(معصوم رضوی)
کیا زمانہ تھا نہ موبائل فون تھا اور نہ سوشل میڈیا، تمام تر مصروفیات کے بعد بھی لوگوں کے پاس وقت ہوا کرتا تھا میل ملاقات، والدین اور بزرگوں سے باتیں اور رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقاتیں، آج وقت بچانے والی تمام سہولیات میسر ہیں مگر پھر بھی وقت نہیں، زندگی کی ڈور گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک کیساتھ بندھی ہے، صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ خاندان اور بچوں کو تو چھوڑیں اب تو خود اپنے لئے بھی وقت نہیں، مسلسل بھاگ دوڑ نے اعصاب توڑ ڈالے انسان مشین بن گئے، زندگی اتنی مصروف کیوں ہے، وقت نجانے کہاں کھو گیا ؟
اگر گھر کے افراد ایک میز پر جمع بھی ہوں تو موبائل فون میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون آیا اور کون گیا، انٹر نیٹ آیا تو سنتے تھے دنیا ایک گائوں میں تبدیل ہو چکی ہے اب سوشل میڈیا کے بعد تو لگتا ہے کہ یہ گائوں اب ذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، یہ نہ سمجھیے گا کہ میں سوشل میڈیا اورجدید ٹیکنالوجی کے خلاف ہوں، یہ سب ضروری ہے مگر صرف یہی ضروری نہیں، سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے، مگر یہ تنقید ٹیلیفون، سٹیلائٹ ٹی وی ، انٹر نیٹ اور موبائل فون پر بھی ہوئی تھی، تنقید کا یہ سلسلہ پرنٹنگ پریس، لائوڈ اسپیکر سے لیکر شاید ہر نئی ایجاد سے منسلک ہے، کچھ عرصے بعد ہر نئی ایجاد زندگی میں ضم ہو جاتی ہے، ایجادات کا راستہ روکنا ایسا ہے جیسے سیلاب کو چھلنی سے روکنا، اب فیس بک، گوگل پلس، انسٹاگرام، ٹوئٹر، واٹس ایپ، وائبر اور نجانے کیا کیا کچھ، آسانیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں مگر انسان اپنی ذات میں محدود بھی ہوتا جا رہا ہے لگتا ہے زندگی کہیں کھو سی گئی ہے
پاکستان میں ٹی وی آنے سے پہلے لوگ ریڈیو کے دیوانے تھے، بڑے بوڑھے خبریں اور نوجوان گانے سنتے تھے، غیر ملکی اسٹیشنز میں بی بی سی اور ریڈیو سیلون زیادہ مشہور ہوا کرتے تھے، شور کم ہوا کرتا تھا ہوا کے دوش پر کبھی خبروں تو کبھی گانوں کی آواز سنائی دیتی تھیں، شام کو لوگ گھروں سے باہر بیٹھ کر محفلیں جماتے تھے، خواتین کی محفل الگ سجا کرتی تھی، ان محفلوں میں دنیا بھر کی باتیں، محبتیں، جھگڑے، غیبت اور تعریفیں سارے مراحل طے ہوا کرتے تھے، ابتدا میں پی ٹی وی شام سے رات گیارہ بجے تک نشریات کرتا تھا، تو رفتہ رفتہ محلہ محفلیں سونی ہوتی گئیں پھربھی لوگوں آپس میں گھروں میں آنے جانے اور ملنے ملانے کا سلسلہ خوب قائم تھا، پہلے دور دراز رشتہ داروں اور دوستوں کو خط بھیجے جاتے تھے، انٹرنیٹ آیا تو خط لکھنے لکھانے کا سلسلہ ختم، پھر موبائل فون نے مزید سہولت پیدا کر دی، اب سوشل میڈیا پر سب کچھ پلک جھپکتے ہو جاتا ہے، مگر پھر بھی کسی کے پاس وقت نہیں، میل ملاقات کیلئے ہفتے اتوار رشتہ داروں یا دوستوں کے گھر جایا جاتا تھا اب یہ مراحل فیس بک پر طے ہو جاتے ہیں، نجانے کیا مسئلہ ہے کہ وقت بچانے کی تمامتر ایجادات ہی وقت کی سب سے بڑی دشمن بن گئیں، جدید ٹیکنالوجی کے بغیر انسان رہ بھی نہیں سکتا، پہلے انسان کے پاس کام کاج کے باوجود بہت وقت ہوا کرتا تھا آج کا انسان اس سے محروم ہو چکا ہے بلکہ اب تو اپنے لئے وقت نکالنا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے
ہمارے ایک دوست ہیں جمال احمد، آٹھ، دس سال پہلے ایک شام دونوں خاندان ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے، خود ہی کہنے لگے یار ہم دس بھائی بہن تھے، کچھ بچے صبح کے اسکول اور کچھ شام کے اسکول جاتے تھے، اماں صبح اٹھکر والد اور کچھ بچوں کو ناشتہ دیتیں، دوپہر جانیوالے بچوں کو کھانا، پھر جو بچے اسکول سے واپس پہنچتے انکا کھانا، پھر شام والے بچے اور پھر والد صاحب، اس دوران کنگھی، چوٹی، نہلانا، کپڑے دھونا، کپڑے سلنا، گھر کی صفائی ستھرائی، میل ملاقات سب ہوتا تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ میرے دو بچے ہیں، گھر میں ہر مشین دستیاب ہے جو اس زمانے میں نہیں تھی، مگر آج میرے اور بیوی کے پاس بچوں کیلئے وقت نہیں، یہ کیسی زندگی ہے یار، آپ یقین مانیں یہ آخری جملہ مجھے اکثر پریشان کرتا ہے، یہ کیسی بھاگ دوڑ ہے کہ زندگی کیلئے ہی وقت ہی بچتا، ایک پہیئے میں بندھے گھوم رہے ہیں اور اب اسے ہی زندگی سمجھنا شروع کر دیا ہے
وقت کی قلت کی وجوہات تو شاید بہت ساری ہیں مگر میرے خیال میں بنیادی وجہ معاشرے سے قناعت کا ختم ہو جانا بھی ہے، پہلے لوگ کم کماتے تھے، گاڑیاں تو دور کی بات، کسی کے پاس اسکوٹر ہوتا تو اسے خوشحال تصور کیا جاتا تھا، چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے بڑے بڑے باعزت گھرانے بمشکل سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے تھے مگر سب خوش اور مطمئن تھے، دولت اور اسٹیٹس کی بھاگ دوڑ نہ تھی، استاد اور سرکاری ملازمین کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اگر کسی کے بارے میں علم ہو کہ رشوت خور ہے یا غیر قانونی دھندہ کرتا ہے تو دولت مند ہونے کے باوجود اس سے میل جول معیوب سمجھا جاتا تھا، معاشرہ مضبوط اقدار اور مستحکم تہذیب کی بنیادوں پر کھڑا تھا، سچ ہے تبدیلی ہر معاشرے میں آتی ہے مگر پاکستان میں نوے کی دہائی کے بعد تبدیلی نہیں آئی بلکہ معاشرہ تلپٹ ہو کر رہ گیا، دولت کی دوڑ میں زمین آسمان اور آسمان زمین بن گیا، آج استاد بے وقعت اور رشوت خور باعزت، اسمگلر اور غیر قانونی دھندوں میں ملوث افراد اشرافیہ اور حلال کمائی کرنیوالا کمی کمین کہلاتا ہے، پاکستانی معاشرہ تیزی سے بڑھتی ہوئی خوفناک طبقاتی تقسیم کی زد میں ہے
خوشحالی اور تمام تر جدید سہولیات کے باوجود زندگی میں خوشی ناپید ہو چکی ہے، ہر شخص پریشان، فکروں میں گھرا نظر آتا ہے، روسی ادب کی ایک کہانی یاد آ گئی، شاید ٹالسٹائی کی ہے، ایک بادشاہ نے مرتے وقت اپنی سلطنت کی تین ریاستیں شہزادوں میں تقسیم کر دیں، بڑا بیٹا ذھین اور سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر اور چھوٹا بیٹا بہادر اور جنگجو تھا، منجھلا بیٹا سیدھا اور گم سم رہنے والا تھا اسے سب سے چھوٹی ریاست ملی، بڑے بیٹے نے سیاسی چالبازیوں سے سلطنت وسیع کر لی، چھوٹے بیٹے نے آس پاس کے ملکوں پر جنگ سے قبضہ کر کے سلطنت بڑھائی، منجھلا بیٹا اسی ریاست پر قانع رہا جو اسے ملی تھی، کچھ عرصہ بعد سیاسی جوڑ توڑ ناکام ہوئے اور ریاست ہاتھ سے نکل گئی، چھوٹے بیٹے کے مملکت بھی جنگوں کی نذر ہو گئی اور یہ دونوں منجھلے بیٹے کے پاس آ گئے، دونوں نے اسے سمجھایا کہ سلطنت کو وسیع کرو، جنگیں کرو، منجھلے بیٹے نے پوچھا پھر کیا ہو گا، انہوں نے کہا کہ بہت دولت ہوگی، اس نے پوچھا پھر کیا ہو گا تو جواب ملا کہ دنیا میں تمہاری عزت اور شہرت ہو گی، پوچھا پھر کیا ہو گا تو جواب ملا کہ تم بہت خوش رہو گے، منجھلے بیٹے نے جواب دیا کہ خوش تو میں اب بھی ہوں، تو جناب یہ ساری بھاگ دوڑ خوشی کیلئے ہی تو ہے مگر خوشی کہاں چھپ گئی، کسی کو پتہ نہیں
پہلے کم وسائل اور محدود آمدنی کے باوجود سب خوش تھے، آج تمام تر سہولیات اور خوشحالی کے بعد بھی خوشی زندگی سے غائب ہے، پہلے سہولیات اور مشینیں نہ تھیں مگر سب کے پاس وقت تھا، آج وقت بچانے کیلئے تمامتر سہولیات اور ٹیکنالوجی کے باوجود وقت نایاب، کوئی مطمئن نہیں، یہ کیسی زندگی ہے بھائی، کیا خوب کہا ہے منیر نیازی نے
اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ