ٹرمپ کی جیت، کیا مستند اور ذمہ دار قیادت کی تھیوری کا ابطال ہے؟

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

(نعیم بیگ)

یہ کہنا بہت آسان ہوگا کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم اور بعد ازاں منتخب ہونے والے صدر کے نام کو یک جنبشِ قلم میڈیا پر برپا ہونے والی بہترین دل لگی اور دلکش سرکس قرار دے دیا جائے۔

کیاواقعی ایسا ہو رہا تھا؟ کیونکہ سنجیدگی اور ذمہ داری کے تصور سے ہٹ کر امیدوار کا ’’ مستند ‘‘ ہونا اس پورے معرکہ میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا، جس سے عوامی رائے عامہ مخصوص ذہن سازی کے خیال میں الجھ کر رہ گئی تھی۔

بار گراں دونوں طرف کے قائدین کے سیاسی نظریات سے ہٹ کر کچھ اور بھی ہے۔ لیکن قائدین کی سیاسی سرگرمیوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس انتخابی مہم اور اس کے نتائج کا بغور جائزہ اور تجزیہ کرنا از حد ضروری ہے کیونکہ’’ مستند قیادت ‘‘ کا تصور اور نظریہ دونوں قائدین کے سروں پر سوار، رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔

اہم سوال یہ ہے کہ ذمہ دار اور ’ مستند قیادت‘ کی فراہمی کے لئے عوامی سطح پر انتخاب کنندگان یا پیروکاروں کا کیا کردار ہو نا چاہئے؟ بزنس اسکول آف نیوزی لینڈ لیڈر شپ مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ کی محقق اور سہولت کار ڈاکٹر فیونا کینیڈی کا کہنا ہے کہ ’’ دنیا میں معروف بہادر رہنماؤں کی قیادت کے تصور کو عرصہ دراز سے وسیع پیمانے اور عوامی سطح پر مایوسی اور مکاری کی ثقافت کے طور پر جانچا گیا تھا، جسے دنیا کے نئے عمرانی نظریات نے ۱۹۹۰ء کی دھائی سے علامتی ’تریاق‘ یا سماجی درستی کے طور پر مستند اور ذمہ دار قیادت کے تصور سے تبدیل کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ صداقت، سیاق و سباق سے آگاہ، لچکدار اور اعلیٰ کاروباری اخلاق کے کردار ہونے کہ وجہ سے ایک مخصوص قیادت کی شکل اختیار کرتی ہے جس میں اس رہنما کا مستند ہونا یا اس کے سچ کا مستند ہونا پہلی شرط کے طور پر ہے۔ (۱)

لیکن امریکی الیکشن اور اس میں جیتنے والے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ خود ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اپنے اپنی پہچان مدافعانہ رویوں سے نہیں کرواتے اور بناتے، بلکہ بہادری کی وہ انوکھی مثال بنتے ہیں جو قرونِ وسطیٰ میں سر پھرے رہنماؤں کا وطیرہ تھا۔ وہ معروف بہادر رہنماؤں کے اس خیالی تصور کی تجسیم ہیں جو آج کی دنیا میں عنقا ہے۔ اس طرح وہ اپنے پیروکاروں اور ووٹرز کو ایسی فنتاسیوں میں لے جاتے ہیں جہاں ملکی پیچیدہ معاملات یک طرفہ طور ووٹرز کے ذہنوں سے معدوم ہو جاتے ہیں۔ انہیں صرف وعدوں پر امید کے پھول ہی کھلے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر کینیڈی نے بزنس اسکول آف مینجمنٹ کے پروفیسر کولب کے ساتھ مل کر اس امر کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی رہنما کا مستند ٹھہرایا جانا اس کی حقیقی سرگرمی سے ظاہر ہوتا ہے جس سے اس کے کام کرنے کے طریق کار کو جانچا جا سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ اور سینڈر نے بلا واسطہ ایسے محرکات پیدا کئے جس سے کسی بھی عمل کو سادہ طریقے سے مکمل کر دیا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے ما بعد جدیدیت کیفیات میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ فوری اثرات پر مبنی سرگرمی کر دی جائے بجائے اس کے کہ دیرپا سوچ دامن گیر رہے، جو محترمہ ہیلری کلنٹن کرتی رہی ہیں۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے جہاں سیاسی سرگرمیاں کسی قسم کی پیچیدگیوں کی مرہونِ منت ہوتی تھیں۔

ہو سکتا ہے کہ نرم خو قیادت ان سماجی محرکات کو اس طرح نہ کھول سکیں جس طرح سماجی گتھیوں کو کھولا جا تا ہے۔ اس ضمن مین انہوں نے چلی کے ناولسٹ اریل ڈورفمین کا حوالہ دیا جس نے ٹرمپ اور اس کے پیروکاروں کا حوالے دیتے ہوئے کہا ’’ اپنے پریشان اور سخت گیر پیروکاروں کے ان خوفناک خوابوں اور خواہشوں کو ایک طرف چھوڑ کے، جن خوابوں اور خواہشوں کو انہوں نے اپنے من میں بسا لیا تھا، ٹرمپ کچھ بھی نہ تھے۔‘‘ تاہم محترمہ ہیلری یہ نہ کر سکیں۔

ٹرمپ کی جیت میں سماجی رشتوں کی وہ فینتاسی کام کر گئی جو عام زندگی میں ناممکن تھی، اور ہے بھی۔ ٹرمپ نے وہی خواب انہیں دکھائے، جو وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ۲۰۱۶ ء کے امریکی صدارتی الیکشن کی طرف دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے اس نے سو برس سے پرانی رپبلیکن پارٹی کے تمام تر روایتی بندھن توڑ دیئے۔ ڈاکٹر کینیڈی بھی یہی کہتی ہیں کہ’’ مقرر شدہ ضوابط میں ہمیشہ نئی بات کی کم گنجائش ہوتی ہے۔ ٹرمپ پیدائشی طور پر اشیاء کو مہمیز دینے کے رسیا ہیں۔ وہ صدر امریکہ کی حیثیت سے وہ سارے کام کر جائیں گے جس کی کوئی بھی توقع نہیں کر سکتا۔ ‘‘ اس لئے ووٹرز کی یہ آئرنی کام کر جائے گی کہ ہیلری کلنٹن سماجی طور پر مستند قیادت فراہم نہ کر پائیں گی۔

اس صدارتی الیکشن میں یہی کچھ ہوا ہے۔ وہی کامیاب ٹھہرا، جو اپنے باطنی رحجانات کی نفی کرتا ہو اور جو اپنے پیروکاروں کے خوابوں کو تعبیر کی جھلک دکھائے،وہ کامیاب ہو گیا، بجائے اس کے کہ انہیں وہ مشکلات دکھائی جاتیں جو حل طلب تھیں۔ جو محترمہ ہیلری کلنٹن کرتی رہیں ہیں۔

غیر معمولی امریکی صدارتی انتخابی مہم اور اس کے نتائج اس ایک بات کے غماض ہیں، کہ ہمیں یہ بات دیکھنا ہوگی کہ امریکی عوامی سپیس کہاں تھی، اور کہاں سے عملی دانش مندی آن موجود ہوئی؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا مستند قیادت کی تھیوری واقعی ایک سربستہ راز تھا جو ٹرمپ نے کھول دیا؟

———————————————————–

ماخوذ ۔۔۔’’لیسن فرام پریزیڈینشل کیمپین ‘‘ آرٹیکل از ڈاکٹر فیوما کنیڈی اور پروفیسر داری کولب
۔ یونیورسٹی آف آکلینڈ۔ نیوزی لینڈ ‘‘
(۱) راقم کو یہ حیرت ہے کہ ذاتی اخلاقی کردار کیوں منہا کر دیا گیا۔ شاید اس لئے کہ سماجی یا سیاسی زندگی میں ذاتی کردار مغرب کی ضرورت نہیں۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔