مشترکہ مفاداتی کونسل اور مرزا نوشہ
از، نصیر احمد
محترم وزیر صاحب
اب کی بار نہ پنشن مانگتے ہیں اور نہ مشاہرے کا تقاضا کرتے ہیں۔ غزل کی داد کے طالب بھی نہیں۔ اور نہ جناب کی بارگاہ میں قصیدہ پیش کرتے ہیں۔ قصائد ہم نے حضور عالی مقام کے بہت لکھے۔ ان کی بادشاہی لاٹ صاحب کے چشم و ابرو کی منت گزار تھی اور ان کی شعر و سخن کی فرماں روائی ذوق کی طبع کی تیزی کی محتاج تھی۔ کیا چستی، کیا مستعدی اور کیا طراری تھی بس لمحوں میں جواہر کو کنکروں میں بدل دیتے تھے۔ ہم نے بھی حضور عالی مقام کے کنکروں کو لعل و زمرد کیا مگر ہماری ہوا خواہی غم کی جاں گدازی کو کم نہیں کر سکی۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہجو تو ہم کسی کے کہتے نہیں۔
حضور ہم لاکھ بادشاہ پرست، مشاہرے کے طلب گار اور بے مقصد تعریف کار سہی مگر دلی کو اپنی آنکھو ں سے اجڑتے دیکھا ہے اور اتنا جدال و قتال دیکھنے کے بعد سوچنے کی روش ہی بدل گئی ہے۔ آپ پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے لمحہ بہ لمحہ اور لحظہ بہ لحظہ اپنا چمن اجڑتے دیکھا ہے مگر آپ ابھی تک تالی بجانے اور کورنش بجا لانے کے شیدائی ہیں۔
لاٹ صاحب کی یہی بات ہمیں اچھی لگتی ہے کہ انھوں نے مدح سرائی ذمہ داری کی ادائی سے جوڑ دی ہے۔ ادھر آپ ہیں کہ ذمہ داری کو کسی توڑے میں ڈال کر کہیں دور پھینک آئے ہیں مگر شب فراق سے طویل القابات کا تقاضا کرتے ہیں اور ماشا اللہ توشہ خانہ تو اشرفیوں کے توڑوں سے بھرا پڑا ہے۔
اس تلخ نوائی کے لیے معذرت مگر کیا کریں کہ بعد از عشاء کا وقت ہے اور صریر خامہ حق گوئی اور حق جوئی پر مصر ہے۔ لاکھ روکتے ہیں مگر رکتا ہی نہیں۔ جیسے اس ستم پیشہ ڈومنی کا جمال پردے میں چھپتا ہی نہیں اور دل بیتاب سنبھلتا ہی نہیں۔
جناب قانون کی موشگوفیاں پیچیدہ ہی سہی مگر بہت کچھ سیدھا اور صاف بھی تو لکھا ہےوہ فرعون صفت مرزا صاحب جو ہماری غزلوں کو قانونی موشگافیوں سے بھی پیچیدہ قرار دیتے ہیں اور خواجہ شیراز کو بہت بڑھاتے چڑھاتے رہتے ہیں آج کل آپ کی مشترکہ مفاداتی کونسل کے لیے دست بستہ سر تسلیم خم کیے ہوئے طرح طرح کے سخن ناشناسوں کی منت سماجت میں مصروف ہیں۔اب لاکھ دشمن سہی مگر اپنے قبیلے کے آدمی ہیں اور سلسلہ دار کتنے ہی بد تر ہوں ان کا کچھ دھیان رکھنا ہی پڑتا ہے۔
تو صاحب قانون کے مطابق یہ مشترکہ مفاداتی کونسل امراء اور وزراء کے ذاتی مفادات سے متعلق نہیں ہے۔ آپ لوگوں نے حقیقت سے متعلق ایک مضمون کی مجازی پیرائے میں تشریح کر لی ہے۔ یہ کونسل مختلف صوبوں کے عوام کے مشترکہ مفادات کے متعلق ہے۔ جیسے ریلوے، بجلی، معدنیات، تعلیمی معیار، نگران ادارے اور عوامی قرضے کا انتظام و انصرام۔ وزیر صاحب آپ کو اس کونسل کی ذمہ داریوں کے بارے میں کیا تعلیم کرنا مگر منشی تفتہ ، میر مہدی اور اس ستم پیشہ کو کچھ بھلا ہو جائے گا وہ قانونی اداروں کی
ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ جان لیں گے اور شاید آئین کی سنگلاخ زمینوں سے کچھ شگفتہ مضامین نکال ہی لیں جس سے خلق خدا کا کچھ بھلا ہو جائے۔
تو جناب مشترکہ مفاداتی کونسل نے ریلوے جیسے موضوعات پر حکمت عملی تیار کرنی ہےاور اس حکمت عملی پرعمل درآمد کی نگرانی کرنی ہے، اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے ایک سالانہ رپورٹ تیار کرنی ہے جسے پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ہر سال پیش کرنا ہے۔
جناب آپ تو جانتے ہیں آجکل حق معلومات کا بہت شہرہ ہے۔ جو کہ اچھی بات ہے کہ جاننے سے عقل و دانش کا گہرا تعلق ہے اور جہاں حق معلومات کی خلاف ورزی ہو تی ہے وہاں سہہ غزلے لکھے جاتے ہیں۔ اور دلی اجڑ جاتی ہے۔
تو جناب ہم نے اس دام ہزار رنگ جسے آپ لوگ انٹرنیٹ کہتے ہیں وہاں پر مشترکہ مفاداتی کونسل کی کچھ سالانہ رپورٹیں دیکھیں۔ ہم تو شاہنامے کی توقع کر رہے تھے وہ رپورٹیں تو رباعیوں سے بھی مختصر نکلیں۔مانا کہ اختصار و انکسار خوبیاں ہیں مگر حقائق سے دور اختصار و انکسار کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
آپ خود ہی دیکھیں، مردم شماری پر پانچ سال میں دو چار ملاقاتیں ہوئیں، کچھ باتیں ہوئیں اور ایک آدھ فیصلہ بھی ہوا۔ لیکن پانچ سال گزرے مردم شماری نہیں ہو سکی۔دو سال سے یہ رپورٹیں آنا ہی بند ہو گئیں۔ منشی باقر کے چیتھڑوں میں خبریں آتی ہیں کہ مردم شماری کی ضرورت ہی نہیں۔یہ کیسا طرز حکمرانی ہے کہ دیوان چھاپنے سے پہلے غزلیں رجز میں تھیں پتا نہیں کیسے رمل میں گھس گئیں۔
مشترکہ مفاداتی کونسل نے بہت سارے نگران اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سمری کے نام پر کچھ مخطوطے دفتر در دفتر گردشیں کرتے ہیں اور آخر میں مزید غور و فکر کی مہلت لے لی جاتی ہے۔ بس سیاستدان اور افسر آپس میں رازو نیاز کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ شب وصل طویل تر ہوتی جاتی ہے اور عوام کی ترقی سے شب ہجر دراز سے دراز تر ہوتی جاتی ہے۔
ایک سال میں دس پندرہ نگران اداروں سے متعلق آئینی ذمہ داری کو ایک آدھ نگران ادارے کے بارے میں بحث و تمحیص جس کی تفصیلات کے بارے میں عوام کو معلومات نہیں دی جاتیں، اسے سالانہ کار کردگی کہا جاتا ہے، جس پر پارلیمنٹ بات ہی نہیں کرتی اور اس کی تصدیق کر دیتی ہے۔ بعد میں سا لانہ پورٹیں چھپتی ہی نہیں اور یہ ملاقاتیں بھی کم ہوتی جاتی ہیں۔کیا کریں اب جگر کو پیٹیں یا کرائے پہ کوئی نوحہ گر رکھ لیں۔ مجھ غریب بوڑھے کی میت خراب ہوئی، سو ہوئی مگر جناب اپنی آئینی ذمہ داریاں تو پوری کریں۔
اور گزشتہ پانچ سالوں میں مشترکہ مفاداتی کونسل نے چند موضوعات پر گفت و شنید ہی نہیں کی۔ یہ صرف موضوعات نہیں ہیں، یہ عوام کے اربوں کروڑوں روپے ہیں اور ان کی زندگیاں ہیں اور آئینی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ کیسی شاعری ہے؟ شمع بھی پاس ہے اور پروانے آپ کے ارد گرد گردش بھی کرتے ہیں مگر غزل ابھی تک خلق خدا کی پامالی میں مصروف ہے۔
تو جناب اپنی سالانہ رپورٹیں عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کریں۔ مشترکہ مفاداتی کونسل کی کارکردگی کے بارے میں تفصیلی معلومات بھی فراہم کریں۔ اور ان موضوعات کے حوالے سے فیصلوں میں عوامی شرکت یقینی بنائیں۔ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں۔
اور رہے ہمارے دشمن مرزا صاحب، ان کو ہم سمجھا بجھا لیں گے کہ دشمنی اپنی جگہ انھیں ہم سمجھا بجھا لیتے ہیں۔
تلخ نوائی کے لیے معذرت کا طالب
غالب
پسِ نوشت: ہم نے غالب کا یہ خط دو تین سال پہلے لکھا تھا۔ اب سنا ہے جب سے نئے وزیر اعظم آئے ہیں مشترکہ مفاداتی کونسل کی میٹنگز تواتر سے ہوتی ہیں۔ مردم شماری بھی ہو چکی۔ سالانہ رپورٹیں جو ملتوی تھیں، وہ بھی چھپ چکی ہیں۔ اب فیصلوں کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں تفصیل سے دیکھ کر کسی دن لکھ دیں گے۔ غالب کے خطوط والی سیریز تو ہم ختم کر چکے۔ کسی اور پیرائے میں مشترکہ مفاداتی کونسل کے بارے میں لکھیں گے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.