مسائل سے جنگ صرف اشتراکی بیانیہ کر سکتا ہے

اشتراکی بیانیہ نادر گوپانگ
نادر گوپانگ

مسائل سے جنگ صرف اشتراکی بیانیہ کر سکتا ہے

از، نادر گوپانگ

انسانی معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی بھی حادثہ اس سماج سے الگ تھلگ نہیں ہوتا بلکہ ایک مخصوص عرسے سے چلی آرہی کسی معاشی ، سماجی، ثقافتی اور تاریخی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ اکیلے کہیں سفر پر جا رہے ہوں تو اپنی سیٹ پر براجمان ہوتے ہی آپ کا دماغ اور ہا تھ شعوری یا لا شعوری طور پر اپنی قیمتی اشیا کی طرف کیوں لپکتا ہے ؟ بجائے اس کے جب آپ کسی ایسے انسان کے ساتھ ہم سفر ہوں جسے آپ سماجی طور پر پہچانتے ہوں اس صورت میں آپ کا دھیان ان اشیاء کی طرف کم ہی جا تا ہے، یا سفر کی شروعات میں ہی ان چیزوں کی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی کر لی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی خاطر اپنا زیادہ تر وقت صرف کر رہے ہوتے ہیں اور گاڑی کے کسی پہیے کی مانند ایام کو گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم کسی بھی مظہر کی بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

اس پس منظر میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات، مسائل اور حادثات میں چھپے عوامل کو جاننے جیسا محنت طلب کام کرنے کی بجائے واقعات کو الگ تھلگ دیکھنے، فوری عوامل پر نظر ثانی کر کے وجوہات تلاش کرنے اور نتائج کو اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پرجانچ کر ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا رواج زور پکڑتا ہے۔اسی طرح حقیقتوں کو تاریخی عوامل، معروضی صورت حال اور مادی رشتوں کے تسلسل اور اثرات کی صورت میں نہیں دیکھا جاتا بلکہ موضوعی اور تصوراتی مفروضوں کے ساتھ الجھی ڈوری کو سلجھانے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ یوں تو ہر انسان اپنے تجریدی تصور کے تحت اس دنیا کے مسائل؛ بھوک ،بیروزگاری، پسماندگی، جہالت، استحصال اور تمام سماجی برائیوں کو ختم کرنے کا دعویدار ہے۔لیکن اگر کسی بھی فکر کو عمل کے پیمانے پر نہیں پرکھا جائے گا تو وہ تصور محض الفاظ کا گورکھ دھندہ بن کر افراد کے شعور پر جبریت کرتا رہے گا۔ گویا چند افراد جو اس تصور کے روح رواں ہوں گے وہ اسے اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے رہیں گے۔ باقی تمام اس جبریت کا شکار رہیں گے۔

طبقاتی سماج میں موجود افراد کاتعلق کسی نہ کسی طبقہ سے ضرور ہوتا ہے کیونکہ انسان ایک ایسا سماجی جوہر ہے جس کی ترقی کی بنیاد ہی اجتماعیت میں پنہاں ہے۔زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات؛کھانا،رہائش،لباس،تعلیم ، صحت اورانفرادی پہچان بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔چونکہ ہم کسی نہ کسی خاندان میں نمو پذیر ہوتے ہیں اس بنا پر ہماری بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ساری ذمہ داری ہمارے والدین کی ہوتی ہے کہ جنہوں نے ہماری پیدائش کے عمل میں شعوری طور پر حصہ لیا ہوتا ہے۔خاندان بھی معاشرے سے علیحدہ کوئی وجود نہیں رکھتا بلکہ موجودہ سماج کی بنیادی اکائی ہے اس لئے معاشرے کے معروضی حالات،مادی رشتے،ثقافت،مذہب اورتیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں(جو ہر لمحہ ہورہی ہیں)، خاندان کے فرسودہ ڈھانچوں پر تیزی سے اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں ۔اس کے نتیجہ میں خاندان کے ادارے کا کھوکھلا پن بھی خوب عیاں ہوتا ہے۔

آج کے عہد میں پیداوار کی جو شکل ہمارے سامنے ہے یہ تمام اشیاء ہمارے آباؤاجد ادسے لے کر آج کے انسانوں کی اجتماعی محنت اور قربانی کا پھل ہیں۔اس محنت کی بنیادیں ہمیں فطرت کے مقابلے میں انسان کی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کے طور پر نظر آتی ہیں۔ابتداء میں تو انسان کے وجود کو برقرار رکھنے کی خاطر انسانی محنت کو استعمال میں لایا گیا مگر بدلتے ہوئے مادی حالات کے پیش نظر انسان مجبور ہوا کہ محنت کے صحیح استعمال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ پیداوار کی جائے جو تمام لوگوں کی بنیادی ضرورت کو پورا کر سکے۔ جب تک ضرورت سے زیادہ پیداوار نہیں تھی تب تک کسی بھی انسان کے استحصال کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ زراعت کی ابتداء کے بعد جب زائد پیداوار ہوئی تو تجارت کی شروعات ہوئی۔ یہ ترقی غیر ہموار تھی جس کا دورانیہ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے۔اس سے پہلے ہر انسان اپنی اہلیت کے مطابق کام کر رہا تھا اور اجتماعی پیداوار سے اپنی ضروریات کی تکمیل کر رہا تھا۔ ضرورت سے زائد پیداواراور تجارت کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوا کہ زائد پیداوار کا کیا کیا جائے؟


مزید دیکھیے: ایدھی صاحب کا رفاہی ماڈل، کسی انقلابی پارٹی سے چند سوال


اس کے ساتھ ہی یہ احساس پروان چڑھا کہ اس زائد پیداوار کو کنٹرول میں لے کر باقی انسانوں کو اپنے زیر اثر کیا جا سکتا ہے۔فطرت کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور ہونے کی وجہ سے انسان میں خوف اور مساکیت پسندی کی جڑیں استوار تھیں جو اسے فطرت کے بارے میں لا علمی کا قصور وار ہونے کے تحت جھکنے پر مجبور کرتی تھیں۔اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے چند افراد نے مخصوص حالات کے تحت اس زائد پیداوار کو دوسرے انسانوں کے استحصال کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔یہ ایک ترقی پسند قدم ضرورر تھا جس سے کچھ افراد کو فرصت کے لمحے میسر آئے کہ جن میں وہ اس کائنات اور فطرت کے متعلق سوالوں کے جوابات تلاش کر سکتے تھے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جبر پر قائم کوئی ڈھانچہ بھی انصاف مہیا نہیں کر سکتا۔

یہیں سے ہی ذاتی ملکیت بنیادوں کو پھلتے پھولتے دیکھا جا سکتا ہے۔اگرچہ انسانی تاریخ کا زیادہ تر دورانیہ ( 99 فیصد) ذاتی ملکیت جیسے مرض سے محفوظ رہا ہے۔ اس سے پہلے مرنے والے انسان کے ساتھ ہی اس کے اوزار کو دفنا دیا جاتا تھا ۔ جب سے پیداوار کچھ انسانوں کی ذ اتی جاگیر بنی تب سے ہی انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال شروع ہوا۔اس نئی ترتیب میں جن افراد کو فائدہ ہو رہا تھا اور سوچنے کا وقت مل رہا تھاانہوں نے “some animals are more equal” کے فارمولے کو لوگوں کے شعور پر جبریت کے تحت لاگو کیا۔ تب سے ہی ذاتی ملکیت کو ابدی اور آفاقی رنگ میں رنگ کر پیش کیا گیا۔ خدا اور دیوتاؤں کی طرف سے انعام کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کم تر ہونے کی توجیہات پیش کی گئیں۔ چونکہ اب فرد اپنی ضرورت سے زائد پیداوار کر سکتا تھا اس لئے انسان کا دوسروں کو غلام بنانا سود مند ٹھہرا۔ فطرت کے قوانین کو عبورکرنے کے بعد انسان اور فطرت کے مابین جو جنگ شروع ہوئی تھی اب وہ لڑائی ثانوی اہمیت کی حامل ہو گئی تھی۔

اس کی جگہ جس زہر نے لی وہ انسان کے خلاف انسان کی جنگ تھی۔۔کیوں کہ زائد پیداوار کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے ضروری تھا کی باقی تمام انسانوں کواپنے مقابلے میں کمزور،بے بس اور لاچار ثابت کیا جائے ۔یہی طبقاتی معاشرے کی ابتداء ہے، جس میں مٹھی بھر افراد نے اپنے نظریے اور دوسروں کی محنت کے اصول کو اپنی ذاتی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔حکم، جبر اور ظلم کے جنم دن بھی وہی تھے ۔کسی بھی طبقاتی معاشرے میں ضروری ہوتا ہے کہ غریبوں کو حکمران طبقات سے دور رکھا جائے اور امیروں کے بارے میں ایسی تصوراتی کہانیاں مشہور کر دی جائیں جو ان کے مرتبے کو عام لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔

تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ غلاموں کی پہلی بغاوت سے لے کر آج تک کے جدید انقلابوں جیسے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔محکوم طبقات نے حاکم طبقات کے خلاف بغاوت کی۔ یہ بغاوت کبھی بھی کسی کی ذاتی خواہش پر مبنی نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک عرصے سے چلی آرہی ضرورت کا اظہار ہوا کرتی ہے۔ اس جدوجہد نے سماجی نظام کو ترقی ضرور دی لیکن غیر طبقاتی سماج پیدا نہ کر سکیں۔
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، کی بنیادیں بھی طبقات پر مبنی ہیں۔سرمایہ دار طبقہ، پیٹی بورژوا طبقہ اور محنت کش طبقے پر شامل ہے۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو سرمایہ دار طبقہ وہ طبقہ ہے جو سرمائے کی بنیاد پر انسانوں کا استحصال کر رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ دراصل سرمایہ ہی ہوتا ہے جو سرمایہ دار کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔

اپنے شرح منافع میں بے پناہ منافع کرنے کی خاطر ریاست کو جبر کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طبقہ پیداوار کا سارا کنٹرول ہونے کی وجہ سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے تاریخ، ادب، مذہب، سائنس اور ریاست کے ہر ستون کا آزادانہ استعمال کرتا ہے۔ چونکہ محنت کش اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سرمایہ دار کی بنیادی ضرورت اپنے شرح منافع میں اضافہ ہوا کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے پاس بنیادی تعلیم کی سہولیات بھی نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ تو اپنا نام بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ اس لیے زیادہ تر عوام کے پاس تو بنیادی سوالات کے جوابات بھی نہیں ہوتے۔

ہم غریب کیوں ہیں؟

آخر اتنی زیادہ محنت کرنے کے باوجود ہمارے معیار زندگی میں کیوں بہتری نہیں آرہی؟

کون ہے جو ہمارا حق لوٹ رہا ہے؟

پسماندگی ا ور لاعلمی کی وجہ سے افراد اپنے اردگرد کے ماحول ،مادی رشتوں ،تاریخ اور فطرت کے بیش بہا رازوں کو بھی نہیں جان پاتے اور ہر لمحہ بدلتی ہوئے صورتحال کا تجزیہ نہیں کر پاتے جن کی وجہ سے ان کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔اپنا مسئلہ دوسرے شخص پر تھونپا جاتا ہے۔دور قدیم میں غلاموں کو زنجیروں سے جکڑا جاتا تھا لیکن جدید حکمران طبقے نے انسانوں کو اپنی لالچ کا نشانہ بنانے کے لئے ہزار ہا رنگ برنگی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔جن کو مات دینے کے لئے ضروری ہے کہ سرمائے کی وحشت پر مبنی اس نظام کو سمجھا جائے جس نے انسانوں کو جنس بنا دیا ہے۔

جمود کے عہد میں جب حکمران طبقہ مکمل طور پر حاوی نظر آرہا ہوتا ہے تو معاشرے میں حاوی نظریات بھی انہی کے ہوتے ہیں۔سرمایہ دار کا کام لوگوں کی آزادی اور محنت کو دولت کے ترازو میں تولنے کا ہے۔اس وجہ سے ہمارے سما ج میں ہر انسان دوسرے کو دولت کے ترازو میں تولتا دکھائی دیتا ہے۔ بھلا بتائیں، وہ انسان جو آزادی کے تصور سے آگاہ نہ ہو وہ کیسے اس کے حصول کی طرف بڑھ سکتا ہے؟جہاں آزادی کا تصور دوسرے انسان کی آزادی اور نظریات پر حاوی ہونا ہو وہاں معاشرے میں تقسیم خود بخود بڑھتی ہے ۔ ہر انسان اپنے مجرد خیالات کے پیش نظر دوسرے انسان کو خود سے مختلف سمجھتا ہے، حالا نکہ تمام لوگوں کے مسائل ایک جیسے ہیں اور دشمن بھی ایک ہی ہے جو ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔

تاریخی پس منظر، مادی حالات اور معروضی حالات کا تجزیہ کیے بغیر مسائل کی اصل جڑوں میں نہیں جھانکاجا سکتا۔ جب افراد کے معروضی حالات کو سمجھیں گے تو ہم اپنے رشتوں، ثقافت اور سماجیات میں چھپی بیٹھی سرمائے کی نفسیات کو نکال باہر کر سکیں گے۔ مشترکہ مسائل سے جنگ صرف اشتراکیت جیسی عظیم طاقت کو اپنا کر ہی لڑی جا سکتی ہے۔ اب جب کہ زائد پیداوار کے بحران کی وجہ سے سرمایہ داری ایسے راستے پر نکل پڑی ہے جہاں ہر قدم پر ہزاروں انسانوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے اور اس نظام کی بقا کی خاطر انسان کو انسان کے ساتھ لڑایا جاتا ہے۔ اگر ہم نے اس وحشی نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑا تو فطرت کا عظیم جوہر جسے انسان کہتے ہیں، نایاب ہو جائے گا۔

بنیادی ضروریات کی تکمیل کے بعد ہی انسان میں آزادی کے تصور کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد اس فطرت کے بنیادی قوانین کو جاننا اور ان کا جدلیاتی تجزیہ کرتے ہوئے انسانیت کو اس کے بلند ترین معیار تک پہنچانا ہے۔