(اصغر بشیر)
اگر ہم الجھی ہوئی ڈور کا سرا ڈھونڈتے رہیں گے تو شاید کبھی اس ڈور کو سلجھا نہ سکیں۔ ہمیں ڈور کو سلجھانے کے لیے اس کی الجھنوں کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ ہم ایک الجھ سے دوسری الجھ تک اپنی انگلیوں سے چھلانگیں لگاتے جاتے ہیں پھر کہیں جا کر اس کا سرا ہاتھ آتا ہے۔ اگر ہم ڈور کی الجھنوں کا حصہ بنے بغیر اس کا سرا یا دوسرے لفظوں میں اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے تو شائد ہم یہ کام کبھی سر انجام نہ دے
سکتے۔ ہمارے قومی و معاشرتی مسائل بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیش کرتے ہیں۔ ہم ان سے الگ تھلگ رہ کر ان کا شافی حل نہیں ڈھونڈ سکتے بلکہ ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ان کا حصہ بن کر انہیں محسوس کرنا ہو گا اور اپنے تئیں کوشش کرتے ہوئے انہیں سدھارنا ہو گا ۔ پھر کہیں جا کر ہمیں مسائل کا سرا نظر آئے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص دریا کے بارے میں جتنا مرضی علم رکھتا ہو، وہ دریا سے باہر بیٹھ کر اندر کے تجربے کو بیان نہیں کر سکتا۔ آج مردم شماری ۲۰۱۷ء کے حوالے سے ٹریننگ مکمل ہوئی ، ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ سوچا یہی بیان کروں گا۔
ہمارے ہاں مختلف عوامی منصوبے نا کام ہونے میں جہاں کرپشن ، بدیانتی، لا پرواہی اور لاعلمی کا ہاتھ ہے ، وہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے شماریاتی اعداد اکثر و بیشتر فرضی ہندسوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ منصوبے یا تو عوامی ضروریات کے مطابق نہیں ہوتے یا پھر وہ ضرورت سے بہت کم معیار و مقدار میں موجود ہوتے ہیں ۔ اور منصوبے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کسی منصوبے کی ناکامی میں سب سے بڑا ہاتھ عوام یا عوامی نمائندوں کا ہوتا ہے جو منصوبوں کے متعلق شماریاتی معلومات حکومت کو فراہم کرتے ہیں۔ چھٹی مردم شماری ۲۰۱۷ء کی صورت میں ہمارے پاس ایک موقع موجود ہے کہ ہم ایک ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ، اپنی زندگی کے متعلقہ کوائف حقیقت پر مبنی بتائیں ۔ اور اس عمل کو ایک قومی فریضہ سمجھتے ہوئے سر انجام دیں۔
چونکہ ہمیں حقیقت کا علم نہیں ہوتا اور لاعلمی ڈر اور خوف کو جنم دیتی ہے۔ اسی لیے جب ہمیں زندگی میں کسی نئی چیز سے واسطہ پڑتا ہے ہم لوگ ڈر اور خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ ۱۹۹۸ء کی مردم شماری میں لوگ گھروں میں چھپ جاتے تھے، ڈر کے مارے اپنے اعداد و شمار نہیں لکھواتے تھے کہ کہیں حکومت ان پر نیا ٹیکس نہ لگا دے۔ لوگ اپنا شناختی کارڈ نہیں لکھواتے تھے کہ کہیں ان کے نام پر قرضہ نہ نکلوا لیا جائے یا ان کی زمین نہ ہتھیا لی جائے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مر دم شماری ایکٹ کے مطابق خانہ و مردم شماری کے حوالے سے دی گئی انفارمیشن کو کسی بھی عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔
مردم شماری کا بنیادی مقصد ملک کے افراد کی گنتی کرنا اور ان کو میسر سہولیات کے معیار کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ یہاں پر ایک اور بات قابل ِ ذکر ہے کہ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کو فیصدی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے جس وجہ سے اس کی شخصی اہمیت ختم ہو جاتی ہے البتہ معروضی اہمیت دو گنا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پر مبنی معلومات فراہم کرے تا کہ حقائق کی بہتر تصویر ارباب حکومت کے سامنے پیش کی جا سکے۔
مردم شماری ۲۰۱۷ ء ذمہ دار شہری بننے کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں درست معلومات دینے کے لیے ہمیں اپنے ٹیبوز توڑنے ہونگے۔ ایک روایت پسند شخص کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنے بچیوں یا بہنوں کے نام اور ان کی عمریں بتائے۔ یہ بات فیس بک پر پڑھنے والے لوگوں کے لیے ایک مذاق ہو گی لیکن برالا برانچ یا راوی کی پٹی پر رہنے والوں کے لیے یہ ایک جینے اور مرنے کا مقام ہے۔ صرف اسی بات پر وہ جان لے بھی سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔ ایک گھر کے سر براہ کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ شمار کنندہ کو بتائے کہ اس کے گھر میں مخنث بھی ہے۔
جب ہم مسلسل منفی رویے دیکھتے ہیں تو مثبت رویہ ہمیں غیر مانوس لگتا ہے۔ تبدیلی ایک داخلی فعل ہے۔ یہ ہمیشہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم قومی اور معاشرتی مفادات کے لیے اپنی داخلی و ذاتی غیرتوں کو ’’چل او جانے‘‘ کہنا شروع کریں گے تب ہی اصل تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔