مشعال خان واقعہ پر کچھ مختلف دلائل
(قاسم یعقوب)
گذشتہ دنوں مشعال خان قتل والااندوہ ناک واقعہ سامنے آیا تو ایک دفعہ پھر پرانی بحثیں محفلوں میں زندہ ہو گئیں۔ پہلے دائیں اور بائیں بازومیں بہت واضح نظریاتی تقسیم نظر آتی تھی مگراب گذشتہ کچھ دہائیوں سے لبرلزم اور مذہبی انتہا پسندی دو نظریاتی دھارے متوازی انداز میں چلتے نظر آ رہے ہیں۔میں ایک جگہ امریکی فلم ساز، موسیقار اور معروف سیاسی شخصیت’’ کلنٹ ایسٹ وڈ‘‘(Clint Eastwood) کے حوالے سے کچھ نوٹس دیکھ رہا تھا تو مجھے انتہا پسندی کے حوالے سے اس کی ایک بات نے چونکا دیا۔ ۲۰۰۵ میں ’’ٹائم میگزین‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کلنٹ کہتا ہے:
Extremism is so easy. You’ve got your position, and that’s it. It doesn’t take much thought. And when you go far enough to the right you meet the same idiots coming around from the left.
اب صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں نکل رہے ہیں۔ لبرلز، انتہا پسند نکل آتے ہیں اور مذہبی انتہا درجے کے لبرلز۔ سیاسی غیر یقینی فضا نے بھی بہت کچھ غیر متوازن کر رکھا ہے۔ ہماری سیاسی عدم برداشت نے معاشرے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اشیا اپنے خالی پن کے ساتھ سامنے آنے لگی ہیں۔
مشعال خان کے قتل کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ لبرلز اور مذہب پسندوں ، دونوں کے لیے یہ بات باعثِ شرم تھی کہ نبی پاکﷺ کے نام پر ایک بے گناہ کو قتل کر دیا گیا۔ ایک مذہب پسند فکر کے حامی کو خوف آنا چاہیے کہ رحمت العالمینﷺ کے نام پر ایک جان کو جس بر دردی سے قتل کیا گیا، اُس نے پوری سماجی تحریک کو ہلا کے رکھ دیا ہے مگر اُن کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ کچھ دوسری طرف لبرلز نے اس واقعے کو پوری شدت سے اٹھایا کہ یہ ایک خطرناک اور توہین آمیز عمل ہے جسے ہر حالت میں روکا جانا چاہیے۔
مگر میں آپ کی توجہ مذہب پسندوں کی خاموشی کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے ایک دوست سے مذہب پسندوں کی اس واقعے پر خاموشی کا جب ذکر کیا تو اُس نے کچھ اس قسم کے دلائل دیے کہ مجھے شرم بھی آئی اور ساتھ پورے سماج کی انتہا پسند فکر کی وجہ بھی معلوم ہو گئی۔ اُس کے دلائل کچھ اس قسم کے تھے:
۱۔ مشعال خان پر قتل کا الزام بے شک جھوٹا تھا مگر وہ لبرل ازم کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا جس کے قتل کی مذمت کسی طرح بھی نہیں کی جا سکتی، اس سے لبرلز مضبوط ہوں گے۔
۲۔ مشعال خان پر ایسے ہی تو الزام نہیں لگا ہوگا، اُس نے کچھ ایسے اشارے ضرور دیے ہوں گے جس پر لوگ پہلے ہی سے اُس کے خلاف تھے۔بے شک اُس نے توہین رسالت نہیں کی مگر نبی پاک کی شان اور مذہب اسلام کے بارے میں بڑھ بڑھ کے سوالات اٹھانا بھی کوئی قابلِ معافی جرم نہیں۔
۳۔ مشعال خان کے قتل سے ایک پیغام پہنچا ہے کہ ،خبردار کوئی شانِ رسالتﷺ میں غلط بولنے کی جرات بھی نہ کرے ورنہ ایک بے گناہ کو لوگ مار سکتے ہیں تو گناہ گار مل گیا تو اُس کی پوری نسل بھی ختم کی جا سکتی ہے۔
۴۔ باالواسطہ یہ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے درست ہُوا ہے۔ اس وقت الحاد اور توہینِ مذاہب کا ذکر عام ہو چکا ہے جس کے لیے اس قسم کے واقعات بند باندھنے کا کام کرتے ہیں۔ بنو عباسیہ کے عہد میں اس قسم کے واقعات عام تھے جس کی وجہ سے اسلام محفوظ ہوتا گیا۔ وگرنہ اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں یہ ’’کفار‘‘ دیر نہ لگائیں۔
۵۔ مذہب پسندوں کا خوف لبرلز کے دلوں میں بیٹھنا چاہیے جو کہ اب پوری طرح سے بیٹھ چکا ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی برداشت ناقابلِ ازالہ ثابت ہو گی۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ ایک خوف اور قتل و وحشت کے سایوں کے ذریعے پُر امن نظریات و فکریات کی ترویج کی جا رہی ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس قسم کی فلاسفی کو کون پیدا کر رہا ہے۔ جو خاموشی سے پورے معاشرے میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔
اگر یہ سب غلط ہے تو ہمارے علما کرام کو آگے بڑھ کے اس کی تردید کرنے چاہیے اور مشعال خان قتل کے خلاف کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔ ورنہ لوگ اپنی مرضی کی تشریح کرتے رہیں گے۔