دلت اور مسلمان ڈسکورس: برہمنی فکریات کے خطرناک پہلو
از، ابرار مجیب
مابعد نوآبادیاتی ڈسکورس میں ہندوستانی حوالے سے لفظ دلت (Dalit) ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ہندوستانی ادب ، جس میں بیشتر علاقائی زبانیں شامل ہے لیکن خاص طور سے مراٹھی اور ہندی میں دلت ادب اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ موجود ہے ۔ دلت سماج میں عام طور سے ہندو ذاتوں کی تقسیم کے حوالے سے ان طبقات کوشامل کیا جاتا ہے جو مذہبی فلسفہ کے مطابق ورن کے نظام میں سب سے نچلی سطح پر ہیں ، جنہیں عرف عام میں شودر کہا جاتا ہے۔ گوکہ دلت ادب کی شروعات ہندو برہمنی فکریات کی مخالفت سے ہوئی ،لیکن میرے خیال میں دلت ادب کی موضوعاتی وابستگی صرف ذاتوں کے استحصالی رویے تک محدود نہیں رہ گئی ، اس ادب کے فلسفیانہ ڈسکورس میں برہمنی فکریات کے ان خطرناک پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جو مجموعی طور ایک استحصالی نظام کے طور پر فروغ پذیر ہوچکا ہے، یہ سماج کے ان تمام طبقات پر محیط ہے جو استحصال کا شکا ر ہیں ۔
چوں کہ ہندوستان میں مذہب کے حوالے سے نچلی ذاتوں کوصدیوں سے کچلا گیا ، برہمنی بالا دستی نے اس کا استحصال کیا اس لیے دلت اد ب کے مباحث میں ہندو سماج کے یہ طبقے مرکزی بحث کا حصہ بنے ۔ اردو ادب میں دلت مسائل اور ادبی نمائندگی لگ بھگ ناپید ہے ، ادھر ادھر چند رسائل کبھی اس پر مضامین شائع کردیتے ہیں ، لیکن اردو میں اس اہم ادبی تحریک کو فروغ نہ ملنے کی سب سے اہم وجہ اردو کا مسلمانوں سے گہرا رشتہ کی وجہ سے ہے۔ چوں کہ اسلام میں ذاتوں کا نظام ہندو ورن کے نظام کی طرح پختہ اور سخت نہیں ہے اس لیے سماجی روابط میں سید اور انصاری ظالم و مظلوم کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتے۔ لیکن یہ اردو دانشوروں کی فکر کا ایک سطحی انداز ہے۔ مسلمان ہندوستان کے اندر معاشی اور سماجی استحصال کے نقطہ نظر سے دلتوں سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کے سماجی حالات منصوبہ بند سیاسی استحصال کا نتیجہ ہیں اور ہندوستانی سیاست کی عملی شکل برہمنی فکریات سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے ہمارے دانش ور ، تخلیق کار اور صحافی اس کا شعور نہیں رکھتے۔
میرے اپنے تجزیے کے مطابق ہندی اور مراٹھی کے مقابلے اردو ادب کو دلت تحریک کا نمائندہ ہونا چاہئیے کیونکہ ہندوستانی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد شودروں کی منقسم ذاتوں سے بڑی ہے اور اور برہمنی فکریات اور اس کی عملی اشکال کے استحصال کا خوفناک شکار مسلمان کہیں زیادہ ہے۔ چوں کہ مسلمانوں میں ذاتوں کی تقسیم مذہبی حوالے سے ممکن ہی نہیں اس لیے انہیں ذات کے نام پر وہ مراعات بھی حاصل نہیں جو ہندو سماج کے شودروں ، جنہیں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب میں تقسیم کیا گیا ہے کو حاصل ہیں ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ سیاسی نظام اور قانون سازی کا ادارہ انسانوں کی پس ماندگی کو معاشی اور سماجی حالات کے پس منظر میں نہیں دیکھتا بلکہ ذاتوں کی تقسیم کی بنیاد پر دیکھتا ہے ، ایک جمہوری ملک میں پسماندگی کا یہ معیار بذات خود اس طرف اشارہ کردیتا ہے کہ ہندوستانی قانون سازی میں برہمنیت کے کتنے گہرے اثرات ہیں ۔ ا ہندوستان میں رام ولاس پاسوان جیسے دولت مند وزیر کو بھی وہی مراعات حاصل ہیں جو ایک آدی واسی کو ، یہ آدی واسی دن کے ایک وقت کے کھانے کے لئے محتاج اور تیز بارش میں اپنے بال بچوں کے ساتھ اپنی چھونپڑی میں بھیگنے کے لئے مجبور ہوتا ہے۔
دلت ڈسکورس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مفکروں کے مطابق اگر چوتھی دنیا کا کوئی تصور قائم کیا جاسکتا ہے تو وہ دلت ادب ہوگا، تیسری دنیا کی پس ماندگی تو جگ ظاہر ہے، اس پس ماندگی اور ذلت آمیز حالات سے بھی زیادہ عبرت ناک حالت دلتوں اور مسلمانوں کی ہے، دلت ڈسکورس میں اردو ادب کی عدم شمولیت ہمارے ادیبوں اور دانشوروں کی بے خبری ، سماجی سروکاروں سے بے اعتنائی ، جمالیاتی لطف وانبساط کی پاسداری پر دال ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ اردو ادب سیاسی ، سماجی ،معاشرتی اور ثقافتی ڈسکور س سے یا تو باہر ہے یا اگر اس میں کبھی ان موضوعات کی جھلک نظر بھی آتی ہے تو پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے جھاگ کی طرح ہوتی ہے جو بہت جلد بیٹھ جاتی ہے۔ ہماری دانشوری ہئیت کے مسائل کے گرد گھومتی ہے ، اس رحجان اور ذہن سازی میں جدیدیت کی خود ساختہ تاویلوں نے اہم رول ادا کیا۔ جدیدیت کے سب سے بڑے ناقد شمس الرحمٰن فاروقی اور ان کے مقلدین کی شخصی تنہائی ، سماجی ، سیاسی ، معاشرتی اور ثقافتی مسائل سے رو گردانی بلکہ ان مسائل کی مشاہداتی اور فکری سمجھ کی کمی نے اردو ادب کو ہئیت کے مباحث کا چیستاں بنادیا ۔ شاعری میں رعایت لفظی ، تشبیہہ، استعارہ ، علامت اور جمالیاتی مباحث کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ شاعر تخلیقی عمل میں انسان اور انسانی مسائل سے بے بہرہ ہوگیا۔ اسی طرح افسانہ میں تنہائی ، ذات کا المیہ ، اور لجلجی نیم شاعرانہ زبان کا استعمال بیانیہ کی طاقت کے زوال کا سبب بن گیا۔ اردو ادب آج بھی ان ہی خطوط پر گامزن ہے ، اب یہ ہورہا ہے کہ مغرب سے تھیوری کے مباحث کے چربے پیش کرکے اسے دانشوری کا اظہار سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دلت ادب کی شروعات ایک ایسی تحریک کے طور پر ہوئی جس میں ہندو مذہب کی ذاتوں کی تقسیم کے خلاف آزادی کی چھٹپٹاہٹ تھی۔ آج بھی اس کا بنیادی موضوع اور فلسفیانہ بحث یہی ہے ۔ یہ اندازہ قائم کرنا بہت مشکل ہے کہ دلت ادب کی شروعات صحیح معنوں میں کب ہوئی ، اس ادب کی تاریخ کا کو تصوراتی سطح پر ہم ’’منو سمرتی‘‘ کے مواد میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اس طرف سنجیدگی سے اگر کسی نے توجہ دی تووہ بھیم راؤ امبیدکر ہیں جن کا مضمون ’’شودر کون تھے‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ امبیدکر کا مضمون نظریاتی اور تاریخی ہے جبکہ منو سمرتی ایک مذہبی کتاب ہے اس لیے اسے خالص
ادب کے ڈسکورس میں وہ مقام نہیں دیا جاسکتا، جس کے تحت اس ادب کے خدوخال متعین ہو سکیں ۔بدھ مذاہب کی کتابیں بھی اس طرف رہنمائی کرتی ہیں لیکن جدید دلت ادب کے مباحث کی
صحیح معنوں میں شروعات ایم این وانکھیڑے کے مضمون ’’دلت ادب ،شعور ، سمت اور اثرات : ایک مباحثہ ‘‘ سے ہوتی ہے، یہ مضمون ۱۹۶۹میں شائع ہوا تھا۔اس سے بہت پہلے گیارہویں صدی کے وچانا کنٹر شاعر اعلٰی ذاتوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں :
وہ جو بکرے کا گوشت اور سڑی ہوئی چھوٹی مچھلیاں کھاتے ہیں
ان کو وہ ذات والے لوگ کہتے ہیں
وہ جو مقدس گائے کا گوشت کھاتے ہیں
گائے جو جھاگ آمیز دودھ کی دھار ڈالتی ہے شیو لنگ پر
انہیں وہ غیر ذات کے نام سے پکارتے ہیں
یہاں میرا موضوع دلت ادب کی تاریخ نہیں ہے، جیساکہ عرض کیا ، دلت سماج ہندو مذہب کے حاشیے پر موجود ذاتوں مجبور و مقہور انسانی ہجوم ہے جسے اعلٰی ذاتوں کے استحصال نے انسانی سطح سے بھی نیچے گرا دیا ہے ، لیکن دلت ادب کی یہ تعبیر اس لحاظ سے تبدیل ہونی چاہئیے کہ ہندوستان میں ہندو مذہب کی نچلی ذاتوں کے علاوہ پورا اسلامی سماج بھی برہمنی نظام کے ظلم وستم اور استحصال کا اسی طرح شکا رہے ، دلت ڈسکورس میں یہ ایک نئی نہج ہے اور اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔ سب زیادہ ضروری ہے کہ اردو دانشور ہندوستانی پس منظر میں مسلمانوں کی مجموعی صورت حال اور دلت مسائل سے اس کی ہم آہنگی پر غور کریں ۔ تخلیقی فنکاروں کو ہندوستانی زبانوں میں تخلیق کردہ ادب کا بہ غائر مطالعہ کرنا چاہئیے اور اس سے کسی نتیجہ پر پہنچ کر اس تحریک کا حصہ بننا چاہئیے۔ اردو فکشن خاص طور سے سماجی اور ثقافتی پس منظر میں اس کی بہترین عکاسی کرسکتا ہے۔ اردو کے چند رسائل میں یہ رحجان بھی دیکھنے میں آیاکہ چھچھورے پن کی حد تک گر کر بعض لوگوں نے مسلمانوں میں ذاتوں کی تقسیم کی شناخت کا عمل شروع کیا اور اسے مسلم اعلٰی ذات اور مسلم شودر کے مسائل میں بدلنے کی مذموم کوشش کی۔ مسلمانوں میں کسی بھی نقطہ نظر سے کم از کم ہندوستان کے اندر روایتی دلت تعریف کی سطح پر مسلمانوں کی تقسیم ممکن ہی نہیں اور جو کوئی اس قسم کی کوشش میں ملوث ہے وہ دراصل ہندو انتہا پسندوں کا غلام ہے اور ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا۔
ڈاکٹر اعجاز علی جوآل انڈیا بیک ورڈ مسلم مورچہ کے قومی کنوینر ہیں ، ان کا اپنا ایک منفرد نظریہ ہے ، حقیقت سے قریب بھی ہے ، اپنے ایک انٹرویو میں جو انہوں نے یوگیندر سکند کو انگریزی میگزین آؤٹ لُک کے لیے دیا تھا ’’دلت مسلم ‘‘ کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’تقریبا‘‘ تمام ہندوستانی مسلمان مقامی لوگوں (ہندؤوں ) کے اخلاف ہیں ۔ہمارے آباء عرب سے نہیں آئے۔یہ لوگ مقامی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ہم انہیں دو بڑے طبقوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ، پہلا دلت جو بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوئے، استحصال سے فرار کی صورت جس کا وہ برہمنی نظام میں شکار تھے۔ یہ لوگ ابتدائی مسلمانوں کی سادگی اور بھائی چارہ سے بہت متاثر ہوئے ، خاص طور سے صوفیوں سے، انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ ایک ہی برتن میں ساتھ ساتھ کھاتے ہیں ۔ کاندھے سے کاندھا ملا کر مسجدوں میں ساتھ ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔انہوں نے دیکھا کہ کوئی بھی امام بن سکتا ہے جو نماز کی نمائندگی کرسکے۔ صوفیوں نے انہیں کھلے بازوءں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ صوفیوں کے لنگر میں انہوں نے دیکھا کہ ہرایک ذات کا فرد ساتھ ساتھ کھارہے ہیں ۔ ظاہر ان ساری چیزوں نے بے حد متاثر کیا اور وہ بڑی تعداد میں مساوات اور انسانی وقار کی تحصیل کے لیے اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کے اخلاف جو کہ پچھتر فیصد ہندوستانی مسلمان ہیں ، دلت مسلم ہیں ۔
ہندوستان کے دوسرے مسلمان یا تو ان مسلمانوں کے اخلاف ہیں جو ایران ، وسط عرب اور ایران سے اس ملک میں آئے ، یا مقامی تبدیل مذہب کرنے والے ہیں جن کا رشتہ اعلٰی ذات کے ہندوؤں سے ہے یا ان سے جن کو ہم آج ’’آدر بیک ورڈ کلاس ‘‘کا نام دیتے ہیں ۔یہ ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بہت چھوٹے سے حصے پر مشتمل ہیں۔‘‘
ڈاکڑ اعجاز علی کے مذکورہ خیالات کے پس منظرمیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیشتر ہندوستانی مسلمان ’’دلت ‘‘پس منظر رکھتے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے بعد یقیناًسماجی سطح پر ان دلتوں کو ذلت آمیز رویے سے نجات مل گئی لیکن کیا ان کی معاشی حیثیت میں کوئی تبدیلی آئی؟ کیا یہ بھی ہندو دلتوں کی طرح ہندوستان کے برہمنی استحصالی رویے کا شکار نہیں ہیں ، جب اہم برہمنی رویے کی بات کرتے ہیں تو اب یہ ایک مخصوص ذات کی بالادستی تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ صدیوں میں فروغ پذیر ہوئے اس نظام پر محیط ہے جس میں استحصال کلیدی پہلو کے طور پر کام کرتا ہے ، یہ چھوا چھوت کے نظام سے آگے کا سفر کرتاہوا ایک ایسے نظام کی تشکیل میں کامیاب ہوگیا ہے جس کا سیدھا رشتہ پیداواری طاقتوں اور معاشی استحصال سے ، اس نے ہندوستان کے تمام اداروں میں اپنے پاؤں پھیلا لیے ہیں ، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں ، سیاسی ادارے ہوں ، کارپوریٹ ورلڈ ، ادب اور فلسفیانہ فکر ، غرض کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو برہمنی نظام کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔
صدیوں سے مسلم سماج میں رہنے کی وجہ سے بہت حد تک نومسلم طبقہ ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ضرور ہوا ، لیکن ہندوستانی سماج پر ہندو مذہب کے اثرات بدستور برقرار رہے ، ملک کی تقسیم ، پاکستان کا قیام اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ، انسانی تاریخ کا عظیم ترین المیہ کے پس منظر میں لگاتار استحصال کا شکار ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے ایک خوف اور ذلت کی فضا میں زندگی گزارنا شروع کی، مسلمانوں کو غدار وطن ، پاکستانی ایجنٹ کہا گیا ۔ ان کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے، آئے دن ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات جس کا واحد مقصد مسلمانوں کی معاشی کمر توڑنااور خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنا ہوتا ہے، اس خونی کھیل میں علاقائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کھلے عام اپنا رول ادا کرتے ہیں ، برہمنی استعماریت اور فسطائی عوامل کی اس سے بدترین مثال نہیں مل سکتی ، اس لحاظ سے دیکھیں تو ہندوستانی مسلمان کی حیثیت دلتوں سے بھی بدتر ہے اور وہ دلتوں میں دلت ہیں ۔
ہندوستان میں ہندو نظام ذات کے اثرات سے اسلام بھی نہیں بچ سکا ، مسلمانوں میں ہندو ورن کی تقسیم کی طرز پر چار ذاتوں کا ظہور ہوا۔ سید ، شیخ ، پٹھان اور انصاری۔ جہاں سید ہندو مذہب کے برہمنوں کے مماثل ہیں ، وہیں شیخ نیم برہمن ، نیم دنیا دار، تیسری کڑی پٹھانوں کی ہے جو کشتریہ سے مماثل ہیں اور انصاری بہت حد تک شودروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس تقسیم کے باوجود یہ بات قابل غور ہے کہ سید ، شیخ یا پٹھان ذاتوں کے معاملات میں سماجی رسومیات اور ذات کی بالا دستی کو قائم رکھنے کے لیے شادی بیاہ اپنی ذات میں کرنا پسند کرتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں ان کی کوئی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ طبقے عین ہندو اعلٰی ذاتوں کی طرز پر مسلمانوں کی نچلی ذات کے استحصال پر پوری طرح قاد ر نہیں ہیں ۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو مسلم سماج کا ہر طبقہ ہندوستانی برہمنیت جو کہ ہندو فسطائی استعماریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا عجب گھال میل ہے کے استحصال کا شکار ہیں ۔
بہت عمدہ تحریر