معاشیات سے سیکھا ہمارا جزوی اندھا پن
( ڈاکٹرعامر سعید)
علم ہر سوچے سمجھے انسانی عمل/فعل کی بنیاد ہوتا ہے اور انسانی زندگی بہت سے افعال کا مجموعہ ہوتی ہے۔ انسان یہ افعال کچھ خاص مقاصد کے حصول کے لئے سر انجام دیتا ہے اور یہ خاص مقاصد کچھ اعلیٰ مقاصد کے تحت ہوتے ہیں۔ علم ہمیں ان اعلیٰ مقاصد، نچلے درجے کے مقاصد اور ان افعال کی سمجھ عطا کرتا ہے جن کے بارے میں ہم گمان کرتے ہیں کہ وہ مقاصد کے حصول میں ممد و معاون ہونگے۔ یہ اعلیٰ مقاصد انسان، انسان کے علاوہ زندگی، اور کائنات کے متعلق تصورات پر مبنی ہیں۔ صحیح مقاصد کا علم اور انکے حصول کے لئے ان تصورات کا درست، حقیقی اور غلطی سے مبرا ہونا انتہائی اہم ہے۔
ابتدائے آفرینش سے ایسے علم کے حصول کی جستجو انسان کو رہی ہے۔ ایک نقطہ نظر انسان، زندگی اور کائنات کے وجود کی بنیاد ایک ایسی عظیم الشان ہستی/خدا کو قرار دیتا ہے جو حقیقی، لازوال، لابُدی اور آفاقی علم کا منبع ہے، اور وہی ہر چیز کا خالق بھی ہے۔ اور خالق سے بہتر علم مخلوق کے بارے میں اور کسے ہو سکتا ہے۔ اُس ہستی نے دنیا کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری علم اپنے چنیدہ بندوں کے ذریعے اپنی مخلوق تک پہنچایا۔ ان مختلف چنیدہ لوگوں کے پیروکار تین بڑے مذاہب یعنی یہودیت، نصرانیت اور اسلام سے منسلک ہیں۔
اس کا متضاد نظریہ جو جدید دور میں یورپ میں پروان چڑھا اور اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، وہ انسان، زندگی اور کائنات کے تخلیق کے نظریہ کا انکاری ہے، اسی بنیاد پر ایک خالق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور خالق کی غیر موجودگی میں وہ علم کا منبع انسان کو سمجھتا ہے۔ اسکی مزید تفریق انسان کے ذہن/دماغ، ضمیر، حواس، عقل، چھٹی حس وغیرہ کے علم کے منبع ہونے کی بنیاد پر ہے۔ یہ خالق کے متبادل کے طور پر نظریہ ارتقاء کو تسلیم کرتا ہے جس کے مطابق یہ سب اشیاء بذریعہ ارتقاء وجود پذیر ہوئیں۔ جب ان دو گروہوں (یورپ میں مذہب کی نمائندگی چرچ کر رہا تھا) کے اختلاف اُبھر کر سامنے آئے تو ایک جنگوں سے بھرپور دور کا آغاز ہوا جو تقریباً پانچ سو سال پر محیط ہے۔ آخرِ کار ان دونوں متحارب گروہوں میں ایک سمجھوتے کی صورت سیکولزم کی شکل میں نکلی جس میں انفرادی معاملات میں افراد کے اپنی مرضی کے عقائد، نظریات اور علم رکھنے کے حق کو تسلیم کر لیا گیا اور اجتماعی معاملات کے لئے علم کی بنیاد سائنسی طریقے کو بنا لیا گیا۔
کائنات میں پائی گئی اشیاء کی گروہ بندی کے حوالے سے بھی دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ پہلے طریقے کے مطابق انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی طبعی طبقہ جس میں جمادات، نباتات اور حیوانات شامل ہیں اور دوسرا انسانی طبقہ جو اپنی عقل، جذبات، مقاصد کے حوالے سے دوسری اشیاء سے ممتاز ہے۔ دوسرا گروہ چونکہ ارتقائی نظریہ کا قائل ہے اس لئے وہ جمادات، نباتات اور حیوانات اور انسانوں کو ارتقاء کی لڑی میں پرویا سمجھتا ہے اور انسانوں کو بھی حیوانات کی ارتقاء پذیر شکل ہی متصور کرتا ہے۔ اگرچہ بہت سے علماء اور محققین نے ارتقاء کے نظریہ کے سائنسی ہونے پر بہت سے سنجیدہ سوالات اُٹھائے ہیں تاہم موجودہ عالمی سیاسی ضورتحال میں اسے سائنسی قرار دینے پر ہی اصرار کیا جاتا ہے۔
چونکہ سائنسی طریقہ طبعی/فطری اشیاء کے علم کے حصول کے لئے دریافت کیا گیا تھا اس لئے وہ ان سے ہر طرح سے مربوط، منسلک اور اُنکے مطابق تھا، چنانچہ اس طریقے کی بدولت علم طبیعات، علم الکیمیا، علم الحیوانات و علم النباتات میں عظیم الشان ترقی ہوئی۔ انسان کے بارے میں علم پہلے مذہب کی دائرہ کار میں آتا تھا لیکن مذہب (عیسائیت) کو اجتماعی زندگی سے دیس نکالا ملنے کے بعد اس دائرے کے لئے درکار علم کی تحلیق بھی سائنسی طریقے سے کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔
سماجی علم کے لئے آغاز میں آغسٹے کومٹے نے سوشیالوجی کا لفظ متعارف کروایا۔ یہ مضمون آج کل کی تمام معروف سماجی سائنسز بشمول سوشیالوجی، انتھروپولوجی، ایکنامکس، پولیٹیکل سائنس، سائیکالوجی، مینیجیمنٹ سائنسز، بزنس ایڈمنسٹریشن، وغیرہ کو محیط تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور ان مضامین سے متعلقہ علوم میں اضافہ ہوتا گیا، یہ مضامیں اپنی علیٰحدہ حیثیت میں معروف ہوتے گئے۔ ایکنامکس کا مضمون اس حوالے سے بہت اہمیت پا گیا کیونکہ معاشرے میں ترقی کی نئی تعریف کے مطابق اسکا مطلب ‘مادی’ ترقی تھا، چنانچہ اس ترقی کے حصول کے لئے اس علم کو ایک سائنسی پیرائے میں بڑھایا گیا۔ لیکن انسانی معاشرے کو، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی انفرادی اور اداراتی دوڑ وغیرہ پر مبنی اِس بے روح ترقی نے مجموعی طور پر اذیت و کرب میں مبتلا کر دیا۔ فرانسیسی انقلاب کہ جس کے بعد اس ترقی کا دور شروع ہوا، تقریبا 50 سال بعد ہی فریڈرک اینجلز نے اپنی کتاب The Condition of the Working Class in Englandلکھی جس میں اُس نے اس ترقی کے نتیجے میں معاشرتی تباہی کا نقشہ کھینچا اور بعد ازاں کارل مارکس کے ساتھ ملکر سوشلزم کی بنیاد رکھی۔ ایکنامکس کی اہمیت اس حوالے سے بھی بہت زیادہ ہے کہ اس کے اکثر مفروضات قانون اور پالیسی سازوں نے بھی اپنا لئے ہیں، اسی طرح اس نے پولیٹیکل اکانومی کے نام پر سیاسی میدان اور عالمی پالیسیوں کو دنیا بھر میں متاثر کیا ہے چنانچہ یہ مفروضات صرف ایکنامکس تک محدود نہیں رہے بلکہ انہیں قانون، پالیسی سازی، حکومتی و کاروباری انتظامیات، نفسیات سمیت تمام سماجی علوم میں اپنا لیا گیا۔ اس کا سبب یہ حقیقت تھی کہ اُس زمانے میں مضامین کی یہ تفریق اتنی واضح نہیں تھی اور انسان، زندگی اور کائنات کے ان نئے تصورات کو معاشرے کے اکثریتی ذی فکر طبقہ نے قبول کر لیا تھا۔
حال ہی میں جولی اے نیلسن جو کہ معاشیات کی پروفیسر، یونیورسٹی آف میسی چیوسٹس بوسٹن میں ڈیپارٹمنٹل چیئر اور ٹفٹس یونیورسٹی کے ڈیویلپمنٹ اور اینوائرنمینٹل انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں، نے ایکنامکس کے مضمون پر ایک آرٹیکل قلمبند کیا جس کا عنوان ‘علمِ معاشیات ایک بہروپی سائنس ہے’ تھا جس کا ترجمہ راقم نےaikrozan.com میں ایک مضمون کے تحت پیش کیا جس میں وہ کہتی ہیں کہ اکنامکس سرے سے سائنسی مضمون ہے ہی نہیں۔ اُسے سائنسی قرار دے کر سائنسی طریقے کے ذریعے جو مفروضات، نظریات، ماڈلز، اور آفاقی قوانین وضع کئے گئے ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہیں۔ ان کی قلعی اس مضمون میں پروفیسر لین کے کھولی ہے۔
اسی طرح لین سٹاؤٹ جو کارنیل لاء سکول میں کارپوریٹ اور بزنس لاء کی ممتاز پروفیسر ہیں اور جو کارپوریٹ گورننس، فنانشل ریگولیشن اور اخلاقی رویہ کی ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر تصور کی جاتی ہیں، نے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس کا عنوان ‘ایکنامکس نے ہمیں اپنا اچھاپن دیکھنے سے کیسے محروم کیا؟’ ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر لین نے بہت وضاحت سے بیان کیا ہے کہ ایکنامکس کے مفروضات، نظریات اور ماڈلز ہمیں حقیقی زندگی سے دور لے جاتے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کے صرف ایک محدود جامد پہلو کو بنیاد بنا کر پورے علمِ معاشیات کی بنا اس پر تعمیر کرتے ہیں اور اس پر مستزاد قانون، پالیسی سازی وغیرہ کے مضامین پر معاشیات کا گہرا اثر جو انسانی معاشرے کے انتہائی اہم معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ ذیل میں اس مضمون کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ تیسری دنیا کے محققین، مفکرین، اصحابِ علم وغیرہ کی خدمت میں یہ عرض کی جائے کہ وہ علم جس کی بنا پر ہم اپنی تعلیم، کاروبار، پالیسیاں اور زندگی استوار کر رہے ہیں اس کی حقیقت پہلی دنیا کے گورے مفکرین کی نظر میں کیا ہے۔
٭اکنامکس نے ہمیں اپنا اچھاپن دیکھنے سے کیسے محروم کر دیا؟
(ضمیر کا فروغ: اچھے قوانین اچھے لوگوں کو کیسے پیدا کرتے ہیں؟)
وہ کون سا بہترین طریقہ ہے کہ جس سے لوگوں کو اچھا رویہ اپنانے کی طرف راغب کیا جا سکے۔ قانون اور پالیسی ساز عوام الناس کے بارے میں اکثر یہ مفروضہ رکھتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر خودغرض مخلوق ہیں جو صرف سزا و جزا کی زبان سمجھتے ہیں، ان سے اُسوقت تک کسی خیر کی، یا جھوٹ، دھوکہ دہی، چوری جیسی نہیات سے پرہیز کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی جب تک کہ انہیں کوئی موزوں خارجی محرک مجبور نہ کرے۔ کیا کمپنی کے سربراہ اپنے اداروں سے اغماز برت رہے ہیں؟ تو ایسی صورت میں انکی تنخواہ کو شیئر نرخوں سے نتھی کر دو۔ امریکی بچے اچھی طرح ABC نہیں سیکھ رہے! اگر اساتذہ بچوں کے نمبر بڑھا سکیں تو انہیں مالی ترغیبات دو، اور انہیں نکال باہر کرو اگر وہ اس میں ناکام رہیں۔ صحت کے اخراجات کم تر رکھنے کے لئے ڈاکٹروں پر کارکردگی پر مبنی ‘تنخواہ ‘ سکیمیں لاگو کر دو۔
‘ترغیبات، محرکات اور نتائج’ پر زور کی بنیاد ‘ہومو ایکانومیکس’ کا وہ ماڈل ہے جو خالصتاً خودغرضانہ انسانی رویے کو بیان کرنے کے لئے ‘نظریاتی ایکنامکس’ کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن اب اُسے پالیسی ساز، کاروباری قائدین و ماہرین، سیاسیات سے فلسفہ تک کے مختلف میدانوں میں بلا دھڑک استعمال میں لا رہے ہیں۔ آج کے دور میں کسی مخصوص انسانی رویے کو تحریک دینے یا اُسکی حوصلہ شکنی کرنے کے حوالے سے کسی سنجیدہ گفتگو کی توقع اُسکی خودغرضانہ خصلت کے بجائے ضمیر کی قوت پر رکھنا محال ہے۔ موجودہ دور کے اکثر ماہرین تو اس خیال ہی کو ہنسی میں اُڑا دیں گے۔ ضمیر تو مذہبی زعماء اور معروف سیاستدانوں سے متعلقہ کوئی چیز ہے اور اُسکا قانون سازوں، کاروباری قائدین یا نظام کو چلانے والوں سے کوئی واسطہ نہیں۔
ہم اپنی اچھائی دیکھنے سے محروم ہیں
یہ بات بہت عجیب ہے کیونکہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں لوگوں کی اکثریت کو بے لوث اور خیر کا رویہ اپناتے دیکھتے ہیں۔ چند لوگ ایسے ضرور ہیں جو بوڑھوں کو لوٹتے ہیں یا اپنے ہمسایوں کے صحن سے کاغذات چُراتے ہیں لیکن اکثریت تو اپنا مفاد چھوڑ کر اجنبیوں کی مدد پر تیار ہوتی ہے۔ ہماری اپنی زبان یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اخلاقیات کو جانچنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ جیسے ‘انیوٹ’ کے معاشرے میں برف کے لئے کئی الفاظ ہیں اسی طرح انگریزی میں بے لوث اور باضمیر رویے کے بیان کے لئے بہت سے الفاظ ہیں بشمول
virtuous; kind; fair; agreeable; honest; ethical; trustworthy; decent; upright; faithful; altruistic; humane; loyal; charitable; selfless; principled; conscientious; cooperative; generous; considerate; caring; and compassionate۔ اور سب سے با اثر لفظ جو بہت سادہ بھی ہے اور ہماری زندگی میں مستعمل ہے وہ good ہے۔
لیکن ہمارے پالیسی ساز اور کاروباری قائدین اکثر انسانی فطرت کے بے غرض اور سماجی مفاد کے پہلو کو نظرانداز کر کے ‘خودغرضانہ رویے اور اُسے روکنے پر’ اپنی توجہ مرکوز کر دیتے ہیں۔ اس ایک ہی پہلو پر جامد ہونا کچھ فکری تعصبات کے باعث ہوتا ہے۔ اپنے نفساتی تعصبات سمیت کئی حیران کُن اسباب کے باعث، ہماری زبان اور معاشرے کا ڈھانچہ اور قانون، معاشیات اور کاروبار کے لئے اپنے ماہرین کے انتخاب اور تربیت کے لئے، اس بے لوث اور اخلاقی رویہ کو ‘دیکھنے’ سے منکر ہوتا ہے ہر چند یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ امریکی اپنے ٹی وی کی سکرینوں پر سمندری طوفان قطرینہ کے بعد تباہی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس وقت ششدر رہ گئے جب انہوں نے اورلین کے ‘سینکڑوں’ رہائشیوں کو لوٹ مار کرتے دیکھا لیکن ایک اقلیت ہی نے اس معجزے کو سراہا کہ ‘ہزاروں’ لوگ اس لوٹ مار میں شریک نہیں تھے۔
اپنے ضمیر کی پکار پر لبیک کہنے کی اہلیت کے حوالے سے ہمارا اجتماعی اندھا پن یا جیسے ہمارے ‘کرداری سائنسدان’ کہتے ہیں کہ معاشرتی مفاد کے لئے عمل کرنے کی ہماری نااہلیت، ہمیں حقیقت اور خیر کی اہمیت کو نظرانداز کرنے اور اس خوش کن پہلو کی معاشرے کو بہتر کرنے کی شاندار صلاحیت کو نظرانداز کرنے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ انسانی کردار کو تبدیل کرنے کے لئے لالچ اور خودغرضی کی طاقت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ہمارے قانون اور پالیسی ساز اچھا کریں اگر وہ ضمیر کی طاقت پر اپنی توانائیں مرکوز کر دیں جو اس حوالے سے ارزاں اور مؤثر ترین نگران قوت ہے۔
تجرباتی کھیل اور ضمیر کی سائنس
خوش قسمتی سے کردار کی سائنس کے جدید ماہرین پالیسی سازوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ کس طرح ضمیر کو استعمال کیا جائے۔ کرداری سائنسدانوں کے مطابق، ضمیر ایک بے لوث، معاشرتی مفاد پر مبنی رویہ ہے۔ ایک آفاقی )objective) طریقہ کو لوگوں کی اندرونی تحریک پر کوئی قیاسی رائے دینے کی ضرورت نہیں، کہ جس کی بنا پر وہ اچھا رویہ اپناتے ہیں اور دوسروں کی مدد یا انہیں نقصان سے بچانے کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ کرداری معاشیات، سماجی نفسیات اور ارتقائی بیالوجی سے وسیع تجرباتی شہادتیں ثابت کرتی ہیں کہ بے لوث اور معاشرتی مفاد پر مبنی رویہ نادر اور معدوم ہونے کے بجائے نہ صرف یہ کہ لوگوں میں بہت عام ہے بلکہ لوگوں سے اُسی کی امید رکھی جاتی ہے۔ اور آسانی سے اس سے ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے۔
پچھلی نصف صدی میں رویہ جاتی سائنسدانوں نے ایسے بہت سے زبردست اور سمارٹ/مؤثر تجربات کئے ہیں جو یہ جانچتے ہیں کہ عام حقیقی لوگ ایسی صورت میں کیسا رویہ اپناتے ہیں جب انکے مادی مفادات دوسروں سے ٹکراتے ہیں۔ ‘سوشل ڈائلیماز’، ‘الٹی میٹم گیمز’، ‘ڈکٹیٹر گیمز’، اور ‘ٹرسٹ گیمز’ سب یہ جانچتی ہیں کہ لوگ اس صورتحال میں کیا کرتے ہیں جب انہیں خودغرضی یا معاشرتی مفاد پر مبنی رویے کے مابین چناؤ کرنا پڑتا ہے۔ ان تجربات کے نتائج بلا تردید، استثنیٰ سے بہت بعید، مطلع کرتے ہیں کہ بے لوث معاشرتی مفاد کا رویہ ہر جا اور ہر سُو پھیلا نظر آتا ہے۔ دنیا بھر میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تجرباتی تحقیقات تسلسل سے یہ ثبوت فراہم کر رہی ہیں کہ غیر خود غرضانہ معاشرتی مفاد نہ صرف یہ کہ حقیقت میں موجود ہے بلکہ بہت عام بھی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ہم اپنے ذاتی مفاد دوسرے لوگوں کی مدد کرنے یا دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔
یہ ممکنات ہر اُس شخص کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، انکا خیال رکھتا ہے اور ان سے معاملات کرتا ہے۔ لیکن یہ بات قانون، حکومتی علوم، عوامی پالیسی اور کاروباری انتظامیات پڑھنے والوں اور ان سے تعلق رکھنے والے کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہونی چاہیے۔ ان میں سے ہر میدان ایسا ہے جس کا مرکزی قضیہ لوگوں کو ایمانداری کا رویہ اپنانے پر مجبور کرنا ہے یعنی وہ کم از کم مطلوبہ کام سے زیادہ کام کریں، ٹیکس چوری کرنے کے بجائے ٹیکس ادا کریں، اپنے وعدے پورے کریں، دوسروں کے حقوق و املاک کا خیال رکھیں اور فساد، چوری اور تباہی سے گریز کریں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تجرباتی حقیقت کہ کئی بار لوگ غیر خودغرضانہ طریقے سے عمل کرتے ہیں، تبھی مفید ہو گی اگر ہمیں اندازہ ہو کہ ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے۔ ہمارے خودغرضانہ رویے، اور معاشرتی مفاد کا خیال رکھنے اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کرنے پر ہمیں کیا چیز مجبور کرتی ہے؟
خوش قسمتی سے تجرباتی کھیل یہ ثابت کرتا ہے کہ نہ صرف ضمیر (یا کم از کم ایمانداری کا رویہ) موجود ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ کب اور کیوں ضمیر معاملات کا حصہ بنتا ہے۔ خاص طور پر نتائج بتاتے ہیں کہ اکثر لوگ دوسروں کے لئے ایثار کرنے کو تیار ہوتے ہیں، البتہ وہ بے غرضی کچھ خاص حالات میں ہی دکھاتے ہیں۔ ہم سب مجموعی طور پر دو رخی شخصیت کے مالک ہیں جس کے تحت ہم کسی سماجی سبب کی بنیاد پر امکاناً خودغرضانہ اور بے لوث رویے کے مابین منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
تین ایسے سماجی حالات ہیں جن میں خصوصاً غیر خود غرضانہ سماجی مفاداتی رویہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ پہلا، کسی مقتدر/مختار شخصیت سے ملنے والی ہدایات ہیں۔ یہ بات ہمیں سٹینلے ملگرام کے تابع فرمانی سے متعلق معروف تجربے کے دنوں سے معلوم ہے جس میں تجربے میں شامل افراد نے تجربے کرنے والے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انسانوں کو مہلک جھٹکے دیے (اگرچہ جھٹکے وصول کرنے والے افراد اداکاری ہی کر رہے تھے)، کہ لوگ احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ تابع فرمانی کی اس جبلت کو معاشرتی مفاد کے حصول میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تجربات میں جب بھی لوگوں کو معاشرتی مفاد کے مطابق عمل کرنے کا کہا گیا تو وہ تعمیل بجا لائے – ایسی صورتحال میں بھی جب کہ ایسا کرنا انکے ذاتی نقصان کا باعث تھا۔
دوسروں کے رویے کا ادراک بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم ہجومی جانور ہیں جو اچھا/برا سلوک کرتے ہیں اگر ہم سمجھیں کہ دوسرے ہم سے اچھا/برا سلوک کر رہے ہیں۔ جب تجربہ میں شامل افراد کو یقین دلا دیا جائے کہ دوسرے افراد معاشرتی مفاد کے تحت عمل کریں گے، تو انکے خود معاشرتی مفاد کے تحت عمل کرنے کا امکان بڑھ جائے گا – اس صورتحال میں بھی اگر انہیں قربانی دینا پڑے۔آخری نقطہ، لوگ کا تجربات میں غیر خود غرضانہ رویہ اپنانے کا امکان اس وقت زیادہ لگتا تھا جب انہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ انکے غیر خودغرضانہ رویے سے لوگوں کو قلیل نہیں بلکہ کثیر فائدہ ہو گا۔
سماجی تغیرات جیسے مقتدر شخصیت کی طرف سے ہدایات، دوسروں کے رویے کے بارے میں یقین اور دوسروں کو فائدہ پہنچنے کی سوچ کو تبدیل کر کے، محققین تجرباتی کھیلوں میں انسانی رویہ کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جب سماجی محرکات سماجی مفاد کو اُبھارنے والے ہوں تو محققین آفاقی یا اس سے قریب تر غیر خود غرضانہ رویہ اپنانے کی طرف لوگوں کو مائل کر سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف، جب لوگوں کو خودغرضی کا رویہ اپنانے، یہ یقین رکھنے کہ دوسرے بھی خودغرضی سے عمل کریں گے اور یہ یقین رکھیں کہ خودغرضی دوسروں کے لئے زیادہ نقصان دہ نہیں، کا کہا جاتا ہے تو وہ تقریباً ہمیشہ ہی خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ذاتی لاگت کا کردار
تجرباتی کھیل ہمیں ایک نسبتاً سادہ، سہ عنصری ماڈل اپنانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں جس میں ضمیر تین سماجی محرکات یعنی مقتدر شخصیت سے ہدایات، دوسروں کے سماجی مفاد کے رویے کا یقین اور دوسروں کو نفع پہنچنے کے ادراک سے تحریک پاتا ہے۔ تاہم اس بات، کہ سماجی تناظر کی اہمیت ہے، کا مطلب یہ نہیں کہ ذاتی لاگت کی اہمیت نہیں ہوتی۔ لوگ اس سے بہت زیادہ بے لوثی کا رویہ اپنا سکتے ہیں جتنا کہ ہومو ایکانومیکس ماڈل تسلیم کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ تجرباتی ثبوت تجویز کرتے ہیں کہ ضمیر محدود نہیں ہے۔ جیسے جیسے سماجی مفاداتی رویے پر عمل کرنے سے ذاتی لاگت بڑھتی ہے، سماجی مفاداتی رویہ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ تجرباتی نتائج بتاتے ہیں کہ اگر ہم لوگوں کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم انہیں بُرا ہونے کا تونگر محرک مہیا نہ کریں۔ آسکر وائلڈ کے برخلاف ہماری اکثریت چھوٹی ترغیبات کو تو برداشت کر جاتی ہے مگر یہ تو بڑی ترغیبات ہیں جنہیں سہارنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک مثال: متوقع ترغیبات کے خطرات
ایک مثال کے طور پر، ضمیر پر ان پریشان کُن اثرات کے بارے میں سوچیے جو انسانی رویے کو مالی ترغیبات سے تحریک پہنچانے کا موجودہ جذبہ ڈالتا ہے۔ یہ طریقہ خصوصاً کاروباری دنیا میں عام ہے جہاں وفاقی ٹیکس قانون 1993 سے اداروں سے بالائی افسران کی 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ تنخواہ کو کسی ‘مبرا بہ اقدار کارکردگی کے پیمانے’ کے ساتھ نتھی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
بدقسمتی سے، کرداری سائنس پیشین گوئی کرتی ہے کہ یہ طریقہ اکثر باعثِ نقصان ہو گا، جب تک کارپوریشنز کسی طرح ‘مکمل’ نوکری کے معاہدے نہ بنا لیں جس میں تمام ممکنہ حالات میں تمام تر ذمہ داریاں اور فرائض درج ہوں۔ متوقع ترغیبات پر زیادہ زور موقع پرستانہ بلکہ غیر قانونی رویہ اپنانے کے غیر ارادی اور غیر متوقع اثرات اپنے ساتھ لائے گا۔ جیسے دیکھیے کہ انرون اور ورلڈکام کے کاروباری منتظمین کو کمپنی کے شیئرز کے نرخ بڑھانے کے ترغیب کے طور پر سٹاک آپشن پلان اپنانے کی پیشکش کے سبب بڑے پیمانے کے اکاؤنٹنگ فراڈ کرنے کے بجائے ان کو مراعات دینے کے غیر ارادی اثرات ڈالے۔
یہ سمجھنے کے لئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے یاد کیجئے کہ بے غرضانہ سماجی مفاد پر مبنی رویہ کم از کم تین اہم سماجی اسباب سے تحریک پاتا ہے ا) مقتدر شخصیت سے ہدایات 2) دوسروں کی خودغرضیت یا غیر خودغرضیت کے بارے میں یقین 3) اپنے بے لوث رویے کی بدولت دوسروں کو فائدہ پہنچنے کا احساس۔ متوقع مالی ترغیبات پر زور ان تمام عناصر کو کمزور کر دیتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دوسروں کو کسی عمل پر مائل کرنے کے لئے مادی ترغیبات دینا ان کہے پیغامات ارسال کرتا ہے کہ مفاد پرستانہ رویے کی اس کام کے لئے توقع بھی ہے اور وہ اسکے لئے موزوں بھی۔ یہ تجویز کرتا ہے کہ ایسے ہی حالات میں دوسرے بھی خودغرضانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اور آخری بات کہ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مفاد پرستی کسی نہ کسی حوالے سے فائدہ مند ہے (ورنہ اس پر انعام کیوں دیا جا رہا ہے؟)
مراعاتی معاہدے لالچ بڑھا دیتے ہیں جو ضمیر کو مردہ کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ کارانہ بنکنگ صنعت ترغیباتی سکیموں، جو اپنے ٹریڈرز/تاجروں کو لاکھوں ڈالر تک منافع کمانے کا موقع فراہم کرتی ہیں کی اجازت دینے کے حوالے سے بدنام ہے۔ جیسے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس سطح کے منافع کمانے کے چکر میں وال سٹریٹ ٹریڈرز نے ضرورت سے بہت زیادہ خطرات مول لے لئے جس نے انکی کمپنیوں کو اور پوری معیشت کو ڈبو ہی دیا تھا۔
جب تک کہ ان کو بہت محتاط انداز میں نہ کیا جائے، بیرونی ترغیبات پر زور اندرونی ترغیبات جیسے قابلِ اعتماد ہونا، عزت، اور دوسروں کے بہبود کا سوچنا، کیلئے کئی پریشان کُن ذیلی اثرات لا سکتا ہے۔ مالی ترغیبات پر زور دینا صرف ترغیبات بدلنے سے کچھ بڑھ کر اثر ڈالتا ہے۔ ایک گہری سطح پر وہ لوگوں کو تبدیل کر دیتا ہے۔ خودغرضی پر بہت زیادہ انحصار کرنا انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے۔ لوگوں سے یہ سمجھتے ہوئے تعلقات رکھنا کہ انہیں صرف اپنے مادی فائدے کا ہی لحاظ رکھنا چاہیے، ان کو ایسا ہی کرنے والا بنا دے گا۔
ضمیر کو سنجیدگی سے لینا
موجودہ قانونی و پالیسی سازوں کو، ضمیر کو اپنے تجزیہ کا حصہ بنانے کا مزید کام کیوں کرنا چاہیے؟ تو جواب بہت سادہ سا ہے: ہم ایسا نہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ امن اور ترقی کا انحصار خوش اخلاقی، احساس اور برداشت کی انسانی اہلیت پر ہے۔ آج کل، غیر خودغرضانہ معاشرتی مفاداتی رویہ مغربی زندگی کے تانے بانے میں اتنی گہری طرح بُنا ہوا ہے کہ اکثر اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ لوگ مسلح محافظوں کے بغیر ATM مشینوں سے پیسے نکلواتے ہیں؛ تندرست و توانا جوان لوگ کمزور بزرگ شہریوں سے پیچھے قطاروں میں کھڑے صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں؛ پولس کی غیر موجودگی کے باوجود ڈرائیور لال بتی کے سبز ہونے تک اشارے پر رُکے رہتے ہیں۔ اُن ان گنت تعاون اور صبر کے بے لوث افعال کی اہمیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے جو ہمیں ایک مہذب معاشرے میں اکٹھا رکھتے ہیں جیسے ہمیں کششِ ثقل کا احساس نہیں ہوتا جو ہمیں خلا میں تیرتا رکھتی ہے۔
لیکن جیسے ہم کششِ ثقل کے بغیر خیریت سے نہیں رہ سکتے، ایسے ہی ہم باضمیری کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے۔ شماراتی ثبوت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بے لوث معاشرتی مفاداتی رویہ کی ثقافتی عادات معاشی ترقی اور نفسیاتی صحت کے لئے نہایت اہم ہیں۔ ثبوت تو اس بات کے بھی اکٹھے ہو رہے ہیں کہ بے لوث معاشرتی مفاداتی رویہ امریکہ میں گھٹتا جا رہا ہے۔ جیسے ماحولیاتی سائنسدان سائنسی علم کے بعض ذرائع کی بنیاد پر عالمی سطح پر دنیا کے درجہ حرارت کے بڑھنے کے امکانات پر فکرمند ہیں بالکل ایسے ہی سماجی سائنسدان اِن بڑھتے ثبوتوں کے حوالے سے فکرمند ہیں جو ‘مردہ ضمیری’ کے ممکنات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگر امریکی اجتماعی طور پر حقیقتاً خودغرض، اخلاقیات سے عاری، اور معاشرتی معاملات سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں اور انہیں صرف اپنے ذاتی مالی بہبود سے ہی غرض ہے اور اپنی معاشرے، قوم اور آنے والی نسل کی کوئی فکر نہیں ہے، تو یہ انتقال ہماری خوشی اور ترقی دونوں کے لئے خطرہ ہے۔ ہمیں ضمیر کو اہمیت اور فروغ دینا ہو گا۔ (یہاں پر مضمون اختتام پذیر ہو جاتا ہے)
یہ مضمون بڑی وضاحت و صراحت سے یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایکنامکس کے علم کی بنیاد تو وہ بنیادی نظریات ہیں جو انسان، زندگی اور کائنات کے حوالے سے یورپ میں پیدا ہوئے۔ تو کیا برصغیر کے باسیوں کو بھی ماضی میں انہیں حالات کا سامنا رہا جیسے کہ یورپ کو رہا؟ کیا انکا اور یورپ کا تاریخی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی پس منظر ایک سا ہے؟ اسی طرح کیا ہمارے معاشرے کی مجموعی رائے اپنے دین اسلام کے بارے میں یورپ جیسی ہی ہے؟ اب تو حالات سے پردہ اُٹھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بھارت کے سیاست دان ششی تھرور کی نئی کتاب “Inglorious Empire” چھپی ہے جو ہمیں اپنے نوآبادیاتی ماضی کی ‘دھندلی سی اک تصویر’ دکھلا رہی ہے۔ ان کے مطابق:
1600ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی بنی تو برطانیہ دنیا کے کل جی ڈی پی کا صرف 1.8 فیصد پیدا کرتا تھا جبکہ ہندوستان 23 فیصد جو 1700ء میں 27 فیصد تک پہنچا۔ لیکن 1940ء میں، دو صدیوں تک برطانوی راج کے اقتدار میں رہنے کے بعد برطانیہ عالمی جی ڈی پی کا 10 فیصد پیدا کرنے لگا اور ہندوستان “تیسری دنیا” کا غریب ملک بن چکا تھا۔ یہ ایک مفلس، کنگال اور بھوکا ہندوستان تھا، جو غربت اور افلاس کا عالمی مرکز تھا اور کسی حد تک آج بھی ہے۔ برطانیہ ایک ایسا ملک چھوڑ کر گیا جہاں شرح خواندگی صرف 16 فیصد تھی، متوقع عمر صرف 27 سال، جہاں کوئی مقامی صنعت نہیں تھی اور 90 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ وہ ہندوستان جہاں جب برطانوی آئے تھے تو یہ ایک امیر، خوش حال، ترقی یافتہ ملک اور تجارت کا مرکز تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں دلچسپی کی وجہ بھی یہی خصوصیات تھیں۔ ہندوستان ہرگز پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقہ نہیں تھا بلکہ قبل از نو آبادیاتی دور میں یہاں ایسی اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار ہوتی تھیں جن کی برطانیہ کی فیشن ایبل سوسائٹی میں بڑی مانگ تھی۔
یہ قطعہ بڑی وضاحت سے ہمارے اور انگریزوں کے ماضی کے اختلافات بیان کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور سوال جو اُبھرتا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں سر تا پا موجود لالچ، خودغرضی، مفاد پرستی، کرپشن وغیرہ کا کوئی تعلق اس مضمون میں بیان کردہ انسان کو خودغرض اور لالچی مخلوق تصور کرنے سے ہے؟ دراصل پاکستان اور دنیا کے اکثر ممالک کی معیشت انہی مندرجہ بالا خطوط پر استوار ہے جسے عرفِ عام میں سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے اور یہ بہت تیزی سے ہمارے اخلاقی اطوار کو نیست و نابود کر رہی ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا ایمانداری کا رویہ سیکھنے کے لئے ہمیں ایکنامکس کی طرف دیکھنا چاہیے یا آخرت کے تصور سے بھی کچھ رہنمائی ممکن ہے؟
اسی طرح اس مضمون میں بے لوث رویہ اپنانے کے اصول بھی تجرباتی طریقے سے بتائے جارہے ہیں۔ مضمون نگار بھی وہی غلطی کر رہی ہے جس پر وہ تنقید کر رہی ہے۔ ان کے لئے یہ اندھا دھبہ (blind spot) ہے کیونکہ وہ اسی طریقے کو سماجی علم پیدا کرنے کا بہترین طریقہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان رویے کا نقطہ آغار تو نوآبادیاتی دور میں یورپ سے درآمد شدہ علم بنا اور اسی پہ بعد میں قانون، کاروبار، پالیسی سازی کے متعلق علم کی عمارات تعمیر ہوئیں۔
ضمیر کے منبعِ علم ہونے پر بھی بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں مثلاً ضمیر کیا ہے؟ ضمیر علم کیسے پیدا کرتا ہے؟ کیا ضمیر زمانُ و مکان کی قیود سے آزاد عالمگیر علم پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا مختلف زمان و مکان میں موجود لوگوں کے ضمیر لوگوں کو یکساں رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟ لین ضمیر کی تعریف ‘ایک بے لوث معاشرتی مفاد پر مبنی رویہ کرتی’ ہیں۔ یہ تو پھر انسان کی شخصیت کے ایک جزوی پہلو کا ہی احاطہ کرے گا یعنی پہلے ہم مشرق کو جا رہے تھے تو اب ہمیں مغرب کا رُخ کر لینا چاہیے کیونکہ خیر اسکے مخالف سمت تھی۔ انسان کے ضمیر میں تو شر و خیر دونوں مادے ہی موجود ہیں تو انسان کی تعریف لالچی، مفاد پرست ہستی کے بجائے بے لوث اور دوسروں کو نفع پہنچانے والی ہستی کر دیا جائے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا، نہیں! بلکہ شر کو تعریف سے نکال دینے کی بنا پر دوسری طرح کے مسائل اُبھرنے شروع ہو جائیں گے مثلاً طاقتور دوسروں پر ظلم، جبر، ڈاکے مسلط کر دیں گے لیکن ہمارا علم ہمیں بتائے گا کہ وہ تو بہت بے لوث اور بے غرض لوگ ہیں اور وہ یہ کام ہمارے بھلے کے لئے ہی کر رہے ہیں۔
اسی طرح اگر نظریات کی بنا انسان کو بیک وقت لالچی، خودغرض، بے لوث اور معاشرے کو اپنے پر فوقیت دینے والی ہستی تصور کر لیا جائے تو معاملہ کی پیچیدگی ازحد بڑھ جائے گی اور یہ جاننا ناممکن ہو جائے گا کہ ایک محرک کی بنا پر ایک مخصوص شخص خوش ہو گا کہ ناراض، خودغرضی دکھائے گا یا بے غرضی۔ سائنسی نظریات کے لئے ضروری ہے کہ جس ہستی کے بارے میں نظریہ قائم کیا جا رہا ہو اُسکی ایک جامد اور مکمل تعریف موجود ہو تاکہ اُس کے رویے کے بارے میں یقینی پیشین گوئی کی جا سکے کیونکہ سائنسی نظریہ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اُسکے مستقبل کے متوقع رویہ کو بتا سکے۔ مزید برآں انسان کی خوشی غمی، خود غرضی یا بے غرضی اُسکے اندر پنہاں نہیں بلکہ اُسکے خیالات، افکار، اور نظریات کی بنا پر ہوتی ہے اور وہ لکڑی کی طرح بے جان، جامد اور چند خصوصیات رکھنے والی ہستی نہیں بلکہ دماغ، یادداشت، حواسِ خمسہ، احساسات، نظریات اور خاص ثقافت رکھنے والی ہستی ہے اور یہ سب کچھ تعریف کرنے والے کے علم سے ماورا بھی ہو سکتے ہیں۔ انسان کی ایک آفاقی، جامد اور ہر طرح سے مکمل تعریف میں ناکامی جیسے عملی مسائل نے مغرب کو انسان کی پتھر، لکڑی، لوہے کی طرح جامد، آفاقی اور مکمل تعریف کرنے پر مجبور کیا لیکن اسکے بجائے وہ اپنے معاشرے کے اُس وقت کے حاوی اور قریبی تاریخ سے متاثرہ انسانی نظریات و افکار اور خصائل کو ہی دیکھ سکے اور اُسکی بنیاد پر انسان کی یک رُخی تصویر کھینچ دی۔
تیسری دنیا کے مفکرین، پالیسی ساز اور اساتذہ جو ہدایت، رہنمائی اور سچے علم کے لئے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں اور انہی کی پیروی میں اپنی زندگی کے مقاصد، طریقے، پالیسیاں وغیرہ ترتیب دیتے ہیں، کے لئے یہ فکر کی بات ہونی چاہیے کہ مندرجہ بالا سوالات جو لین نے اُٹھائے اور کچھ راقم نے بھی اُٹھائے ہیں وہ اس جدید دور کے راہبر و رہنما معاشرے کے بارے میں ہے جو پوری دنیا کو تہذیب و تمدن سکھانے کا داعی ہے۔ کچھ سمجھدار مغربی مفکرین تو یہ بات ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہمارا تہذیب سچے اور عالمگیر سماجی علم کے حوالے سے تہی دامن ہے اور دوسری تہذیبوں اور معاشروں کو اپنے تاریخی علمی ذرائع کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن غلامی پہ رضامندی کا جو سبق لارڈ میکالے نظامِ تعلیم نے ہمیں رٹایا تھا اُسے بھلانے کو ہم تیار نہیں ہیں۔
اور آخر میں کارل پاپر جو یورپ کے بہترین فلسفہ دانوں میں سے ایک ہے، کے افکار کے بارے اردو میں لکھی گئی ایک کتاب ‘فلسفہ سائنس اور تہذیب’ کے صفحہ 30 پر موجود ایک قطعہ پیش خدمت ہے جو انسان کی علم پیدا کرنے کی قابلیت کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔
“ہمارا علم قیاسات کا مجموعہ ہے۔ علم کی شاہراہ پر سفر میں صداقت کا حصول ہماری منزل ہے لیکن ہمارا کوئی نظریہ کبھی کامل صداقت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنی غلطی اور خطاؤں کو دور کرتے ہوئے اس منزل کی طرف قدم بقدم پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ہمیں یقینی اور حتمی علم کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ علم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا جہل بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ شعور ہوتا ہے کہ جو ہم نہیں جانتے وہ اُس سے بہت زیادہ ہے جو ہم جانتے ہیں۔ ہمارا علم محدود اور جہل لامحدود ہے”۔
اور آخر میں قرآن کی صرف دو آیات جو شاید ہمارے بھٹکنے کے دور میں کمی لا سکیں:
یہ (اللہ پر ایمان نہ لانے والے) تو ظن و تخمین (قیاس) کی ہی اتباع کرتے ہیں اور ظن تو حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا۔ سورۃ النجم، 28۔
اور تمہیں (یعنی انسانوں کو) تو بہت تھوڑا سا ہی علم دیا گیا ہے۔ سورۃ الاسراء، 85
اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا ؎
نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے