مزاحمتی ادب اور اس کی تشریحات

مزاحمتی ادب اور اس کی تشریحات

از، نعیم بیگ

بیسویں صدی میں بعد از جنگِ عظیم دوئم ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جہاں دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام نے دم توڑنا شروع کر دیا تھا۔ یورپی اقوام ، بالخصوص اتحادیوں کی جملہ مقتدر سیاسی جماعتوں کو جنگ کی ہولناک تباہیوں کے پیشِ نظر ان اندیشہ ہائے فکر کا سامنا تھا کہ اب انہیں ان کالونیز سے مزاحمت کا شدید سامنا کرنا ہوگا، جہاں استعمار کی لوٹ مار اور بد اعمالیوں سے معاشی و سیاسی بدحالی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ یورپی جنگوں نے نو آبادیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک ایسا زخم لگایا تھا جس سے امپیریلزم کا اعصابی سسٹم انتشار وانتقاض کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ اس سے پہلے بھی استعماریت اپنے طور پر کالونیل دور میں کمزور سیاسی، ثقافتی و سماجی مزاحمت کا سامنا تو کر رہی تھی، لیکن ان کی بھرپور طاقت کے سامنے علاقائی اور مقامی قوتیں ہیچ تھیں۔ اس تناظر میں چالیس کی دھائی کے آخری برس بہت اہم تھے۔ تین بڑے براعظم ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ بالواسطہ طور پر نو آبادیاتی نظام کی جکڑ میں تھے، جہاں سیاسی و ادبی مزاحمت نو آبادیاتی ثقافتی پیراڈاکسز کو لئے ابھر رہی تھی لیکن قطعیت قبول عام نہ تھی۔ ایسی صورت میں جب ۱۹۴۷ میں ایک طرف ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کا اعلان ہوا، اور پاکستان کا قیام وجود میں آیا، وہیں مشرقِ وسطیٰ میں ۱۹۴۸ میں اسرائیل کا قیام ایک اہم پیش رفت تھی۔

برصغیر میں ہر دو ممالک تقسیم و آزادی سے پہلے چونکہ سلطنتِ انگلشیہ کے تحت تھے لہذا یہاں پر مابعد نو آبادیاتی مسائل کی شاخیں ابھی نئی کونپلوں سے آشنا نہیں ہوئی تھیں، انہیں پھوٹنے کے لئے مسلسل کنفلکٹ اور مزاحمت جیسے جوہر کی آبیاری کی ضرورت تھی۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں کانگریس نے ایک دبیز ریاستی پردہ اوڑھ لیا اور فوری طور پر آئین سازی کی اور اس کے بعد اپنی زرعی و دیگر سوشل اصلاحات کی طرف متوجہ ہوگیا، جبکہ نومولود پاکستان مابعد تقسیم نہ صرف لیڈر شپ کے بحران کا شکار ہوگیا بلکہ اپنے معاشی مسائل اور شمال مشرقی اور شمال مغربی سرحدوں کی غیر متعینہ صورت حال سے دوچار رہا۔

دوسری طرف اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین کی تقسیم سے فلسطیوں کا ایک اکثریتی حصہ محروم اِلآرث کا شکار ہو گیا۔ جغرافیائی محرومی سے قطع نظر مذہبی اور متبرک مقامات، بیت المقدس کی غیراعلانیہ تقسیم اور بعد ازاں اسرائیل کی انانیت مزاحمت کی تحاریک کا ہر اول دستہ ثابت ہوئیں چونکہ وہاں قیادت اپنی فکری سوچ کے ساتھ جواں تھی، یوں مزاحمت اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگی۔

تاہم ادب میں مزاحمتی اصطلاح کے طور پر ’ ادب المقاومۃ ٗ ‘ کی تاریخی اصطلاح اس وقت رائج ہوئی ، (Adab ul Muqawama meaning thereby (Literature of resistance) which later termed as doctrine of Muqawma ۔
جب ۱۹۶۶ ء میں فلسطینی ادیب و نقاد غسان کنفانی نے ’’ فلسطین میں مزاحمتی ادب ۶۶۔۱۹۴۸ ‘‘ (۱) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ غسان نے یہ مضمون ۱۹۶۷ کی جنگ سے پہلے لکھا جس میں فلسطینی مجاہدین اور اسرائیل کے کنفلکٹ کو نہ صرف نمایاں عالمی ادب کا حصہ بنایا بلکہ ہم عصر تحاریک جو اس وقت آزادی کی جدو جہد میں لاطینی امریکہ ، مشرقِ بعید اور افریقہ میں جاری تھیں کے ساتھ لا کھڑا کیا۔ اس مقالے میں مغربی استعماریت کے خلاف ایک پوری تاریخ درج ہونے کے ساتھ ہی مزاحمتی ادب کا کردار، اس کے بنیادی عناصر اور وسیع تر مابعد نو آبادیاتی رحجانات، تفاوت کو زیرِ بحث لایا گیا۔ غسان نے ایک کام اور کیا کہ انہوں نے علامتی ابلاغیات ( سیمیوٹک) سے ہٹ کر مزاحمت کے وسیع تر معنیاتی نظام کو بھی تشکیل دینے کی صراحت کی۔ مزاحمتی متون کی تثلیث کاری ’ سیاق، تناظر و ثقافت‘ کو یک جا کرتے ہوئے اسے تجارب کی دنیا سے نکال کر ایک حقیقت کا روپ دینے کی بے مثال کوشش کی جو بعدازاں مزاحمتی محرکات کی متصور ہ صورت متعین کرنے مدومعاون ثابت ہوئی۔

جب ۱۹۶۶ میں یہ مقالہ لکھا گیا تب اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں سنسر شپ لگایا ہوا تھا، لہذا ایک عرصہ تک عرب دنیا اور عالمی دنیا مقبوضہ فلسطین میں لکھے جانے والے ادب سے ناآشنا تھی۔ اس زمانے میں غسان نے زیادہ تر ادبی ملفوظات کو محفوظ کرنے اور انہیں یک جا کر نے میں وقت گزارا۔

اس کا خیال تھا کہ مزاحمت ہمیشہ مقبوضہ اور غیر مقبوضہ علاقوں میں کسی ایک قوم کے منقسم ہو جانے پر منصہ شہود پر آتی ہے ۔ جہاں ثقافت اور لسانی بنیادیں یکساں ہوں لیکن ایک حصہ تارک الوطن ہو جائے یا جلا وطن اور دوسرا مقبوضہ حصہ میں اپنی ثقافت و عقائد کے چھینے جانے پر اسکا محافظ بن جائے ۔ غسان کے فکری مزاحمتی نظریے کے مطابق مقبوضہ حصے میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں ’’ جبری ثقافتی حصار‘‘ یا ’’کلچرل سیِج ‘‘ کی صورت اختیار کر جانے کی وجہ سے اپنی اسی حیثیت سے پہچانی جائیں گی، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے مزاحمتی ادب جنم لیتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے غسان بہ ظاہر اس بات سے لاتعلقی اور ترک دعویٰ کا اظہارکرتا ہے لیکن درحقیقت یہ بنیادی حقائق ہیں جہاں وہ مزاحمتی ادب کے ان جوہری عناصر کی نشان دہی کرتا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے عالمی نقادوں کو ایک ایسا خلا ( ویکیوم ) مہیا کر دیتا ہے جسے پُر کرنے کے لئے عالمی دانشور اپنے عمودی اور افقی تحقیقی و فکری سطح کے نئے خیالات تجسیم کریں۔ دراصل یہ حقیقت پسندانہ عمل خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ غسان کا ترکِ تعلق کا یہ بیان بذات خود ادبی تنقید و تحقیق کے ان ضوابط کے تحت ان تمام مضامین کو جو مزاحمتی ادب کے دائرہ کا ر میں آتے ہوں پر بھرپور توجہ اور اضافت کا اظہار ہے۔
غسان کہتا ہے ۔۔۔ ’’

The attempts at a history of the resistance literature of a given people are usually, for reasons that are self-evident, accomplished after liberation. With respect to the literature of resistance in occupied Palestine, however, it is necessary that the Arab reader is general and the Palestinian emigrant in particular study its persistent continuation, because it is fundamentally to be found in the language itself and speech of the Arabs of occupied Palestine. The resistance springs from these linguistics initiatives working together with the rigidity of conditions of the situation

اس پسِ منظر میں یہ قرین از قیاس ہے کہ کوئی بھی عمومی نظریاتی فلسفہ اپنی اضافت اور قطعیت کے ساتھ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا بالخصوص مزاحمتی ادب کے حوالے سے جب تک کہ متعلقہ تنقید نگار اس نظریاتی و فلسفیاتی معنیاتی نظام کے تفاوت کو جغرافیائی طور پر اپنی ذاتی موجودگی سے خود پرکھ نہ لے۔ مزاحمتی ادب میں قلمکار دور بیٹھ کر فکشنل انداز سے اپنی تحریر کو ضوابط سے مُرصّع تو کر سکتا ہے لیکن اُن انِتقادی تشکیلات کی حدود کو چھو نہیں سکتا جو موجوداتِ خارجی سے پیدا ہو تی ہوں۔

معروف نقاد میلڈوناڈو ڈینس اپنے مزاحمتی ادبی کے مقالے ’’ اینٹیلکچوئلز رول ان پیرو ریکو ٹوڈے‘‘ میں رقم طراز ہے کہ ’’ مزاحمتی ادب دانشوروں کا ایک مخصوص ادبی انداز ہے جس سے وہ سماجی و ثقافتی جبر کو آسولیشن میں دیکھتے ہیں۔ ‘‘ (۲)

تیسری دنیا کی قریبی تاریخ اپنے مزاحمتی منظر کو اپنے عدم وجودیت کی تناظر میں نہیں دیکھتی بلکہ اسے ممکنہ حد تک کالونیلزم کے اثرات کے ابتدائی رول سے دیکھتی ہے۔ ’’ گلوبل رفٹ ‘‘ میں ایل ۔ ایس ۔ سٹاورنوس اس جملے سے اپنی بات شروع کرتے ہیں کہ ’’ نوآبادیاتی نظام درحقیقت پندرہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک عالمی سرمایہ دارانہ تجارتی ظہور کی ایک شکل تھی جس نے جغرافیائی حدود کو اپنی لامحدود طاقت سے مقبوض کیا اور ان مقبوضہ سوسائٹیز کے ساتھ نئے اختلاط کی شروعات نتائجیت کی پروا کئے بغیر اِختصام کی راہ پر مَنتج کیں۔‘‘
ایسی ہی صورتِ حال برصغیر کو اس وقت پیش آئی جب تقسیم ہند کے وقت کشمیر و دیگر سرحدی تنازعات کو حل طلب چھوڑ کر سلطنت برطانیہ یہاں سے نکل گئی ۔ انکے ابتدائی خیال میں ہندوستان کو چھوڑ کر چلے جانے کے بعد یہ مُنقسم ممالک بوجہ اپنے سرحدی تنازعات رہنے کے قابل نہ ہونگے ۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے وہی صورتِ حال پیدا کی جو غسان مزاحمتی ادب کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ کشمیر کی حقِ خودارادیت اور بعد ازاں تقسیم کا تنازع در حقیقت ایک ایسی ہی صورتِ حال تھی جس کی بنیاد پر ایک بڑے طبقے نے جِلا وطن ہو کر پاکستان میں پناہ لی اور پھر یہاں سے مزاحمتی تحریک کا احیاء ہوا۔
مزاحمت درحققیقت ان آزاد سماجی و ثقافتی رویوں کے جبری استحصال سے انکار کا نام ہے جو سیاسی و عمرانی دباؤ کے تحت انسانی زندگی میں در آتا ہے ۔ اِسی جبری برتاؤ اور دستور کو جب ایک ادیب و شاعر اپنے الفاظ میں ایک جدوجہدکا نام دیتا ہے تو اسے ہم مزاحمتی ادب کی شرح میں قبولیت بخشتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آزادی کا حصول ایک مرحلہ وار اور ہمہ جہت جنگ کی شکل میں ہوتا ہے۔

امریکہ کے معروف ادیب و مورخ اور جنوب مغربی ایشیا کے سیاسی و سماجی علوم پر دسترس رکھنے والے پروفیسر سٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب ’’ شیم فل فلائٹ ‘‘ میں رقم طراز ہوتے ہیں۔ (۳)

I must say, Bengal’s Secretary John Dowson Tyson wrote from Calcutta on July 5133 ‘Mountbatten is a hustler; ever since he came out he has pursued shocked tactics133 He made his plan {and} soon after that the blitz began. And since the time when he launched his blitz, he has given no one any rest— the Indian leaders least of all. He has kept them so busy— so much on the run that they have not had the time to draw breath and criticize. Before they know where they are we shall be out— and I believe now, we shall withdraw in fairly peaceful conditions— whatever may happen after we have gone133 I think there will be very unsettled conditions in India for some time to come133 but the trouble will be primarily between Hindus and Muslims— not anti European. The India of “after August 15” will not be the kind of country I should want to live in

اس اقتباس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان سے نکلتے ہوئے سلطنتِ برطانیہ نے کس تیزی کے ساتھ مسائل کے انبار کو بالعموم اور سرحدی تنازعات کو بالخصوص دانستہ پیچھے چھوڑا، کہ کئی ایک دھائیوں تک مقبوضہ اور غیر مقبوضہ اقوام اس کنفکلٹ (Conflict) سے باہر نہ نکل سکیں ۔ ایسی ہی صورت انہوں نے اسرائیل میں پیدا کی تھی۔ اوریہی وہ بنیادی سیاسی وجوہات ہیں جن سے تارک الوطن اور جلا وطنی کا انکھوا پھوٹتا ہے ،یوں مزاحمت اپنی پوری اخلاقی و مادی طاقت سے ابھر کر جنم لیتی ہے، اور پھر مزاحمتی ادب کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

ان حقائق کے پیشِ نظر اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ دنیا بھر میں اکیسویں صدی کے آغاز سے اَن دیکھی عالمی طاقتوں نے ایک نیا منظر نامہ لکھنا شروع کیا ہے جس کے ابھی ابتدائی باب لکھے جا رہے ہیں۔ وہیں ادب کا نظریاتی و جدلیاتی پس منظر تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ سائنس کی ترقی و ترویج میں دنیا بھر کا انسان جس تیزی سے پہیہ کے دور سے نکل کر مکینیکل دور میں داخل ہوا اور پھر الیکٹرونک دور سے ڈیجیٹل دور میں داخل ہوتے ہوئے اس نے تسخیرِ کائنات میں ایسے ایسے علم بلند کئے کہ انسانی عقل دنگ رہ گئی۔

اس سے پہلے چونکہ فکری و علمی سطح پر انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس اور پھر کہیں بہت پہلے سولہویں صدی کی اولین دھائیوں میں مارٹن لوتھر کی مذہبی روایات سے رو گردانی کے ڈانڈے بہر طور ان نظریات سے متصادم نہ تھے ، جو کسی بھی انسانی حقیقت کو اسکے علاقائی، لسانی اور ثقافتی جوہر سے الگ کر کے دیکھے جاتے ہوں،۔ بین ہی دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں ان نظریات اور انکے فکری پہلوؤں پر اس طرح مباحث ہوئی کہ گلوبل ادب کارل مارکس کی داس کپیٹل سے سارتر کے وجودیت کے فلسفے تک، کامیو کے ایگزسٹلزم سے لیکر جیکس لیکَن (سٹرکچریلزم) اور جیکس دریدا ( پوسٹ سٹرکچریلزم) تک کے ان نظریات کو ہمیشہ دنیا بھر میں نہ صرف ادبی نقطہ نظر سے مقبولیت ملی بلکہ یہ عالمی نظریات ایشیا سے لیکر دوردراز لاطینی امریکہ تک پہنچے اور اینلاٹنمنٹ کی ابتدا ہوئی۔ انسان جاگ گیا اور اس سے کہیں زیادہ اُن ادباٗ و شعرا پر اثرات آئے جو طلسماتی یا جادوئی دنیا کی فیٹاسی میں مبتلا ادب تخلیق کر رہے تھے۔ ہمارے ہاں یہ روایت حقیقت نگاری کے جد امجد منشی پریم چند کی دیہی اور شہری مسائل پر مبنی تحریروں سے اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی تھی، جسے بعد میں ایک بڑے قافلے نے پروان چڑھایا۔ گو اس سارے کھیل میں مغرب میں فوکو اور ہمارے ہاں سبھاش چندر بوس جیسے سیاسی مینار مزاحمت کے علم برداروں کی صورت سامنے آئے لیکن انہیں صرف منتخب پزیرائی ملی۔

لیکن اس بحث میں الجھے بغیر کہ کہاں کس نے انسان پرستی کی کون سی کڑی کو ملایا یا اسے زنجیر سے الگ کیا ، یہ دیکھنا زیادہ اہم ہے کہ عمرانی و سماجی و ثقافتی ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے مزاحمتی ادب کی معنوی تشکیلات کیا وہی رہیں جہاں سے اس کے سُوتے پھوٹے تھے یا پھر مابعد جدیدیت میں بکھر کر نئے تناظری متون نے جنم لیا۔ ایشیا میں اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں عالمی مزاحمتی ادب اور اس کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچے۔ انسانی زندگی میں جہاں ادب اس کی حقیقی تصویر دکھاتا ہے وہیں ایک خاص نہج پر معاشرے کے اندر پنپنے والی برائیوں کو ایک ایسے آئینہ کے ذریعے منعکس بھی کرتا ہے جسے ہم ادب پارے کہتے ہیں جس کے ادبی و ثقافتی اثرات معاشرے پر بالعموم ، اور سماجی زندگی میں بالخصوص نظر آتے ہیں۔ تاہم مزاحمتی ادب ایسے منظر نامہ کی تصویر کشی کرتا ہے جو مخصوص سیاق و تناظر سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اب اس سارے تقویمی اور ارتقائی ادبی مدارج کو اگر کوئی عمل سبوتاژ کرتا ہے تو وہ مذہب کی اَن دیکھی وہ روایات ہیں جو صرف ایک خاص مذہبی طبقے نے حقیقی و فطری بیانیوں سے کشید تو کیں تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان قانون پاروں اور صحیفوں کو فلسفہ اور منطق سے دور رکھے جانے پر ، اور کسی بھی سوال کو پیدا ہو دینے کے عمل سے پرے رکھے جانے پر وہ کسی بند جوہڑ کے کائی زدہ پانی کی طرح بدبو دار ، ناقابل استعمال اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن گئیں۔

یہی وجہ تھی کہ مارٹن لوتھر نے اپنی تحریروں اور تقریوں سے سولہویں صدی میں بڑھتی ہوئی انسان دشمن کیتھولک فرقہ کی پاپائیت کو شدید مزاحمت سے روکا ۔ بین ہی بیسیویں صدی میں مغرب نے کیمونزم کے خطرے سے نبٹنے کے لئے جنگِ عظیم دوئم ، بالخصوص سرد جنگ کے بعد مسلمانوں کو جو عرصہ دراز سے ملوکیت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کسی حد تک مذہب سے بیزاری کی طرف مائل تھے، انہیں کیمونزم کے خلاف جہاد کا نعرہ دیکر کھڑا کر دیا گیا۔ یہ مزاحمت کی وہ ابتدائی اور خام شکل تھی جسے عملی طور پر کیمونزم کے خلاف استعمال کرنے میں استعماریت نے ذرا بھر تامل نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علم و فکر و عمل سے دوری کے باعث ایشیائی ثقافت کا اکثریتی مسلمان حصہ اس جہادی تنظیموں کا دلدادہ ہو گیا کیونکہ یہاں انہیں شکم پروری کی فکر نہ تھی اور محنت سے عاری ایک ایسی سہل زندگی کا نقشہ نظر آتا تھا جو بعد از حیات ایک نئی خوبصورت زندگی کا سندیسہ بھی لاتا تھا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں جب یہ مبینہ جہادی مزاحمتی تنظیمیں دنیا بھر کے انسانوں کے لئے ایک عذاب بن کر اتریں تو عالمی طاقتوں نے انہیں روکنا چاہا لیکن خاطر خواہ حتمی کامیابی کی امید پر جنگ ابھی تک جاری ہے۔ یہاں مروجہ جمہوری اقدار کے پسِ منظر میں اس خام مزاحمت کی توجیہہ کارِدارد اور طویل تشریح کی متقاضی ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس یک رخی عملی مزاحمت نے مزاحمتی ادب کی تشکیل میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا، جیسا ہندوستان کی سرزمین میں تصوف کے صوفیائے کرام فرید الدین شکرگنج ، بابا بلہے شاہ،سچل سرمست، لال شہباز قلندر نے اپنے دور میں اپنی شاعری اور نثری تحاریر و تقاریر سے کیا۔ یہاں ہم لمحہ بھر کو رکتے ہوئے اس عرصہ میں برصغیر، بالخصوص پاکستان میں پیدا ہونے والے دیگر نظریاتی مزاحمتی محرکات کا ایک سرسری جائزہ بھی لیتے ہیں۔

پاکستان کے ابتدائی حالات میں ہی ایک بڑی امپیرئیلسٹک سٹرائک نے اُس مزاحمتی تحریک کو دم توڑنے پر مجبور کر دیا جو ابھی جاگتے خواب کی تشریح تھی۔ اشتراکی انقلاب کی کونپلیں ابھی اپنے انکھواء میں ہی تھیں کہ ان شاخوں کو تنوں سے علیحدہ کر دیا گیا ۔ ریاست کے خلاف سازش کا نام دیکر ادیبوں و شاعروں و دیگر کرتا دھرتاؤں کو پابند و سلاسل کر دیا گیا اور کہیں جلا وطن کر دیا۔ بعد ازاں ایبڈو اور اگرتلہ سازش کے سیاسی بینر تلے ان اقدامات کو کچلنے کی کوشش کی جو حقیقی طور پر استعمار ( مابعد نو آبادیاتی عکسِ استعمار) کے ظلم و جبر کے خلاف ایک مزاحمت کا روپ دھار رہی تھیں ۔۔۔ یہی وہ وقت تھا جب انقلابی و مزاحمتی ادب نے باقاعدہ پاکستان میں ایک نئی فضا قائم کی۔ فیض احمد فیض ، حبیب جالب ، جوش ملیح آبادی ، سبط حسن سمیت دیگر کئی ایک دانشوروں اور ادیبوں نے انسانی روحوں کو گرما دینے والے فن پارے جنم دیئے اور مزاحمتی ادب کا ابتدائی باب لکھا جانے لگا۔

معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر ابرار احمد اپنے مضمون’’ مزاحمتی ادب‘‘ میں لکھتے ہیں (۴)۔’’ دوسرے طرف ژاں پال سارتر کہتا ہے ،’ ادیب کا قلم اس کا ہتھیار ہے بلکہ فرانسیسی ادیبوں نے تو دوسرے ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا، کہ وہ بحیثیت ادیب عملی جدوجہد کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد خیال نہیں کرتے تھے اور آزادی کا حصول انکا حق تھا، جس کے لئے انہیں ہر محاذ پر لڑنا تھا، لیکن ایسی جدوجہد ایک ایسے معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں آزادی کی کوئی نہ کوئی شکل پہلے سے موجود ہو یا پھر استحصالی قوتیں اپنی بالا دستی کی نتیجے میں محکوم طبقوں کو ’’ تنگ آمد، بجنگ آمد ‘‘ کی سطح پر لے جائیں۔ ‘‘
یہ وہی صورتِ حال ہے جیسے حبیب جالب نے ایوب خان کے عہد میں نئے نظام کی خلاف اپنی معرکۃ الآرا نظم کہی۔

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا

ڈاکٹر ابرار آگے چل کر لکھتے ہیں ۔ ’’ دوسری طرف فیض احمد فیض اپنے مخصوص کلاسیکی اور دھیمے لہجے میں جبر و استبداد کے خلاف جہاد میں مصروف تھے۔ وہ خاموش رہنے والوں کو بول اٹھنے کا درس دیتے رہے۔
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہناہے، کہہ لے
اور پھر
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو ‘‘

ایسی صورت میں ہم سیاسی جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مزاحمتی ادب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔ ایوب خان کے عہدِ امریت میں ادیب نے علامت اور تجریدیت کا سہارا لیا، لسانی تجربات ہوئے ، مزاحمت کا عنصر غیر ملکی تراجم کی طرف مڑ گیا۔ پابلو نیرودا ، ناظم حکمت، محمود درویش کی تخلیقات کے تراجم سامنے آئے۔ خصوصی طور پرفروخ فرخ زاد جنہیں بعد ازاں موت کی سزا ملی۔ اسی طرح ن۔ م راشد نے ایران کے باغی شاعروں کاترجمہ کیا۔

ڈاکٹر ابرار احمد اپنے مقالے میں آگے چل کر رقم طراز ہیں۔

’’ ایوب خانی مارشل لاء نے یحییٰ خانی مارشل لاء کو جنم دیا اور ملک ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں اتر گیا ۔ ایک خونریز اور خوفناک جنگ کے بعد مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ ۔۔۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناصر کاظمی ، مختار صدیقی، مجید امجد ، یوسف ظفر اور باقی صدیقی اس صدمے کی تاب نہ لاکر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ‘‘

اس سانحہ پر جن نثر نگاروں نے مزاحمتی ادب کے فن پارے تخلیق کئے ان میں انتظار حسین کا مجموعہ ’’ شہر افسوس ‘‘ مسعود اشعر کا افسانہ ’’ اپنی اپنی سچائیاں ‘‘ ، ’’ ابابیل ‘‘ اور ’’ بیلا نائی رے جولدی جولدی ‘‘ ، اے حمید کا ’’ جاگتے رہنا‘‘ ، میرزا حامد بیگ کا’’ تربیت کا پہلا دن ‘‘ اور ’’ رہائی ‘‘ شہزاد منظر کا ’’ یوٹوپیا ‘‘ و دیگر بے شمار نثری تخلیقات مزاحمتی ادب کا حصہ بنیں۔

لیکن یہ ایک اتفاق ہے کہ ہندوستان میں مابعد تقسیم ایک عرصے تک خاموشی رہی ۔ تاہم عالمی منظر میں مڈل ایسٹ ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں ہوتی ہوئی غیر حقیقی مزاحمتی مذہبی تحاریک نے ہندوستان کی ہندو آبادی جو تقسیم پاک و ہند کے بعد کسی حد تک سیاسی بالیدگی اور عمرانی و سماجی شعور سے بازیافت ہو رہی تھی ، کو شدید متاثر کیا جس کا اندازہ انکے ہاں اٹھنے والی مخصوص ذہن کی ہند مت سیاسی پارٹیوں کے انتشار پسند رویوں سے کیا جا سکتاہے۔ تحریر سے زیادہ تقریر کے ذریعے انسانی ذہن کی پیداوار روایات ، جو اس اگلے وقتوں کے سماج میں رائج تھیں کو ایکسپلائٹ کرتے ہوئے ہندو مت انتہاپسندی کو مزاحمت کا روپ دینے کی کو شش کرنے لگا۔یہ انسانی زندگی کا وہ تاریک پہلو ہے جس نے برسوں سے دیکھے گئے انسانی ترقی کے خوابوں کو زمین بوس کر دیا ہے ۔ وہی خواب، جو اس سرزمین کے انسان نے استعماری فسطائیت سے چھٹکارا پانے کے دیکھے تھے۔

انہوں نے یہ نہ سوچا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس خطے میں دو سو کروڑ کی آبادی کے چند ممالک جس کی اقلیتیں بھی دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے کئی ایک ملکوں سے بڑی ہیں ، اپنی سلامتی و پرامن حیات کی ضمانت اپنی ریاست سے لے پائیں گی جس کی اساس میں آزادی کا ترانہ اقلیتوں کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے؟ نتیجہً آج بھی اکثریتی سٹیٹس میں گائے کا ذبیحہ قانونی طور پر ممنوع ہے اور یہ قانون ۱۹۵۵ سے لاگو ہے۔ لیکن آج مزاحمت کے نام پر وہاں دانستہ اس ایشو کو اٹھایا جا رہا ہے۔ دلتوں کی بستیاں صرف اس بنیاد پر تہ تیغ کی جا رہی ہیں کہ وہ معاشی طور پر اور روائتی ہندو مت کے مطابق شودر اور نیچ ذات ہیں۔ انہیں انسانوں کی فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ چالیس کروڑ سے زائد دلت معاشرے کا حصہ نہ رہیں ۔ (۵)

یوں معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ مزاحمت اپنی نئی جہت کی بازیافت کے مرحلہ میں آ گئی، ایک عام ہندو بھی اس انتہا پسند برہمناچاری سوچ سے بیزار نظر آنے لگا ، ایشور کا متلاشی ہونا الگ بات ہے اور اس تلاش میں برہمو سماج کی بنیاد رکھنا الگ بات ہے۔ اسے ہندو دانشور مزاحمتِ نو کے نام سے دیکھ و سوچ رہا ہے اور اسکی مزاحمت کر رہا ہے۔ اب تک اس انتہاپسندی کے رویوں کے خلاف ایک احتجاج کی صورت میں معروف ادیبوں و شاعروں نے اپنے سرکاری اعزاز اور تمغے سرکار کو واپس لوٹا دیئے۔ مقبول افسانہ نگار جی ایس بھلر نے اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا وہ ایسا ان انتہا پسندوں قوتوں کے خلاف بطور احتجاج کر رہے ہیں جو ادب اور ثقافت کو گہنا رہے ہیں۔ اسکا واضع مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی جو ان اقلیتیوں کی تعداد کا تعین بھی کرتی ہے اور لبرل و متوازن خیالات کے حامل ہندو آبادی کا احاطہ بھی کرتی ہے اس احتجاج میں ایک ساتھ کھڑی ہے یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کا نیا مزاحمتی بیانیہ تشکیل ہی نہیں ہو پایا ہے۔

بالکل اُس طرح جیسے پہلے عرض کیا ،گزشتہ دو دھائیوں سے پاکستان اور افغانستان میں جنم لینے والی کئی ایک خام مذہبی مزاحمتی تحاریک نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ تو کیا لیکن ’ مقبوضہ اور غیر مقبوضہ ‘ اور’ کلچرل سیِج‘ کی معنوی اصطلاح کے دائرہ کار میں واقع نہ ہونے کی وجہ سے اپنے قومی بیانیہ کو تشکیل نہ دے سکیں ہیں اور یوں مزاحمتی تحریک سے زیادہ دہشت گردی کی عالمی تعریف کی زد میں آ گئیں۔

دوسرا انہوں نے مزاحمت کے معنیاتی نظام میں صرف عقائد کی بنیاد پر نئے متن کو جنم دینے کی کوشش کی، جس میں نسلی و لسانی تفرقہ بندی بھی سرِ فہرست رہی۔ یوں انکے ہاں بھی مزاحمتی قومی بیانیہ کی تشکیل نو نہ ہو سکی۔ چونکہ یہاں مزاحمت سیاسی و جغرافیائی گروہ بندی اور انتشار کا شکار ہوچکی تھی، جو حقیقی طور پر نتائجیت سے بظاہر بے پرواایک کثیر لیکن خاموش پاکستانی آبادی ، بوجہ اسکی ثقافتی طرز بود و باش ، روایتی، فکری و لسانی وابستگی (اگرچہ سیاسی طور پرکمزور) کو سماج کی سطح پر متاثر نہ کر سکی۔ چنانچہ اٹھنے والی مزاحمتی مذہبی تحریک باوجود اپنی سخت ترین و مسلسل عملی مزاحمت کی قوت رکھنے کے ہر دو ریاستوں کے معاشرتی ریاستی بیانیہ و نظریات کو شکست دینے میں بری طرح ناکام ہو گئی ، اور اسکی ایک بڑی وجہ انکے ہاں مزاحمتی ادب کا فقدان بھی ہے جس پر وہ غیر یقینی تناؤ کا شکار ہیں۔ (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات: ۔ اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل عالمی میڈیا ، اخبارات و جرائد و کتب سے مدد لی گئی ہے۔
(۱) ۔ کتاب ’’ ریزسٹنس لٹریچر ‘‘ از باربرا ہارلو ۔ میتھیون لندن، نیو یارک۔
(۱) الف۔ مقالہ ’’ اے ریزسٹنس ٹو تھیوری ‘‘ از پال ڈی مین ۔ تھیوری اینڈ ہسٹری آف لٹریچر یونیورسٹی آف منیسوٹا۔ امریکہ ۔
(۲)َ ب۔ انٹیلکچوئلز رول اِن پیرو ریکو ، از میلڈو ناڈو ڈینس
(۳)۔ کتاب ’’ شیم فل فلائٹ ‘‘ از سٹینلے وولپرٹ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ۔ امریکہ
(۴)۔ مقالہ مزاحمتی ادب از ڈاکٹر ابرار احمد ( ادبیات ۹۶۔۱۹۹۴) اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان۔ دیپاچہ مزاحمتی ادب انتھالوجی مرتب رشید احمد
(۵)۔ بی۔بی۔سی یونائٹڈ کنگڈم
(۶) وال سٹریٹ جرنل ۔ نیویارک امریکہ

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔