مستنصر حسین تارڑکی باتیں (پہلا حصہ)

(عرفان جاوید)

آسمان کی نیلی ململ سے شام کا سُرمئی غبار رِس رہا تھا۔
نیچے شہرِ سیالکوٹ کے گردو نواح میں پھیلے سرسبز کھیتوں سے دھند اٹھ رہی تھی۔ کھیتوں کے بیچ میں اناج کے بیجوں کی طرح بکھرے اِکا دُکا گھروں میں روشن ہوتی بتیاں موتئے کی جھاڑی میں ٹمٹماتے جگنوؤں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ انہی کے بیچ ایک شاندار اور وسیع و عریض کارخانے کا سرسبز لان شہرِ پراگ کی طرز کے لیمپ پوسٹوں کے بیچ میں لیٹا جگمگا رہا تھا۔ لان کے گرد قدیم اور جدید یورپئین طرز کی دلکش عمارات کہیں گردن اٹھائے اور کہیں سرنیہواڑے کھڑی تھیں۔ اس فیکٹری کو بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والے اہلِ ذوق صحیح طور پر آرٹ کا نمونہ کہتے تھے۔
آج یہاں دعوت تھی۔ سفید دستانے اور وردیاں پہنے ویٹر ہاتھوں میں سلور ٹرے تھامے میزوں کے بیچ میں مستعدی سے حرکت میں تھے۔ چند مہمان آچکے تھے۔ ایک کونے میں ایک جرمن خاتون ایک امریکی تاجر سے محو گفتگو تھی ۔ دوسری جانب چند یورپیئن حضرات ایک پاکستانی صاحب کی کسی بات پر مسکرارہے تھے۔
ایک کونے میں فیکٹری کا جواں سال مالک ارشد مہر انتظامات کو آخری شکل دے کر تنقیدی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ مطمئن ہو کر اس نے ایک گہری سانس بھری اور مسکرانے لگا۔ اس کا شمار شہر کے صفِ اول کے کاروباری افراد میں ہوتا تھا۔ وہ فرانس اور جرمنی کو فیشن گارمٹنس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہونے کی ٹرافی کئی برس سے جیتتا آیا تھا۔ مسکراتے ہوئے وہ میری جانب مُڑا اور مخاطب ہوا۔
’’تمہیں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ آج ایک راز کی بات بتاؤں؟‘‘
میری آنکھوں میں سوال پڑھتے ہوئے وہ گویا ہوا۔
’’میں آج جو کچھ بھی ہوں وہ ایک شخص کی وجہ سے ہے۔ مستنصر حسین تارڑ‘‘
میری حیرت کو بھانپتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور گہری ہوگئی اور وہ ایک مہمان کی جانب بڑھتے ہوئے بولا۔
’’باقی کھانے کے بعد بتاؤں گا۔‘‘
کچھ ہی دیر میں لان ایک متمول شخص کے پیٹ کی طرح، مہمانوں سے پُر ہوگیا۔
دعوت کے دوران میں مختلف ملکوں کے مہمانوں سے خوش گپیاں اور اپنے پاکستانی دوستوں سے کاروباری حالات پر گفتگو تو کرتا رہا مگر میرا ذہن میزبان کی بات میں اٹکا رہا ۔
دعوت خوب جمی۔
رات گئے جب سب مہمان رخصت ہوگئے اور ویٹر میز پوشوں کو تہہ کرنے اور کرسیوں کو اٹھانے لگے تو وہاں صرف میں اور میزبان رہ گئے۔ اپنے ایک بازو پر اوس کی نمی کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے چھوتے ہوئے اس نے مجھے قریبی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سگار سلگالیا۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا
’’پھر کیسی رہی؟‘‘
’’بہت شاندار ۔‘‘ میں نے جواب دیا
اس نے مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا ’’لَویُو‘‘ اور بات جاری رکھی ’’مجھے معلوم ہے کہ میری وہی بات تمہیں بے چین کررہی ہے۔‘‘
مجھے متجسس پاکر اس نے سگار کا دھواں شب کی تاریکی میں چھوڑا اور اسے تحلیل ہوتے دیکھتا رہا۔ سنجیدگی اس کے چہرے پر پَر پھڑپھڑاتی آبیٹھی۔
’’یہ اُس دور کی بات ہے جب میں ابھی کالج میں داخل ہوا تھا۔ یہ تو طے تھا کہ مجھے اپنا خاندانی مصالحہ جات کا بیوپار کرنا ہے۔ ایک روز کالج کی لائبریری میں میرے ہاتھ تارڑ کی ایک کتاب لگی ’’پیار کا پہلا شہر‘‘۔ کتابیں پڑھنے کا تو مجھے کوئی خاص شوق نہ تھا۔ وہ کتاب بھی ایک کورس کی کتاب ڈھونڈتے ہوئے میرے ہاتھ آگئی۔ میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا چلا گیا۔ وہ کتاب مجھے خوابوں کی ایک سحرانگیز دنیا میں لے گئی۔ جہاں تارڑ کی جگہ میں تھا اور سامنے پاسکل تھی۔اُس میں کلیساؤں کی گھنٹیاں بھی تھیں اور اسٹیمر کے بھونپو کی آواز بھی۔ پس میں ایک گلابی دھند لکے میں کھو کر رہ گیا۔ ابھی بمشکل اس سے باہر آنے کی کوشش میں تھا کہ تارڑ کی ایک اور کتاب ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے مجھے رُلیخا کی طرح پُشت سے پکڑ کر واپس اُس رنگین غبار میں کھینچ لیا۔ مجھ پر گویا سحر پھونک دیا گیا۔ میں نے عہد کیا کہ میں کوئی ایسا کاروبار کروں گا جس میں میرے پیر اجنبی دیسوں کی زمینوں کو چوم سکیں اور میں زندگی کے ان دیکھے جزیروں پر پڑاؤ کروں۔‘‘
یہاں پہنچ کر اس نے مزید کچھ دھواں اُگلا اور بولا
’’عہد کرنا تو آسان کام ہے۔ اسے نبھانا بہت مشکل کام ہے۔ سب نے نادان کہا۔ اس دور میں یہاں برآمد کا کاروبار عام نہ تھا۔میں نے وقت مانگا اور یورپ چند سیمپل لے کر چل دیا۔ قریہ قریہ پھرا۔ کئی بار نڈھال ہو کر واپسی کا سوچا۔ سیاحت کی لذت اور شے ہے اور معاش کی فکر قطعی مختلف ۔ایسا بھی ہوتا کہ دروازوں پر دستک دیتے دیتے اور چل چل کر پیروں میں آبلے پڑجاتے۔ یخ بستہ موسم میں بارش کا پانی جوتوں میں آکر پیروں کی جلد کو خستہ کردیتا۔مگر تارڑ کے پھونکے سحر نے جنون کو زندہ رکھا۔کئی ماہ کی شہر گردی کے بعد مایوس ہو کر واپس ہولیا۔ واپسی کے سفر میں ایک جرمن سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بھی ایسا ہی کاروبار کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ طے ہوا کہ میں اسے چند اور نمونے بھیجوں گا۔بس وہ دن اور آج کا دن کہ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘‘
یہاں پہنچ کر اُس نے مجھے دیکھا اور پوچھا
’’کبھی تارڑ سے ملے ہو؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’ملتا رہتا ہوں۔‘‘
اس کی آواز میں جذبات بھر آئے اور وہ بولا
’’یار تارڑ کو میرا ایک پیغام دے سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘ میں نے فوری پیشکش کی۔
اس نے توقف کیا اور پھر بولا
’’اسے میری طرف سے کہنا ’’شکریہ۔‘‘
زندگی کا پہیہ اُلٹی سمت گھومتا ہے اور زندگی کئی برس پیچھے چلی جاتی ہے۔
کراچی کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔اپنے بچپن کا ابتدائی کچھ دورانیہ برطانیہ میں گزارنے کے بعد میں ایک طویل وقفے کے بعد بیرون ملک جارہا ہوں۔
استنبول میری منزل ہے۔
ائیرپورٹ کے نئے ٹرمینل کا بین الاقوامی معیار اور جگمگاہٹ دل کو موہ لیتی ہے۔ میں اپنا دستی سامان لاؤنج کی ایک سیٹ پر رکھ کر اور ساتھ میں بیٹھ کر سامنے لگے جہازوں کی آمدورفت والے بورڈ کو دیکھنے لگتا ہوں۔ ابھی میں بورڈ دیکھنے میں محو ہوں کہ ایک آواز میری توجہ کے آئینے میں بال ڈال دیتی ہے۔
’’سرکار۔ کدھر جارہے ہیں؟‘‘
میں مُڑ کر دیکھتا ہوں۔ تھری پیس سوٹ پہنے ایک نوجوان میری جانب دیکھ رہا ہے ۔ وہ میری قریبی نشست پر براجمان ہے۔ میں اس کے کوٹ کے کالر پر لگے پھول کو غور سے دیکھتے ہوئے اپنی منزل کا نام بتادیتا ہوں۔ وہ غالباً کسی وسطی ایشیائی ریاست کی جانب گامزن ہے۔
ہم دونوں کی پروازوں میں کافی وقت ہے سو بات چیت شروع ہوجاتی ہے۔
اس کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ اندرون شہر کا کھلا ڈُلا لاہوریا ہے۔
لاہوریوں میں ایک خوبی یا خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک کوئی بات یا راز اپنے پیٹ میں رکھ نہیں سکتے۔ سو وہ بھی جلد ہی بے تکلف ہوجاتا ہے۔ جب گفتگو ابتدائی تکلفات سے بے تکلفی کی حددودمیں داخل ہوتی ہے تو وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہے، کوٹ کی سامنے کی جیب سے سرخ رومال نکالتا ہے، ماتھا پونچھتا ہے اور رومال کا گولا بنا کر اسے پتلون کی جیب میں ٹھونستے ہوئے میرے کان کے قریب منہ لاکر سرگوشی میں پوچھتا ہے۔
’’تُرکی کا ویزہ آپ کا بھلا کتنے میں لگا تھا؟‘‘
میں غور سے اسے دیکھتا ہوں او رویزہ فیس کا بتادیتا ہوں۔
وہ بے یقینی سے مجھے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے
’’نہیں نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ایجنٹ کو آپ نے کتنے پیسے دیے تھے؟ بھلا یورپ میں داخل ہونا کوئی آسان بات ہے۔‘‘
اب حیران ہونے کی باری میری ہے۔ مجھے اپنے حلق سے آواز برآمد ہوتی سنائی دیتی ہے۔
’’بس ویزہ فیس ہی دی تھی اور میرا ترکی کے رستے یورپ داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘
وہ معنی خیز انداز میں مجھے دیکھتا ہے اور کہتا ہے
’’سبھی یوں ہی کہتے ہیں۔ چلیں جو آپ کی مرضی۔‘‘
کچھ دیر ہم دونوں خاموشی کی چادر اوڑھے رکھتے ہیں۔ پھر وہ بات جاری کرتا ہے۔
’’بھائی صاحب، ہم تو سچ بولیں گے۔ہم دراصل یورپ جارہے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ کی پروا ز تو یورپ کی نہیں؟ ‘‘ میں پوچھتا ہوں
’’ایجنٹ نے سب انتظام کردیا ہے۔ وہاں سے یورپ ہی داخل ہونا ہے۔‘‘ وہ بے ساختگی سے سچ بول دیتا ہے۔
آپ ایران اور تُرکی کے راستے یورپ کیوں نہیں گئے؟ وہاں سے تو زیادہ آسان ہے۔‘‘
جب میں یہ پوچھتا ہوں تو وہ سنجیدہ شکل بنا کر میری طرف دیکھتا ہے اور کہتاہے
’’دو مرتبہ کوشش کی تھی۔ دونوں دفعہ پکڑے گئے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا۔ انہوں نے واپس کردیا۔ ایرانی اچھے لوگ ہیں۔ ان کی پولیس بھی اچھی ہے۔ مارتی بھی نہیں اور گالیاں بھی فارسی میں دیتی ہے۔ اب ہمیں فارسی تو آتی نہیں۔ اس لیے بے عزتی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘ وہ میرے سوال کا جواب دیتا ہے اور بات جاری رکھتا ہے۔
’’یہ سارے مسئلے تو ہماری پولیس کے ہیں۔‘‘
اس کے بعد باتوں کا رُخ دوسری جانب ہوجاتا ہے۔ ایک سوال مجھے دیر سے تنگ کررہا ہے۔
’’آپ یورپ پیسے کمانے کے لیے جانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’پیسے۔ وہ تو ہم یہاں بھی کماسکتے ہیں۔ ‘‘ وہ جواب دیتا ہے۔
’’پھر؟‘‘
میرے اس سوال پر وہ مجھے غور سے دیکھتا ہے، لمبی آہ بھرتا ہے اور کہتا ہے :
’’مولا نے ایک ہی زندگی دی ہے اور اتنی کھلی زمین سامنے اس طرح بچھادی ہے جیسے قالین، چاہے اس پر چلو اور چاہو تو لوٹنیاں لگاؤ۔ بس اس چھوٹی سی زندگی کو ہم ایک کنویں میں کیوں گلادیں۔ کیوں نہ دنیا کے نظارے کریں۔ ہم اپنی زندگی کو پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’خاصی گہری باتیں کرتے ہیں ‘‘ میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں۔
’’مستنصر تارڑ سے سیکھی ہیں۔‘‘ وہ جواب دیتا ہے۔
وقت کا پہیہ کچھ اور پیچھے کی جانب گھومتا ہے۔
لاہور جل رہا ہے ،کالی ماتا ناچ رہی ہے۔
لوگ ابھی راتوں کو اپنے گھروں کی چھتوں پر سوتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بچہ بھی ہے۔ لاہور کا آسمان تمام رات کو روشن رہتا ہے اور اس آسمان پر شاہ عالمی میں جلنے والے ہندوؤں کے بھاری بھرکم بہی کھاتوں کے اوراق اُڑتے ، پھڑپھڑاتے، چھتوں پر آن اُترتے ہیں۔
صبح جب لوگ جاگتے ہیں تو ان اوراق کی راکھ ان کے لباسوں اور جسموں پر ٹھہری ہوتی ہے۔
وہ لوگ ایک دوسرے کے راکھ آلود چہروں کو دیکھتے ہیں۔ شائد کچھ شرمندہ شرمندہ بھی ہیں، مگر شائد!
وہ بچہ بھی اپنے لباس اور جسم پر سے راکھ جھاڑتا اٹھتا ہے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی سمجھتا ہے۔ یہ راکھ اوپر سے تو جھڑجاتی ہے مگر اس کے دماغ کے جاندار پانیوں کی تہہ میں یوں جمتی جاتی ہے کہ بہت بعد تک اسے ستاتی رہتی ہے۔
وہ بچہ نیکر پہنے لکشمی مینشن میں اپنے دوستوں یاروں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوجاتا ہے۔
شاموں میں قریبی بازار میں خوب گہماگہمی اور رونق ہوجاتی ہے۔ جب رات اترتی ہے تو لوگ سونے کا انتظام شروع کردیتے ہیں۔
ایک رات لکشمی مینشن کی سیڑھیوں پر وہ سفید لباس میں ملبوس ایک شخص کو بیٹھے دیکھتا ہے۔ وہ شخص سعا دت حسن منٹو ہے۔ یہ اس شخص کو سہارا دیکر اس کے گھر چھوڑ کر آتا ہے۔ جہاں اس کی بیوی صفیہ اسے ’وصول‘ کرتی ہے۔ منٹو اسے ’’اچھا بچہ‘‘ کا خطاب دیتا ہے۔ بچہ تو پھر بچہ ہے۔ شرارت اس کی رگ رگ میں پارے کی طرح متحرک رہتی ہے۔
ایک روز منٹو رات گئے گھر لوٹتا ہے تو یہ بچہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سامنے والے فلیٹ کی سیڑھیوں پر دھرے خوشنما گملے منٹو کے فلیٹ کی سیڑھیوں پر منتقل کردیتا ہے۔ اگلی صبح اس فلیٹ کی مالکن خوب شور مچاتی ہے کہ ہو نہ ہو یہ سب کیا دھرا اُس منٹو کا ہے جو رات کو کچھ مخمور گھر لوٹتا ہے۔ منٹو ابھی اپنی صفائیاں پیش کرہی رہا ہوتا ہے کہ ایک اور شرارت اس کی خواب گاہ میں دبے پاؤں داخل ہوجاتی ہے۔
یہ لڑکا اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر پانی کی ایک پائپ کو منٹو کے کمرے میں ایک سوراخ سے داخل کردیتا ہے۔ جب رات کو منٹو مخمور حالت میں گھر میں داخل ہوتا ہے اور بستر پر سوجاتا ہے تو یہ لڑکے پانی کی پائپ کو سرکاتے ہوئے منٹو کے پلنگ تلے دھکیل کر تھوڑا سا پانی کھول دیتے ہیں ۔ اگلی صبح صفیہ منٹو سے جھگڑتی سنی جاتی ہے کہ یہ پانی رات کو منٹو نے نشے میں خود کردیا ہوگا۔ منٹو کو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے سنا جاتا ہے ’صفیہ مجھے سے قسم لے لو میں نے یہ نہیں کیا۔‘
وقت چند کروٹیں اور بدلتا ہے۔
یہ لڑکا اب بلوغت کے زمینوں پر پاؤں رکھ چکا ہے اور ایک لڑکی سے اس کی معصومانہ ’گپ شپ‘ بھی چل رہی ہے۔
جہاں دیدہ منٹو یہ سب بھانپ لیتا ہے اور لاہور کی ایک تپتی دوپہر میں جب یہ لڑکا دہی کا کٹورہ تھامے بیڈن روڈ سے آرہا ہوتا ہے اسے روک کر پیسٹری کھانے کی دعوت دیتا ہے۔
’پیسٹری‘ اُس دور میں ایک رومانوی لفظ سمجھاجاتا ہے۔ یہ صرف صاحب لوگوں کے کھانے کی شے ہے۔ یا پھر بیڈن روڈ پر واقع بیرٹ پارسی کی نیم تاریک ٹھنڈی برطانوی راج کے دور کی بیکری کے شوکیسوں میں جواہرات کی طرح سجی نظر آتی ہے۔
لڑکے کا جی للچاجاتا ہے اور وہ منٹو کے ساتھ بیکری چلا جاتا ہے۔ وہاں پیسٹری کھاتے ہوئے منٹو لڑکے سے اس لڑکی کے متعلق پوچھتا ہے۔ لڑکا گڑبڑا کر کسی بھی ایسی لڑکی کے وجود سے انکار کردیتا ہے۔ منٹو لڑکی کے ہاتھ سے لکھا محبت نامہ اس کے سامنے لہرادیتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ اس لڑکے پر مرتی ہے۔ پھر بہت شفقت سے پوچھتا ہے۔
’’یہ تمہارے اوپر مرتی ہے، نیچے مرتی ہے یا درمیان میں مرتی ہے؟‘‘
لڑکے کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ وہ جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ خلاف توقع اسے اجاز ت مل جاتی ہے۔ منٹو اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے اسے جاتے دیکھتا رہتا ہے۔ اپنے چلتے پھرتے افسانے کو جاتے دیکھتا رہتا ہے۔
اب تک لاہور کی آگ ٹھنڈی پڑچکی ہے۔ کالی ماتا خاموش کھڑی ہے مگر اینجلا ناچ رہی ہے۔ وہ ریگل چوک کے پار ’سٹینڈرڈز‘ ہوٹل کی چھت پر ناچ ر ہی ہے۔
منٹو اب بیمار رہتا ہے ۔
اب بھی کبھی کبھار اسے اس لڑکے کے سہارے کی ضرورت پڑہی جاتی ہے۔
مگر اب وہ اسے اچھا بچہ نہیں بلکہ اچھا لڑکا کہتا ہے کیونکہ ایک تو وہ جانتا ہے اور دوسرے اس بچے نے بھی نیکر کی جگہ پتلون پہنناشروع کردی ہے۔
ایک روزمنٹو اُس لڑکے کو بہت شفقت سے روکتا ہے اور مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔
’’میں نے وہ خط ۔۔۔ وہی خط ۔۔۔ اُسی روز پھاڑ کر پھینک دیا تھا ، فکر نہ کرنا‘‘
دن شاہ عالمی کے بہی کھاتوں کے جلتے اُڑتے اوراق کی مانند اُڑ بکھر جاتے ہیں۔
منٹو اب بیمار نہیں رہتا اور جانتا بھی نہیں۔
منٹو اب مرچکا ہے اور یہ جانے بغیر مرچکا ہے کہ اپنے وقت کا سب سے بڑا افسانہ نگار جس لڑکے کے کندھوں کا سہارا لے کر لکشمی مینشن کی سیڑھیاں چڑھ لیا کرتا تھا وہ آنے والے وقت کا اس ملک کا سب سے بڑا ناول نگار اور سفر نامہ نگار ٹھہرے گا جسے زبانِ خلق مستنصر حسین تارڑ کے نام سے پکارے گی۔
___________________________
چند چیزیں ہیں جو انسان کو بار بار اپنی طرف پچھل پیری *کی طرح بلاتی ہیں۔
انہی چیزوں میں بچپن کی یادیں بھی ہیں۔ وہ سکول بھی ہے جہاں چھٹی جماعت کا ایک طالب علم سرجھکائے ایک کتاب پڑھنے میں مشغول ہے۔ ابھی پرائیویٹ سکولوں کا لاہور میں اتنا رواج نہیں۔ یہ ایک پرائیویٹ سکول ہے جہاں برطانوی طرزِ تعلیم متعارف کروایا گیا ہے اور زیادہ طالب علم مِکس بلڈ پاکستانی ہیں۔ وہ طالب علم کتاب پڑھنے میں مشغول ہے اور سامنے ایک استاد گیلس لگائے، آنکھیں موندے گویا کسی سحر کے زیر اثر چارلس ڈکنز کے ناول ’’اے ٹیل آف ٹُو سیٹیز‘‘ کا ابتدائی حصہ دہرارہا ہے۔
’’وہ بہترین وقت تھا، وہ بدترین وقت تھا، وہ دانائی کا دور تھا، وہ حماقت کا دور تھا،۔۔۔‘‘
اس طالب علم کی یادداشت کے کسی نہاں خانے میں آج بھی وہ موندی آنکھوں والا استاد، لکڑی کے فرنیچر کی مخصوص مہک، روشن دان سے آتی سورج کی ترچھی شعائیں اور وہ الفاظ منجمد ہیں۔
یہ سب میرے تحت الشعور میں کچھ ایسے سرائت کرگیا کہ وہ لمحہ کئی برسوں پر محیط ہوگیا۔ ایسے ہی تارڑ کے ناول راکھ کے ابتدائی جملے میرے اندر گھس بیٹھے ہیں۔
’’چار چیزیں ہیں جو ہر دسمبر میں مجھے بلاتی ہیں۔۔۔ ان میں ایک شکار ہے، قادر آباد کے آس پاس۔۔ اور وادی سوات کا ایک سلیٹی منظر ہے۔۔ اور کامران کی بارہ دری سے لگ کر بہتا ہوا دریائے راوی ہے۔۔ اور چوک چکلہ ہے۔‘‘
یہی نہیں، ناولوں کے کئی اور ابتدائی جملے آنکھوں کو خیرہ کردینے والی دمکتی لہراتی تلوار کی طرح آنکھوں کی یادداشت میں اپنی کاٹ اور چمک کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اور یقیناًایسی یادداشت کا آنکھوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں کہ جب آنکھوں میں اندھیرا اُتربھی آئے اور سانس چلتا ہو، تو نظریں یہ یادداشت دماغ کو مکمل طور پر سونپ دیتی ہیں۔
ایسا ہی خداوندِ ادب ٹالسٹائی کے لازوال شاہکار ’اینا کرانینا‘ کا ابتدائی جملہ ہے۔
’’مسرور خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں، ہر ناخوش خاندان کی ناخوشی کا انداز جدا ہوتا ہے۔‘‘
اور یقیناًٹالسٹائی ازدواجی مسرت سے محروم زندگی گزارنے کے باعث ناخوشی کا نباضِ باکمال تھا۔یا پھر گرٹروڈسٹین کے ناول ’’دا میکنگ آف امیریکنز‘‘ کا ابتدایہ مکافات عمل کا آئینہ دار ہے:
’’ایک مرتبہ غیظ و غضب کا شکار ایک شخص اپنے باپ کو اپنے باغ میں گھسیٹتا چلاجارہا تھا۔ ’’رُک جاؤ‘‘ بالآخربوڑھا باپ چلا اٹھا ’’رُک جاؤ‘‘ میں نے بھی اپنے باپ کو صرف اس درخت تک ہی گھسیٹا تھا۔‘‘
اسی طرح کوئی بھی ادیب کتنی ہی منقبض شخصیت کا حامل کیوں نہ ہو، اپنی تحریروں میں عُریاں ہوجاتا ہے۔ تارڑ بھی عُریاں ہوجاتا ہے حالانکہ وہ منقبض طبیعت کا ہرگز مالک نہیں۔
لوگ دو طرح کی فطرت و مزاج کے ہوتے ہیں۔ایک گُربہ فطرت اور دوسرے سگ مزاج۔ بلی جگہوں اور مقامات سے وابستہ رہتی ہے جبکہ سگ کی فطرت لوگوں سے وابستگی کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کو قدیم اجڑی حویلیاں پرانے شہر اور محلے اپنی گرفت میں رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرح کے لوگ ، گزرگئے لوگوں کے کے بیچ میں زندہ رہتے ہیں۔ یقیناًتارڑ کی ناڑو ماحول اور مقامات سے بندھی ہے۔ یہ قادر آباد ہو، وادی سوات ہو، کامران کی بارہ دری یا چوک چکلہ ہو۔ یا یہ کے۔ٹو کا بیس کیمپ اور اس کے گرد پھیلی سفیدی ہو، سوکھے ہوئے دریا سرسوتی کے بنجر پاٹ کی سنسانی ہو، پہاڑوں کے چٹخے پتھروں کی دراڑوں کی اندھی گہرائی ہو یا چولستان کی پُرہیبت رات ہو، تارڑ ان میں بھٹکتی رُوح کی طرح بے چین پھرتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ جب وہ نیند میں ہوتا ہے تو اس کی روح نامعلوم گزرگاہوں پر رواں ہوتی ہے۔ مقامات کا ناسٹیلجیا اس کی ذات کے پاتال سے یوں ابھرتا ہے جیسے اندھے کنویں میں دی گئی صدا اس کی دیواروں سے سر ٹکراتی گونجتی باہر کو ابل آتی ہے۔اگر وہ لکھتا نہ ہوتا تو شائد زندہ نہ ہوتا۔
وقت کا ایک نامعلوم لمحہ ہوتا ہے جب کینسر کسی کے بدن میں اپنا بیج بوتا ہے اور وہ شخص اپنے بدن کی کوکھ میں موت کو زندگی دیتے ہوئے نہیں جانتا، ہرگز نہیں جانتا۔ وقت کا نہ جانے وہ کون سا نامعلوم لمحہ تھا جب تارڑ کے اندر تخلیق کے شعور نے تحت الشعور کے گدلے پانیوں سے یوں سرنکالا جیسے مچھلی سانس لینے کو سطح آب پر لحظہ بھر کے لیے ابھرتی ہے۔ شائد دیوانگی اور وحشت جب تنہائی میں اس پر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ اسے الفاظ کے خوش نما سانچوں میں ڈھال کر کتھارسس کرتا ہے۔ اس کے اندر کی دیوانگی اس بدن پر ظاہر نہیں ہوتی جو قدرت نے اس کی ذات کو اوڑھایا ہے۔ تخلیقی وفور کبھی کج روی کا رستہ اختیار کرکے کالرج کو منشیات کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے، ایڈگرایلن پوکر شراب میں غرق کردیتا ہے، چیٹرٹن کو خودکشی پر آمادہ کرتا ہے، لارڈ بائرن کو جنسی بیتابی کے باعث تقدس کی عصمت دری پر بے چین کرتا ہے، منٹو کو مشروب مرغوب میں غوطے دلاتا ہے، میرا جی کو ’دست کاری‘ کا رستہ دکھاتا ہے، راشد کو چتا پر جلاتا ہے، صغیر ملال کو زندگی دھویں میں اڑا دینے پر مائل کرتا ہے اور منیر کو اپنی ذات کا پجاری بنادیتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تارڑ صراط مستقیم ، جو پل صراط سے زیادہ دشوار ہے ‘پر چلتا ہے، ڈانواں ڈول سہی، پر اب تو چلتا ہے ۔ یا شائد نہیں چلتا۔ یہ وہی جانتا ہے۔
وہ ایسا ساحر ہے کہ جنہوں نے اس کی کتابوں میں دیس دیس کی سیاحت کی اور پھر وہ خود ان نگریوں کی سیاحت کو نکلے تو بھی اس کی تحریروں کی جادووئی عینک نہ اتار پائے۔ایسے موقع پر جارج آرویل جیسے نکتہ داں کی بات یاد آتی ہے ۔
’’بچپن میں پڑھی گئی کتابیں انسان کے ذہن میں دنیا کا ایک ایسا تصوراتی خاکہ بناتی ہیں، مختلف ملکوں کی ایسی تخیلاتی دنیا آباد کرتی ہیں کہ انسان بعد کی زندگی کی ہماہمی میں ان میں عافیت کے لیے پناہ لیتا ہے اور اگر کبھی ان حقیقی زمینوں کی سیاحت کرے تو بھی ان کو اس تخیلاتی آنکھ ہی سے دیکھنے پر مجبور پاتا ہے۔‘‘
ایک مرتبہ میں نے تارڑ صاحب سے پوچھا کہ وہ اپنی خودنوشت کیوں نہیں تحریر کرتے کہ یہ نہ صرف ان کے سفروں بلکہ ٹی۔وی کی رنگین زندگی، متنوع کرداروں، دلچسپ واقعات، فکری پختگی کے سفر اور پردہ نشینوں کا احاطہ کرے گی۔
یہ سوال کرتے ہوئے میرے ذہن میں دیگر کے علاوہ ان کی حقیقی زندگی کی ہسکی آواز میں رات گئے فون کرنے والی پردہ نشین بھی تھی جس کا ذکر ’قربتِ مرگ میں محبت‘ میں آیا ہے۔
میرے استفسار پر انہوں نے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور بس اتنا کہا
’’ میری زندگی میری کتابوں میں بکھری پڑی ہے، وہاں سے چن لو۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے شہہ پاروں کے بہت سے کردار انہوں نے اپنی حقیقی زندگی سے اٹھائے ہیں۔ بھلے وہ ’ڈاکیا اور جولاہا‘ کی نتالیہ ہو یا ’پیار کا پہلا شہر‘ کی پاسکل۔ ’راکھ‘ کا مشاہد ہو یا ’کے۔ٹو کہانی ‘کا مطیع الرحمان۔ یا پھر اس کے سفرناموں میں بکھرے مٹی کے مختلف باوے۔ سب نرالے، بہت سے اصلی، بولتے بھگوان۔ نتالیہ یقیناًایک حقیقی لڑکی ہے جس کے ہاتھ کے لکھے خطوط آج بھی لاہور کی ایک کوٹھی کی بیلوں میں ڈھکی، بین الاقوامی مصوروں کی شاہکار پینٹنگوں سے سجی، نفیس صاف ستھری روشن روشن اسٹڈی میں محفوظ ہیں۔ مضبوط ہاتھوں میں محفوظ ہیں۔ یہ وہ لڑکی ہے جو اپنے اردگرد پھیلی حسین چیزوں، سرسوں کے کھیت، کیکر پھلاہی شیشم اور سرس کے درختوں اور ہوا کے جھونکوں میں بسی ان کی مہک، ان کی شاخوں پر کوکتی فاختاؤں کی سوز و سکون بھری آوازوں، سبز کھیتوں اور مٹیالے میدانوں میں بل کھاتی پگڈنڈیوں ، مویشی چراتے لوگوں، بے فکری اور آسودگی سے چرتی گائیوں، کنویں پر پانی بھرتی عورتوں، تسلے سروں پر رکھے گوبر چنتے بچوں اور فصل کاٹتی عورتوں کو صبح کی دودھ سفیدی اور شام کو اس میں کولا کی سی گھلتی نیم سیاہی میں دیکھ کر اُکتاتی ہے اور رودین کے فراخ سینے میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ آستانہ رومی میں ہے بھی اور نہیں بھی۔
یہ بے چین لڑکی اپنے معصوم معمولات رودین لکھ بھیجتی ہے۔ سویرے سڑک سے اونٹوں کے قافلوں جو گندم اٹھائے ہوتے ہیں، کی گھنٹیوں کی جلترنگ، کالی شاما چڑیوں کی سیٹیوں، ننھی چڑیوں کے شور، مرغ کی بانگوں، فاختاؤں کی اُداس کُوکوں، لوگوں کے جاگنے کے شور اور مویشیوں کے کھولنے باندھنے کی آوازوں سے جاگ اٹھنے سے شبنم آلود گھاس پر شلوار کے پائینچے اٹھا کر ننگے پیر پھرنے تک ، اپنے بابا کی کریمیں چوری استعمال کرنے سے غم حسین میں رو دینے تک ہر بات لکھ دیتی ہے۔ وہ ناول بھی لکھتی ہے جو شائد شائع نہیں ہوتا۔
رودین، ٹالسٹائی کے ناول کا رودین جو قلعوں، مسجدوں کے گنبدوں ، میناروں ،عطر کی دکانوں، گلابوں کی پتیوں اور تاریک حجروں، مزاروں کی سبز چادروں والے شہر لاہور کا تارڑ ہے بہت بعد میں، جب اسے یقین ہے کہ فاختہ کی طرح معصوم نتالیہ اب نانی دادی ہوچکی ہوگی، ان خطوط کو فن پارے کا روپ دے دیتا ہے۔ اپنے ہاتھ آئے مقدس سنگ مرمر کو تراش کر دیوی کا رُوپ دیتا ہے ،ایسی ملکوتی حسن والی دیوی جسے پوجنے کو مومن کا جی بھی للچائے۔یہ خطوط میں نے خود دیکھے اور تارڑ کی نم ہوتی آنکھوں کے سامنے اس کے کانپتے ہاتھوں میں دیکھے۔
آخر یہ عمر بھی اچھے خاصے آدمی کو کمزور کردیتی ہے۔
میں نے پوچھا ’’کبھی یاد آتی ہے؟‘‘
تارڑ نے باہر باغیچے میں دیکھا، جہاں ابھی اہل خانہ کے قدموں کے نشان تازہ تھے ۔
پھر میری طرف دیکھ کر سر نفی میں ہلادیا۔ یہی تقاضائے دانائی بھی ہے۔
نہ جانے اس فراخ سینے میں، استنبول کے آرمینیائی مسیحوں کے مجسمہ مجسمہ قبرستان *کی طرح، کتنی مورتیاں سجی ہیں۔ چلتا پھرتا مندر ہے تارڑ۔
پھر پاسکل۔ سورج کبھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے جتن نہیں کرتا۔ پس ابھر آتا ہے۔
پاسکل۔ ’پیار کا پہلا شہر‘ کی پاسکل افسانوی کردار سہی مگر جس مٹی سے اسے ڈھالا گیا ہے وہ نسوانی مٹی یقیناًحقیقی زمین سے اٹھائی گئی ہے۔
نسوانی نرم ہاتھوں والے تارڑ صاحب سے نوے کی دہائی کے اواخر میں ہونے والی ، ان کی صاف ستھری نتھری روشن اسٹڈی میں، پہلی ملاقات فقط ایک تاثر کی شکل میں میری یادداشت میں محفوظ ہے۔
وہ اتنے نرم لچکیلے ہاتھوں کے مالک ہیں کہ اگر جیب تراش ہوتے تو خاصے کامیاب ہوتے۔
اس ملاقات میں ایک تکلف تھا، میری طرف سے ایک جھجک تھی کہ یہ ملاقات ایک طفل مکتب کی ایک دیوقامت ادیب سے تھی۔
بعد میں جب کوٹھا ٹپنیوں کی طرح تکلف کا کوٹھا ٹاپ کر میں بے تکلفی کے احاطے میں کودا تو بظاہر اس پراسرار جہاں گرد کی شخصیت کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔ اس کے کرزما کی دُھند میں چھپی شخصیت اس طرح نمایاں ہوگئی جیسے سینٹ پیٹرز برگ کی عمارتوں کے سنہری کلس سرد دوپہروں کو کُہر ے کے چھٹ جانے اور سورج کے عُریاں ہوجانے پر چمک کر نمایاں ہوجاتے ہیں۔
بڑے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی طرح کے لوگ پہلی ملاقات میں بھرپور تاثر چھوڑتے ہیں۔ یہ تاثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زائل ہوجاتا ہے اور دیوقامتی کے مجسمے کے پیچھے چھپا عام انسان سامنے آجاتا ہے۔ دوسری طرح کے لوگ پہلی ملاقات میں بہت بھرپور تاثر تو نہیں چھوڑتے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ایک پائیدار گہرا اور وسیع نقش مرتب کرتے چلے جاتے ہیں۔ تارڑ صاحب دوسری طرح کے لوگوں میںآتے ہیں۔ اگر کوئی نکتہ چیں ان سے ملاقات میں یہ توقع کرے کہ وہ سجی سجائی گفتگو میں دانائی کے پیوند لگاکر اس کے ذوق سلیم کی تشفی کریں گے تو وہ شائد مایوس ہو۔ وہ عام بول چال میں اجنبی پر گہرا تاثر نہیں چھوڑتے۔ مگر اپنے بے تکلف احباب کے لیے ان کی صحبت ایک خوشگوار اور خیال آفریں تجربہ ہوتی ہے۔ وہ دھیمے لہجے کی گفتگو میں مختلف موضوعات پر واقعات، نفسیاتی توجیہات اور قطعی منفرد اور سچی سوچ کا ایسا تڑکا لگاتے ہیں کہ ان کا مخاطب یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ وہ اس موضوع کا اس طرح کیوں تجزیہ نہ کرپایا۔ یا شائد وہ بھی ایسا ہی سمجھتا تھا لیکن اسے اس کا شعور نہ تھا۔ میلان کنڈیرا کے الفاظ میں
’’ایک تخلیق کار کا مطمع نظر اپنے پیش روؤں سے بہتر کر دکھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ دیکھنا اور کہنا ہوتا ہے جو وہ نہ دیکھ سکے اور نہ ہی کہہ سکے۔‘‘
اس امر کو میلان کنڈیرا جیسے ذہین اور دروں بیں نکتہ داں سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے۔کتنے واقعات ہیں اور کتنی ہی باتیں۔
ایک روز ہماری گفتگو سرمایہ دارانہ نظام کی گود میں پلنے والے میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ طور پر عام انسانی المیے کو کمرشل ازم کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیچنے کے ناقابل فروگزاشت موضوع پر جاری تھی۔ تارڑ صاحب نے سگریٹ سلگایا، چند کش لیے، اس کے سلگتے سرے کو کلپر سے کاٹا، بقیہ سگریٹ کو سگریٹ کیس میں رکھا اور کہنے لگے۔
’’اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ جان ایف کینیڈی کا بھائی مررہا تھا اور اس کے گرد رپورٹر اور کیمرہ میںیوں گھیرا ڈالے کھڑے تھے جیسے تماشائی موت کے کنویں کے گرد کھڑے ہوتے ہیں۔ اِدھراسے موت گھسیٹے اپنی کچھار میں لیے جارہی تھی، اُدھر کیمرے کلک کررہے تھے، فلیش چمک رہی تھی اور ریکارڈنگ جاری تھی۔ اس کی بیوی سب کچھ دیکھ رہی تھی اور بے بسی میں مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ جب اس کی ہمت جواب دے گئی تو وہ میڈیا پر برس پڑی کہ ایک طرف اس کا شوہر مررہا ہے اور دوسری طرف اس کی جان بچانے کی بجائے فوٹوگرافر، رپورٹر اس کی کوریج میں مصروف ہیں۔ یہ سن کر فلم بناتے ایک کیمرہ مین نے سراٹھایا اور اس کی بیوی سے فقط اتنا کہا ’’خاتون! ہم اس وقت تاریخ ریکارڈ کررہے ہیں۔‘‘
ایک روز تارڑ صاحب نے مجھ سے پوچھا
’’سب سے بے لوث رشتہ کون سا ہوتا ہے؟‘‘
میں نے بلا تردد جواب دیا
’’ماں باپ کا ‘‘
انہوں نے نفی میں سرہلایا اور بولے
’’وادا دادی نانا نانی کا۔ ماں باپ کو تو پھر اولاد سے کوئی غرض یا امید ہوسکتی ہے۔ ان رشتوں کو نہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ جب تک چھوٹے نواسے پوتے جوان ہوں گے تب تک شائد وہ زندہ ہی نہ رہیں۔‘‘
مجھے سوچ میں گم دیکھ کر بولے
’’اسی لیے یہ رشتے ذمہ داری سے بھی مبرا ہوتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا دوسرا دلچسپ رُخ ہے۔‘‘
مجھے ذاتی طور پر دستووسکی کی زندگی کا ایک واقعہ ہانٹ کرتا ہے
ایک مرتبہ اسے ساتھیوں سمیت حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ اس نے بغاوت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی تھی سو بے فکر تھا کہ چند ہی روز میں چھوٹ جائے گا۔ چند روز بعد حکومتی اہلکار اسے اس کے ساتھیوں کے ہمراہ جیل سے لے گئے۔ سب نے جیل سے آزادی پر سکھ کا سانس لیا۔ حکومتی اہلکارانہیں شہر کے مرکز میں لے گئے اور کھلی فضا میں چھوڑ کر اعلان کیا کہ انہیں سرعام گولی مار دی جائے گی۔
یہ حکم سنا کر دو قیدیوں کے چہروں پر غلاف چڑھادیئے گئے اور ان کا رُخ ایک دیوار کی جانب کردیا گیا۔ دستووسکی کا نمبر بعد کا تھا۔
وہ خواب کی کیفیت میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔
بندوقیں تان دی گئیں اور شست باندھ لی گئی۔
ابھی گولیاں چلنے ہی کو تھیں کہ ان سب کی معافی کا اعلان آگیا۔
پس اس ایک لمحے نے دستووسکی کی سوچ بدل دی اور اس کے سامنے زندگی کی حقیقت اور تصورات کی معنویت برہنہ کردی۔
’’میں ایک مرتبہ سفر میں تھا۔ ہم لوگ بس میں تھے اور یورپ کی طرف سفر کررہے تھے۔ نہ جانے بس کس طرح سڑک پر سے پھسلی اور گہری کھائی میں گرنے لگی۔ وہ چند لمحے تھے جب میں نے موت کی آنکھوں میں دیکھا اور مجھ پر زندگی اور موت کے درمیان باریک سی لکیر کا فرق واضح ہوگیا۔ایک ثانئے میں بس بجری میں جاگری اور اُلٹ گئی۔ چند مسافر جاں بحق ہوئے اور مجھ سمیت باقی سبھی زخمی۔‘‘
تارڑ صاحب اپنی زندگی کا واقعہ سنارہے تھے
’’اس طرح میں بے شمار مرتبہ موت کے سیاہ حلق میں سر ڈال کر زندہ لوٹ آیا۔ میری زندگی میں متنوع واقعات یوں تسلسل سے رونما ہوئے ہیں کہ میں کسی ایک واقعے یا تجربے کو سوچ کے زاویئے بدل دینے والا قرار نہیں دے سکتا۔‘‘

(جاری ہے)