پروفیسر شہباز علی
جولائی ۲۰۱۰ء کی ایک شام فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔میرے ریسور اٹھانے پر ایک مانوس آواز کانوں سے ٹکراتی ہے ۔ پروفیسر شہباز علی صاحب سے بات کروادیں ۔۔۔۔۔میں غلام علی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ دیر سو چنے کے بعد میں نے کہا مشہور غزل گائک غلام علی صاحب ۔۔۔۔۔ جی ہاں غزل گائک غلام علی بات کر رہا ہوں ۔ میں نے کہا خاں صاحب کیسے یاد کیا آپ نے ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے بڑے فن کار نے مجھے فون کیا ۔۔۔۔۔۔کہیے کیا خدمت کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ مجھے سید گوہر علی کا فون نمبر چاہیے ۔ سید گوہر علی میرے شاگرد احسن علی کے والد ہیں جو غلام علی صاحب کے پرانے دوستوں میں سے ہیں ۔ غلام علی صاحب کبھی کبھار ایف۱۰ میں واقع ان کی کو ٹھی پر قیام کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے شاگرد احسن کو تاکید کر رکھی تھی کہ غلام علی صاحب جب بھی تمھارے گھر قیام کریں تو انھیں میری سولو ہارمونیم کی سی ۔ڈی ضرور سنوانا۔ خیر اسی رات احسن نے میری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے غلام علی صاحب کو میری سی ۔ ڈی میں سے ’’ راگ ایمن ‘‘ سنوایا۔ اگلے دن صبح تقریباً گیارہ بجے غلام علی صاحب کا مجھے فون آیا۔ انھوں نے میری ہارمونیم نوازی کی دل کھول کر تعریف کی اور کہا کہ آپ کا ہارمونیم سُن کے ماسٹر صادق صاحب کی یاد تازہ ہو گئی ہے آپ نے ان کے اندازکو بہت اچھی طرح بجایا ہے۔ میں نے جواب میں کہا ، خاں صاحب میں نے صرف کوشش کی ہے باقی میرا فن اس قابل نہیں کہ آپ جیسے بڑے لوگوں کو سنوایا جا سکے۔ غلام علی صاحب نے کہا ! فون پر بات کرنا اپنی جگہ درست مگر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آج شام کو آپ کی کیا مصروفیت ہے؟۔۔۔۔۔۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔۔۔۔ میں نے جھٹ سے خاں صاحب سے کہا کہ آج اتوار کا دن ہے مجھے چھٹی ہے اور میں شام کو بالکل فارغ ہوں۔۔۔۔۔ آپ ضرور تشریف لائیں۔۔۔۔ تو ہم آج شام کو آپ سے ملنے آ رہے ہیں۔
اسی دن شام سات بجے کے قریب غلام علی صاحب احسن کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے ۔ اس ملاقات میں، میرے بڑے بھائی ہاشم مسعود اور میرے بہنوئی ارشد فیاض صاحب بھی موجود تھے۔ میں نے غلام علی صاحب کے لیے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ لیکن انھوں نے یہ کَہ کر کھانا کھانے سے انکار کر دیا کہ میں پرہیز ی کھانا کھاتا ہوں۔۔۔۔ لہذا میں صرف چائے پیوں گا۔ خاطر مدارات سے فارغ ہو ئے تو ان سے بہت سی باتیں ہوئی۔ میرے استاد محترم ماسٹر صادق پنڈی والے کا تذکرہ ہوا۔ غلام علی صاحب نے کہا ! ماسٹر صادق صاحب کو میں بھی اپنے استادوں کی جگہ سمجھتا ہوں۔ پھر انھوں نے میری بیٹھک میں اپنے اُستادوں ، اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب اور استاد برکت علی خاں صاحب کی تصویریں دیکھ کر انھیں چوما اور کہا کہ میں کسی کے گھر اس طرح ملنے جاؤں تو کبھی بھی نہیں گایا کرتا لیکن آپ کی بیٹھک کا ماحول دیکھ کر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں کچھ گاؤں ۔میرے دوہارمونیم دیکھ کر انھوں نے کہا کہ ان میں سے اچھا ہارمونیم کون سا ہے۔ میں نے اپنا جرمن ریڈز کا ہارمونیم جسے ماسٹر عنایت مرحوم (گوجرانوالہ والے) نے بڑے دل سے بنایا تھا، اُن کے سامنے رکھ دیا۔ غلام علی صاحب نے ہارمونیم کے سروں کو چھیڑنے کے بعد اسے پسند کیا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا سناؤں ۔۔۔ میں نے کہا خاں صاحب جو آپ کی مرضی۔۔۔۔۔ غلام علی صاحب نے اپنی مرضی سے کچھ غزلوں کے مکھڑے اور میری فرمائش پر ایک پنجابی گیت سنایا۔ اس کے بعد انھوں نے بہت خوب صورتی سے میر کھنڈ کا پلٹاسنایا اور تھوڑا سا سولو ہارمونیم بھی بجایا۔ غلام علی صاحب کو سرگم پلٹا ، ہارمونیم نوازی اور کورڈ سسٹم پر جس قدر عبور حاصل ہے، اتنا عبور بر صغیر میں شاید ہی کسی دوسرے غزل گائک کو حاصل ہو۔
غلام علی صاحب سے یہ ملاقات میری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے۔ اس ملاقات میں ان کی شخصیت کا جو سب سے نادر اور نایاب پہلو میرے سامنے آیا وہ ان کا حلم ، بُردباری ، ظرافت ،عاجزی اور انکسار ہے۔ شاید اللہ پاک نے انھی صفات کی بدولت انھیں بے مثال بنا دیا ہے۔ بے شک وہ ہی پاک ذات ہے جو عزت ، دولت اور شہرت دینے والی ہے۔
بیسوی صدی کی سترکی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جب غزل گائکی کے میدان میں بڑے بڑے نام حکم رانی کر رہے تھے، ایک نوجوان غزل گائک اپنی منجھی ہوئی آواز اور غزل گانے کی ایک نئی طرز ادا کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا۔ اس غزل گائک کا نام ’’غلام علی‘‘ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب غزل گائکی کے حوالے سے مہدی حسن، فریدہ خانم اور اقبال بانو کا ہر طرف شہرہ تھا۔ ان کی موجودگی میں ایک نوجوان غزل گائک کاابھرنا خاصا کٹھن اور مشکل کام تھا لیکن غلام علی صاحب نے اپنی بے پناہ ریاضت اور موسیقی سے اپنی لگن کے باعث اس دشوار اور مشکل کام کو آسان بنا دیا۔غلام علی نے اس مشکل کا م کو نہ صرف اپنے لیے آسان بنایا بلکہ مذکورہ بالا عدیم النظیر فن کاروں کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوانے کے ساتھ ساتھ غزل گائکی کی تاریخ میں بھی اپنا نام امر کر دیا اور ایک نئے انداز کی طرح ڈالی۔
کلاسیکل میوزک ریسرچ سیل ریڈیو پاکستان لاہور کے مطابق غلام علی صاحب ۱۹۴۰ء کو موضع کالیکے ضلع سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ غلام علی صاحب کے اپنے بیان کے مطابق ان کی پیدائش کا سنہ ۱۹۴۱ء ہے ، گاؤں کا نام کالیکے ناں گرے ہے جو تحصیل ڈسکہ ضلع سیال کوٹ میں واقع ہے۔ غلام علی صاحب نے موسیقی کی تعلیم اُستادبرکت علی خاں صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی اُستادمبارک علی خاں صاحب سے حاصل کی۔ ہیرا منڈی لاہور میں زیارت نوگزا کے سامنے اُستادبرکت علی خاں صاحب اور اُستادمبارک علی خاں صاحب کی موسیقی کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ غلام علی صاحب نے اسی بیٹھک میں اپنے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ اس بیٹھک میں غلام علیصاحب کو ان کے دونوں اُستاد’’بڑا مانا‘‘ کَہ کر مخاطب کیا کرتے تھے لیکن اس وقت کس کو خبر تھی کہ اس بیٹھک کا ’’بڑا مانا‘‘ اپنے منجھے ہوئے اُستادوں کی رہنمائی میں ایک دن دنیا کے سامنے غلام علی بن کر ابھرے گا اور غزل گائکی میں ایک نئے انداز کو متعارف کروائے گا۔
موسیقی کے شوقین اور رسیا ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’’بڑے مانے‘‘ کایہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔وہ اُستاد برکت علی خاں صاحب اور اُستاد مبارک علی خاں صاحب کے بھانجے شفقت حسین (اداکارساجن) کے ہمراہ موسیقی کی اس مشہور’’بیٹھک‘‘ میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ انھوں نے اس بیٹھک کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ جنگ راو ل پنڈی کے سنڈے میگزین میں ایک بہت عمدہ مضمون’’ غلام علی عُرف بڑا مانا‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔اصول تحقیق کے مطابق اس مضمون کا مکمل حوالہ مع تاریخ اور سنہ لکھا جانا ضروری ہے لیکن افسوس کہ یہ مضمون تو میرے پاس محفوظ ہے لیکن تاریخ اشاعت او ر سنہ کے بغیر۔ یہ مضمون اس قد ر خوب صورت ہے کہ مَیں اس مضمون سے ایک اقتباس قارئین کی نذر کر رہا ہوں جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ’’ بڑے مانے‘‘ نے غلام علی بننے کے لیے کس قدر ثابت قدمی سے ریاض کیا اور اپنے اُستادوں کا ادب کر کے اور ان سے دُعائیں لے کے پوری دُنیا میں شہرت حاصل کی:
’’زیادہ تر مبارک علی خاں صاحب کی بیٹھک پر جانا ہوتا تھا ۔ تنگ سیڑھیاں دکان کی بغل سے سیدھی اوپر کو جاتی تھیں اور کمرے میں کھلتی تھیں۔ دروازہ تو تھا مگر زنجیر اور تالے سے بے نیاز ۔ سیڑھیوں کے آدھے راستے میں ہارمونیم اور طبلے کی بو آنے لگتی تھی۔ خاں صاحب ہمیشہ کمرے میں موجود ہوتے۔ اس طرح آنے جانے سے مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ’’دو مانے‘‘ بھی رہتے ہیں ۔ دونوں خاں صاحب کے شاگرد تھے۔ ابھی تک خاں صاحب کی کھنک دار آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے ’’مانے‘‘ اس کے سنتے ہی دونوں مانے حاضر ہو جاتے ۔ بڑا مانا نوجوان تھا اور رات کو ہارمونیم بجاتا تھا، اس کے علاوہ خاں صاحب کا اسسٹنٹ بھی تھا۔ خاں صاحب فلموں کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔ ان کی فلم ’’ دو آنسو‘‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی۔ اس کے بعد فلمیں فلاپ ہونے سے ان کا یہ کارو بار ٹھپ ہو گیا تھا۔ چھوٹا مانا ابھی بچہ تھا۔ میرا وہاں جانا بیشتر گرمیوں میں ہوتا تھا۔ کبھی صبح ، کبھی دوپہر اور کبھی شام۔ ’’بڑا مانا‘‘ ایک چھوٹا سا پھٹا پرانا کپڑا کمر کے گرد لپیٹے ایک سٹول پر بیٹھا آرگن پر مشق کرتا نظر آتا۔ ایک بڑا باجا سا تھا جس میں وہ پاؤں سے ہوا بھرتا ۔ وہ آنے جانے والوں سے بہت کم بات کرتا۔ بس اپنی دھن میں لگا رہتا ۔مجھے تعجب اس بات پر ہوتا کہ وہ ہمیشہ ابتدائی پلٹے ہی بجاتا ، میں نے اسے گلے سے آواز نکالتے یا دُھن بجاتے ہوئے نہ سُنا ۔ گرمیاں بیت گئیں۔ دوسری گرمیاں آئیں، وہ بھی گزر گئیں۔ اس طرح کئی سال بیت گئے۔ میں دیکھتا رہا سخت گرمی میں، کمرے کے ایک کونے میں پسینے میں شرابور وہ اپنی مشق میں مشغول رہتا۔ وہی ابتدائی پلٹے ، سارے گاما۔ رے گا ما پا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی کہ یہ شخص اُکتا نہیں جاتا۔ اسے کچھ اور بجانا نہیں آتا یا وہ بجاتا ہی نہیں۔ خیر یہ تو معلوم تھا کہ یہ مبارک صاحب کا معاون ہے اور گلوکاراؤں کے ساتھ ہارمونیم بجاتا ہے۔ کچھ لوگوں سے میں نے اس فن میں اس کی مہارت کے بارے میں بھی سُنا تھا۔ اگر مجھے یہ سب باتیں معلوم نہ ہوتیں تو میں اسے بیکار ہی سمجھتا ۔ اس کا استغراق دیکھ کر بعض بزرگ قسم کے لوگ کہتے تھے ’’ مانے تیرے لیے کھانے کراچی ، کلکتہ، بمبئی اور ساری دُنیا میں پک رہے ہیں یعنی سار ی دُنیا میں تمھار ا نام ہوگا ۔ البتہ ان دعاؤں کے حصول میں ’’بڑے مانے‘‘ کی فرماں برداری اور بزرگوں کا احترام شامل تھا۔‘‘
کچھ عرصے بعد ڈاکٹر آفتاب احمد کا اس بیٹھک میں آنا جانا ختم ہو گیا اور ’’بڑے مانے ‘‘ کی یاد ان کے تحت الشعو ر میں پہنچ گئی۔ وقت گزرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن انھوں نے اچانک ایک گھریلو محفل میں مبارک علی خاں کی بیٹھک کے ’’بڑے مانے‘‘ کو گاتے ہوئے سُنا ۔ اس محفل کا حال بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ میں نے اسے گھریلو محفل میں گاتے ہوئے دیکھاایک تو میں مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھا دوسرے میں نے اُسے کبھی گاتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ اس بنا پر میں نے اس کے گانے پر غور نہیں کیا۔ ’’مانے‘‘ کے علاوہ اس محفل میں بشیر علی ماہی مرحوم اور چند ایک شوقیہ گانے والوں نے بھی حصّہ لیا تھا اس بنا پر میں نے اس کے گانے پر غور نہیں کیا۔ مبارک علی خاں صاحب کی وفات کے بعد وہ بیٹھک بھی ختم ہو گئی۔ اسی طرح چند سال اور بیت گئے ۔ اچانک برصغیر کا آسمان ایک شخص’’ غلام علی ‘‘ کے گائے ہوئے گیت اور غزلوں سے گونجنے لگا۔ میرے واقف کاروں نے اس کے انٹر ویو سُنے تو مجھ سے ذکر کرنے لگے کہ یہ شخص کہتا ہے کہ یہ برکت علی خاں صاحب اور مبارک علی خاں صاحب کا شاگرد ہے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا مگر بے سود ۔ یہگھتی اس وقت سلجھی جب شفقت حسین صاحب (ساجن) نے مجھے بتایا کہ یہی ’’بڑا مانا‘‘ ہے ۔بڑے مانے کو اپنی محنت کا پھل ملا۔ بزرگوں کی دُعائیں حرف بہ حرف قبول ہوئیں۔‘‘
موسیقی کے معروف محقق سعید ملک اپنی کتاب “Lahore Its Melodic Culture” کے صفحہ ۶۳ پر اس ضمن میں لکھتے ہیں:
“I can say with confidence that it was during the second half of the decade of 50s when the incident, I am just about to narrate, took place. It happened at the baithak of late Mubarak Ali Khan, located opposite Chowk Naugaza, Hira Mandi, Lahore, Which I used to visit frequently. It was there that I chanced to watch a kid rendering a short classical composition in Ektala time-measure. Reproducing it in exactly the same manner as his mentor had taught him, albeit singing with a lisp, he surprised all those present on that occasion by his sharp melodic acumen (until then) and latent potential for becoming a popular singer. The lad was Ghulam Ali, who later came under the tutelage of Ustad Barkt Ali Khan, who taught him the delicate art of ghazal-singing with much care”.
۷۳۔۱۹۷۲ء میں ریڈیو کی مقبولیت بہت زیادہ تھی اور ریڈیو پروگرام ہرگھرمیں سنے جاتے تھے۔ اس دور میں ایک پنجابی غزل ریڈیو سے سنائی دی جس کے بول تھے:
میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں آجا ویکھ میرا انتظار آجا
اینّویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں کیہ توں سوچنا ایں ستم گار آجا
سُکھیں وسّنا جے توں چاہو نا ایں میرے غالباؔ ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وچ آبہہ جا ایتھے بیٹھدے نیں خاکسار آجا
یہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی ایک فارسی غزل کا پنجابی ترجمہ تھی جسے معروف شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم نے بہت خوب صورتی سے پنجابی ترجمے کے قالب میں ڈھالا تھا۔ اس پنجابی غزل کا ریڈیو سے نشر ہونا تھا کہ ہر طرف غلام علی ، غلام علی ہونے لگا اور غلام علی صاحب ایک ہی جست میں پاکستان کے صف اول کے گلو کاروں میں شامل ہو گئے۔ در اصل اس غزل کی خوب صورت دُھن اور غلام علی صاحب کی پنجابی لفظوں کی خوب صورت طرزِ ادا نے سامعین کو فوراً اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ پنجابی غزل ریڈیو سے ایک دن میں کئی کئی بارنشر ہوا کرتی تھی اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔
اس پنجابی غزل کے بعد غلام علی صاحبکی گائی ہوئی احمد ندیم قاسمی کی ایک دل کش غزل ریڈیو پر گونجنے لگی جس کا مطلع تھا:
شام کو صبح چمن یاد آئی
کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
چاند جب دور افق میں ڈوبا
تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی
احمد ندیم قاسمی کی اس غزل نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی اور غلام علی صاحب کی شہرت کو بڑھا وا دیا۔ اس غزل کے بعد غلام علی صاحب کی جو غزل سب سے زیادہ مقبول ہوئی وہ مولانا حسرت موہانی کی لکھی ہوئی تھی اور اس کا مطلع تھا:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
غلام علی صاحب نے بطور پلے بیک سنگر بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے گایا ہے مگر انھوں نے زیادہ تر پنجابی فلموں کے لیے ہی پلے بیک دیا ہے۔ خاص طور پر فلم ’’ٹھاہ‘‘ میں موسیقار صفدر حسین مرحوم کی ترتیب دی ہوئی دُھن میں ان کا یہ پنجابی گیت بہت مقبول ہوا۔
پہلی واری اج اوناں اکھیاں نے تکیا
ایہوں جیہا تکیا کہ ہائے مار سٹیا
فلم’’پہلا وار‘‘ میں گائے ہوئے ان کے اس پنجابی گیت نے بھی دھوم مچا دی:
نی چمبے دیئے بند کلیے تینوں جیہڑے ویلے رب نے بنایا
تے سوچاں وچ آپ پے گیا دُوجا چن کدھروں چڑھ آیا
فلم ’’شرابی‘‘ کا یہ گیت بھی بہت مشہور ہوا۔
سوہنیا اُوے مُکھ تیرا سجری سویر اے
کِھڑ پیا چانڑاں تے مُکیا ہنیر اے
پاکستانی فلمی صنعت کی مایہ ناز پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ میں غلام علی صاحب کی گائی ہوئی ’’ہیر‘‘ بھی بہت متاثر کن ہے۔ ’’ہیر رانجھا‘‘ کی موسیقی خواجہ خورشید انور صاحب نے مرتب کی تھی۔ یہ فلم اپنی لا زوال دھنوں کے باعث ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
فلموں میں پلے بیک کا سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور غلام علی صاحبنے جلد ہی محسوس کر لیا کہ ان کا اصل میدان کلاسیکی اور نیم کلاسیکی اندا ز کی غزل ہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے فلموں کے پلے بیک گانوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی پوری توجہ غزل اور گیت پر مرکوز کر دی۔
غلام علی صاحبکی کچھ اور مشہور غزلیں جو عوام الناس میں بے حد مقبول ہوئیں یہ ہیں:
جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے
احمد فراز
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تُم، تُم سے تُو ہونے لگی
داغ دہلوی
ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
اکبر الہ آبادی
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
ابنِ انشاء
دُکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
ناصر کاظمی
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
منیرنیازی
یہ دل، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
محسن نقوی
دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
ناصر کاظمی
غلام علی صاحب کی گائکی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک راگ میں غزل گاتے ہوئے اس راگ کے قریب کے سروں کی آمیزش سے اپنی غزل کو خوب صورت بناتے ہیں۔ غزل گائکی کے حوالے سے یہ رنگ خالصتاً پنجاب کے گانے والوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ بھیرویں، تلنگ اورپہاڑی کو جب پنجاب کے گائک اپنے مخصوص انگ سے گاتے بجاتے ہیں تو شائقینِ موسیقی اس مخصوص ’’پنجابی انداز‘‘ کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے اور یہی راگ جب پورب اور دلی والے گاتے ہیں تو ان کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اُستادبڑے غلام علی خاں صاحب بھی اپنے اسی مخصوص پنجابی انگ کے باعث ہندوستان بھر میں نمایاں رہے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ ان کے انگ کے سامنے کسی دوسرے گائک کی دال نہیں گلتی تھی۔ غلام علی صاحب نے اپنے اسی مخصوص پنجابی انگ، چھوٹی چھوٹی مرکیوں، گٹکڑیوں، زمزموں اور تانوں سے اردو غزل کو ایک نئی جہت اور سمت عطا کی ہے۔ لیکن جہاں یہ جدت اور ندرت ان کی غزل گائکی کا ایک خاص اورنمایاں وصف بنی ہے وہاں غزل گاتے ہوئے ان کے ہاں پنجابی لب و لہجہ (Accent)غالب رہتا ہے۔ خصوصا ’’تلفظ‘‘ کے حوالے سے بعض اوقات تو ان کی اردو غزل کسی پنجابی گیت کا تاثر اُبھار رہی ہوتی ہے اور یہ صورت حال ٹھیٹھ اُردو دان طبقے اور صاحبانِ شعر و سخن کو بہتناگوار محسوس ہوتی ہے۔
اُستادِمحترم قاضی ظہو رالحق صاحب غلام علی صاحب کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غلام علی خاں صاحب برکت علی خاں صاحب مرحوم کے شاگر دہیں۔ لاہور میں سکونت پذیر ہیں۔ نوجوان ہیں اور خوب صورت گاتے ہیں۔ غزل اور کافیاں گانے میں ان کا اپنا منفرد مقام ہے۔ لائٹ گانے میں بھی ہنومت گائکی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنے گانے میں برکت علی خاں صاحب کا نمونہ پیش کرتے ہیں، مشکلات پسند ہیں، بہر حال پاکستان کے لیے مایہ ناز ہیں اور موسیقی کے لیے ایک سرمایہ ہیں‘‘ ۱
غلام علی صاحب ہارمونیم بجانے میں بھی بہت دسترس رکھتے ہیں اور غزل گاتے ہوئے کہیں کہیں اپنی ہارمونیم نوازی کے بھی جوہر دکھاتے ہیں۔ غلام علی صاحب کے رشتے کے چچا منظور ٹھٹھے والا بھی ہارمونیم نوازی میں بہت مہارت رکھتے تھے اور مشہور ہارمونیم نواز ماسٹر محمد صادق پنڈی والے کے شاگرد تھے۔ ہارمونیم کے ساتھ ساتھ غلام علی صاحب طبلہ نوازی کی بھی تعلیم رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے گانے میں ’’لَے کاری ‘‘ کے اچھوتے نمونے ملتے ہیں۔ ابتداء میں پاکستان کے مایۂ ناز طبلہ نواز عبدالستار تاری اور غلام علی صاحب کی جوڑی بہت مشہور ہوئی تھی لیکن بعد ازاں اختلافات کے باعث دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔
مجھے غلام علی صاحب کو ملنے اور سننے کا بارہا موقع ملا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے چینل تھری کے موسیقی کے مقبول پروگرام ’’میری موسیقی‘‘ میں مجھے بطور میزبان نفیس احمد(ستار نواز) کے ہمراہ ان کا انٹر ویو لینے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ اس انٹر ویو میں ، مَیں نے ان سے خاصے چُبھتے ہوئے سوال بھی کیے مگر انھوں نے ہر سوال کا بڑی مہارت اور خندہ پیشانی سے جواب دیا ۔ میں نے غلام علی صاحب کو گفتگو کے دوران عجز اور انکسار کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک اور بڑی کمال کی بات جو مجھے ان میں نظر آئی ، وہ موسیقی کے اساتذہ، اپنے سینیرز اور بزرگوں کا احترام ہے۔ بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی اور جگت بازی بھی ان کے مزاج کا حصّہ ہے۔ غزل گاتے ہوئے ’’لَے ‘‘ سے کھیلنے کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے میاں نبی بخش کالرے والے کے ماےۂ ناز شاگرد اُستاد اللہ دتہ بہاری پوری (لقب پری پیکر) سے باقاعدہ طبلہ نوازی کی بھی تربیت حاصل کی ہے اور وہ خود بھی بہت اچھا طبلہ بجاتے ہیں۔
غلام علی صاحب پاکستان اور بھارت کے علاوہ مڈل ایسٹ، کینیا، امریکا، برطانیا، جرمنی اور دیگر بہت سے ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور وہ اب بھی ان ممالک کے اکثر و بیشتر دورے کرتے رہتے ہیں ۔ ان ممالک کے علاوہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان کے بہت سے مداح موجود ہیں اور بھارت میں انھیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ پاکستان کے بعد انھیں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے سب سے زیادہ پذیرائی بھارت میں ملی ہے۔ بھارت کی معروف پلے بیک سنگر آشا بھونسلے کے ساتھ ان کی ایک آڈیو کیسٹ ’’معراجِ غزل‘‘ بھی ریلیز ہو چکی ہے۔
غلام علی صاحب پاکستان اور بھارت میں متعدد ایوارڈز اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ ۱۹۷۹ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ ملا تھا۔
غلام علی صاحب کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے بیٹوں میں ایک بیٹا عامر موسیقی سے وابستہ دکھائی دیتا ہے اور اس کی ممبئی سے ایک سی۔ ڈی بعنوان “Just Muhabbat”ریلیز ہو چکی ہے۔ اس سی۔ ڈی میں عامر نے اپنے باپ کی ڈگرسے ہٹ کر ’’پاپ موسیقی‘‘ میں طبع آزمائی کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا میلان غزل گائکی کی طرف نہیں بلکہ موسیقی کے مروّجہ انداز کی طرف ہے۔
غلام علی صاحب بہت مصروف فن کار ہیں۔ چونکہ وہ اپنے پروگراموں کے سلسلے میں زیادہ تر بیرونی ممالک کے دوروں پر رہتے ہیں، اس لیے میں نے ان کے داماد خالد (گٹار نواز) سے درخواست کی تھی کہ ان کی جب بھی غلام علی صاحب سے ملاقات ہو وہ مجھے ان سے اُن کے شاگردوں کے نام لے کر دیں۔ خالد نے یہ کام سر انجام دے دیا اور غلام علی صاحب کے بتائے ہوئے کچھ شاگردوں کے نام مجھے دیے جو یوں ہیں: فدا حسین ، کوثر، سجاد علی، نعیم علی، رفیق حسین، صفدر اور مُون چُچلے(انگلینڈ)، جاوید اختر(امریکا) ، یش پال(نیپال)۔ غلام علی صاحب کے شاگردوں میں جو نام سب سے زیادہ مشہور ہوا وہ فدا حسین کا ہے۔ فدا حسین غزل ، گیت اور کافی مہارت اور خوبی سے گاتے ہیں۔ فدا حسین کی گائکی میں غلام علی صاحب کا انگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
گذشتہ تیس پینتیس سالوں سے غزل گائکی کے دو بڑے دبستان موسیقی کی دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ ایک شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا دبستان اور دوسرا غلام علی صاحب کا دبستان۔ غزل گائکی پر ان دونوں گائکوں کے بڑے احسانات ہیں موجودہ دور کے نئے اور ابھرتے ہوئے غزل گائک خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا بھارت میں، امریکا میں ہوں یا یورپ میں، ان دونوں غزل گائکوں یعنی مہدی حسن اور غلام علی صاحب کے انداز اور اثرات سے باہر نہیں گا رہے۔ وہ کسی نہ کسی حوالے سے انھی کا اسلوب اپنانے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں ان دونوں غزل گائکوں کی گائکی کے اثرات اس قدر پختہ ہیں کہ گذشتہ کئی برسوں سے غزل گانے کا کوئی نیا اسلوب یا انداز بھی سامنے نہیں آسکا اور شاید موسیقی کے موجودہ قحط زدہ دور میں اس کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا اور اردو غزل دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
غلام علی صاحب بلا شبہ بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں بھی ’’غزل گائکی‘‘ کے حوالے سے ایک بڑا نام ہیں۔ وہ ہنوز اپنا فنی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک خدا کا فضل و کرم شامل حال رہا ان کا یہ فنی سفر جاری و ساری رہے گا اور وہ اپنی خوب صورت غزلوں سے اردو غزل کا دامن سجاتے رہیں گے۔
حوالہ:۔
۱ قاضی ظہور الحق، معلم النغمات، حوالہ مذکور، ص ۱۰۴