(یاسر اقبال)
یہ امر قابلِ وثوق ہے کہ ہر مسئلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بنیادی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسائل جن کا ہمارے سماج کے ساتھ گہرا تعلق ہے، وہ اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہر مسئلہ بنیادی نوعیت کا حامل نظر آتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو، سیاست سے، اقتصادیات یا تہذیب سے، سماج پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عصرِ حاضر میں ہمارے سماج کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ انسانی فکر کی آزادی کے سلب ہوجانے کا ہے۔ شعور انسان کے اندر ایک ایسا عنصر ہے جس کی وجہ سے انسان کو تمام مخلوق پر بر تری حاصل ہوئی ہے۔ لیکن ہمارے سماج میں قوائے شعوری کا استعمال خود انسان کے اختیار میں نہیں نظر آتا۔ دینیاتی فکریات بھی تصورات کی تراش خراش کرتی ہے مگر اُن کو مکمل طور پر ختم کرنے حَکم نہیں لگاتی۔ لیکن جب ہم اسلامی فکر کے مختلف مسالک کی روشنی میں اس مسئلے کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سماج کا فرد مختلف مسلکی پابندیوں میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔ فرد کی جملہ زندگی مسلکی سرگرمیوں کی پابند نظر آتی ہے۔(مسلک کا ہونا مذہب کے اندر ایک انفرادی جہت کا قائم رکھنا ہے جو بذاتِ خود احسن عمل ہے) انسان کی بہت سی جبلتوں میں ایک جبلت جذباتی کیفیت بھی ہے۔ فرد کی اس جبلت سے بھر پور فائدہ اٹھاکر اسے پابند بنایا جاتاہے۔ اور صورتحال اب یہ نظر آنے لگی ہے کہ سماج کا فر د مذہب کی بجائے اپنے مسلک کے لیے کٹ مرنے کو تیار نظر آتا ہے۔
ان فقہی مسالک کو تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہیں تو تمام مسالک کے بانیان اپنے وقت کے جید علماء اور برگزیدہ لوگ تھے۔ جنھوں نے اپنے مکاتب فکرکی روش کو مذہب کے تابع کیا۔ لیکن موجودہ دور میں فر د پر مسلکی اجارہ داری کی بنا پر ان تمام مسالک کی حیثیت اس فولادی خول کی سی نظر آتی ہے جس کو فرد کے سر پر چڑھانے کے بعد اُس کی شکل’’دولے شاہ کے چوہے‘‘کی سی نظر آتی ہے۔ ایک ایسا دولے شاہ کا چوہا جو اپنی عقل کواستعمال کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ اس تنظیم کا ایک نمائندہ متعین کردیا جاتا ہے جو اسے صدقہ خیرات کی وصولی کے حوالے سے استعمال کرتا ہے۔ سماجی سطح پر اگر اس مسلکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دورِ حاضر میں مسالک کے تحت پروان چڑھنے والی فکر بڑی سُرعت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اور اس حوالے سے ہر مسلک اپنے تئیں بھرپور کردار نباہ رہاہے۔ مذہبی نکتہ نگاہ سے ہٹ کر اگر ہم اس صورتحال کا سماجیات کی روشنی میں جائزہ لیں تو سب سے پہلے ہمیں ان سوالات کی طرف آنا ہوگا کہ مسالک کیا ہوتے ہیں۔ اور ان کی مذہبی حوالے سے کیا حیثیت ہوتی ہے؟
در اصل مسالک کا لفظ سلوک سے ہے اور سلوک کے معنی راستے کے ہیں اور ان پر چلنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یوں مسالک مذہب تک پہنچنے اور اس کو سمجھنے کے معتبر ذرائع ہیں اور ان میں مذہب ایک بڑے بیانیے کے طور پر موجود ہے۔ جس کی تعلیمات کا زیادہ حصہ اخلاقیات پر مبنی ہے اور جملہ مسالک اس بڑے بیانیے تک پہنچنے کے راستے ہیں۔ ان جملہ مسالک کی قرآنی نص ایک دوسرے سے مختلف ہے، مثال کے طور پراہل سنت اپنی نص سنتِ رسول ﷺ سے لیتے ہیں، اہل حدیث اپنی نص حدیثِ رسول ﷺ سے اور اہل تشیع اپنی نص اہل بیت اطہار سے لیتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مسالک بھی جو رائج ہیں ان کی نص کسی نہ کسی نسبت سے متعین ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو تمام مسالک اپنی اپنی جگہ معتبر ٹھہرتے ہیں کیونکہ سنتِ رسول ﷺکی اہمیت،حدیثِ رسولﷺکی سند، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ اطہارکا مقام و مرتبہ سب اپنی اپنی جگہ جداگانہ اہمیت کے حامل ہیں۔ کیوں کہ ان سب کی نسبت جس ہستی کے ساتھ ٹھہرتی ہے وہ لائقِ صد احترام اور بلند مقام و مرتبہ کی حامل ہے۔
لیکن سماجی سطح پر جب ہم مسالک کی روشنی میں پروان چڑھنے والی موجودہ سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں فرد مختلف دھڑوں میں بٹ جاتا ہے اور فرد اور سماج کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ مسلکی تکرار سے افراد میں باہمی نفاق اس قدر بڑھنے لگتا ہے کہ تمام مسالک اس نفاق اور ایک دوسرے پر کی جانے والی لعن طعن کی روش کی سند اپنے پاس سے دینے لگتے ہیں۔ اس طرح ایسی صورتحال سماجی سطح پر گہرے منفی رجحانات پروان چڑھانے میں مدد دیتی ہے اور پھران رجحانات سے فرد اور سماج کا نہ صرف رشتہ کمزور ہو جاتا ہے بلکہ سماج ا س مسلکی کشمکش کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتاہے۔ اس موجودہ صوتحال کو ہم تجربات و مشاہدات کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔
جب سماجی سطح پر ہر کام مسلک کی بنیاد پر ہونے لگے تو نہ صرف ریاست کی سالمیت نظر انداز ہوتی ہے بلکہ ایک ریاست میں رہنے والے افراد میں یکجہتی ختم ہو جاتی ہے۔مثال کے طور پرہم دیکھتے ہیں کہ انتخابات کے دوران پیری مریدی کا رشتہ کافی استعمال ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر مسلک کی نشاندہی کی جاتی ہے اور مسلک کے حوالے سے پورا کا پورا التزام برتا جاتا ہے۔ اسی طرح قربانی کی کھالیں ،چندے اور نذرانے مسلک کی بنیاد پر جمع ہوتے ہیں،یہاں تک تعلیمِ عامہ اور صحت عامہ کے سماجی ادارے مسلک کی بنیاد پر قائم کیے جارہے ہیں۔یہ ادارے ریاست کی نمائندگی کرنے کی بجائے مسلک کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ان اداروں میں جملہ سٹاف کی تقرری مسلک کی بنیاد پر عمل میں لائی جاتی ہے۔اس طرح مسلکی انفرادیت یا شناخت کے فروغ پر زیادہ زوردیا جاتا ہے ۔آج کل بڑھتی ہوئی انگریزی نظام تعلیم کی روش کو ان مکاتب فکر کے زیراہتمام چلنے والے مدرسوں میں بھی اپنا یا جا رہا ہے۔اور ان اداروں کو ماڈل سکول کے لیبل کے ساتھ متعارف کرایا جا رہا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان اداروں میں پروان چڑھنے والی نسل عصری تقاضے پورے کر سکے گی یا صرف اپنے مکتب فکر کی روایتی نمائندہ بن کر ابھرے گی؟
مسلکی نفاق اور دوئی نے قومیت (Nationalism)کو بری طرح دھچکا لگایا ہے۔ سماجیات کے عمل کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم پہلے مسلکی ہیں بعد میں مسلمان اور پھر انسان۔ حالانکہ سب سے پہلے ہمیں ایک انسان ہونے پر فخر کرنا چاہیے اور بعد میں اپنی دینی یا مسلکی شناخت پر فخر کرتے پھریں۔
پاکستانی سماج اس بنیادی مسئلے کو بری طرح شکار ہے۔ ہماری ترقی ، ہماری ذہنی پرداخت اسی ایک مسئلے سے منسلک ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینیاتی فکر کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے یا مسلکی منافرت اور دوئی کو کم سے کم کرنے کی سعی کی جائے۔
مسلکی رجحانات نے ایک طرف تو سماج کو تقسیم کیا ہے، دوسری طرف سماجی و ثقافتی بیانیے بری طرح نظر انداز ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں فنونِ لطیفہ اور دیگر تہذیبی اقدار کی نشوونما اور ارتقاء کے عمل پر جمود طاری ہواہے۔ یہاں تک کہ مذہبی اقدار جو سب سے بڑا بیانیہ ہے اور سماج کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں ان اقدار کو اساسی حیثیت حاصل ہے، وہ بھی اندھے غار کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ سماجی نظریات کی بنیاد کا تعین مسالک کی روشنی میں کر کے فرد کو فرد سے دور کردیا ہے۔ جس سے فرد، سماج اور ریاست میں کوئی نظریاتی مطابقت نظر نہیں آتی۔ مسالک کی بنیاد پر نظریات کی کشمکش نے تعصبات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں سماجی شعور کی نشوونما اور ارتقاء کا عمل رُکتا نظر آرہا ہے۔
سماجی شعور کے حوالے سے مجھے رسالتِ مآب ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سے ایک واقعہ یا د آگیا جس کا ذکر کرکے میں اپنے موقف کو زیادہ واضح کر سکوں گا۔ واقعے کا لبِ لباب کچھ یوں ہے کہ مدینہ میں اتوار کا دن تھا۔ آپﷺ کو معلوم ہوا کہ مدینہ کے عیسائی اس بات پر پریشان ہیں کہ تمام رات طوفانی بارش سے ان کا وہ مکان گر گیا ہے جہاں اُنھیں دعائیہ تقریب کا اہتمام کرنا تھا۔ آپﷺ نے خود چل کر ان سے فرمایا کہ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ظہر تک میری مسجد نبویﷺ خالی ہے آپ لوگ اس کے کسی کونے میں بیٹھ کر اجتماع کرسکتے ہیں۔
اس واقعے سے ایک طرف تو سماجی شعورکی عمدہ مثال نظر آتی ہے دوسری طرف انسانیت، ہمدردی اور محبت کا پیغام مل رہا ہے۔ لیکن جب ہم موجودہ سماجی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو غیر مسلموں کو دعوت دینا تو کجا،خود مسلمانوں نے اپنی عبادت گاہوں کو بھی مسلک کی بنیاد پر تقسیم کر رکھا ہے۔اور ایک دوسرے کی مساجد میں رسمی طور پرجا نے کوبھی ممنوعہ قرار دیا گیاہے۔ در اصل سماجی نقطئہ نگاہ سے دیکھا جائے موجودہ دور میں مسالک کی بنیا د پر پروان چڑھنے والے رجحانات نے نہ صرف سماج کو تقسیم کر دیا ہے بلکہ سماج کی مذہبی ،اخلاقی،معاشرتی ،تہذبی و ثقافتی قدریں بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہیں اور سماجی وحدت کا تاثربھی مجروح ہو رہا ہے۔