔ کوئی کہہ سکتاہے کہ یہ روایتی کہانیاں نہیں ہیں یا روایات سے ہٹ کر ہیں اس حد تک کہ تکنیک کے اعتبارسے ان کو کہانیوں کہاجائے یا نہیں ۔بحث ہو سکتی ہے اورہونی بھی چاہئے کہ عمدہ کہانی یا خیالات پر ہی بحث ہو تی ہے ۔تھوڑاسا مسئلہ قاری کا بھی ہے،ہر سطح کا قاری اپنے حساب و مزاج سے کہانی سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتاہے ۔اپنی تمنائوں اورتجربوں کے درمیان سے ہی گزرناچاہتاہے۔وہ محض کہانی کار کی ذات اورتجربات کے ساتھ کتنی دورتک چل پائے گا۔یہ ایک مسئلہ ہے جو اکثرزیر بحث رہا اور ایک ہی مسئلہ اوررنگ کی کہانیوں میں بطورخاص۔اس لیے کہ آج کے دورمیں کہانی کی صرف اک سطح ہو توسوال ہو سکتاہے کہ کہانی کی ایک ہی سطح کیوںہو۔کیا عصمت کی کہانیاں۔قرۃ العین حیدر کے افسانے ایک ہی سطح کے ہیں ۔پھر تو نسیم سید کی کہانیاں کیوں؟کوئی یہ بھی کہہ سکتاہے کہ یہ کہانیاں روایتی سانچوں کو توڑتی ہیں۔اگر ایسا ہے تو بھی غلط کیا۔سانچہ توڑنا ایک انحرافی عمل ہے جو عہد اورمسائل عہدکے ساتھ چلتاہے دیکھنا یہ ہے کہ نیا سانچہ کیا ہے؟سچ تویہ ہے کہ نسیم سید سانچہ نہیں توڑتیں بلکہ سماج کا سانچہ اورڈھانچہ پیش کرتی ہیں ۔نیا اورپرانا دونوں ہی اور اس ڈھانچہ سے صدیوں کے مردہ سماج کا بو سیدہ ،ڈھانچہ نکال کرلاتی ہیں ۔ اورپرانی حقیقتوں سے نئی حقیقتیں تلاش کرتی ہیں ۔نئے آثاراورآزار کچھ اس قدر مفکرانہ فنکارانہ انداز سے پیش کرتی ہیں کہ مسہری،چٹائی،جائے نماز تک بو لنے لگتی ہے۔اورکہیں کہیں موبائل اورکمپیوٹر بھی۔مشرق اورمغرب بھی۔ان دونوں کے درمیان ہے۔
انسان ،بدلتا،بگڑتا،سنورتا،ایک دوسرے کو زیر زبر کرتا انسان۔بس یہ کہانیاں انھیں انسانوں کی داستان ہیں ،لطف،پر کشش،رومان،وجدان،سے پر ایک نئی دنیا کا عرفان پیش کرتے ہوئے نسیم سید ممتاز و منفرد شاعرہ توہیں ہی ان افسانوں کے ذریعہ بحیثیت افسانہ نگار دھماکے دار انٹری لے چکی ہیں۔مبارک باد۔بس اب ایک ناولٹ یا ناول کا انتظار ہے۔