معصوم عثمانی بھی رخصت ہوئے
(معصوم رضوی)
معصوم عثمانی بھی رخصت ہوئے، صحافت میں معتبر اور بااصول نام اب انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، عثمانی صاحب سے قربت کا دعویٰ تو تھا مگر تمام اندازے غلط نکلے، وہ میرے کتنے قریب تھے درست اندازہ اب ہو رہا ہے۔ عثمانی صاحب ایک شجر سایہ دار تھے اور گھنی چھائوں سے مستفید ہونیوالوں میں میری ذات بھی شامل تھی، صرف پروفیشنل نہیں بلکہ ذاتی معاملوں میں بھی ان کی رہنمائی ہر گام پر شامل رہی۔ چار، پانچ روز پہلے بھی فون پر بات ہوئی ملنے کا پروگرام بھی بنا، مگر عثمانی صاحب نے پہلی بار وعدہ خلافی کی، ملے بغیر ہی چلے گئے۔ میرے جیسے قربت کے اور بھی دعویدار ہونگے شاید وہ بھی اس کمی کو اتنی ہی شدت کیساتھ محسوس کر رہے ہوں۔
منگل کی صبح اٹھتے ہی فون پر انکے صاحبزادے عمیر کا پیغام پڑھا تو دل دھک سے رہ گیا، ذھن پر سناٹا اب تک طاری ہے، عثمانی صاحب کا مشفق مسکراتا چہرہ اب بھی سامنے ہے، یقین ہی نہیں آتا! معصوم عثمانی نے طویل عرصے پاکستان ٹیلی ویژن، جیو، آج، اے آر وائی، اپنا ٹی وی اور دیگر اداروں میں سینئر پوزیشن پر خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں براڈ کاسٹ اعصاب شکن کام ہے، مگر اس صورتحال میں بھی انہیں کبھی ضبط کا دامن چھوڑتے نہ دیکھا، غلطیوں پر اپنائیت بھری ڈانٹ ڈپٹ ضرور ہوتی تھی مگر یاد نہیں کہ کبھی غصے میں چیختے چلاتے سنا ہو۔ ایک اچھے پروفیشنل کے بڑھکر وہ ایک ہمدرد، ملنساراور درویش صفت شخصیت تھے، مذہب سے گہرا تعلق، نماز، روزہ، باقاعدگی سے تلاوت اور دیگر عبادات کے باوجود کبھی مذھبی زعم میں مبتلا نہیں ہوئے۔ نماز جنازہ میں میڈیا کے تمام اداروں کے بیشمار دوست، احباب، ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی شرکت انکی شاندار شخصیت کی دلیل ہے۔ کیسے یقین آئے کہ ہر کسی کے کام آنیوالے، دامے درمے سخنے ساتھ دینے والے عثمانی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے، لگتا ہے کہ اچانک فون آئیگا، یار بہت دن ہو گئے ملے ہوئے کچھ روٹی شوٹی کھاتے ہیں۔ وہ معصوم عثمانی اور میں معصوم رضوی، اکثر ہمنامی مغالطوں سے بھی واسطہ پڑا، کبھی میرا فون ان کے پاس اور انکے دوستوں کے پیغامات میرے پاس، احباب نے ہمیں معصومین کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا۔ بہرحال سب ایک دن جانا ہے، بس یادیں رہ جاتی ہیں، ہر انسان کیساتھ ایک عہد ختم ہو جاتا ہے۔
صحافت کا پیشہ شوق اور عزم کیساتھ چلتا ہے، اگر صرف پیشہ رہ جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں بندہ کسی اور شعبے میں قسمت آزماتا ہے چونکہ صحافت ایک تکلیف دہ ذریعہ روزگار ہے۔ صحافی کی نہ کوئی سماجی زندگی ہوتی ہے اور نہ اوقات کار، اس اعصاب شکن اور تھکا دینے والے کام میں اگر عزم و ولولہ شامل نہ ہو تو بہت جلد انسان اکتا جاتا ہے۔ خاص طور میں پاکستان میں براڈ کاسٹ جرنلزم چوبیس گھنٹے ملازمت کا نام ہے، مسلسل بھاگ دوڑ اور ذھنی مشقت اعصاب کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خبروں کی اس دوڑ میں انسان کہیں کھو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان ویسے بھی خبروں کے حوالے سے نہایت زرخیز ملک ہے، کبھی دہشتگردی تو کبھی عدالتی کارروائیاں، کرپشن کی کہانی تو سیاسی جلسے، دھرنے، آپریشنز، انتخابات، پارلیمنٹ اجلاس، اس دوران سگریٹ، چائے اور لمبی لمبی ٹرانسمیشنز، براڈ کاسٹ جرنلزم کے تقاصے نبھانا کوئی آسان کام بہرحال نہیں ہے۔ اس سارے عمل میں صحافت کے بنیادی اصول و صوابط بھی اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں، عثمانی صاحب کا کمال یہ تھا کہ اعصاب شکن ماحول میں بھی صحافتی اقدار کو بھولنے نہیں دیتے تھے، کہیں نہ کہیں دھیمے سے کوئی ایسا نکتہ ضرور یاد دلاتے تھے کہ بھولا سبق یاد آ جائے۔
اگرچہ اخباری صحافت میں صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں مگر بہرحال کسی حد تک اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور ضابطہ اخلاق کا خیال رکھا جاتا ہے، براڈ کاسٹ جرنلزم میں خبروں اور ریٹنگ کی دوڑ کچھ ایسی خوفناک صورتحال اختیار کر چکی ہے کہ یہ تمام بنیادی عوامل اکثر اوقات نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک تو ویسے ہی پاکستان میں دہشتگردی، کرپشن اور جرائم کے معاملات معاشرتی ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور پھر ٹی وی پر چیختی چنگھاڑتی خبریں کسی بھی انسان کو ذھنی مریض بنانے کیلئے کافی ہیں۔ اس سارے عمل کا مثبت پہلو یہ ہے کہ پہلے جو مسائل قالین کے نیچے دبا دیے جاتے تھے اب ایسا ممکن نہیں۔ کرپشن کا معاملہ ہو یا آئین و قانون کی خلاف ورزی، سیکورٹی اہلکاروں کا جبر ہو یا انسانی المیہ، بھارت میں ظلم و ستم کی داستان ہو یا شام کی المناک صورتحال، ماضی کی نسبت اب ہر خبر منٹوں میں عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ کسی واقعے کو کیمرے کی آنکھ سے چھپانا ممکن نہیں رہا۔ تمامتر خرابیوں کے باوجود میڈیا عوامی شعور بیدار کرنے کیلئے آج سب سے موثر ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ صحافت میں ایسے جری اور غیر جانبدار پروفیشنلز کی کمی نہیں جو دبائو اور صعوبتوں کی پروا کیے بغیر حقائق کو عوام کے سامنے لانے کا فریضہ انجام دہے رہے ہیں۔ لالچ کو ٹھکرا کر اور جان کی پروا کیے بغیر حق کیلئے صدا بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ مولا علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ میڈیا نے ظلم سے پردہ اٹھانے کی ہر کوشش کی ہے، خواہ اسکا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، کوئی عام شہری ہو یا طبقہ اشرافیہ، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنیوالے متعدد صحافیوں نے جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ انصاف صرف عدالت میں نہیں بلکہ معاشرے میں بھی ہوتا ہے، نجانے کتنی خبروں پر عدالتیں از خود نوٹس لیا، کتنی بار حکومت کو عوام کی سننی پڑی، کتنے مظلوموں کی دادرسی کی گئی، کتنے چہروں سے نقاب اترے۔ درست ہے کہ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح میڈیا میں بھی خرابیاں موجود ہیں مگر حق گوئی کا بنیادی وصف ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور یہی امید کی توانا کرن ہے۔
خیر جناب حقیقت یہ ہے کہ صحافیوں کی پرانی نسل ختم ہوتی جا رہی ہے، وہ نسل جو صحافتی اقدار پر سختی سے عملدرامد کرتی تھی اور سکھانے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھی۔ بیشک ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، زندگی کا سفر یوں ہی جاری رہتا ہے۔ صحافت صرف پیشہ نہیں بلکہ جنگ ہے حق کی، ظلم اور معاشرتی خرابیوں کے خلاف بلند ہونیوالے صدا، نوجوان نسل یہ جنگ انشااللہ ہم سے بہتر طور پر جاری رکھے گی۔ خداوند تعالیٰ معصوم عثمانی کو غریق رحمت کرے، اب تو بس انکی یادیں ہی باقی ہیں۔ خالد شریف نے کیا خوب کہا ہے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا