(عبداللہ غازی)
پاکستان میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں غیر مسلموں کے حوالے بہت سے منفی رویے پائے جاتےہیں ۔ اس حوالے سے میڈیا پر بھی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا اقلیتوں سے برتاؤ اچھا نہیں ۔ اس کی اور بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن میرے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں ۔ہم نے اسلام کو چند عبادات اور مسلمانوں سے اچھے تعلقات تک محدود کرلیا ہے۔ ہم مسلمانوں سے تو اچھا سلوک کریں گے لیکن غیر مسلموں کو نفرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔سوا ل یہ ہے کہ اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطہ ِحیات ہے، کیا اس نے غیر مسلموں سے برتاؤ کے حوالے سے کوئی واضح لائحہِ عمل فراہم نہیں کیا؟ یہ بات ناممکن سی لگتی ہے کہ اسلام نے اس پہلو کو نظرانداز کر دیا ہو۔
اسلام نے یقینا اس حوالے سے معلومات ضرور فراہم کی ہوں گی لیکن
کیا ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ہماری مذہبی کتاب، قرآن مجید میں غیر مسلموں کے حوالے سے کیا رہنمائی فراہم کی گئی ہے؟
کیا ہمیں اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام ؓ کا طرزِ عمل معلوم ہے؟
میرے ان سوالوں میں” معلوم ہونے” سے مراد یہ نہیں کہ ہم نے اِدھر اُدھر سی اڑتی اڑتی کتنی باتیں سن رکھی ہیں۔ بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ کیا ہم نے خود سنجیدگی سے ان چیزوں کے بارے میں پڑھنے کی کوشش کی ہے ؟ کیا ہم نے کسی مستند عالمِ دین سے اس حوالے سے کبھی کچھ سنا ہے؟ اگر تو آپ اس حوالے سے معلومات رکھتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کا غیر مسلموں سے برتاؤ اچھا ہوگا۔ لیکن اگر ہم میں سے کسی کا جواب “نفی” میں ہے تو پھر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد میں غیر مسلم رہتے ہیں، اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم نے ان سے کیسا برتاؤ کرنا ہے ۔ ہم اپنی اسی لاعلمی کی وجہ سے غیر مسلموں سے نفر ت بھی کرتے ہیں اور ان کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی بھی کرتے ہیں۔
آئندہ سطور میں ،میں کوشش کروں گا کہ اسلام میں غیر مسلموں کو دیے ہوئے حقوق کا ایک خاکہ آپ کے سامنے رکھ دوں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جو عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ تمام غیر مسلم لوگ قابل ِ نفرت ہیں ، ایسا ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ساتھ رہن سہن ، ان سے ملنے جلنے ، ان سے معاملات رکھنے سے منع کردیا جاتا ، انہیں تبلیغ بھی نہ کی جاتی ۔حالانکہ اسلا م نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں مشرکین، اور مدینہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ رہائش رکھی، ان سے تجارتی اور دیگر معاملات بھی رکھے اور ان سے حسنِ سلوک بھی کیا۔ میثاقِ مدینہ کی رو سے اگر کوئی باہر سے آکر مدینہ میں موجود غیر مسلموں پر بھی کوئی حملہ آور ہوتا تو مسلمانوں کا وعدہ یہ تھا کہ وہ مدینہ کے غیر مسلموں کا ساتھ دیں گے ۔ نبی اکرم ﷺ مدینہ کے باہر سے ملنے کے لیے آنے والے وفود کا اعزاز و اکرام کیاکرتے تھے ۔ سیرت النبی ﷺ غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کے ان تمام واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اسلام نہ صرف غیر مسلموں کے حقوق تسلیم کرتا ہے بلکہ بڑی تاکید کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کا درس بھی دیتا ہے۔ غیر مسلموں کا سب سے پہلا حق ان کی “جان کا محفوظ ہونا” ہے۔اسلام غیر مسلم ذمیوں اورمعاہدین کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری دیتا ہے۔ اسلامی ریاست اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جن سے غیر مسلموں کی جان محفوظ ہو۔ کوئی ناحق ان کی جان نہ لے سکے۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” جو شخص ایسے معاہد ( ذمی) کو قتل کرے گا جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا ذمہ ہے ، اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا ، ایسا شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے۔(سنن ترمذی، تحقیق: احمد شاكر ،1403) گویا غیر مسلموں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وعدہ ہے کہ اسلامی ریاست ان کی جان کی حفاظت کرے گی۔ یوں اسلامی ریاست کی ضمانت اور معاہدے کے ذریعے ان کے لیے اللہ اور ااس کے رسول ﷺ کا وعدہ ہے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے گا۔کوئی مسلمان اگر ان کا ناحق قتل کرتا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وعدے کو توڑ رہا ہے۔او ر اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ جنت سے دور کر دیا جائے گا۔
غیر مسلموں کا ایک حق یہ ہے ان کا” مال محفوظ ” ہو۔اسلام نے ناحق غیر مسلموں کا مال لینے سے منع کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” خبردار، جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے یا اس کے حق میں کمی کرے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے یا اس کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر حاصل کرے تو قیامت کے دن میں اس (غیر مسلم )کا وکیل ہوں گا۔(کہ بارگاہِ الٰہی میں اس کامقدمہ پیش کروں گا۔) (سنن ابی داود ، 3052)
علامہ سرخسیؒ فرماتے ہیں: جیسے کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال نہیں، اسی طرح معاہد، ذمی لوگوں کا مال بھی (بغیر رضامندی کے لینا) حلال نہیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اُن کا مال بغیر رضامندی کے لینے میں اُن سے خیانت اور وعدہ خلافی ہے۔(کیونکہ اسلامی ریاست نےُ ان کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے ۔اورجیسے کسی دوسرے مسلمان کا مال ناحق لینا حرام ہے ، ایسے ہی اِن غیر مسلموں کا مال بھی ناحق لینا حرام ہے۔)۔(شرح السير الكبير ،1 / 133)
غیر مسلموں کا ایک اور حق ان کی “عزت کی حفاظت “ہے۔اسلام غیر مسلموں کو یہ حق بھی دیتا ہے۔ کسی غیر مسلم کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے اور ا ذیت دینے سے منع کیا ہے۔ فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی یہودی یا مجوسی کو “اے کافر “کہے جو اسےناگوار گزرے تو بھی گناہ گار ہوگا۔ (الفتاوى الهندیہ ،5 / 348)
غیر مسلموں کو چڑانے کے لیے اُن کے معبودوں کو بر ا بھلا کہنا بھی جائز نہیں۔ مزید یہ کہ زبردستی اُن سے اُن کا مذہب تبدیل نہیں کروایا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ} (البقرة: 256)
ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں۔
اسلام نہ صرف غیر مسلموں کی جان ، مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اُن سے حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا:{لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ}
ترجمہ :” جن لوگوں نے تم سے دین کی وجہ سے جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، اللہ تمہیں ایسے لوگوں سے نیکی اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”(الممتحنۃ : 8)
اس میں تمام عورتیں، بچے، بوڑھے اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ پرامن طور پر رہ رہےہیں۔اس میں ذمی لوگ ، ویزہ لے کر اسلامی ملک میں آنے والے لوگ اور مسلمانوں سے معاہد ہ کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔یعنی اللہ نے اُن سے رشتہ دار ہونے کی صورت میں اُن سے صلہ رحمی ، پڑوسی ہونے کی صورت میں ان کی خبر گیری اور انہیں نفع پہنچانے، اور مہمان ہونے کی صورت میں اُن کی مہمان نوازی کا کہا ہے۔ اسی طرح جب مسلمانوں اور کفا رکے درمیان کچھ معاملات طے پائیں تو اُن کی امانتیں ان کے حوالے کرنا، ان سے انصاف کرنا اوران سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ (ملخص از التفسير المنير، ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی ، 28/ 135)
شیخ طنطاوی لکھتے ہیں کہ اللہ نے اُن سے حسن معاملہ کرنے اوران کی عزت کرنے سے منع نہیں کیا۔(التفسير الوسيط ،14 / 335)
نبی اکرم ﷺ بھی ملنے کے لیے آنے والے غیر مسلموں سے اچھا برتاؤ کرتے تھے۔ان کی بات توجہ سے سنتے ۔ سفیروں کا حد درجہ خیال رکھتے ۔ ان کے مراتب کے اعتبار سے ان سے معاملہ فرماتے تھے۔
امام جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ ذمی لوگ ( اگر ضرورت مند ہوں تو ان )کو (نفلی ) صدقہ دینا جائز ہے۔ (احكام القرآن ،تحقیق قمحاوي ،5 / 327) یعنی اگر وہ تنگدست ہوں تو مسلمان اپنے صدقہ خیرات سے ان کی مدد بھی کریں گے۔
اور عدل و انصاف تو ایسی چیز ہے کہ عام غیر مسلموں کے علاوہ ،میدان ِ جنگ میں مسلمانوں سے لڑنے والوں سے بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔{وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} (المائدة: 8)
ترجمہ : اور کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو، انصاف کرو یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔”
نبی اکرم ﷺ کا غیر مسلموں سے بہترین سلوک تھا، اسی وجہ سے آپ ﷺ کو صادق اور امین کہا جاتا تھا۔مکہ میں جب قحط پڑا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے پانچ سو دینار مکہ بھیجے تھے، اور انہیں ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دینے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ اسے مکہ کے فقرا میں تقسیم کردیں۔ (شرح السير الكبير ،1 / 96) نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:” تم لوگ مصر فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس میں قیراط کا رواج ہوگا۔ پس جب تم اسے فتح کر لو اور اہل مصر سے اچھا سلوک کرنا۔( مسندِ احمد، طبعۃ الرسالۃ ، 35 / 409)
جب فلسطین فتح ہوا تو حضرت عمر ؓ نے ان سے جو معاہدہ کیا ، اس کےالفاظ یہ ہیں:
“یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے ،نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔( تاریخ طبری – فتح بیت المقدس 12)
علامہ شبلی نعمانی “الفاروق “میں لکھتے ہیں:”ایک بڑا حق جو رعایا کو حاصل ہو سکتا ہے یہ ہے کہ انتظامات ملکی میں ان کو حصہ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ان انتظامات میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا، ذمیوں کے مشورے کے بغیر کام نہیں کرتے تھے ۔ عراق کا بندوبست جب پیش آیا تو عجمی رئیسوں کو مدینہ میں بلا کر مال گزاری کے حالات دریافت کئے۔ مصر میں جو انتظام کیا اس میں مقوقس سے اکثر رائے لی۔
جان و مال و جائیداد کے متعلق جو حقوق ذمیوں کو دیئے گئے تھے، وہ صرف زبانی نہ تھے بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشتکار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے 10 ہزار درہم اس کو معاوضہ دلوایا۔ اضلاع کے حکام کو تاکیدی فرمان بھیجتے تھے کہ ذمیوں پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہونے پائے۔ خود بالمشافہ لوگوں کو اس کی تاکید کرتے رہتے تھے۔”
حضرت فاروق اعظم ؓ نے ایک روز ایک بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھا۔پوچھا :کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے کہا : یہودی (ہوں)۔ پوچھا: جو حالت میں دیکھ رہا ہوں اس پر تمہیں کس نے مجبور کیا؟ اس نے کہا: میں جزیہ کے لیےاور اپنی ضرورت کے لیے رقم مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے۔اور جو تھوڑا بہت موجود تھا وہ اسے دے دیا۔پھر بیت المال کے خازن کے پاس پیغام بھیجا کہ اسے اور اس جیسے اور لوگوں کو دیکھ لو۔ اللہ کی قسم! اگر ہم نے ان کی جوانی کے زمانے میں ان کا جزیہ کھایا اورپھر بڑھاپے میں ہم انہیں ذلیل کریں ،تو ہم نے ان سے انصاف نہیں کیا۔پھر اس شخص اور اس جیسے (غریبوں) کا جزیہ ختم کردیا۔(ملخص از کتاب الخراج للقاضی ابی يوسف ،1 / 139)
انہی اصولوں کی بنیاد پر قاضی ابویوسف فرماتے ہیں کہ “جو بوڑھاآدمی کمانے سے عاجز ہوگیا ہو، یا مالدار تھا پھر مفلس ہوگیا ہو اور اس کے ہم مذہب لوگ اسے مستحق سمجھنے لگے ہوں تو اس کا ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔اور جب تک وہ دار الاسلام میں رہے، بیت المال سے اس کو اور اس کے گھرانے کو بقدر کفایت وظیفہ دیا جائے گا (کتاب الخراج ،1 / 157)
اسلام نے دیگر ممالک کے غیر مسلموں سے بھی اچھے برتاؤ کا درس دیا ہے۔غیر مسلم ممالک اگر صلح کرنے پر آمادہ ہوں تو ان سے صلح کی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس صلح کو جنگ کے مقابلے میں زیادہ پسند کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے:{وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ }
ترجمہ: اور اگر وہ صلح کے لیے آمادہ ہوجائیں توتم بھی صلح کر لو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بے شک وہ خوب سننے والا ،خوب علم رکھنے والا ہے۔(الانفال: 61)
غیر مسلم ممالک سے یہ تعلقات خیر خواہی، معاہدوں کی پاسداری اور عدل و انصاف پر مبنی ہوں گے۔نبی اکر م ﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کے ذریعے مکہ والوں سے دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔
حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جب عراق فتح ہوا تو آپ ؓنے حضرت عثمان بن حنیف کو زمین کی پیدائش (کا سروے) کرنے کے لیے مقرر فرمایا اور ہدایت کی کہ بنجر زمین، ٹیلوں، تالابوں اور ان زمینوں کو پیمائش میں شامل نہ کریں جن تک پانی نہیں پہنچتا تاکہ ان پر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے۔اس کے علاوہ ٹیکس بھی انتہائی معمولی رکھا گیا۔ اس انتہائی سہولت و رعایت کا اثر یہ ہوا کہ سال بھر میں ساری زمین آباد ہوگئی۔
حضرت عمر ؓ کو غیر مسلموں کے حقوق کا اتنا خیال تھا کہ آپ نے اپنے مرض الوفاۃ میں نئے بننے والے خلیفہ کے لیے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: “میں اسے وصیت کرتا ہوں کہ اہلِ ذمہ سے جو عہد کیا گیا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عہد سمجھ کر پورا کرے۔ان کی حفاظت کے لیے ( دوسروں سے لڑنا پڑے تو) لڑے، اور اُن پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔”(صحیح بخاری، 3052)
مفتی تقی عثمانی رقم طراز ہیں:” وہ غیر مسلم ذمی جو اسلامی ملکوں میں معاہدے اور امان کے ساتھ رہتے ہیں،اسلام ان کے انسانی اور شہری حقوق کا اعتراف کرتا ہے اور ان حقوق کے بارے میں ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھتا”۔(فقہی مقالات، 164,165/6)
یہ تو چند مثالیں تھیں جن سے اسلام میں غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کی ایک جھلک دکھا نا مقصود تھا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے واقعات موجود ہیں جن میں غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کا درس ملتا ہے۔ ان سب سے یہ پتاچلتا ہے کہ غیر مسلموں کی جان ، مال ، عزت اور حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری، اسلامی ریاست نے لی ہوئی ہے۔اور یہی ذمہ داری عام مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس سب سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان سے اچھا سلوک کرنا بھی ہمارے دین کا حصہ اور دینی حکم ہے۔اور جب نبی اکرم ﷺ نے غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کیا ہے تو ہم ان کے امتی ہوتے ہوئے ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ انہیں بلاوجہ ڈرانا، دھمکانا، ان کی املاک کو نقصان پہنچانا، انہیں مذہبی آزادی نہ دینا، ان سے جینے کا حق چھین لینا وغیرہ وغیرہ،یہ سب انتہاپسندانہ رویے ہیں۔ کا ش کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکیں۔