مغربی اور مشرقی تہذیب: ایک بے لاگ تجزیہ
از، ارشد محمود
تہذیب کے معنی اوراس کی نشوونما کے قوانین کا سوال اس وقت اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ایک نئی تہذیب تشکیل پارہی ہوتی ہے اور عالمی ترقی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔ مغرب میں ایک طویل سیاہ دور کے بعد جب مذہب کا فکر ونظر پر بہت گہرا اثر تھا، پندرھویں صدی میں روشن خیالی کی تحریک کا آغاز ہوا، تو لوگوں نے سماج، قانون اور مذہب پر وہ سوال اُٹھانے شروع کردیے جن پر وہ پہلے چرچ کے دیے ہوئے جوابات سے مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔ اب لوگ کائنات، خدا اور انسانی زندگی کے بارے میں کلیسا کی ہر بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ جستجو کی ایک نئی لہر چل رہی تھی۔ مظاہرِ قدرت کو سمجھنے کی بنیاد عقیدے کی بجائے انسانی محسوسات، مشاہدات اور تجربات پر رکھی جانے لگی۔ اس عمل کے نتیجے میں جدید سائنسی علوم کا جنم ہوا، پرانے تصورات ٹوٹے، کائنات کی تشریح کرنے والے مروجہ روحانی اور مابعدالطبیعیاتی نظریات کا دیوالیہ پن ثابت ہو گیا۔ ایسے میں مغربی تہذیب ایک جست لگا کر آگے بڑھی، صنعتی انقلاب برپا ہوا، صدیوں پرانے انداز بدلے اور جمہوری طرزِفکر کا آغاز ہوا۔
فکری جمود اور فیوڈل معیشت کے شکار مشرق کے لیے تہذیب و تمدن کی یہ تبدیلیاں ناقابلِ فہم تھیں۔ لیکن کیا مشرق مغربی انداز کی سماجی تبدیلیوں سے بچا رہے گا؟ کیا گلوبلائزیشن کے اس دور میں تہذیبوں کی نوعیت مقامی رہ سکتی ہے؟ کیا کسی تہذیب کے روحانی پہلو کو اس کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے؟ تاریخ کا مطالعہ اس کا جواب نفی میں دیتاہے۔ عقائد انھی مادی حالات کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں جن حالات میں انھوں نے جنم لیاتھا۔اگر چہ تہذیب اپنے وقت کی مادی، روحانی اور ثقافتی یکتائی کا نام ہوتا ہے، لیکن ہر تہذیب اپنے اپنے زمانے کے طریقۂ پیداوار (ٹیکنالوجی) اور اس سے وابستہ سماجی نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ مثلاًرومن تہذیب کو غلام داری نظام سے جدا کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔ یعنی تہذیب طریقۂ پیدوار اور اس کے سماجی ڈھانچے اور ثقافت سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جس طرح کا پیداواری ڈھانچہ مروج ہوتا ہے، اخلاقی قدروں کا نظام اور عقائد اسی پیداواری ڈھانچے کے مفاد اور تقاضوں کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔ مثلاً اگر مغرب نے اپنے ہاں کی عورت کواس قدر آزادی دی ہے تو یہ اس صنعتی نظام کی ضرورت تھی جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ اوراگر ہمیں اس عورت کی ’’آزادی اور بے حیائی‘‘ بری لگتی ہے تو اس وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک فیوڈل پیداواری رشتوں اور اس کے بنائے ہوئے اخلاقی نظام کے زیرِاثر زندگی گزارہے ہیں، جس میں عورت ایک ملکیتی شے کے سوا کچھ نہیں۔اگر ہم بھی عملی اور صنعتی ترقی کی اسی منزل کو پہنچ جائیں تو یقیناًہمارے خیالات بھی آج سے مختلف ہوجائیں گے۔
کوئی تہذیب اس وقت تک منظر سے نہیں ہٹتی جب تک نئے سماجی تعلقات اور مادی وروحانی قدروں کا ایک نیانظام وضع نہ ہو جائے۔ آج جب الیکٹرانک میڈیا اور انتہائی تیزرفتار مواصلات نے زمین کے کسی ایک حصے کو دوسرے حصے سے دور نہیں رہنے دیا، ہزاروں میل دور علاقوں کی اشیا بازاروں میں یوں دستیاب ہیں جیسے وہ مقامی پیداوار ہوں، سیٹیلائٹ نشریات ترقی یافتہ قوموں کے رہن سہن، طرزِ معاشرت اور گلیمر سے بھر پور زندگی کو ہر گھر میں لاکر دِکھا رہی ہیں، توایسے میں فطری بات ہے کہ پسماندہ معاشرے برتر معیارِ زندگی کی حامل تہذیب کے اثرات سے اپنا دامن بچا کر نہیں رکھ سکتے، اس لیے بھی کہ جدید قدیم پر غالب آتا ہے۔ مغرب کی صنعتی تہذیب سے دنیا کے کروڑوں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ان کے علم وہنر میں کار ہائے نمایاں ساری دنیا کے لیے انسپائریشن کا ذریعہ ہیں۔ ان کی سائنسی فتوحات انسانی مستقبل کا یقین ہیں۔ ان کی اعلیٰ سطحی معاشی وثقافتی ترقی، جمہوری سیاسی نظام، تعلیم کاپھیلاؤ، وہ عوامل ہیں جو مشرق کی پسماندہ تہذیبوں کے لیے قابلِ رشک ہیں۔ ساری دنیاکا جلد یابدیر صنعتی نظام پیداوار کے دائرے میں آجاناایک ناگزیر امرہے، جس کے نتیجے میں دنیا بالآخر ایک عالمی تہذیبی وحدت میں تبدیل ہوجائے گی اور تہذیبوں کی مقامی نوعیت بدل کر یونیورسل ثقافتی اقدار کا روپ دھارلے گی۔ مختلف اقوام میں ایک ہی طرح کانظامِ پیداوار رائج ہوجانے سے ادب، فن، ثقافت، سیاسی اور قانونی ادارے اور اخلاقی معیارکم وبیش سبھی ایک ہو جائیں گے۔ مثلاً جاپان کی اس کوشش کے باوجود کہ وہ اپنی ثقافتی انفرادیت کو متاثر نہ ہونے دے، صنعتی انقلاب کی وجہ سے وہ مغربی تہذیب کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ان لوگوں کا کھانا اور لباس مغربی ہو چکا ہے، شادی بیاہ کے روایتی رسم رواج کی جگہ اب مغربی طرز کی شادیوں نے لے لی ہے۔
کوئی تہذیب یا توترقی یا فتہ ہوتی ہے یا پسماندہ۔ اسے اچھے اور بُرے کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا۔ اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ آپ ہوں تو پسماندہ، لیکن تہذیب آپ کی بہت عمدہ ہو۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ مشرقی تہذیب پر پرانے قبائلی اور فیوڈل نظام کی چھاپ ہے، جبکہ مغربی تہذیب جدید سائنسی معاشرے کی پیداوار ہے۔ ہم لوگوں کے لیے مغربی تہذیب انسانی واخلاقی قدروں سے بالکل عاری ہے۔ صدیوں سے پسماندہ اور جامد ماحول میں رہنے کی وجہ سے ہمارے عوام کے لیے مغربی تہذیب کا ناقابلِ قبول ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن افسوسناک بات ہے کہ ہمارے دانشور حلقے بھی قوم پرستی اور مشرقیت کے زعم میں مغربی تہذیب کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں، کیونکہ نیم خواندہ عوام میں اپنی توقیر بنانے کا یہ ایک سستا طریقہ ہے، اور دوسرے مشرق کے اخلاقی معیار پر پور ابھی اترتا ہے کہ کھلے عام سچ نہ بولا جائے!
مشرق کا عجیب رویہ ہے کہ ہمیں مغرب کی ٹیکنالوجی تو پسند ہے، لیکن تہذیب ہم پر انی ہی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ تکنیکی ترقی اور اس سے وقوع پذیر ہونے والی تہذیب وثقافت ایک ہی سکّے کے دورخ ہیں۔ اس لحاظ سے مغربی تہذیب آج دیگر تہذیبوں کو آگے بڑھنے کے آداب سکھارہی ہے اور خود اپنے کو بھی خوب سے خوب تر بنانے میں کوشاں ہے، جبکہ ہر خطے کے لوگوں کے رہنے سہنے کے انداز، سماجی رسم ورواج، قوانین، عقائد اور حتیٰ کہ زبانیں بھی مختلف تاریخی مراحل میں بدلتے رہے ہیں۔ مسئلہ صرف ان عوامل کے مطالعے کا ہے، جو کسی قوم کے اندر تہذیبی مظاہر کی اتھل پتھل کا سبب بنتے ہیں۔ مغربی تہذیب کا جنم بھی ایک خاص خطے میں تاریخ کے انھی قوانین کے مطابق ہوا جیسے اس سے پہلے دیگر تہذیبوں کا جنم ہوا تھا۔ اگر مغربی تہذیب گالی ہے تو پچھلی سب تہذیبیں بھی اسی زمرے میں آئیں گی، کہ وہ تہذیبیں آسمان سے نہیں اتری تھیں، وہ بھی اپنے اپنے جغرافیائی ماحول میں انسان کی کئی سوسالہ اجتماعی سرگرمیوں کانتیجہ تھیں151 اور مزے کی بات ہے کہ ہر پرانی تہذیب نئی تہذیب کو گالی دے کر خود تاریخ کے کچرے کے ڈھیر میں نابود ہوجاتی رہی ہے۔
پرانی تہذیب بے وقت کی راگنی ہوتی ہے۔ ہم اسے غیر فطری طور پر گھسیٹ رہے ہوتے ہیں۔ فطری تہذیب وہ ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، جس میں انسان پھلتا پھولتا ہے، آرام دہ محسوس کرتا ہے، مادی اور روحانی مسرتوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ جبکہ غیر فطری تہذیب زندگی کو گھٹن کا شکار بنا دیتی ہے، اس لیے کہ وقت کے ساتھ اس کا بنیادی تضاد پیدا ہو چکا ہوتا ہے، وہ اپنے باشندوں کے لیے باعثِ راحت ہونے کی بجائے انھیں مشکلات سے دو چار کر دیتی ہے۔ مثلاً مغربی تہذیب میں ہر بالغ مرد وزن کا خود کفیل ہونا اورچھوٹے خاندان کاتصور معاشرے میں عمومی خوشحالی پیدا کرتا ہے اور انفرادی معیارِ زندگی کو بڑھاتا ہے، جبکہ دوسری طرف مشرق میںآدھی آبادی گھر میں بٹھا دی جاتی ہے اور بچوں پربچے پیدا کیے جاتے ہیں، اس چیز کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ یہ افعال انفرادی اور قومی معیارِ زندگی کی بربادی کاعمل کس قدر تیز کردیں گے۔ دیانت داری سے غور کیاجائے تو ہماری سب مشرقی قدریں اور رسم و رواج اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اجیرن کرنے کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔ جبکہ مغربی تہذیب کے رسم ورواج انسانی زندگی کے لیے سہولتیں پیدا کرتے ہیں،اسے خواہ مخواہ بندھنوں سے آزاد رکھتے ہیں، تاکہ انسان خود اعتمادی کے ساتھ مقدور بھر آگے بڑھ سکے۔ ہر فرد اپنے آپ کا ذمے دار ہوتاہے، کوئی کسی پر بوجھ نہیں بنتا۔
مشرقی تہذیب میں ’’دنیا کیا کہے گی ‘‘اور ’’کل کی فکر‘‘ہماری زندگیوں کو اس قدر تباہ کرتی ہیں کہ خود ہمارا وجود اور زندگی دونوں ہی بے معنی بن جاتے ہیں۔ مشرقی باشندوں کی زندگی کے سارے اعمال انھی دو باتوں کے گہرے خوف سے پروان چڑھتے ہیں کہ بے چارے اپنی زندگی کے مقصد سے ہی نا آشنا ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مشرق کی یہ تہذیب حیات کشی کا روپ دھار چکی ہے جس نے انسان کی زندگی کو
لطائف سے محروم کر رکھا ہے۔ ’’دنیا کیا کہے گی‘‘انسان کے عمل وفکر پر نہ صرف قدغنیں لگا کر فطری صلاحیتوں کو کچل دیتی ہے، ہر کوئی ایک دوسرے سے مخفی وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی اسے ضرورت اور خواہش ہوتی ہے،یا جو فطرت کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بند اور منافق معاشرہ جنم لیتا ہے۔ اس ساری منافقت اور گھٹن کو محسوس کرتے ہوئے بھی سارا معاشرہ اس لیے خاموش رہتا ہے، کہ ’’دنیا کیاکہے گی!‘‘ مغربی تہذیب ’’دنیاکیاکہے گی‘‘ کے عذاب سے آزاد ہے۔ کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا،آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ دوسرا کیا کررہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کی خودمختار (sovereign) حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔ جب تک کسی کا فعل دوسرے کے لیے باعث ضرر نہ ہو، وہ اپنے عمل میں آزاد ہے۔ جب کہ مشرقی باشندہ پورے معاشرے کی نظروں کا قیدی ہوتا ہے، ہر کوئی دوسرے کا ٹھیکیدار151 خواہ خود کچھ بھی ہو۔ کوئی کس طرح بیٹھتا ہے، کس طرح اٹھتا ہے، کس طرح کھاتا اور پیتا ہے، کہاں جاتا ہے، کہاں سے آتا ہے، ان سب باتوں کا خیال رکھنا اردگرد کے لوگوں کا اولین فرض ہے۔ کیاایسی تہذیب میں پلے ہوئے لوگ نارمل قرار دیے جاسکتے ہیں؟
اب آئیے ’’کل کے خوف‘‘ کی طرف۔ مشرقی باشندوں کو قدرت جتنے ’’آج ‘‘فراہم کرتی ہے، وہ انھیں کل کے خوف میں تج دیتے ہیں اور بالآخر ساری زندگی گنوا کر دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں۔ آنے والے وقت کی فکر اور خوف اس قدر ہوتا ہے کہ پوتے پوتیوں کی فکر میں نہ خود آرام سے بیٹھتے ہیں نہ اردگرد کے لوگوں کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔ کل کی فکر اہلِ مغرب کا مسئلہ نہیں۔ انھیں پتا ہے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے، اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے، اس لمحے کا جتنا رس نچوڑا جاسکتا ہے نچوڑ لیاجائے۔ چنانچہ وہ خوب محنت کرتے ہیں اور اپنی کمائی کو خود پر خود خرچ کرتے ہیں۔ اپنی پیدا کی ہوئی دولت کو اپنے اوپر خرچ کرنا انسان کا بنیادی استحقاق ہے۔
مشرقی تہذیب میں اجتماعی اور خاندانی نظام کچھ اس طرح بنا ہوتا ہے کہ اس میں فرد کو خودکفیل نہیں بننے دیا جاتا، اس لیے کہ خود کفالتی سے گھر میں بڑے کی اور معاشرے میں جاگیر دار کی آمریت ختم ہوتی ہے۔ نہ کوئی خود کفیل بنے نہ لوگ ایک دوسرے سے آزاد ہوں۔ خود کفالت دشمنی کی وجہ سے مشرقی معاشروں کی دو تہائی آبادی بے کار رہتی ہے۔ اس بیکاری کو خوش کن اخلاقی وجذباتی قدروں نے مزید تقویت دی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر کوئی اپنے عزیز واقارب کا جذباتی رشتوں کے حوالے سے استحصال کرتا ہے151 ماں باپ اولادکا، بچے والدین کا، بہنیں بھائیوں کا، بھائی بھائی کا، دوست دوست کا۔ غرضیکہ ہر کوئی دوسرے کو جذباتی بلیک میل کرکے اس سے فائدہ اٹھارہا ہوتا ہے،چنانچہ لوگوں کو مفت خوری اور آسان راستوں سے زندگی گزارنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ کام چوری، کاہلی،مفت خوری اور دوسروں پر مفت بری کارعب مشرقی معاشرے کی خاص خصوصیت ہیں۔ جبکہ مغرب میں کوئی کسی پر انحصار نہیں کرتا، دوسروں پر انحصار کرنا غیر اخلاقی حرکت سمجھی جاتی ہے، اور ہر کوئی اپنی زندگی اپنے طور پرگزارتا ہے۔
مشرقی معاشرے کا فرد اس سے قطعی طور پر بے نیازہوتا ہے کہ اس کے کسی عمل سے گردوپیش کے لوگ کس قدر پریشان ہو رہے ہیں۔ پبلک مقام پر اونچی آواز سے باتیں کرنا، چیخنا چلّانا یا شور مچانا کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اور آس پاس کے لوگ بھی کمال حیرت سے شور کو برداشت کرتے ہیں۔ جبکہ مغرب کا معاشرہ سکون پسند معاشرہ ہے۔ وہ لوگ بڑے آرام اور سکون کے ساتھ دھیمے لہجے میں محوِ گفتگو ہوتے ہیں۔ مذہب کے نام پر بھی کسی کو شور مچانے اور کمیونٹی کا آرام خراب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مغربی معاشرے کے افراد میں یہ احساس ہر آن قائم رہتا ہے کہ آپ کے کسی عمل سے دوسرے کوکوئی تکلیف نہ ہو، دوسرے کا حق مجروح نہ ہو۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی قطار توڑ کر آگے بڑھ جائے۔ جب کہ مشرق میں قطار بنانا غیر فطری فعل لگتا ہے، چنانچہ مغربی تہذیب کی نشانی اگر بن بھی جائے تو جلد ہی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ سیاست میں بھی کوئی پارٹی اپوزیشن میں رہ کر اپنی باری کا انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، چاہے پورا سسٹم ہی برباد کیوں نہ ہو جائے۔ ہم سیاست دانوں سے نالاں ہوتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، حالانکہ یہ عمل جب اور جہاں موقع ملے ہم روز دہراتے ہیں، لیکن یہ بھی مشرق کا ہی خاصہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کی جائے، اپنے کو آئینے میں نہ دیکھا جائے۔
مشرق میں اگر کسی کو ایسے کام سے روکا جائے جس سے آپ دوسروں کے آرام میں مخل ہورہے ہوں، تو ٹکا سا جواب ملے گا۔ ہو سکتا ہے۔ سر پھٹول اور جھگڑا بھی ہوجائے۔ مغرب میں ویسے تو کوئی دوسرے کے لیے آزار کا باعث بننے والا کام ہی نہیں کرتا،اور اگر کرے بھی تو صرف ناپسندیدہ نظر ہی اسے روکنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ مشرقی تہذیب چونکہ باہمی جبر اور زیادتیوں سے عبارت ہے، اس لیے برداشت اور خاموش رہنے کا مادہ بھی بہت ہوتا ہے۔ یہاں پر دوسروں کے ظلم اور ناانصافیوں کو برداشت کرنے کا باقاعدہ سبق پڑھایا جاتا ہے اور یہ مشرق کی ’’اعلیٰ‘‘قدروں میں سے ایک بڑی قدر ہے، لہٰذا لوگ عام طور پر اپنے پر ظلم اور زیادتی سہہ جاتے ہیں اور بولتے نہیں۔ صدیوں کے اس رویے نے لوگوں کے اندر نہ احساسِ زیاں رہنے دیا ہے اور نہ اپنے حقوق کا شعور۔ ردّ عمل کے طور پر لوگ احساسِ فرض سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ نہ کوئی مطالبہ کرتا ہے، نہ احتجاج، تو پھر فرض کی انجام دہی کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ مشرقی تہذیب کا ایک محاورہ ہے، ’’سب چلتاہے۔‘‘ جبکہ مغرب میں سب نہیں چلتا، اصول چلتے ہیں،قاعدہ اور قانون چلتا ہے، نظام اور ادارے چلتے ہیں۔ سارا معاشرہ بذاتِ خود ایک ادارہ ہوتا ہے، جس میں ہر شخص مساوی طور پر اپنے حقوق و فرائض سے آشنا ہوتا ہے۔ نہ کوئی فرض سے کوتاہی کرتا ہے، نہ اپنے حق سے محروم رہتا ہے۔ جب کہ مشرقی تہذیب میں بڑی سے بڑی قومی لوٹ مار، دھاندلی، بے ایمانی اور اصول شکنی عوامی اور قانونی مواخذے سے محفوظ ہوتی ہے۔ مغرب میں اس لوٹ کا کوئی عشرِعشیر بھی نہیں سوچ سکتا۔ دروغ گوئی بھی مشرق کاایک خاصہ ہے، جب کہ روز مرہ معاملات میں مغرب والے جھوٹ کے استعمال سے نا آشنا ہیں۔ چنانچہ وہاں مشرقی باشندے قانونی حیثیت اختیار کرنے یا دیگر فوائد لینے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، اور وہ نہایت معصومیت سے اسے سچ تسلیم کر لیتے ہیں (اگر چہ اب وہ ہوشیار ہو گئے ہیں)۔
مغرب کا ایک بڑاہی بنیادی اصول راست باز (straightforward) ہونا ہے، اور یہ وہاں کی ایک بڑی اخلاقی قدر ہے۔ جب کہ مشرقی میں صاف گوئی پر بُرا منا لیتے ہیں، چنانچہ ہر چھوٹے بڑے معاملے پر لوگ اندر سے کچھ ہوتے ہیں اور باہر سے کچھ اور۔ مشرقی تہذیب میں سماجی تعلقات میں منافقت ایک عام سی بات ہے، جب کہ آپ مغرب میں کسی سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، صاف صاف کہہ سکتے ہیں، اور سننے والا بھی برا منانے کی بجائے آپ کی بات کو معروضی تناظر میں دیکھتا ہے۔
مغرب کی ایک اور بڑی خاصیت وقت کی قدر ہے۔ ہرکام وقت پر، منصوبہ بندی سے، ترتیب اور شیڈول کے مطابق کرنا ہوتا ہے، کوئی لمحہ بے مقصد نہیں گزارا جاتا۔ جب کہ مشرق میں لوگوں کے پاس ٹائم بہت ہوتا ہے، اور وہ ہر دم اسے ’’پاس‘‘کرتے رہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی غالب آبادی پر مشتمل اتنی بڑی انسانی طاقت، لیکن وقت کو صرف’’پاس‘‘کرکے مزہ لیتی ہے۔ یہ بھولے نہیں جانتے کہ وہ وقت کو پاس نہیں کرتے، وقت انھیں پاس کررہا ہوتا ہے۔ اسی لیے تاریخ انھیں بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے، لیکن انھیں اس کا احساس نہیں۔ ہمارے ہاں سب کام خواہ وہ انفرادی ہوں یا قومی سطح کے، جامع منصوبہ بندی کے بغیر، بے ربط اور ایڈہاک بنیاد پر یعنی محض وقت ٹپانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان سے وہ نتائج نہیں نکلتے جن کا دعویٰ گیا کیا ہوتا ہے۔ اپنے ہی اعلان کردہ وقت پر کسی کام کا آغاز کرنا ہر چھوٹے بڑے کے مزاج کے عین خلاف ہے۔ مغرب میں ہر کام وقت پر شروع ہوتا ہے اور ٹھیک پہلے سے طے شدہ وقت پر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمارے ’’مشرق‘‘میں جو مزہ اصول شکنی میں ہے، اس کا جواب نہیں۔ یہاں اگر کوئی اصول پر کار بندرہ لے تو وہ بھی اندر سے بے کلی محسوس کرتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ ہماری تہذیب اور اصول پر ستی نہ جانے کب سے ایک دوسرے سے جدا ہو چکے ہیں۔ مشرقی معاشروں میں دھوکے اور فریب کے بادل ہر آن چھائے رہتے ہیں۔ ہر انسان دوسرے انسان سے خوفزدہ ہوتا ہے، کہ نہ جانے کب کوئی کس وقت کسی کو دھوکا دے جائے۔
مشرق میں زیادہ تر حصے میں قدرت نے گرمی کا موسم ہی عطا کیا ہے۔ مشرق کے باشندے ہزارہا سال سے اس جغرافیائی ماحول میں رہ رہے ہیں لیکن پھر بھی کاروبارِ زندگی کی طرف دھیان کم اور موسم کی شدت کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ گرمیوں میں چستی سے کام اس لیے نہیں کرتے کہ گرمی بہت ہے، اور سردیوں میں اس لیے نہیں کہ ٹھنڈ بہت ہے۔ بارش ہو جائے تب کوستے ہیں، نہ ہو تب کوستے ہیں۔ اُدھر مغرب میں نقطۂ انجماد سے گرے ہوئے موسم میں بچے جوان اور بوڑھے سبھی چاق و چوبند، زندگی کے سب کام حسب معمول جاری۔ ان کے ہاں بارش عام معمول ہے، لیکن کام نہیں رکتا۔ سب سیدھے اور تنی ہوئی گردنوں کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ مشرقی لوگ طبعاً ڈھیلے ڈھالے اور سہل پسند ہیں، پیٹ نکالے، بے ہنگم جسم، اور اوپر سے ڈھیلے مشرقی لباس، جو نفسیاتی طور پر ہی سستی میں دفن کردیتے ہیں۔
مشرق والے مغرب والوں کو مادہ پرست کہتے تھکتے نہیں، حالانکہ یہاں مادہ پرستی کمینگی اور لوٹ مار کس حدتک پائی جاتی ہے، سماجی سطح پر اس کا ایک علامتی ثبوت تحفے تحائف کے لینے دینے میں نظر آتا ہے۔ یورپ کی سماجی روایات میں ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کے اظہار میں پھولوں کے تحفے کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ وہاں مہنگے اور قیمتی تحفے دینا معیوب سمجھا جاتا ہے، جب کہ مشرق میں ’’دکھاوا‘‘سر چڑھ کر بولتا ہے، اور تحفے میں فقط وہی چیزیں دی جاتی ہیں جو مادی قدر رکھتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ سماجی تقریبات محض مال اکٹھا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ مشرق کے لوگ خالصتاً خلوص اور محبت کے حوالے سے تحفہ دینے اور لینے کے جذبات سے عاری ہیں۔ مغرب کے لیے مادہ تحقیق اور جستجو کا ذریعہ ہے، وہ جب مادی لذتوں سے بھی ہم کنار ہورہے ہوتے ہیں، ان کی وارفتگی سے یہ لگتا ہے کہ وہ اس وقت بھی مادے کی نیرنگی سے مزہ لے رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ مشرق کے وہ لوگ جن کی ساری زندگی پیسے اور مادی مفادات کی پوجا میں گزرتی ہے اور جو اپنی ذاتی خوشی کی خاطر پیسے کے استعمال سے ہی ناواقف ہیں، وہ خوشحال مغرب کے لوگوں کو مادہ پرستی کا طعنہ دیتے ہیں۔ مشرقی کے لوگ خرچ اگر کریں گے تو نہایت بھونڈے طریقے سے اور اس میں بھی نمائش سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے۔
مشرق والوں کا سب سے پسندیدہ موضوع مغرب کی ’’جنسی بے راہ روی‘‘اور ان کا کمزور خاندانی نظام ہے۔ دراصل ہم لوگوں کے لیے اپنے سے مختلف ماحول کی معروضیت کو سمجھنا مشکل ہے۔ ہم مظاہر کو علت ومعلول اور تاریخی تناظر میں رکھ کر نہیں دیکھتے۔ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز اﷲ میاں نے جوں کی توں بنائی ہے۔ اپنے سے مختلف چیزوں کو فوراً برا اور غلط قرار دے دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ رہن سہن، معاشرتی نظام اور اخلاقی معیارات جامد ہوتے ہیں نہ مقدس۔ یہ سماجی تبدیلیوں اور بقا کی ضرورتوں کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ مغرب والے اس حقیقت کو جان گئے کہ جو اخلاقی نظام سماج اور فرد کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن جائے،اسے ترک کردینا چاہیے۔ مغرب میں جب ہر شخص معاشی طور پر خود مختار ہو گیا اور سائنس نے حیات و کائنات کے بارے میں نئی تفہیم پیدا کردی تو ایک نئی اخلاقیات نے جنم لیا جس سے تمام افراد باہمی دباؤ اور سوسائٹی کے جبر سے آزاد ہو گئے۔ دراصل مغرب کے انسان نے اس راز کو پالیا کہ سب سے مقدم چیز خود انسان کی اپنی ذات اور اس کی خوشی ہے اور ماضی کے سب تقدیسی ہالے اس کے اپنے ذہنِ رسا کی تخلیق تھے۔ ہمارا روحانی فلسفہ انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ ضرور دیتا ہے، لیکن اس کے بعد انسان کو اپنی مکمل نفی اور تذلیل کرنے کو کہتا ہے، اس سے اس کی ہر اپنی چیز چھین لیتا ہے۔ نہ اس کے پاس دماغ رہنے دیتا ہے، نہ اپنی جبلتوں پر اس کا کوئی اختیار۔ اسے ایک خیالی اور ماورائی آسمانی ذات کا غلام بنا دیا جاتا ہے۔ انسان کو کہا جاتا ہے، تمھارا اپنا کچھ بھی نہیں، تم اس کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہو، تمھارا سب کچھ اسی کاہے۔ تم کو جو کچھ ملا ہے اپنی کوششوں سے نہیں، اسی کے کرم واحسان اور مرضی سے ملا ہے۔ تم ایک حقیر سی چیز ہو، ڈرو، جھکو اور اپنا آپ بھول جاؤ۔ تمھیں خود پر کوئی اختیار نہیں، تمھیں عارضی طور پر اور امتحان کے لیے اس زمین پر بھیجا گیا ہے، اور جو بھی لذتیں لینی ہیں مرنے کے بعد لینا۔ اور اگر اسے نہ مانا تو جہنم کے شاہکار قسم کے عذاب تمھارا انتظار کررہے ہیں۔ اس تناظر میں بے چارے انسان میں انسان نام کی کوئی چیز باقی رہ جانی مشکل ہی ہے۔
لیکن مغرب کے انسان نے دیکھاکہ مرنے کے بعد زندگی ہے یا نہیں، البتہ یہ زندگی سراسر مادی اور خاکی ہے۔ اس زندگی میں جو کچھ بھی پیش آتا ہے، اسے خود ہی بھگتنا پڑتاہے۔ہم اس دنیا اور اس کے ماحول کو اپنی کوشش اور عقل سے بہتر کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر کچھ نہ کرنے سے اپنا ہی نقصان ہو گا اور اگر اسے بہتر کر لیا تو اپنی زندگی آرام دہ اور پر لطف ہو جائے گی۔ انسان کو اپنی دنیا خود ہی بنانا ہوتی ہے، لہٰذا اپنی ذہنی، جسمانی اور روحانی لطافتوں کی حسوں کو سامان تسکین بہم پہنچانے کا اس کو پورا حق حاصل ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں جنسی اور جمالیاتی لحاظ سے گھٹ کر مرنے کا نام ’’پاک‘‘زندگی ہے۔ فطری خوشیوں اور مسرتوں پر اگر سماجی قواعد کے سخت پہرے لگا دیئے جائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہنیت ہی ننگی ہو جاتی ہے۔ مغرب والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ کس کا کون سا جسمانی حصہ دکھائی دے رہا ہے، جب کہ ہم پاک بازوں کو اس کے سوا کچھ اور سُجھائی نہیں دیتا۔ شرم و حیا کے معاشرے میں پلے ہوئے لوگ انسان کو انسان نہیں جنسی پتلے سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان شرم وحیا کے پیکروں سے جنسی احساس ختم ہوجاتا لیکن ہوا اُلٹ۔ ہم چلتے پھرتے مردوزن کو انسان اور افراد کے طور پر نہیں، ان کے جنسی اعضا کے طور پر دیکھتے ہیں، چنانچہ ان دونوں کو آپس میں ملنے اور قریب آنے سے بچاتے ہیں۔ جنسی اعضا اور برہنہ اجسام میں سب سے زیادہ دلچسپی اور تجسس بھی ہمیں لوگوں کو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شرم وحیا کی ساری تھیوری غیرسائنسی اور غیرفطری ہے۔ کوئی دوسرا ننگا نہیں ہوتا، ننگا پن دیکھنے والوں کی اپنی نظر اور ذہن میں ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ روزِروشن کی طرح حقیقت ہے کہ مغرب میں عورت کی عزت جتنی محفوظ ہے، اتنی ہمارے ’’پاک معاشرے‘‘ میں نہیں۔ وہاں جوان لڑکی ملکوں ملکوں اکیلی سفر پر نکل پڑتی ہے، ہوٹلوں میں اجنبی مردوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رات بسر کرتی ہے،لیکن کیامجال کہ کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کچھ نہیں ہو تا، لیکن وہاں آزادی کی نسبت اتنا کم کہ زبردستی کا واقعہ پورے ملک کی ہی نہیں، بین الاقوامی خبر بن جاتا ہے۔ مغرب میں تمام ترآزادی کے بعد بھی عورت 90فیصد محفوظ ہے، جبکہ مشرق میں 90فیصد غیر محفوظ۔ شرافت، حیا اور پردے کے خول نے ہمیں جنسی مریض بنا رکھا ہے۔ زندگی کے خوبصورت معنوں سے صرف مغرب کا انسان ہی آگاہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حقیقی زندگی مغرب کے لوگ گزار رہے ہیں، ہم زندگی بھگتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ خوشی کا قاتل ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو انسان ہونے پر ہی شرمندہ ہیں۔ اپنے جسم کو گناہ اور بدن کو پلید سمجھتے ہیں۔ اس کی طبعی خواہشوں کو کچلتے اور دباتے ہیں۔ دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں ’’جنسی بے راہ روی‘‘پر چلنے والے ہم نام نہاد حیادار’’مشرقی ‘‘لوگ ہیں۔ مغرب نے جنس کو ٹھیک سمجھا ہے اور وہ لوگ مکمل انسانی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنے نفع ونقصان کے خود ذمے دار ہیں، کسی بھی صورت حال میں خود فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، اس کے نتائج کا سامنا بھی خود ہی کرتے ہیں اوران نتائج کا مزید تجزیہ کرکے اپنے مستقبل کے لیے راہیں متعین کرتے ہیں۔
اور جہاں تک مغرب کے ’’کمزور‘‘خاندانی نظام کا تعلق ہے، ہمارا یہ خیال بھی مبالغہ آمیزی اور ان لوگوں کے پروپیگنڈے کا مرہونِ منت ہے جو خاندانی اقدار کے نام پر مرتے ہوئے فیوڈل سماجی نظام کو بچانا چاہتے ہیں۔ مغرب کے خاندانی نظام پر مندرجہ ذیل بڑے بڑے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں :
l چھوٹی عمر میں بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
l ماں باپ کو تنہا زندگی گزارنی پڑتی ہے۔
l بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا،انھیں اس مقصد کے لیے بنائے گئے
’’بوڑھے لوگوں کے ہاسٹل ‘‘میں بھیج دیاجاتا ہے۔
یہ سراسر لغو اور غیر حقیقی بات ہے کہ مغرب میں والدین اور بچوں کے مابین فطری پیار کا بندھن نہیں ہوتا، وہ محض بچے پیدا کرتے ہیں، کچھ عرصہ پاس رکھتے ہیں اور پھر انھیں یا تو نکال دیا جاتا ہے یاوہ والدین کا گھر خود ہی چھوڑجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی والدین اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت جس محبت اورلگن سے کرتے ہیں ہم اس معیار کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے اور ان کے درمیان بنیادی فرق والدین کی فطری محبت کے کم یا زیادہ ہونے میں نہیں، بلکہ بچوں کو اپنی ’’ملکیت‘‘سمجھنے اور نہ سمجھنے میں ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں اولاد کو جائیداد کی طرح ملکیت سمجھ کر سلوک کیاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں کے والدین میں محبت کم اور ملکیتی جذبہ (possessiveness) زیادہ ہوتا ہے۔ جب کہ بچوں کے ساتھ حقیقی محبت کا اظہار صرف مغرب کے والدین میں پایا جاتا ہے جوہماری طرح بچوں پر ’’سرمایہ کاری ‘‘ نہیں کرتے کہ کل اس سے فائدہ اور منافع حاصل کیا جاسکے۔ مغرب کے والدین اپنے بچوں کی ممکن حد تک بہترین تربیت کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کی اپنی انفرادیت کی قربانی بھی نہیں مانگتے۔ بالغ ہونے پر اپنا بچہ صرف ’’اپنا بچہ‘‘ہی نہیں ہو تا، وہ ایک فرد اور شخصیت بھی ہوتا ہے۔ اس کی اپنی انا ہے، اپنا وجود ہے، اپنا ذہن اور دماغ ہے۔ وہ سوچ سکتا ہے، اچھے برے کی تمیز کرسکتا ہے، اسے اپنی ذات، زندگی اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا پورا حق ہونا چاہیے۔بچوں کی پیدائش ایک جبلی فعل ہے، تاکہ بقائے نسل ممکن ہو سکے۔ ہر نسل نے بالغ ہو کر اپنی آئندہ نسل کی پیدائش اور تربیت کا ذمہ لینا ہوتا ہے اور وہ اس کی کماحقہٗ ادائیگی اسی وقت کرسکتی ہے جب وہ پچھلی نسل کے شکنجے سے آزاد ہو۔ نسلوں نے آگے کو چلنا ہوتا ہے، پیچھے کو نہیں۔ یہ مغربی والدین کی عظمت ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے اس نکتے کو پایا کہ بچوں کو سدا اپنا بچہ ہی نہیں رہنے دینا چاہیے بلکہ ان کو خود مختار فرد کے طور پر تسلیم کرلینا سماج اور صحت مند نسلوں کے لیے بہترین ہے۔ اس کے دو فائدے ہیں۔ ہر نسل اپنی کفالت خود کرنے لگ جاتی ہے، کوئی کسی پر بوجھ بن کر ایک دوسرے کے معیار زندگی کو کم نہیں کرتا۔ اور دوسرے ہر فرد جواں سالی میں ہی ذمہ دار شہری کا کردار سنبھال لیتا ہے۔ لڑکی ہو یا لڑکا، اس نے سماج اورریاست کے سامنے اپنے افعال کے لیے خود ہی جواب دہ ہونا ہے۔ جب نوجوان اپنے فیصلے آپ کرتے ہیں، ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ان کی پیداواری صلاحیتیں بڑھتی ہیں جو معاشرے کو مجموعی طور پر مزید خوشحال کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ مغرب کا بچوں کے بارے میں رویہ زیادہ سائنسی، عقلمند انہ اور سب کے لیے مفید ہے۔ بچے جوان ہونے پر دو طرفہ خوشی اور رضامندی سے الگ ہوتے ہیں۔ مغرب میں نوجوان نسل کی جو ’’بربادی ‘‘ ہمیں نظر آتی ہے، اس کا وہاں کوئی وجود نہیں۔ کوئی بھی سوسائٹی اپنی نسلوں کو برباد کرکے ارتقا اور ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتی، جب کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال اقوام ہیں۔ اگر ان کا بچپن اور نوجوان اتنا ترس کھانے والی حالت میں ہوتا تو دنیا کی بہترین دماغی اور پیداواری صلاحیتیں ان کے پاس نہ ہوتیں۔ انھوں نے nuclear family کا فلسفہ دے کر فرد اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے رستے کھول دیے۔ کوئی کسی کا محتاج نہیں، ہر ایک کو خود کمانا ہوتا ہے، کوئی کسی کے سہارے نہیں رہ سکتا۔ امیر ترین خاندان کی اولاد بھی آغازِ بلوغیت پر کام کرکے کمانا سیکھتی ہے تاکہ وہ محنت اور پیسے کی اہمیت کو پہچان سکے اور کسی کو حرام اور مفت کمائی پر پلنے کی عادت نہ پڑے۔ اگر کسی چھوٹے سے یورپین ملک کی فی کس قومی پیدوارہمارے جیسے کروڑوں کی آبادی کے ملک بلکہ کئی ملکوں سے زیادہ ہے تواس لیے کہ ان کے خاندان کا ہر شخص کام کررہا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے پیچھے رمزیہ تھی کہ خاندان کی آمدنی کا وسیلہ موروثی اور ایک ہی ہوتا تھا151 زراعت یا خاندانی پیشہ۔ آج خاندان کے ہر فرد کی آمدن کا وسیلہ مختلف ہوتا ہے، اور اس کی آمدنی بھی یکساں نہیں ہوتی۔ ایک بھائی سروس کرکے کمارہا ہے، دوسرا کاروبار چلا رہا ہے، تیسرا ملک سے باہر چلاگیا ہے۔ چنانچہ آج کے حالات میں مشترکہ خاندانی نظام نہیں چل سکتا۔ ہماری اجتماعی ترقی اور انفرادی مفاد اسی میں ہے کہ ہم مغرب کے خاندانی نظام کی اچھائیوں کو جلد اپنا لیں، ورنہ تاریخ تو ہمیں اس طرف جانے پر مجبور کرہی رہی ہے۔
’’مشترکہ خاندان ‘‘کا نظام مفت خوری اور حرام خوری کی عادت ڈال کر نسلوں کو معذور کردیتا ہے۔ ایک کمارہا ہے، دس کھارہے ہیں، چنانچہ معیارِ زندگی بہتر کس طرح ہو سکتا ہے۔ مشترکہ خاندان انفرادی خوشیاں کھا جاتا ہے۔ پہلے بڑا بیٹا کو لھو کا بیل بنتا ہے، بے چارہ ماں باپ کی ذمے داریاں نبھاتے نبھاتے خود اپنی خوشیاں قربان کر دیتا ہے۔ اس سوسائٹی کی عورتیں ویسے ہی عضوِ معطل ہیں151 شوپیس اور گھریلو خدمتگار۔ عام طور پر جہیز کا احسان کرکے انھیں وراثت(ملکیت) سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ طلاق ہو جائے تو ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ مغرب کے لوگ تو پالتو کتے بلی پر جان نچھاور کردیتے ہیں، اپنے بچوں سے وہ کتنی محبت رکھتے ہوں گے، اس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ مغربی تہذیب کو بدنام اور اپنے بوسیدہ خاندانی نظام کی پردہ پوشی کے لیے مغرب کے بارے میں افسانے مشہور کررکھے ہیں۔ وہاں ہر فرد قابلِ عزت اور خود مختار ہے۔ ہمارے معاشرے کی طرح کوئی رشتے دار دوسرے رشتے دار کو جذباتی بلیک میل نہیں کرتا۔ یورپ کے ماں باپ اولاد کی خوشی کو اپنی خوشی پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ نہ اولاد ماں باپ پر بوجھ ہے اور نہ ماں باپ اولاد پر۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ والدین اگر دولت مند ہیں تو پھر ان کی خدمت کا بھرم رکھا جاتا ہے۔ مفاد کی خاطر ان کی جائز ناجائز مانی جاتی ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر نچلے درمیانہ طبقے کے والدین جوان اولاد پر اپنے فیصلے زبردستی ٹھونس کر ان کی خوشی اور ترقی کے راستوں کو پامال کردیتے ہیں۔ حقیقی باہمی محبت اور احترام کا پتا ایک ایسے نظام میں ہی چل سکتا ہے جہاں ماں باپ اور اولاد دونوں آزاد ہوں۔ ہمارے ہاں سب زبردستی کے رشتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے اگر کچھ کیا جاتا ہے تو اس لیے کہ دنیا کیا کہے گی۔یاپھرقربانی کا بکرابن کر ماں باپ،بہن بھائیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی اور اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ مغرب کے مقابلے میں ہمارے ہاں خاندانی نظام کسی بھی طور پر آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ یہ فرد کی خوشی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بات ’’خاندان‘‘کی خوشی کی نہیں، افراد کی خوشی کی ہونی چاہیے۔ ’’خاندان ‘‘تجریدی لفظ ہے، اصل چیز افراد ہوتے ہیں۔ اگر افراد خوش نہیں تو ’’خاندان‘‘کی خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
مغرب میں بڑے بوڑھے قابلِ رحم زندگی نہیں، عیش کے دن گزارتے ہیں، لیکن ایک ایسے معاشرے کے لیے اسے سمجھنا ذرا مشکل ہے جہاں ایک دوسرے کے سہارے پڑے رہنا اخلاقی قدر ہو۔ بڑھاپا اس سے بڑا مزیداراور کوئی نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کے محتاج نہیں، کسی پر بوجھ نہیں اور بڑھاپے میں بھی آپ اپنی مرضی ومنشا سے رہ سکیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مغرب کا معاشرہ وہاں کے لوگوں کی رضا و رغبت سے قائم ہے۔ ہمیں ان پر ’’ترس‘‘کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مغرب کے بوڑھے آخری دم تک پوری active زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ممکنہ حد تک اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود کو معاشی لحاظ سے مفید اور خود کفیل بنائے رکھتے ہیں۔ وہ اپنی تفریحی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ انھوں نے بڑھاپے کے لیے بھی مصروفیت کا ایک شیڈول طے کررکھا ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں تنہائی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے بوڑھے عضوِ معطل بن کر محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے عزیزوں کے سہارے اور قربت کے خواہاں رہتے ہیں۔ اور جب ان کی اولاد اپنے حالاتِ زندگی کی وجہ سے ان کے پاس رہنے سے قاصر ہوتی ہے، تو وہ ان کے محبت اور خلوص کے شاکی ہو جاتے ہیں یا اولاد کے پاؤں کی زنجیربنے رہتے ہیں، جب تک زندگی کاخاتمہ نہیں ہوجاتا۔
معروضاتِ بالا سے ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب میں فرق صرف پسماندگی اور ترقی کا ہے۔ انھیں دو متضاد نظاموں کے طور پر ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے نظام نہیں ہیں، بلکہ ایک ارتقا میں پیچھے ہے اور ایک آگے ہے۔ تاریخ ہمیشہ آگے کو سفر کرتی ہے۔ ہمیں مٹ جانا ہو گا یاپھر آگے کو جانا ہو گا۔ ہم جہاں کھڑے رہنا چاہتے ہیںیا ماضی کے کسی مقدس اور سہانے دور میں پیچھے جانا چاہتے ہیں، مگریہ ممکن نہ ہو گا۔
کیا کمال کا ی تحریر ہے۔ بے لاگ اور منطقی دلائل سے بھرپور۔ بس اب تو دل یہ چاہتا ہے مغرب کو ہی چلا جائے
Sorry to say, but it’s really a superficial analysis… A very wrong portrayal atleast of western civilization. I think the writer had better spend a few years there inThe West. I’m sure he’ll be compelled to change his views